Jasarat News:
2025-06-09@19:10:26 GMT

ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا!

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا!

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ معیشت کا ڈی۔ این۔ اے، ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ذریعے ٹھیک ہو گا اس کے بغیر معیشت کی بہتری مشکل ہے، ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا، رائٹ سائزنگ کا مکمل منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ پرچون فروشوں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ ملک کی معیشت درست سمت میں جا رہی ہے، پالیسی ریٹ میں کمی سے کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں کو فائدہ ہو رہا ہے جب کہ حکومت معیشت کے تمام شعبوں میں بنیادی اصلاحات کر رہی ہے، اصلاحات سے ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا وزیر اعظم اور ان کی ٹیم معاشی استحکام کے لیے پر عزم ہے، رائٹ سائزنگ کے لیے مکمل پلان تیار کیا ہے، اداروں کے تمام معاملات کو دیکھ کر ہی رائٹ سائزنگ کی جائے گی، نجکاری کے عمل کو مزید شفاف کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے معاشی اہداف کا مکمل ادراک ہے، حکومتی اخراجات میں کمی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، پائیدار معاشی استحکام کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں گے، ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا معیشت میں ریٹیل سیکٹر کا حصہ 19 فی صد ہے جب کہ ٹیکس میں ریٹیل سیکٹر کا حصہ ایک فی صد ہے، مصنوعی ذہانت استعمال کر کے ٹیکس بڑھائیں گے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا 9.

