Jasarat News:
2025-07-26@13:47:22 GMT

ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا!

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا!

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ معیشت کا ڈی۔ این۔ اے، ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ذریعے ٹھیک ہو گا اس کے بغیر معیشت کی بہتری مشکل ہے، ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا، رائٹ سائزنگ کا مکمل منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ پرچون فروشوں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ ملک کی معیشت درست سمت میں جا رہی ہے، پالیسی ریٹ میں کمی سے کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں کو فائدہ ہو رہا ہے جب کہ حکومت معیشت کے تمام شعبوں میں بنیادی اصلاحات کر رہی ہے، اصلاحات سے ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا وزیر اعظم اور ان کی ٹیم معاشی استحکام کے لیے پر عزم ہے، رائٹ سائزنگ کے لیے مکمل پلان تیار کیا ہے، اداروں کے تمام معاملات کو دیکھ کر ہی رائٹ سائزنگ کی جائے گی، نجکاری کے عمل کو مزید شفاف کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے معاشی اہداف کا مکمل ادراک ہے، حکومتی اخراجات میں کمی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، پائیدار معاشی استحکام کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں گے، ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا معیشت میں ریٹیل سیکٹر کا حصہ 19 فی صد ہے جب کہ ٹیکس میں ریٹیل سیکٹر کا حصہ ایک فی صد ہے، مصنوعی ذہانت استعمال کر کے ٹیکس بڑھائیں گے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا 9.

