پیپلزپارٹی کا ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کے نام کی تبدیلی کیخلاف عدالت جانے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
پشاور:
پاکستان پیپلزپارٹی نے ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کے نام کی تبدیلی کے عدالت جانے کا فیصلہ کرلیا۔
خیبرپختونخوا اسمبلے میں پیپلزپارٹی کے رکن ارباب زرک اور پیپلز ٹریڈ فورم نے حکومتی فیصلے کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے، رکن صونائی اسمبلی ارباب زرک نے کہا کہ اسٹیڈیم کا نام تبدیل کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے 11 سالہ اقتدار میں عوام کو ایک بھی نیا بڑا منصوبہ دینے میں ناکام رہی ہے، اس غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی فیصلے کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔
پیپلز ٹریڈ فورم کے صوبائی سینیئر نائب صدر شبیر الحسنین نے کہا کہ ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کا نام تبدیل کرنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں اس کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے، صوبائی حکومت کی جانب سے 16 ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کے فیصلے کو بھی مسترد کرتے ہیں ہم ملازمین کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک سے قبل 16 ہزار خاندانوں کی معاشی قتل نہ کیا جائے، صوبے میں بے روزگاری میں 100 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان
پڑھیں:
آقا یا نظام کی تبدیلی
اسلام ٹائمز: ایران دنیا میں جس نئے آرڈر کا خواہش مند ہے، اس میں کسی کا تسلط قابل قبول نہیں۔ ایران نہیں چاہتا کسی دوسری طاقت سے اپنے آپ کو ایسا وابستہ کرلے، جیسے کئی ممالک نے اپنے آپ کو وابستہ کر رکھا ہے۔ ایران آزادی و خود مختاری کا خواہاں ہے، وہ امریکہ کو مسترد کرکے کسی دوسری طاقت کو اپنے اوپر مسلط کرنے کا خواہش مند نہیں۔ وہ آقا نہیں تسلط کے نظام کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ تحریر: مسعود براتی
امریکہ اور صیہونی حکومت کی طرف سے ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ کے بعد، مغربی تھنک ٹینکس کے مرکزی دھارے میں بار بار جن مسائل پر توجہ دی جاتی رہی ہے، ان میں سے ایک اس جنگ میں چین کے رویئے کا امتحان ہے۔ دونوں ملک بظاہر عالمی سیاست میں امریکہ کے یونی پولر نظام کے خلاف ہیں اور موجودہ بین الاقوامی نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ایران کے خلاف امریکی و اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں چین نے سفارتی بیان بازی سے بڑھ کر کچھ نہیں کیا اور نہ ہی ایران کی حمایت میں تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے موثر کارروائی کی۔اس رویئے نے ایک بڑھتی ہوئی طاقت کے طور پر چین کے کردار پر سوالیہ نشان لگایا ہے، حالانکہ وہ سرکردہ طاقت بننے کی خواہش رکھتا ہے۔
???? یہ مسئلہ اس لیے بھی اہم ہے کہ ایران میں چین اور روس کے ساتھ تعاون کو بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے فوجی اور اقتصادی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے طریقوں میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مرکزی دھارے کے مغربی تھنک ٹینکس اس وقت یہ کہہ رہے ہیں کہ ایران، چین اور روس کے درمیان تعاون کو علاقائی مسائل کے حل کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیئے۔