4 ٹریلیں کیش کی ڈاکیومینٹیشن کرنی ہے، قومی ائر لائن کی نجکاری کو ری لانچ کر رہے ہیں۔ 30 جون تک تمام اداروں کی رائٹ سائزنگ کا عمل مکمل کریں گے۔ مینوفیکچرنگ، سروسز اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ غیر متناسب ہے، زرعی انکم ٹیکس کے حوالہ سے پیش رفت خوش آئند ہے۔ مسلسل تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس لینا مسئلے کا حل نہیں، تنخواہ دار طبقے کے علاوہ باقی شعبوں کو بھی ٹیکس آمدن میں حصہ ڈالنا ہو گا۔ زرعی شعبہ معیشت میں زیادہ حصہ دار ہے لیکن ٹیکس میں اس کا حصہ کم ہے، ٹیکس کی چوری میں سخت فیصلے کریں گے۔ مسلسل ٹیکس چوری سے امور حکومت نہیں چلائے جا سکتے، سیلز ٹیکس کی چوری اور جعلی انوائس اب قابل قبول نہیں ہو گی۔ وفاقی وزیر خزانہ نے معیشت کی اصلاح اور درستی کے حوالے سے جن امور کی نشاندہی کی ہے اور جن نکات کی وضاحت کی ہے وہ بڑی حد تک درست سمت میں حکومت کے سفر اور مثبت پیش رفت کے آئینہ دار ہیں، ملکی معیشت کی زبوں حالی کے پیش نظر وفاقی وزیر خزانہ کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ ملک بے جامراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا یہ نہایت اہم نکتہ ہے جس کی جانب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان اور ملک و قوم کا درد رکھنے والے دیگر اہل فکر و دانش بھی بار ہا ارباب اختیار اور ملکی امور کے فیصلہ سازوں کو متوجہ کر چکے ہیں، خود وزیر اعظم نے ایک سے زائد بار قومی وسائل کے استعمال میں بچت کی ضرورت کا تذکرہ کیا ہے، اب وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی بے جا مراعات کا خاتمہ ملکی معیشت کی اصلاح کے لیے لازمی قرار دیا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ جب وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان بھی قومی وسائل کی بچت کا احساس اور ادراک رکھتے ہیں تو پھر اس میں رکاوٹ کون ہے جو وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ پر بھی بھاری ہے۔ ویسے وزیر اعظم قومی خزانہ پر بے جا مراعات کا بوجھ کم کرنے میں اگر واقعی سنجیدہ ہوں تو انہیں اس کا آغاز ’’اول خویش، بعد درویش‘‘ کے مصداق اپنی ذات اور اپنی کابینہ کے ارکان سے کرنا ہو گا۔ اوّل تو پہلے وفاقی اور پھر صوبائی کابینائوں کے ارکان کی تعداد کم اور محدود کرنے پر توجہ دی جائے جب ہم سے کہیں زیادہ بڑے اور با وسائل ممالک ہم سے کہیں مختصر کابینہ کے ساتھ امور مملکت احسن انداز میں چلا رہے ہیں تو ہم وسائل کی کمی کا رونا بھی روتے رہیں اور وزراء کی فوج ظفر موج بھی قومی خزانے پر بوجھ بنی رہے، اس کا بہر حال کوئی جواز نہیں۔ کابینہ مختصر ہو اور وزیر اعظم اور باقی وزراء بھی پروٹوکول اور سیکورٹی وغیرہ کے نام پر حاصل مراعات میں خاطر خواہ کمی کریں تو ایک جانب پروٹوکول ڈیوٹی پر متعین پولیس، انتظامیہ اور عوامی خدمت کے اداروں کی گاڑیاں اور عملہ کے افراد فارغ ہو کر ملک و قوم کی بہتر اور زیادہ ضرورت کے شعبوں میں خدمات انجام دے سکیں گے اور دوسری جانب پٹرول، گاڑیوں کی مرمت وغیرہ اور اسٹاف کی تنخواہوں پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کی بچت ہو سکے گی اور یہ جو آئے روز خبریں شائع ہوتی ہیں کہ وزیر اعظم کی ’بچت مہم‘ کے باوجود ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم وغیرہ کے اخراجات میں خطیر اضافہ ہو گیا ہے۔ اخراجات میں یہ اضافہ رک جائے گا اور ’بچت مہم‘ واقعی نتیجہ خیز ہو سکے گی جس کے بعد وزیر اعظم صوبائی حکومتوں اور نچلی سطح کے با اختیار حکام کے شاہانہ اخراجات اور پروٹوکول سے بھی قوم کو نجات دلانے میں خاصی آسانی محسوس کریں گے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سو فی صد درست کہا ہے کہ ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مگر ان کے زیر نگرانی کام کرنے والے ایف بی آر کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے ارکان کے مابین ایک ہزار سے زائد لگژری گاڑیوں کی خرید کے معاملہ میں جو کھینچا تانی جاری تھی، اس کے متعلق انہوں نے بھی لب کشائی سے گریز کیا ہے کہ یہ گاڑیاں بھی ’بے جا مراعات‘ کے زمرے میں آتی ہیں یا نہیں۔ وزیر خزانہ نے بہت سے شعبوں مثلاً پرچون فروش اور زراعت کے ملکی معیشت میں تناسب سے بہت کم ٹیکس دینے کا شکوہ بھی کیا ہے ان کا یہ شکوہ بے جا بھی نہیں تاہم وہ اگر اس کے اسباب کا جائزہ لیں گے تو معاملہ ’’ہم الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا‘‘ سے مختلف نہیں ہو گا۔ وزیر خزانہ ایف بی آر اور دیگر متعلقہ محکموں میں بدعنوانی اگر ختم نہیں تو پچاس فی صد بھی کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں، ان محکموں اور اداروں کے حکام اور اہلکاروں کا رویہ اور طرز عمل درست ہو جائے تو یقین ہے کہ وزیر خزانہ کا شکوہ بھی دور ہو جائے گا۔ لوگوں کو اعتماد ہو کہ وہ جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں وہ ’’بے جا مراعات‘‘ پر نہیں بلکہ عوامی مسائل اور مشکلات میں کمی پر خرچ کیا جائے گا اور صرف جائز ٹیکس وصول کیا جائے گا، ٹیکس دہندہ کو تنگ کر کے رشوت کا ریٹ بڑھانے کی خاطر ناجائز بھاری ٹیکسوں کے نوٹس بلاوجہ بھجوا کر سودے بازی پر مجبور نہیں کیا جائے گا تو معاشرے کا ایک بڑا حصہ از خود ٹیکسوں کی ادائیگی پر آمادہ ہو گا کیونکہ اس وقت بھی صاحب نصاب و استطاعت ہر سال اپنی دلی آمادگی سے خوشی خوشی کھربوں روپے زکوٰۃ و صدقات کی مد میں ادا کرتے ہیں حکومت اگر لوٹ مار کے انداز میں اندھا دھند بھاری اور ناقابل برداشت ٹیکس عائد کرنے کے بجائے مناسب شرح سے صرف جائز ٹیکس عائد کرے اور عوام کے لیے سہولت فراہم کی جائے تو لوگوں کو ٹیکسوں کی از خود ادائیگی پر آمادہ کرنا بہت زیادہ مشکل اور نا ممکن الحصول ہدف نہیں لیکن اگر عوام کو یہ معلوم ہو کہ پہلے سے بے پناہ مراعات یافتہ طبقہ کے سینیٹ و قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور وزراء کرام قومی خزانے کی زبوں حالی اور عام آدمی کی غربت، بے روز گاری اور جان لیوا مہنگائی کا خیال کیے بغیر اپنی تنخواہوں اور مراعات میں بیک جنبش قلم آٹھ نو سو فی صد تک از خود اضافہ کر لیں گے اور کسی کو بھی پہلے سے قرضوں اور سود در سود کے بوجھ تلے دبے قومی خزانے پر پڑنے والے مزید ناروا بوجھ کا احساس تک نہیں ہو گا تو آخر لوگ خوشی سے ٹیکس کیوں دیں گے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: وفاقی وزیر خزانہ وزیر اعظم اور کر رہے ہیں کی معیشت کے ارکان معیشت کی جائے گا کیا جا کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

