اسرائیل کا حماس پر ایک اسرائیلی یرغمالی کی لاش بدلنے کا الزام
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
تل ابیب: اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس نے چار اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں حوالے کیں، لیکن ان میں شری بیباس کی لاش شامل نہیں تھی، جو دو بچوں کی ماں تھیں۔
یہ حوالگی غزہ کے جنوبی علاقے خان یونس میں کی گئی، جہاں حماس نے شری بیباس، ان کے دو بچے (آریل اور کفیر) اور 83 سالہ اوڈ لیفشٹز کی باقیات اسرائیلی حکام کے حوالے کیں۔ تاہم، اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ شری بیباس کی لاش فراہم نہیں کی گئی۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس واقعے کے بعد سخت ردعمل دیتے ہوئے حماس کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے کا عندیہ دیا اور کہا کہ ذمہ داروں سے حساب برابر کیا جائے گا۔
حماس نے دعویٰ کیا کہ یہ یرغمالی اسرائیلی فضائی حملوں میں مارے گئے، جو بلاامتیاز کیے جا رہے تھے۔ فلسطینی گروپ نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ اس کی بمباری نے 17,881 فلسطینی بچوں کی جان لی۔
اسرائیلی فوج نے مطالبہ کیا ہے کہ شری بیباس اور دیگر یرغمالیوں کی باقیات بھی واپس کی جائیں۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے حماس پر الزام لگایا کہ وہ لاشوں کی بے حرمتی کر رہی ہے اور تمام یرغمالیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا۔
گزشتہ ماہ سے جاری جنگ بندی کے باوجود اسرائیل اور حماس میں کشیدگی برقرار ہے۔ جنگ کے دوران 48,000 سے زائد فلسطینی مارے گئے، جن میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
29 فلسطینی بچے اور بزرگ بھوک سے موت کے منھ میں چلے گئے، اقوام متحدہ کا الرٹ جاری
جنیوا: اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ میں شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی شرح تین گنا بڑھ چکی ہے، خاص طور پر اس وقفے کے بعد جب رواں سال کے آغاز میں جنگ بندی کے دوران امداد کی رسائی ممکن ہوئی تھی۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فلسطینی علاقے میں امداد کی ترسیل پر عالمی توجہ مرکوز ہے۔ حالیہ ہفتوں میں امدادی مراکز کے قریب فائرنگ کے واقعات سامنے آئے ہیں، خاص طور پر امریکہ کی حمایت سے قائم کیے گئے امدادی نظام کے قریب، جن میں کئی افراد شہید ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ میں جنگ بندی ٹوٹنے کے بعد اسرائیل نے غزہ کے لیے 11 ہفتوں تک امدادی سامان پر سخت پابندی عائد کی، جسے اب جزوی طور پر ہی ہٹایا گیا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس امداد چوری کرتی ہے، تاہم حماس اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کے اتحاد "نیوٹریشن کلسٹر" کے مطابق مئی کے دوسرے حصے میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 50,000 بچوں کو جانچا گیا، جن میں سے 5.8 فیصد شدید غذائی قلت کا شکار پائے گئے۔ مئی کے آغاز میں یہ شرح 4.7 فیصد تھی، جبکہ فروری میں، جنگ بندی کے دوران، یہ شرح اس سے تقریباً تین گنا کم تھی۔
مزید یہ کہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بچوں میں "شدید غذائی قلت" کے کیسز میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو ایک جان لیوا حالت ہے اور مدافعتی نظام کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ ایک فلسطینی وزیر کے مطابق گزشتہ ماہ صرف چند دنوں میں بچوں اور بزرگوں کی بھوک سے 29 اموات ہوئیں۔
شمالی غزہ اور جنوبی علاقے رفح میں موجود وہ مراکز جہاں شدید کیسز کا علاج کیا جاتا تھا، اب بند ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے متاثرہ بچوں کو جان بچانے والا علاج دستیاب نہیں۔