مقبوضہ کشمیر میں دکانوں سے سینکڑوں اسلامی کتب ضبط کر لی گئیں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
مقبوضہ کشمیر میں آزادی اظہارِ رائے پر قدغن لگانے کے بعد، اب مودی حکومت نے علمی و فکری کتابوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔
مودی حکومت نے ایک اور متنازعہ قدم اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مار کر 668 اسلامی کتابیں ضبط کر لیں۔
کتابوں کی ضبطی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ کتابیں نئی دہلی کے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز کی شائع کردہ تھیں، جو جماعت اسلامی ہند سے منسلک ہے۔
یہ بھی پڑھیے: مودی کو جھٹکا، کانگریس اور اتحادی جماعتیں جموں کشمیر میں حکومت بنانے کے لیے تیار
2019 میں جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کے بعد اب اس کے علمی ورثے کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جماعت اسلامی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ضبط کی گئی کتابیں نئی دہلی سے قانونی طور پر شائع ہو کر کشمیر میں فروخت کے لیے آئی تھیں۔
جماعت اسلامی کے رہنماوں نے ضبطی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ غیر آئینی اور بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے، علم اور مطالعے پر قدغن لگانا کسی بھی مہذب معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔
میر واعظ عمر فاروق کشمیریوں کی آزادی کے اہم رہنما کا کہنا تھا کہ کتابوں کے خلاف پولیس کی کارروائی انتہائی قابل مذمت اور مضحکہ خیز ہے، یہ ایک ایسا اقدام ہے جو جمہوری اور انسانی اقدار کے منافی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: حکومت مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے عملی اقدامات اٹھائے، حافظ نعیم الرحمان
اگرچہ کتابوں کی اشاعت اور تقسیم قانونی تھی، پھر بھی مودی نے اسے غیر قانونی قرار دے کر اپنی مسلم دشمنی ثابت کر دی، مودی حکومت کی جانب سے اسلامی کتابوں کی ضبطی اس کے مسلم مخالف نظریے کی ایک اور واضح مثال ہے۔
مودی حکومت کا یہ اقدام کشمیر میں رہنے والے مسلمانوں کی فکری آزادی پر ایک اور حملہ ہے، جس کا مقصد ان کی آواز دبانا ہے۔
مودی حکومت نہ صرف کشمیریوں کے جینے کے حقوق چھین رہی ہے بلکہ اب ان کے سوچنے اور پڑھنے کے حق پر بھی حملہ آور ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
indian occupied kashmir modi government مقبوضہ کشمیر مودی سرکار.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: مودی سرکار جماعت اسلامی مودی حکومت کتابوں کی کے لیے
پڑھیں:
میئر کراچی کی گھن گرج!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-2
کراچی آج جس صورتحال سے دوچار ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، ملک کے اقتصادی پہیے کو رواں دواں رکھنے والے اس شہر کے مسائل و مشکلات کو مسلسل نظر انداز کرنے کے نتیجے میں روشنیوں کا شہر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ انفرا اسٹرکچر کی تباہی، ٹرانسپورٹ کے نظام کی زبوں حالی و بربادی، سڑکوں کی خستہ حالی، واٹر ٹینکرز اور ڈمپرز سے شہریوں کی ہلاکتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات، سیوریج کے نظام کی خرابی، کچرا کنڈیوں سے اٹھتے ہوئے تعفن کے بھبکے، بے ہنگم ٹریفک، پانی کا مصنوعی بحران، جابجا کھلے مین ہول، اربن فلڈنگ، سیوریج لائن کا پانی کی لائنوں سے ملاپ، برساتی نالوں کی عدم صفائی، تجاوزات کی بھرمار، فٹ پاتھوں پر پتھارے داروں کا قبضہ اور صفائی ستھرائی کی مخدوش صورتحال شہر کے اختیارات پر قابض میئر کراچی کی اعلیٰ کارکردگی کا مظہر ہیں، یہ اعلیٰ کارکردگی اس وقت اور مزید نمایاں ہوجاتی ہے جب شہر میں بارش کی چند بوندیں برس جائیں۔ قومی خزانے سے شہر میں جہاں جہاں تعمیر و ترقی کے کام ہورہے ہیں اس کا حال بھی یہ ہے وہ بارش کے ایک ہی ریلے میں بہہ گئے ہیں جس کی واضح مثال شاہراہ بھٹو اور نئی حب کینال ہے۔ ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود آج بھی شہر کی مختلف سڑکوں پر بارش کا پانی جمع ہے۔ شہر کی اس ناگفتہ بہ صورتحال پر جماعت ِ اسلامی طویل عرصے سے آواز اٹھا رہی ہے، حالیہ بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بھی جماعت اسلامی نے بھر پور آواز بلند کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت کراچی کو ہنگامی طور 500 ارب روپے اور صوبائی حکومت ہر ٹائون کو 2 ارب روپے ترقیاتی فنڈز دے۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن اور سالڈ ویسٹ کے اختیارات ٹائون کو منتقل کیے جائیں۔ جماعت ِ اسلامی کے ان مطالبات اور تنقید پر غور کرنے کے بجائے میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سیخ پا ہیں کہتے ہیں کہ شہر میں سیوریج کے نظام کی خرابی کی ذمے دار جماعت اسلامی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے 2003 میں شہر کا ماسٹر پلان ادھیڑ کر رکھ دیا تھا، شہر کی پوری سڑکوں کو کمرشل کرنے کی اجازت جماعت اسلامی نے دی تھی، اب اس شہر میں منافقت نہیں چلنے دوں گا اور ان کو سخت الفاظ میں جواب دوں گا۔ لیجیے بات ہی ختم۔ کسی بھی سطح پر اقتدار کے منصب پر فائز افراد کا یہی وہ طرز عمل ہے جس نے تعمیر و ترقی کی راہوں کو مسدود کردیا ہے، خیر سگالی پر مبنی تنقید پر مثبت طرز عمل کو بالائے طاق رکھ کر جب اسے انا کا مسئلہ بنادیا جائے تو اسی طرح منافقت کے الزامات عاید کیے جاتے ہیں اور ترکی بہ ترکی جواب دینے جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ بلاشبہ اس امر کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بارشوں سے اتنی تباہی نہیں ہوئی جتنی بدانتظامی، نااہلی اور بدعنوانی سے ہوئی ہے، کراچی کے عوام نے بلدیاتی انتخابات میں اپنا میڈیٹ جماعت ِ اسلامی کے حوالے کیا تھا مگر اس میڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا اس ڈاکے کا لازمی نتیجہ وہی نکلنا تھا جو سامنے ہے۔ میئر کراچی کو آپے سے باہر ہونے اور الزامات عاید کرنے کے بجائے شہر کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کے لیے اپنی توانیاں صرف کرنی چاہییں۔ کراچی مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، کراچی کے شہری روز جن مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور شہر عملاً جس صورتحال سے دوچار ہے اس پر لفظوں کی گھن گرج اور منافقت کے الزامات سے پردہ نہیں ڈلا جا سکتا۔ شہر کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کر کے محض بلند و بانگ دعوؤں سے کراچی کی تعمیر و ترقی ممکن نہیں عمل کے میزان میں دعوؤں کا کوئی وزن نہیں ہوتا، عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے اور بحیثیت میئر انہیں اس پر توجہ دینی چاہیے۔