3 سال میں دنیا بھر میں گروتھ نیچے گئی لیکن پاکستان میں گروتھ بڑھی ہے

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 09 جون2025ء) وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کے مشیر خرم شہزاد نے دنیا بھر کے مقابلے میں پاکستان میں زیادہ معاشی ترقی ہونے کا دعوٰی کرتے ہوئے کہا ہے کہ 3 سال میں دنیا بھر میں گروتھ نیچے گئی لیکن پاکستان میں گروتھ بڑھی ہے۔ ایک انٹرویومیں وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے کہا کہ ہمارے پاس مہنگائی میں کمی آئی ہے جب کہ کئی ممالک میں مہنگائی جوں کی توں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہیں نا کہیں کچھ نا کچھ بہتری آئی ہے۔

خرم شہزاد نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں گراوٹ پر کی کئی وجوہات ہیں جن میں پانی اور بارش کی کمی بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پا چکی ہے جب کہ ملکی معیشت درست سمت میں جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

قومی اقتصادی سروے 25-2024 پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ عالمی سطح پر مجموعی پیداوار کی شرح کم ہوئی ہے اور گلوبل جی ڈی پی کا نمو 2.8 فی صد ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملکی مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، جو کہ پاکستان کی معاشی ترقی کا نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی معاشی بحالی کو عالمی منظر نامے کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ دو سال قبل (2023ء میں) ہماری مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) گروتھ منفی تھی اور مہنگائی کی شرح 29 فی صد سے بلند ہو چکی تھی، جس کے بعد حکومت نے بڑے فیصلے کیے، جس کے نتیجے میں ملکی معیشت اب بتدریج بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ افراط زر میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے اور مہنگائی کی شرح کم ہوکر اب 4.6 فی صد پر آ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم معیشت کا ڈی این اے بدلنا چاہ رہے ہیں، جس کے لیے کچھ اسٹرکچرل ریفارمز ناگزیر ہیں۔ ٹیکس اصلاحات سب کے سامنے ہیں۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے معاشی اصلاحات کا پروگرام شروع کیا ہے، میں ان کی تعریف کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ انرجی اصلاحات کو اویس لغاری اور علی پرویز ملک تیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔

ڈیسکوز کے بورڈ نجی شعبے سے لائے ہیں، اس سے کارکردگی بہتر ہو رہی ہے۔ 1.27ٹریلن روپے کے گردشی قرضے کے حل کے لیے بینکوں سے معاہدہ بھی ہوا ہے۔ نگران حکومت میں ہونے والے اچھے اقدامات کو سراہتا ہوں۔ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہوکر 11 فیصد پر آگیا ہے۔ 24 ایس او ایزکو پرائیویٹائزیشن کے حوالے کیا ہے۔ پچھلے سال پالیسی ریٹ نیچے آنے سے ڈیبٹ سروسنگ کی مد میں کافی بچت ہوئی۔

