اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سابق وزیر اعظم عمران خان کے فروری 2022 میں روس کے دورے سے قبل پس پردہ مذاکرات کے متعلق نئی ​​تفصیلات سامنے آئی ہیں۔

سرکاری بیانات اور ذرائع کی جانب سے کیے گئے انکشافات سے معلوم ہوتا ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے امکانات کے حوالے سے امریکا سے خفیہ معلومات ملنے کے باوجود، پاکستان کی قیادت نے خدشات کو مسترد کر دیا۔

تین سال بعد، یہ دورہ پاکستان کی سیاسی گفتگو اور عالمی تنازعات پر اس کے سفارتی موقف کے بارے میں ایک اہم حوالہ ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے دورۂ روس سے چند روز قبل پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کو امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون کی فون کال موصول ہوئی۔

سلیون نے روس کے منصوبے کے بارے میں اہم خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا لیکن پاکستان نے اسے مسترد کردیا۔

معید نے امریکی خفیہ معلومات کو ناقابل اعتبار قرار دیا اور سوال کیا کہ کیا یہ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے دعووں کی طرح جھوٹا ہے، جو بعد میں غلط ثابت ہوا۔ ایک ایسے وقت میں جب بین الاقوامی میڈیا یہ پیش گوئی کر رہا تھا کہ روس کسی بھی وقت یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے، عمران خان کے دورہ روس کے فیصلے نے سوالات پیدا کر دیے۔

اس نمائندے نے سرکاری حکام، سابق وزیروں اور سکیورٹی حکام سے یہ جاننے کیلئے رابطہ کیا کہ کیا ملٹری اسٹیبلشمنٹ یا دفتر خارجہ نے عمران خان کو روس کا سفر کرنے کے برخلاف مشورہ دیا تھا یا نہیں۔

دی نیوز نے سابق قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف کو ایک تفصیلی سوالنامہ بھی بھیجا، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

باوثوق ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے روس کا دورہ کرنے اور یوکرین پر روس کے حملے کے منصوبے کے بارے میں مشورہ طلب کیا۔

ذریعے کے مطابق، فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے دورے کے فیصلے سے اتفاق کیا اور انہیں بتایا کہ ان کے پاس یوکرین پر روس کے ممکنہ حملے کے متعلق مصدقہ معلومات نہیں۔

ایک ذریعے کے مطابق، پاکستان کے پاس انٹیلی جنس تھی کہ روس نے یوکرین میں فوج بھیجی ہے لیکن لاجسٹک سپورٹ کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ روس کا یوکرین پر جلد حملہ کرنے کا منصوبہ نہیں، کیونکہ اصل حملے کیلئے لاجسٹکس کی ضرورت ہوگی۔

ذریعے کا کہنا تھا کہ عسکری لحاظ سے اس اقدام کو بطور خطرہ دیکھا جا سکتا ہے لیکن اصل حملہ نہیں۔ منصوبہ بندی کے لحاظ سے دیکھیں تو پاکستان کو یقین تھا کہ حملہ جلد نہیں ہوگا اور اس وقت خان کے دورے سے کوئی نقصان نہ ہوگا۔

پاکستانی انٹیلی جنس کے علاوہ عمران خان کی ٹیم کو امریکا سے کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ روس یوکرین پر حملہ کر دے گا۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے معید یوسف کو فون کیا اور پوچھا کہ کیا آپ کے وزیراعظم روس کا دورہ کرنے والے ہیں؟ معید نے جواب دیا ہاں۔

اس کے بعد، سلیون نے روس کے منصوبوں کے بارے میں انٹیلی جنس شیئر کی، لیکن پاکستانی حکام نے اس معلومات کو مسترد کردیا۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ امریکی انٹیلی جنس کو نظر انداز کرنے کے باوجود روس نے عمران خان کے ماسکو پہنچتے ہی یوکرین پر حملہ کر دیا جس سے عمران خان اور ان کا وفد مشکل میں پڑ گیا۔ انہیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ صدر پوتن سے ملاقات کے بعد دورہ جاری رکھا جائے یا مختصر کیا جائے۔

ذرائع نے بتایا کہ معید یوسف نے عمران خان کو دورہ مختصر کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ یہ وفد کیلئے ایک شرمناک صورتحال تھی۔ ذریعے کے مطابق، وفد کے دیگر ارکان نے منصوبہ بندی کے مطابق دورہ مکمل کرنے پر اصرار کیا۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے بارے میں بیان نے پاکستان میں بھی بحث چھیڑ دی ہے۔ روس یوکرین تعلقات کے تناظر میں متعلقہ رہنے کیلئے پی ٹی آئی والوں کا دعویٰ ہے کہ عمران خان روس کے بارے میں درست تھے۔

