22 بھارتی ماہی گیر واہگہ کے ذریعے بھارت روانہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
کراچی میں قید 22 بھارتی ماہی گیروں کو بھارت روانہ کرنے کے لیے لاہور منتقل کیا گیا۔
کراچی ملیر لانڈھی کی جیل میں قید 22 بھارتی ماہی گیروں کو رہا کردیا گیا۔ ایدھی حکام کے مطابق تمام بھارتی ماہی گیروں کو تحائف بھی دئیے گئے۔
بھارتی ماہی گیروں کو ایدھی سروس کے کے ذریعے واہگہ بارڈر لے جایا گیا۔ بھارتی ماہی گیروں کو پاکستان کی سمندری حدود کی خلاف ورزی پر مختلف اوقات میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بھارتی ماہی گیر کراچی کی ملیر لانڈھی جیل میں قید تھے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بھارتی فلم ساز پاکستان سے جنگ میں شکست کابدلہ لینے کیلئے سرگرم
بالی ووڈ فلم انڈسٹری کے کچھ فلم ساز حالیہ پاک-بھارت کشیدگی پر مبنی کہانیوں کو فلمی منصوبوں میں تبدیل کر کے تجارتی فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ، بھارتی فلم ساز ان عنوانات کے حقوق حاصل کر رہے ہیں جن سے پاکستان کے خلاف جنگی جذبات اور حب الوطنی کی لہر کو فلمی کامیابی میں بدلا جا سکے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مئی 2025 میں دونوں جوہری طاقتوں — پاکستان اور بھارت — کے درمیان شدید جنگ چھڑ گئی تھی، جو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ایک حملے کا الزام پاکستان پر دھرنے کے بعد شروع ہوئی۔ جنگ چار روز جاری رہی اور بالآخر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اچانک مداخلت سے جنگ بندی پر ختم ہوئی۔
آپریشن سندور” پر فلمی دوڑ
بھارت نے اس کارروائی کو آپریشن سندور کا نام دیا، جو ہندی زبان میں شادی شدہ ہندو عورتوں کے ماتھے پر لگائے جانے والے سرخ رنگ کی علامت ہے۔ یہ نام خاص طور پر **پہلگام حملے میں بیوہ ہونے والی خواتین کے بدلے کے طور پر استعمال کیا گیا۔
اسی عنوان کو بنیاد بناتے ہوئے، متعدد فلمی اسٹوڈیوز نے مشن سندور، سندور: دی ریونج ، دی پہلگام ٹیرر اور سندور آپریشن” جیسے نام رجسٹر کروا لیے ہیں ۔
فلم سازوں کی رائے منقسم
معروف ہدایتکار وویک اگنی ہوتری، جن کی فلم “دی کشمیر فائلز” 2022 میں ریلیز ہوئی تھی، اس موضوع پر فلم بنانے کے حق میں ہیں۔ ان کے بقول، “اگر یہ ہالی ووڈ ہوتا تو اب تک ایسی 10 فلمیں بن چکی ہوتیں۔” تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی فلمیں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کو بڑھاوا دیتی ہیں۔
دوسری جانب، سینئر فلم ساز انیل شرما ، جن کی فلمیں غدر اورغدر 2 مقبول رہی ہیں، اس رجحان کو بھیڑ چال قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “فلم سازی کوئی فوری ردعمل کا عمل نہیں، بلکہ جذباتی سچائی اور ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے۔
حب الوطنی یا پروپیگنڈا؟
فلم نقاد راجا سین نے خبردار کیا کہ جنگ جیسے حساس موضوعات پر یکطرفہ فلمیں بناناپروپیگنڈا اور غلط معلومات کو فروغ دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، جب ایک ایجنڈا کے تحت درجنوں فلمیں بنیں اور دوسری طرف کو سننے کا موقع نہ ملے، تو یہ سینما کی سچائی پر سوال اٹھاتا ہے۔
معروف ہدایتکار راکیش اوم پرکاش مہرانے بھی اس رجحان پر تنقید کی اور کہا، “اصل حب الوطنی وہ ہے جو فلم کے ذریعے امن اور ہم آہنگی کو فروغ دے۔
یاد رہے، مہرا کی فلم رنگ دے بسنتی (2006) نہ صرف نیشنل فلم ایوارڈ جیت چکی ہے بلکہ گولڈن گلوب اور آسکر ایوارڈز کے لیے بھارت کی سرکاری انٹری بھی رہی۔