پنشن ریفارمز کے تحت ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم کی طرف جاچکے ہیں ۔ لیکیج کا روکنا بہت ضروری ہے، اس سلسلے میں رائٹ سائزنگ کی جارہی ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 43 وزارتیں اور 400 اٹیچ ڈیپارٹمنٹس کی رائٹ سائرنگ کی جارہی ہے۔ بجٹ میں بتاؤں گا کہ اسے آگے کیسے لے کر جائیں گے۔ اسے مرحلہ وار آگے لے کر جارہے ہیں۔ ہم وزارتوں اور محکموں کو ضم کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مشینری اور ٹرانسپورٹ کی گروتھ بڑھی ہے، ترسیلات زر میں اصافہ ہوا ہے۔ 37 سے38 ارب ڈالر اس سال ترسیلات زر رہنے کا امکان ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ گلوبل جی ڈی پی گروتھ مسلسل گروٹ کا شکار رہی ہے، ہماری جی ڈی پی دو ہزار تیس میں منفی میں تھی، رواں سال جی ڈی پی کی گروتھ 2.7 فیصد ہے، عالمی مہنگائی میں اضافے کے باوجود ہماری مہنگائی میں کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہماری ملک میں مہنگائی 4.6 فیصد تک گرچکی ہے، رواں سال تک شرح سود میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے نگران سے پہلے ایس بی اے کے ذریعے اچھے فیصلے کیے۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت نے معاشی میدان میں اچھے اقدامات لیے گئے، جولائی سے مئی کے دوران چھبیس فیصد ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے، چوہتر فیصد ریٹیلرز رجسٹریشن مزید ہوئی ہے، ہم اب قرضے مزید نہیں لینے چاہتے اگر لیں گے تو اپنی شرائط پر لیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قرضوں کی ادائیگیوں میں جتنا بھی بچے گا اس کو دیگر سیکٹر میں لے جائیں گے، صنعتوں کی گروتھ میں چھ فیصد تک اضافہ ہوا ہے، خدمات کے شعبے میں دو فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا، رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں تین فیصد تک اضافہ ہوا ہے، زرعی شعبے محض 0.6 فیصد تک بڑا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایف بی آر کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے اصلاحات کی ہیں۔

ہر ٹرانسفارمیشن کے لیے 2 سے 3 سال درکار ہوتے ہیں۔ پاور سیکٹر اصلاحات میں ایک سال میں تاریخی ریکوری ہوئی ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی گورننس میں بہتری آئی ہے۔ رواں مالی سال امپورٹس میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مشینری کی امپورٹ 16.5 فیصد اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مشینری کی امپورٹ میں اضافہ معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔جون کے آخر تک 37 یا 38 ارب ڈالر تک ریکارڈ ہوں گی۔

2 سال کے دوران ترسیلات زر میں تقریباً 10 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ بیرون ملک پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کے ذریعے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ رواں مالی سال انفرادی فائلرز کی تعداد میں دگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ حکومت پرائیویٹ سیکٹر سے آئندہ اپنی شرائط پر قرض لے گی۔ پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہوکر11 فیصد پر آگیا ہے۔

قرضوں کی شرح68فیصد سے کم ہوکر65 فیصد پر آ چکی ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران ملک کے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کا مقصد معاشی استحکام لانا ہے۔ ٹیکنالوجی کے زیادہ استعمال سے ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹیکس ٹوجی ڈی پی5 سال کی بلندترین سطح پرپہنچ گیا، ٹیکس اصلاحات میں ٹیکنالوجی کا بہت استعمال ہے۔

اب تک کی کارکردگی بہتر ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بھارتی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے آئی ایم ایف بورڈ میں پاکستان کی شدید مخالفت کی۔ بھارت کی کوشش تھی کہ آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس نہ ہو۔ بھارت کی کوشش تھی آئی ایم ایف بورڈ میں پاکستان کے ایجنڈے کو شامل نہ کیا جائے ، مگر پاکستان نے آئی ایم ایف شرائط پر مکمل عملدرآمد کیا ۔

وزیر خزانہ کے مطابق پاسکو کرپشن کا گڑھ تھا، ہم نے اچھا فیصلہ کیا اور اس سے نکل گئے ہیں۔ درآمدات میں 16 فیصد اضافے کی وجہ زرعی شعبے کی مشینری کی درآمدات میں اضافہ ہے۔ موڈیز کا آؤٹ لک پاکستان سے متعلق بہتر ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی حالیہ قسط نے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام ثابت کردیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاک فورسز نے بھارت کو جو شکست دی ہے، اسی طرح معاشی محاذ پر بھی جنگ چل رہی تھی۔

بھارت کے اکنامک ڈائریکٹر نے بہت کوشش کی کہ اجلاس نہ ہو اور اگر ہو تو ہمارا معاملہ ایجنڈے پر نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کا اجلاس اگست میں ہوگا ۔ این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کا فارمولا تبدیل کرنے پر غور ہوگا ۔ صوبوں سے مشاورت ہوگی۔ اگر پاکستان کی آبادی 40 کروڑ تک پہنچ گئی تو کیا ہوگا ؟ ہمیں اس بارے میں سوچنا ہوگا۔ اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ رواں سال کرنٹ اکاؤنٹ1.9ارب ڈالر سرپلس رہاہے۔