پی ٹی آئی رہنمائوں نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر الزام عائد کیا کہ وہ روس سے متعلق ان کی پالیسیوں پر عمران خان کو دھوکہ دے رہے تھے۔ اپنے دورہ روس کی شرمندگی چھپانے کیلئے عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے سستا تیل درآمد کرنے کا معاہدہ کیا ہے اور انہیں روس کا ساتھ دینے کی سزا دی گئی ہے۔

تاہم، ذرائع کہتے ہیں کہ روس کے ساتھ تیل کی درآمد کا کوئی معاہدہ نہیں تھا، اور فوج نے عمران خان کو اس دورے کیخلاف کبھی مشورہ نہیں دیا۔ ذرائع نے مزید کہا کہ درحقیقت اعلیٰ عسکری قیادت نے عمران خان کے دورے کی حمایت کی تھی۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: قومی سلامتی کے مشیر عمران خان کے عمران خان کو کے بارے میں انٹیلی جنس معید یوسف یوکرین پر بتایا کہ کے مطابق کے دورے حملہ کر روس کا تھا کہ کہ روس روس کے

پڑھیں:

تیراہ اور خیبر کی کہانی

پاکستان میں دہشت گردی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے گزشتہ روز سینئر صحافیوں کو ایک بیک گراؤنڈ بریفنگ دی۔ اس بریفنگ کے مختلف پہلو تھے۔ تاہم میرے لیے سب سے اہم تیرہ کی صورتحال ہے۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ تیراہ اور خیبر میں اس وقت بارہ ہزار ایکڑ رقبے پر پوست کاشت کی گئی ہے۔ اس فصل کا منافع بھی بہت زیادہ ہے، بس اتنا بتانا کافی ہے کہ فی ایکڑ پچیس لاکھ روپے منافع ہوتا ہے۔ اس لیے مقامی لوگوں کے لیے یہ ایک پرکشش اور منافع بخش فصل ہے۔ اتنا منافع کسی اور فصل میں نہیں ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ پوست کی کاشت کا دہشت گردی سے کیا تعلق ہے؟ حکومت پاکستان کے قوانین کے مطابق پوست کاشت کرنا غیر قانونی ہے۔ اس لیے حکومت پاکستان کے انسداد منشیات کے مختلف ا دارے اس علاقے میں پوست کی فصلوں کو تلف کرنے کا کام کرتے ہیں۔

اس فصل کو تلف کرنے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ ڈرون سے دوائیاں چھڑک کر بھی اس فصل کو ناکارہ اور ناقابل استعمال بنایا جاتا ہے۔ انسداد منشیات کے اداروں کے ملازمین موقع پر پہنچ کر بھی ان فصلوں کو تلف کرتے ہیں۔ پوست کاشت کرنے والوں کو پکڑا بھی جاتا ہے۔ یوں دیکھا جائے پوست کاشت کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ حکومت کے ایکشن کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ پوست کی کاشت میں تیرہ اور خیبر کے تمام اہم لوگ ، مقامی سیاسی رہنما وعمائدین ملوث ہیں۔ مقامی اہم لوگ بھی اس کاروبارمیں حصہ دار ہیں۔ اسی لیے پاکستان میں منشیات کا سب سے بڑا بازار تیرہ میں ہے۔ جو تصاویر ہمیں دکھائی گئیں۔ ان کے مطابق اس بازار میں ہر قسم کی منشیات فروخت ہوتی ہیں ۔ یہاں تھوک کا کام ہوتا ہے۔ اصل میں یہیں سے پورے پاکستان کو منشیات سپلائی ہوتی ہیں۔

اس تھوک منڈی پر کئی دفعہ کریک ڈاؤن ہوا ہے۔لیکن بازار پھر بن جاتا ہے۔ طلب و رسد کے معاشی اصول کے مطابق جب فصل یعنی رسد برقرار رہتی ہے تو بازار خود بخود بن جاتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں تو پوست کی کاشت بہت وسیع پیمانے پر ہوتی ہے، وہاں کوئی قانونی پابندی بھی نہیں ہے۔ اہم اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس ساری فصل کی منڈی تیراہ ہی ہے۔ منشیات کا تھوک کاروبار یہیں ہے۔ اسی لیے کھلے بارڈر بھی چاہئیں۔

اگر بارڈر بند ہو جائیں تو اربوں روپے کا یہ غیرقانونی کاروبار بند ہوجائے گا۔ یہ سارا کالا دھن ہے۔ اسی لیے پاک افغان بارڈر کی بندش کے خلاف شور اٹھاتا نظر آتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں فوجی آپریشن کے خلاف آوازیں بھی اسی لیے سنائی دیتی ہیں۔ فوجی آپریشن کے خلاف شور بھی اسی لیے نظر آتا ہے۔ مقامی سیاستدان بھی اسی لیے فوجی آپریشن کے خلاف بولتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ان کے بھی مالی مفاد ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ دہشت گرد کہاں سے آتے ہیں؟ ان کا کیا رول ہے؟ اس غیرقانونی فصل ، غیرقانونی کاروبار اور اس سے کمائے گئے کالے دھن کے تحفظ کے لیے اس کاروبار کے اسٹیک ہولڈرز کو ایک مسلح فورس چاہیے۔