???? اہم نکتہ یہ ہے کہ موجودہ بین الاقوامی نظام اور اس کے متبادل آرڈر کے بارے میں چینی نقطہ نظر ایرانی نقطہ نظر سے بہت اچھی طرح ہم آہنگ ہے۔ ایرانی نقطہ نظر عالمی بالادستی کی نفی اور آزادی کے تحفظ پر مبنی ہے۔ اس نقطہ نظر میں بنیادی توجہ اسٹریٹجک علاقوں میں endogenous ترقی اور خود کفالت ہے، جس کے ساتھ چینی نقطہ نظر بھی ہم آہنگ ہے۔ نقطہ نظر کی یہ صف بندی ان شعبوں میں اسٹریٹجک تعاون کی تعریف کی اجازت دیتی ہے، جہاں دونوں کے مفادات مشترک ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ مغربی تھنک ٹینکس جو کچھ تجویز کر رہے ہیں، وہ جزوی طور پر حقیقت پر مبنی ہے اور جزوی طور پر من گھڑت ہے، جس کا مقصد تین بااثر طاقتوں (ایران، روس اور چین) کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کی اسٹریٹجک قدر کو نقصان پہنچانا اور موجودہ امریکی مرکوز نظام کو قائم رکھنا ہے۔ یہ تھنک ٹینکس ان تین ممالک ایران، روس اور چین سے دوسری جنگ عظیم کے اتحادیوں جیسے برتاؤ کی توقع رکھتے ہیں۔ یعنی، اگر ان میں سے کسی ایک کے خلاف جنگ چھڑ جاتی ہے، تو دوسرے بھی اتحادی کے طور پر تنازعہ میں داخل ہو جائیں۔ اب جبکہ انہوں نے ایسا رویہ نہیں دیکھا تو وہ ذہنوں میں یہ نتیجہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان ممالک کے درمیان تعاون بنیادی طور پر کوئی تزویراتی اہمیت نہیں رکھتا۔
دوسرے لفظوں میں، یہ تھنک ٹینکس، غلط فہمی اور متعصبانہ تجزیوں کے امتزاج کے ذریعے، تینوں ممالک ایران، روس اور چین کی سیاسی اشرافیہ کے ذہنوں میں موجودہ بین الاقوامی نظام کی مخالفت کرنے والے ممالک کے درمیان تعاون کی تزویراتی اور مستقبل کی تعمیر کی قدر کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ اسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ان تینوں ممالک ایران، روس اور چین کے درمیان تعاون کی ترقی کو روکنے کی مہم کا حصہ سمجھا جانا چاہیئے۔ یہ اتحاد کئی سالوں سے امریکی خارجہ پالیسی میں ایک بڑا مسئلہ رہا ہے اور اسے جارحین کا محور، بغاوت کا محور یا آمریت کا محور کہا جاتا ہے، جبکہ ایران، روس اور چین کے تینوں ممالک کا طرز عمل ان کی سیاسی بنیادوں اور میکرو اور اسٹریٹجک مسائل پر مبنی ہے۔ ان رویوں کا تجزیہ کرنا اور خاص طور پر ان تینوں کے درمیان تعلق کو مغرب کے ماضی کے تجربات کی بنیاد پر پرکھنا درست امر نہیں ہے۔
ان تینوں کھلاڑیوں میں سے ہر ایک کے اپنے اصول اور اہداف ہیں، جو بوقت ضرورت تعاون کے لیے صلاحیتیں پیدا کرتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ یہ تعاون مقررہ اصولوں کے فریم ورک میں ہو۔ مثال کے طور پر ایران عسکری میدان میں کسی غیر ملکی اداکار پر انحصار نہ کرنے پر اصرار کرتا ہے۔ یہ اصرار عراق کی طرف سے ایران کے خلاف مسلط کی گئی آٹھ سالہ جنگ کے تجربات سے پیدا ہوا ہے اور بلاشبہ یہ رویہ فوجی تعاون کی گنجائش کو محدود کرنے کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا، ایک درست تجزیہ ان اداکاروں کی بنیادوں اور پالیسیوں اور ان کے اہداف کے بارے میں صحیح فہم سے اخذ کرنا چاہیئے۔ ایران دنیا میں جس نئے آرڈر کا خواہش مند ہے، اس میں کسی کا تسلط قابل قبول نہیں۔ ایران نہیں چاہتا کسی دوسری طاقت سے اپنے آپ کو ایسا وابستہ کرلے، جیسے کئی ممالک نے اپنے آپ کو وابستہ کر رکھا ہے۔ ایران آزادی و خود مختاری کا خواہاں ہے، وہ امریکہ کو مسترد کرکے کسی دوسری طاقت کو اپنے اوپر مسلط کرنے کا خواہش مند نہیں۔ وہ آقا نہیں تسلط کے نظام کو ختم کرنا چاہتا ہے۔