جون تک ترسیلات زر38ارب ڈالرتک جانے کا امکان ہے جب کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس8لاکھ سے تجاوز کرگئے،ان کردار اہم ہے۔ جولائی سے مئی تک ٹیکس ریونیو میں 26فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس فائلرز37لاکھ سے تجاوز کرگئے۔ ہائی ویلیو فائلرزمیں178فیصداضافہ ہوا۔ اس عرصے کے دوران سکوک اور طویل مدتی قرضوں کی میچورٹی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

ہم قرض بہ لحاظ جی ڈی پی کو 65فیصد سے نیچےلانا چاہتے ہیں، ڈیبٹ منیجمنٹ آفس کو بہتر بنارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مالی سال کے دوران انڈسٹری کی گروتھ4.8فیصد رہی، کیمیکلز،آئرن اسٹیل کے شعبے نیچے گئے ہیں۔ سروسز کے شعبے نے2.9فیصد پر گروتھ کی۔ پچھلے سال یہ2.2فیصد تھا، انفارمیشن اور کمیونیکیشن شعبے نے6.5فیصد پر گروتھ کی۔ اسی طرح کنسٹرکشن اور رئیل اسٹیٹ3.5فیصد،فوڈ سروسز4.1فیصد اضافہ ہوا۔

ٹرانسپورٹ بھی بڑھی ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ زراعت نے0.6فیصد گروتھ کی، لائیواسٹاک نے4.7فیصد پر گروتھ کی جب کہ ہدف 3فیصد تھا۔ رواں مالی سال کے دوران چاول، مکئی سمیت بڑی فصلوں میں حکومتی مداخلت ختم کی، زرعی شعبےکےقرضوں میں بھی اضافہ ہوا، زرعی قرضے2 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان نے بھارت کیخلاف اپنا لوہا منوایا ہے۔

دوسری طرف اقتصادی محاذ پر بھی جنگ چل رہی تھی۔ معاشی سکیورٹی قومی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ لوکل سرمایہ کار آئیں گے تو غیرملکی سرمایہ کاری بھی آئے گی۔ ایس آئی ایف سی پر توجہ ہے،یہ گیم چینجر ثابت ہوگا۔ ہمارامقامی وسائل پر دارومدار ہونا چاہیے۔ اگلےسال ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے منصوبے شروع کریں گے۔

اقتصادی سروے پیش کرنے کے دوران سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ جتنا اخراجات پر کٹ لگایا ہے اس سے زیادہ کٹوتی ممکن نہیں تھی۔ آپ کل بجٹ میں دیکھیں گے۔ مالیاتی خسارہ بھی 2022 کا دیکھیں اور آج کا دیکھیں تو واضح فرق نظر آئے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم پرائمری سرپلس کی بات کرتے ہیں۔ اگر پرائمری سرپلس کا نمبر اتنا زیادہ ہے تو پھر یا ریونیو بہت بڑھ گیا ہے یا اخراجات بہت کم ہوگئے ہیں۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 14 فیصد تک لے کر جانا ہے۔ہمارے ہمسایے ملک بھارت میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 18 فیصد ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 3 سال میں دنیا بھر میں گروتھ نیچے گئی لیکن پاکستان میں گروتھ بڑھی ہے
  • ہم درست سمت میں اور استحکام کی طرف گامزن ہیں،وزیر خزانہ
  • پاکستان میں معیشت کی بہتری کے آثار، جی ڈی پی گروتھ 2.7 فیصدرہ گئی ہے، مشیر خزانہ
  • مہنگائی پر قابو پا لیا، ملکی معیشت درست سمت میں ہے، وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے پیش کردیا
  • مہنگائی پر قابو پا چکے ہیں، ملکی معیشت درست سمت میں ہے، وزیر خزانہ
  • آئی ایم ایف نے معیشت کو آئی سی یو سے نکال آپریشن تھیٹر میں ڈال دیا : ماہر معاشی امور
  • معاشی اصلاحات اور ترقی کا عمل فوری طور پر مکمل نہیں ہو سکتا، وفاقی وزیر خزانہ
  • چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
  • ہر کوئی مان رہا ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری آچکی ہے، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
  • ایک رات میں سب کچھ تبدیل نہیں کیا جاسکتا، وفاقی وزیر خزانہ