4 ٹریلیں کیش کی ڈاکیومینٹیشن کرنی ہے، قومی ائر لائن کی نجکاری کو ری لانچ کر رہے ہیں۔ 30 جون تک تمام اداروں کی رائٹ سائزنگ کا عمل مکمل کریں گے۔ مینوفیکچرنگ، سروسز اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ غیر متناسب ہے، زرعی انکم ٹیکس کے حوالہ سے پیش رفت خوش آئند ہے۔ مسلسل تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس لینا مسئلے کا حل نہیں، تنخواہ دار طبقے کے علاوہ باقی شعبوں کو بھی ٹیکس آمدن میں حصہ ڈالنا ہو گا۔ زرعی شعبہ معیشت میں زیادہ حصہ دار ہے لیکن ٹیکس میں اس کا حصہ کم ہے، ٹیکس کی چوری میں سخت فیصلے کریں گے۔ مسلسل ٹیکس چوری سے امور حکومت نہیں چلائے جا سکتے، سیلز ٹیکس کی چوری اور جعلی انوائس اب قابل قبول نہیں ہو گی۔ وفاقی وزیر خزانہ نے معیشت کی اصلاح اور درستی کے حوالے سے جن امور کی نشاندہی کی ہے اور جن نکات کی وضاحت کی ہے وہ بڑی حد تک درست سمت میں حکومت کے سفر اور مثبت پیش رفت کے آئینہ دار ہیں، ملکی معیشت کی زبوں حالی کے پیش نظر وفاقی وزیر خزانہ کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ ملک بے جامراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا یہ نہایت اہم نکتہ ہے جس کی جانب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان اور ملک و قوم کا درد رکھنے والے دیگر اہل فکر و دانش بھی بار ہا ارباب اختیار اور ملکی امور کے فیصلہ سازوں کو متوجہ کر چکے ہیں، خود وزیر اعظم نے ایک سے زائد بار قومی وسائل کے استعمال میں بچت کی ضرورت کا تذکرہ کیا ہے، اب وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی بے جا مراعات کا خاتمہ ملکی معیشت کی اصلاح کے لیے لازمی قرار دیا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ جب وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان بھی قومی وسائل کی بچت کا احساس اور ادراک رکھتے ہیں تو پھر اس میں رکاوٹ کون ہے جو وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ پر بھی بھاری ہے۔ ویسے وزیر اعظم قومی خزانہ پر بے جا مراعات کا بوجھ کم کرنے میں اگر واقعی سنجیدہ ہوں تو انہیں اس کا آغاز ’’اول خویش، بعد درویش‘‘ کے مصداق اپنی ذات اور اپنی کابینہ کے ارکان سے کرنا ہو گا۔ اوّل تو پہلے وفاقی اور پھر صوبائی کابینائوں کے ارکان کی تعداد کم اور محدود کرنے پر توجہ دی جائے جب ہم سے کہیں زیادہ بڑے اور با وسائل ممالک ہم سے کہیں مختصر کابینہ کے ساتھ امور مملکت احسن انداز میں چلا رہے ہیں تو ہم وسائل کی کمی کا رونا بھی روتے رہیں اور وزراء کی فوج ظفر موج بھی قومی خزانے پر بوجھ بنی رہے، اس کا بہر حال کوئی جواز نہیں۔ کابینہ مختصر ہو اور وزیر اعظم اور باقی وزراء بھی پروٹوکول اور سیکورٹی وغیرہ کے نام پر حاصل مراعات میں خاطر خواہ کمی کریں تو ایک جانب پروٹوکول ڈیوٹی پر متعین پولیس، انتظامیہ اور عوامی خدمت کے اداروں کی گاڑیاں اور عملہ کے افراد فارغ ہو کر ملک و قوم کی بہتر اور زیادہ ضرورت کے شعبوں میں خدمات انجام دے سکیں گے اور دوسری جانب پٹرول، گاڑیوں کی مرمت وغیرہ اور اسٹاف کی تنخواہوں پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کی بچت ہو سکے گی اور یہ جو آئے روز خبریں شائع ہوتی ہیں کہ وزیر اعظم کی ’بچت مہم‘ کے باوجود ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم وغیرہ کے اخراجات میں خطیر اضافہ ہو گیا ہے۔ اخراجات میں یہ اضافہ رک جائے گا اور ’بچت مہم‘ واقعی نتیجہ خیز ہو سکے گی جس کے بعد وزیر اعظم صوبائی حکومتوں اور نچلی سطح کے با اختیار حکام کے شاہانہ اخراجات اور پروٹوکول سے بھی قوم کو نجات دلانے میں خاصی آسانی محسوس کریں گے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سو فی صد درست کہا ہے کہ ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مگر ان کے زیر نگرانی کام کرنے والے ایف بی آر کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے ارکان کے مابین ایک ہزار سے زائد لگژری گاڑیوں کی خرید کے معاملہ میں جو کھینچا تانی جاری تھی، اس کے متعلق انہوں نے بھی لب کشائی سے گریز کیا ہے کہ یہ گاڑیاں بھی ’بے جا مراعات‘ کے زمرے میں آتی ہیں یا نہیں۔ وزیر خزانہ نے بہت سے شعبوں مثلاً پرچون فروش اور زراعت کے ملکی معیشت میں تناسب سے بہت کم ٹیکس دینے کا شکوہ بھی کیا ہے ان کا یہ شکوہ بے جا بھی نہیں تاہم وہ اگر اس کے اسباب کا جائزہ لیں گے تو معاملہ ’’ہم الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا‘‘ سے مختلف نہیں ہو گا۔ وزیر خزانہ ایف بی آر اور دیگر متعلقہ محکموں میں بدعنوانی اگر ختم نہیں تو پچاس فی صد بھی کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں، ان محکموں اور اداروں کے حکام اور اہلکاروں کا رویہ اور طرز عمل درست ہو جائے تو یقین ہے کہ وزیر خزانہ کا شکوہ بھی دور ہو جائے گا۔ لوگوں کو اعتماد ہو کہ وہ جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں وہ ’’بے جا مراعات‘‘ پر نہیں بلکہ عوامی مسائل اور مشکلات میں کمی پر خرچ کیا جائے گا اور صرف جائز ٹیکس وصول کیا جائے گا، ٹیکس دہندہ کو تنگ کر کے رشوت کا ریٹ بڑھانے کی خاطر ناجائز بھاری ٹیکسوں کے نوٹس بلاوجہ بھجوا کر سودے بازی پر مجبور نہیں کیا جائے گا تو معاشرے کا ایک بڑا حصہ از خود ٹیکسوں کی ادائیگی پر آمادہ ہو گا کیونکہ اس وقت بھی صاحب نصاب و استطاعت ہر سال اپنی دلی آمادگی سے خوشی خوشی کھربوں روپے زکوٰۃ و صدقات کی مد میں ادا کرتے ہیں حکومت اگر لوٹ مار کے انداز میں اندھا دھند بھاری اور ناقابل برداشت ٹیکس عائد کرنے کے بجائے مناسب شرح سے صرف جائز ٹیکس عائد کرے اور عوام کے لیے سہولت فراہم کی جائے تو لوگوں کو ٹیکسوں کی از خود ادائیگی پر آمادہ کرنا بہت زیادہ مشکل اور نا ممکن الحصول ہدف نہیں لیکن اگر عوام کو یہ معلوم ہو کہ پہلے سے بے پناہ مراعات یافتہ طبقہ کے سینیٹ و قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور وزراء کرام قومی خزانے کی زبوں حالی اور عام آدمی کی غربت، بے روز گاری اور جان لیوا مہنگائی کا خیال کیے بغیر اپنی تنخواہوں اور مراعات میں بیک جنبش قلم آٹھ نو سو فی صد تک از خود اضافہ کر لیں گے اور کسی کو بھی پہلے سے قرضوں اور سود در سود کے بوجھ تلے دبے قومی خزانے پر پڑنے والے مزید ناروا بوجھ کا احساس تک نہیں ہو گا تو آخر لوگ خوشی سے ٹیکس کیوں دیں گے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: وفاقی وزیر خزانہ وزیر اعظم اور کر رہے ہیں کی معیشت کے ارکان معیشت کی جائے گا کیا جا کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سے ورلڈ بینک کے نائب صدر عثمان ڈی اون کی ملاقات، دو طرفہ تعاون، معیشت کی بہتری، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز اور سماجی ترقی سمیت متعدد اہم امور پر تبادلہ خیال

