امریکی امداد کی بندش مودی اور ٹرمپ کے گلے کی ہڈی بن گئی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
بین الاقوامی امداد کے امریکی ادارے یو ایس ایڈ کی طرف سے بھارت کو دی جانے والی 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی امداد کی بندش نے بھارت اور امریکا کی قیادتوں کے درمیان تنازع کھڑا کردیا ہے۔ مودی سرکار کو اس حوالے سے تنقید کا سامنا ہے جبکہ امریکی صدر ٹرمپ اس حوالے سے عجیب و غریب باتیں کرکے معاملات کو مزید الجھارہے ہیں۔
ایک طرف تو اس بات پر ہنگامہ برپا ہے کہ بھارت کے لیے رکھے جانے والے 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر دیے نہیں گئے اور دوسری طرف یہ دعوٰی بھی کیا جارہا ہے کہ یہ رقم بنگلا دیش کی ایک ایسی غیر سرکاری تنظیم کو دے دی گئی جس کا کسی نے کبھی نام بھی نہیں سُنا۔ یہ بات کسی اور نے نہیں، خود صدر ٹرمپ نے کہی ہے۔
یہ معاملہ پانچ دن سے بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ بھارتی میڈیا اس حوالے سے اسٹوریز سے بھرے پڑے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ چار دن سے ان 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہتے رہے ہیں اور اب انہوں نے اس حوالے سے بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کا نام بھی لیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے دو دن قبل الزام لگایا تھا کہ یہ رقم جو بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے بھارت کے انتخابات میں مداخلت کے لیے منظور کی گئی تھی۔ انہوں نے جمعہ کی رات کہا کہ یہ رقم میرے دوست مودی کی حکومت کو دی جانے والی تھی۔ مقصد صرف یہ تھا کہ ووٹرز ٹرن اوور بڑھ جائے۔
بھارتی میڈیا میں یہ بات نمایاں طور پر بیان کی جارہی ہے کہ امریکی صدر کو خود اپنے اداروں کی بین الاقوامی فنڈنگ کے بارے میں کافی معلومات میسر نہیں۔ اب ٹرمپ کا کہنا ہے کہ 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر بنگلا دیش کی ایک ایسی این جی او کو دیے گئے جس کے بارے میں لوگ نہیں جانتے اور اِس میں صرف دو افراد کام کرتے ہیں۔
بھارت کے لیے منظور کی جانے والی امریکی امداد کے حوالے سے میڈیا میں اتنی باتیں آچکی ہیں کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ معاملہ آخر ہے کیا۔ مودی اور ٹرمپ دونوں کے لیے یہ معاملہ گلے میں پھنسی ہوئی ہڈی جیسا ہوگیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اس حوالے سے کے لیے
پڑھیں:
59 فیصد امریکی صدر ٹرمپ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، تازہ ترین سروے
کراچی (نیوز ڈیسک) واشنگٹن پوسٹ، اے بی سی نیوز اور ایپسوس کے تازہ سروے کے مطابق زیادہ تر امریکیوں کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آزادی اظہار‘منصفانہ عدالتی نظام اور آزاد انتخابات کے تحفظ سے وابستگی پر اعتماد نہیں۔ سروے میں 56فیصد نے کہا کہ ٹرمپ آزاد و منصفانہ انتخابات کے لیے سنجیدہ نہیں جبکہ صرف 43 فیصد نے انہیں اس حوالے سے قابلِ اعتماد سمجھا۔ اسی طرح 58 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنا رہے ہیں اور دو تہائی رائے دہندگان کے مطابق وہ صدارتی اختیارات بڑھانے میں حد سے تجاوز کر رہے ہیں۔ اکثریت امریکیوں نے اس تجویز کی بھی مخالفت کی کہ ٹرمپ کو وفاقی تحقیقات کے بدلے میں حکومت سے مالی معاوضہ دیا جائے۔ صرف 20فیصد اس کے حامی ہیں جبکہ 63فیصد نے مخالفت کی۔ٹرمپ کی مجموعی مقبولیت 41فیصد ہے جبکہ 59فیصد ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ ریپبلکن ووٹرز ان کے حامی جبکہ ڈیموکریٹس اور آزاد ووٹرز بڑی حد تک مخالف ہیں۔پول کے مطابق زیادہ تر امریکی ٹرمپ کی پریس کی آزادی کے تحفظ کی نیت پر بھی شک کرتے ہیں، مگر وہ انہیں اسلحہ رکھنے کے حق کے حامی سمجھتے ہیں۔اسی دوران، ٹرمپ اپنے مخالفین سابق ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمز کومی اور سابق مشیر جان بولٹن پر الزامات کی حمایت میں تقسیم رائے کا سامنا کر رہے ہیں‘بیشتر امریکیوں کو یقین نہیں کہ یہ مقدمات سیاسی ہیں یا قانونی۔ سروے میں مزید بتایا گیا کہ 60 فیصد امریکی ججوں کے کردار کو آئینی حدود کے تحفظ کی کوشش سمجھتے ہیں، جبکہ صرف 35فیصد کے نزدیک عدلیہ ٹرمپ کے اختیارات میں مداخلت کر رہی ہے۔یہ سروے 24 سے 28 اکتوبر کے دوران 2725 بالغ امریکیوں میں کیا گیا۔