پیس انیشی ایٹیو، پاکستانی تارکین وطن اور جرمن پارلیمانی انتخابات
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 فروری 2025ء) جرمن شہر ہینوور میں آباد ایک پاکستانی نژاد بزنس مین، سافٹ ویئر ڈیویلپر، ماہر ریاضیات اور سوشل ورکر عمر کمال نے اپنے کچھ ہم خیال پاکستانی نژاد جرمن باشندوں کے ساتھ مل کر "PEACE" کے نام سے ایک انیشی ایٹیو کی بنیاد رکھی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس بار کے جرمن پارلیمانی الیکشن میں پاکستانی تارکین وطن کے لیے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں اور پاکستانی برادری میں سیاسی شعور و آگاہی پھیلانے کی شدید ضرورت ہے۔
ان کے انیشی ایٹیو کا بنیادی مقصد یہی ہے اور اس پلیٹ فارم سے عمر کمال اور ان کے ساتھیوں نے جرمن پارلیمانی انتخابات کے پس منظر میں خاص طور پر پاکستانی پس منظر رکھنے والے جرمن شہریوں کے لیے آگاہی بڑھانے کے لیے اقدامات کیے۔(جاری ہے)
جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم شمولیت کیوں؟
'پیس‘ انیشی ایٹیو کے روح رواں عمر کمال نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ جرمن پارلمیانی انتخابات پاکستانی تارکین وطن کے لیے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں: ''کیونکہ ان کے نتائج براہ راست امیگریشن پالیسی، مسلمانوں کے حقوق، سماجی انضمام اور برابری کے مواقع پر اثر انداز ہوں گے۔
جرمنی میں حالیہ برسوں میں امیگریشن قوانین میں سختی دیکھی گئی ہے، اور اگر دائیں بازو کی جماعتیں جیسے اے ایف ڈی اور سی ڈی یوزیادہ ووٹ حاصل کرتی ہیں، تو امیگریشن کے قوانین مزید سخت ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، ترقی پسند جماعتیں جیسے ڈی لنکے، ایس پی ڈی اور گرین مہاجرین اور اقلیتوں کے لیے زیادہ شمولیتی پالیسیوں کی حمایت کر رہی ہیں۔‘‘عمر کمال نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھیوں نے مل کر جرمن صوبے لوور سیکسنی کے دارالحکومت ہینوور میں کئی عملی اقدامات کیے ہیں تاکہ پاکستانی برادری مضبوط ہو اور ہر فرد کو اپنی رائے کے اظہار اور اپنے حقوق کے تحفظ کا ادراک ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ کوئی سیاسی تحریک نہیں چلا رہے بلکہ ان کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ جرمنی میں تمام انسانوں کو برابر حقوق و مواقع میسر ہوں۔ڈوئچے ویلے نے عمر کمال سے ان کے انیشی ایٹیو "PEACE" کے اغراض و مقاصد کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا، ’’ہمارا مقصد ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جہاں ہر فرد کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور کسی کے ساتھ نسلی، مذہبی یا سماجی تفریق نہ برتی جائے۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہر شخص کو آزادی، انصاف اور مساوات میسر ہو۔جرمنی میں آباد پاکستانیوں کو اپنا سماجی رویہ بدلنا ہو گا، کومل ملک
اس انیشی ایٹیو کی طرف سے ہینور کے علاوہ دیگر جرمن ریاستوں کے بڑے شہروں میں عملی اقدامات کے ذریعے تین بنیادی چیزوں پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے:
1۔ مقامی سطح پر سماجی انصاف کا فروغ
2 ۔ پناہ گزینوں اور اقلیتوں کے لیے مزید حقوق اور مواقع کا مطالبہ
3 ۔
مختلف برادریوں کو سیاسی اور سماجی عمل میں متحرک کر کے انہیں ایک مضبوط آواز بنانے کی کوششجرمنی میں آباد پاکستانی برادری کے لیے اپنے پیغام میں عمر کمال نے کہا: ''ہم یہیں جیئیں اور یہیں مریں گے تو اسے بہتر جگہ بنانے کی کوشش کریں۔ ہم سب کا مستقبل اسی ملک سے وابستہ ہے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اسے ایک ایسا معاشرہ بنائیں جہاں برابری، انصاف اور امن کا دور دورہ ہو۔