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جولائی2025ء) وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال سے ورلڈ بینک کے نائب صدر برائے مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ عثمان ڈی اون نے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران دو طرفہ تعاون، معیشت کی بہتری، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز اور سماجی ترقی سمیت متعدد اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ورلڈ بینک کے نائب صدر نے پاکستان کی معاشی بہتری میں احسن اقبال کی خدمات کو سراہا اور جاری اصلاحاتی اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔احسن اقبال نے کہا کہ وزارت منصوبہ بندی اور ورلڈ بینک کے درمیان قائم شراکت داری کو مزید موثر اور فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ترقیاتی اہداف کو جلد حاصل کیا جا سکے۔انہوں نے زور دیا کہ دنیا صنعتی معیشت سے ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت کی جانب بڑھ رہی ہے اور پاکستان کو بھی برآمدات پر مبنی ترقی کا ماڈل اپنانا ہوگا۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی سے باز رکھے، کیونکہ پانی کو ہتھیار بنانا عالمی امن کے لیے خطرناک رجحان ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی سے دنیا کو خوراک اور پانی کے شدید بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ پانی کا بحران صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہے۔

احسن اقبال نے مزید کہا کہ پاکستان میں مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سخت فیصلے کیے گئے جن کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، پاکستان سٹاک مارکیٹ 130,000 پوائنٹس سے تجاوز کر چکی ہے جو سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کا ثبوت ہے۔انہوں نے بتایا کہ حکومت کا ہدف برآمدات کو 32 ارب سے بڑھا کر 100 ارب ڈالر تک لے جانا ہے۔وزیر منصوبہ بندی نے بچوں کی نشوونما کے مسئلے کو ایک سنگین قومی چیلنج قرار دیا اور کہا کہ اس پر قابو پانے کے لیے حکومت ٹھوس اقدامات کر رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جبکہ خواتین کا ترقی میں فعال کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔احسن اقبال نے وضاحت کی کہ وزارت منصوبہ بندی نے اقتصادی اصلاحات کے لیے "فائیو ایز " فریم ورک تشکیل دیا ہے جو ترقی کا جامع روڈ میپ فراہم کرتا ہے۔انہوں نے ورلڈ بینک پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اپنی معاونت کو مزید موثر بنائے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ 2022ء کے تباہ کن سیلاب نے پاکستان کے پسماندہ علاقوں کو شدید متاثر کیا اور موسمیاتی تبدیلی کا بوجھ ترقی پذیر ممالک پر غیر متناسب طور پر زیادہ ہے جس کے ازالے کے لیے عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • ڈیجیٹل معیشت کی طرف قدم: وزیراعظم نے ایف بی آر میں ڈیجیٹل ایکو سسٹم کی تشکیل کی منظوری دیدی
  • ہمار ا فضائی دفاع ناقابل تسخیر ،  کوئی میزائل یا ڈرون پار نہیں کر سکتا،بھارتی آرمی چیف
  • ٹیکس بیس میں اضافے اور غیر رسمی معیشت کے خاتمے سے ہی عام آدمی کیلئے ٹیکس میں کمی کے ہدف کا حصول ممکن ہوگا،ایف بی آر کی جاری اصلاحات کے ثمرات کی بدولت معیشت مثبت سمت میں گامزن ہے، وزیراعظم شہباز شریف
  • سستے گھروں کی تعمیر کے لیے  سکیم کی منظوری   
  • بیٹوں کا دورہ امریکا عمران خان کی رہائی میں کتنا مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟
  • ایف بی آر کی بدانتظامی سے قومی خزانے کو 397ارب کے نقصان کا انکشاف
  • الہیٰ خزانہ۔۔۔ ظلم کے تقدّس کے خلاف معاصر عہد کا ایک وصیّت نامہ(1)
  • وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سے ورلڈ بینک کے نائب صدر عثمان ڈی اون کی ملاقات، دو طرفہ تعاون، معیشت کی بہتری، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز اور سماجی ترقی سمیت متعدد اہم امور پر تبادلہ خیال
  • شک کی بنیاد پر کسی کو ٹیکس فراڈ کیس میں گرفتار نہ کرنے کی سفارش
  • پیسہ پیسہ کرکے!!