جو حکومت پاکستان اور ریاستی اداروں کوان فصلوں کو تلف کرنے سے روکے، تھوک بازار کو تباہ کرنے سے روکے۔ یہاں اس کاروبار سے وابستہ لوگ دہشت گردوں کو خود لاتے ہیں، پناہ دیتے ہیں، انھیں باقاعدہ عشریعنی فصل کا دسواں حصہ بطور معاوضہ ، غنڈا ٹیکس یا خراج جو بھی کہہ لیں ، دیا جاتا ہے۔ یہ عشر تحفظ کی قیمت ہے، پوست کی فصلوں کا تحفظ، بازار کا تحفظ۔ یہاں دہشت گرد آتے ہیں۔ انھیں مقامی ذمے داران خوش آمدید کہتے ہیں۔ انھیں پیسے بھی دیتے ہیں۔ یہ فوج سے لڑتے ہیں۔ فوج کی نقل و حرکت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی لیے لڑائی ہوتی ہے۔

ان دہشت گردوں کو بنیادی طور پر مختلف ذمے داریاں دی جاتی ہیں۔ ایک فصل کی حفاظت۔ دوسرا بازار کی حفاظت۔ تیسرا بارڈر کو کھلا رکھنا تا کہ اسمگلنگ کے لیے نقل و حرکت باآسانی جاری رہے۔ اس کام کے لیے انھیں بھر پور معاونت بھی حاصل رہتی ہے اور مقامی مدد بھی حاصل رہتی ہے۔ ریاست اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف منفی مہم بھی اسی لیے چلائی جاتی ہے کیونکہ وہ اس سارے غیرقانونی اور کالے کاروبار کو ختم کرتے ہیں۔ اسی لیے بارڈر کی چیک پوسٹوں پرلڑائی ہے۔ فوجی قافلوں کو نشانہ بنایاجاتا ہے تا کہ اگلے مورچوں تک کمک نہ پہنچ سکے۔

 ان دہشت گردوں کو افغان طالبان کی مکمل حمایت حاصل رہتی ہے۔ وہ اس سارے کاروبار کے بڑے سہولت کار اور بیفشریز ہیں۔ ان کا مال بھی بکتا ہے، منڈی پاکستان میں ہے اور وہ مال بیچ کر اپنے پیسے واپس افغانستان لے جاتے ہیں۔ اس لیے وہ دہشت گرد گروپس کی حمائت اور سہولت کاری کرتے ہیں۔ افغان طالبان اس غیرقانونی کاروبار سے بے تحاشا دولت کماتے ہیں۔ ان کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے۔ اس کھیل کو سمجھیں۔ دہشت گردتنظیموںکو جس کام کے پیسے ملتے ہیں، وہ کرتی ہیں۔سیکیورٹی اداروں پر حملوں کی وجوہات کو سمجھیں۔ افغان طالبان کے مفادات کو سمجھیں۔

میں سمجھتا ہوں ریاست پاکستان اور حکومت یہ گھناوناکھیل عام آدمی کو سمجھانے میں ناکام رہی ہے۔ ورنہ رائے عامہ مختلف ہوتی ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ منشیات ہماری نسلوں کو تباہ کر رہی ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کا زہر کھل عام تھوک بازاروں میں فروخت ہو رہا ہے۔ ان تھوک منڈیوںکو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ جو سیاستدان خیبر پختونخوا میں فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہیں، وہ پوست کی کاشت اور منشیات کی فروخت کی تھوک منڈیوں کے بارے میں کیوں خاموش ہیں؟ کیا وہ یہ سب کچھ باعلم ہونے کے باوجود کرتے ہیں یا پھر معصومیت میں اس کھیل کا حصہ بن رہے ہیں؟ اس کھیل کا یہ پہلو سب کے سامنے ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • تیراہ اور خیبر کی کہانی
  • ایران ملتِ اسلامیہ کے سر کا تاج، امریکی دھمکیاں مرعوب نہیں کر سکتیں، قاسم علی قاسمی
  • سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان 18 نومبر کو وائٹ ہاؤس کا سرکاری دورہ کریں گے
  •  امریکا کا یوٹرن‘ یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے سے انکار
  • شاہ رخ خان اپنے بچوں کو فلمی کیریئر پر مشورہ کیوں نہیں دیتے؛ اداکار نے بتادیا
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • شاہد خاقان عباسی کی انجیوپلاسٹی، ڈاکٹروں نے آرام کا مشورہ دیا
  • یوکرین کو کروز میزائل کی فراہمی سے مسائل کے حل میں مدد نہیں ملے گی: روس
  • یوکرین کو کروز میزائل کی فراہمی سے مسائل کے حل میں مدد نہیں ملے گی، روس