ہم سب کو چاہیے کہ اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوں، متحد ہوں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر ماحول اور مستقبل بنانے کی کوشش کریں۔‘‘عمر کمال نے چند مخصوص امور کی نشاندہی کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''کچھ جماعتیں مساجد اور اسلامی تنظیموں پر سخت کنٹرول کی حامی ہیں، جبکہ دیگر انہیں برابری کے مواقع دینے کے حق میں ہیں، جو براہ راست ہماری دینی آزادی پر اثر انداز ہوگا۔
اس کے علاوہ، جرمنی میں نسل پرستی اور دائیں بازو کے نظریات تیزی سے پھیل رہے ہیں، جو مہاجرین اور مسلمانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر پاکستانی کمیونٹی متحد ہو کر ووٹ ڈالے، تو وہ ایسی جماعتوں کو روک سکتی ہے جو مہاجرین اور اقلیتوں کے خلاف سخت پالیسیاں نافذ کرنا چاہتی ہیں۔‘‘عمر کمال کے بقول انتخابات، جرمنی میں پاکستانی برادری کے مستقبل کا تعین کریں گے۔
انہوں نے کہا، ’’اگر آپ کے پاس جرمن شہریت ہے، تو ووٹ ڈالنا آپ کا حق بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ ہمیں ایسی جماعتوں کا انتخاب کرنا ہوگا جو ہمارے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جرمنی کو ایک بہتر اور مساوی معاشرہ بنانے میں کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم متحد ہو کر اپنے مستقبل کے لیے صحیح فیصلہ کریں۔‘‘.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستانی تارکین وطن پاکستانی برادری عمر کمال نے کے لیے
پڑھیں:
اٹلی: برفانی تودے کی زد میں آکر جرمن کوہ پیماؤں سمیت پانچ افراد ہلاک، دو زخمی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
روم: اٹلی کے شمالی صوبے کے پہاڑی سلسلے میں جرمن کوہ پیماؤں کے دو مختلف گروپ برفانی تودے کی زد میں آگئے، جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق حادثہ تقریباً 3,200 سے 3,500 میٹر کی بلندی پر اُس وقت پیش آیا جب جرمن کوہ پیما ایک مشکل اور برف سے ڈھکے راستے پر چوٹی کی جانب بڑھ رہے تھے، اچانک گرنے والے برفانی تودے نے پہلے گروپ کے تین کوہ پیماؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جو گہری کھائی میں گرنے سے موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔
بعد ازاں دوسرے گروپ کے دو افراد، جن میں ایک والد اور اُس کی 17 سالہ بیٹی شامل تھے، تقریباً 200 میٹر نیچے پھسلنے یا بہہ جانے کے بعد مردہ حالت میں پائے گئے۔
ریسکیو ٹیموں، کیمپ اسٹاف اور ہیلی کاپٹر کے عملے نے فوری امدادی کارروائی شروع کی، تاہم خراب موسم، برف باری اور دشوار گزار بلندی کے باعث کارروائی میں کافی تاخیر ہوئی، اس دوران دو کوہ پیماؤں کو زندہ نکال لیا گیا، جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے اور ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق حادثہ ایسے وقت میں پیش آیا جب علاقے میں تازہ برف باری کے باعث زمین ناہموار اور غیر مستحکم ہوچکی تھی۔ ممکنہ طور پر درجہ حرارت میں اچانک تبدیلی اور موسمی عدم توازن نے برفانی تودہ گرنے میں کردار ادا کیا۔
اعداد و شمار کے مطابق اٹلی سمیت یورپ کے دیگر پہاڑی ممالک میں ہر سال اوسطاً 20 سے 22 افراد برفانی تودوں یا اسکی ماؤنٹیننگ حادثات میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں، اٹلی میں آف پِسٹ (off-piste) یا خطرناک ڈھلوانی راستوں پر ہونے والی اموات کی اوسط 21.6 فی سال ریکارڈ کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ 2025 کی گرمیوں میں اٹلی کے پہاڑی علاقوں میں ہائیکرز اور سیاحوں کی اموات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس پر ماہرین نے موسم کی غیر متوقع تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