کیا برائلر چکن واقعی قوت مدافعت کم کرتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
مرغی کے گوشت کو پروٹین کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اس لیے برائلر چکن کا استعمال پوری دنیا میں تیزی سے بڑھا ہے، مگر ان برائلر مرغیوں کی نشوونما کے لیے استعمال ہونے والے اینٹی بائیوٹک کے بارے میں مختلف سوالات اور تحفظات پائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مرغیوں کو دی جانے والی اینٹی بائیوٹک کے انسانی صحت پر بھی اثرات ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:مکھنی چکن کڑاہی کس کی ایجاد، معاملہ عدالت پہنچ گیا
اس حوالے سے مزید جاننے کے لیے وی نیوز نے چند ماہرین سے بات کی اور اس مسئلے پر ان کی رائے معلوم کی۔
برائلر چکن میں اینٹی بائیوٹک کا استعمال کیسے ہوتا ہے؟برائلر چکن کی افزائش میں اینٹی بائیوٹک کا استعمال عام بات ہے، اس کا مقصد مرغیوں کومختلف بیماریوں سے محفوظ رکھنا اور ان کی نشوونما میں تیزی سے اضافہ ہے۔
واضح رہے کہ اینٹی بائیوٹک مرغیوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے ان کی خوراک میں شامل کیے جاتے ہیں، تاکہ مرغیاں بیماریوں سے بچی رہیں اور جلد سے جلد ان کی افزائش ہو۔
دوسری جانب کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اینٹی بائیوٹک کے استعمال سے مرغیوں کی صحت میں فوری طور پر بہتری آتی ہے، لیکن جب تک مرغی کی جسمانی ساخت مکمل نہیں ہوتی، یہ اینٹی بائیوٹک ان کے جسم میں موجود رہ سکتے ہیں۔
اینٹی بائیوٹک کا انسانی جسم پر اثرنیوٹریشنسٹ زین مغل نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وی نیوز کا بتایا کہ مرغیوں کی فیڈ میں 6 مختلف قسم کے اینٹی بائیوٹکس کا استعمال ہوتا ہے، تاکہ وہ تیزی سے نشوونما پا سکیں۔ لیکن جب ان کو اتنی زیادہ مقدار میں اینٹی بائیوٹکس دیے جاتے ہیں کہ اتنی مقدار نہ صرف مرغی کو بلکہ انسانی صحت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سردیوں میں انڈوں اور مرغی کے ریٹ میں بڑی کمی کی وجہ کیا؟
سب سے زیادہ خطرناک اینٹی بائیوٹکان کا مزید کہنا تھا کہ خاص طور پر جو اینٹی بائیوٹک ان کو پولٹری فارم سے دکانوں تک پہنچانے کے لیے دیے جاتے ہیں وہ سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہیں۔ کیونکہ ان اینٹی بائیوٹکس کا سائیکل ختم ہونے سے پہلے ان کو فروخت کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے اس مرغی کے گوشت میں اینٹی بائیوٹکس موجود رہتے ہیں۔ اور جب وہ اینٹی بائیوٹکس ہمارے جسم میں جاتے ہیں۔ تو یہ یقینی سی بات ہے ہمارے جسم میں بھی اینٹی بائیوٹکس کے اثرات خودبخود کم ہو جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اینٹی بائیوٹک کا سائیکل پورا ہو چکا ہو اور پھر برائلر چکن پکایا جائے تو اس میں موجود اینٹی بائیوٹک کی مقدار کافی حد تک نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں، کیونکہ پکانے کے دوران زیادہ تر اینٹی بائیوٹک ہیٹ کی وجہ سے غیر فعال ہو جاتے ہیں۔ تاہم، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی مقدار مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے۔ بعض صورتوں میں اینٹی بائیوٹک چکن کے گوشت میں موجود رہ سکتے ہیں اور انسانی جسم میں جذب ہو سکتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب چکن کو مکمل طور پر درست طریقے سے نہیں پکایا جاتا۔
بیکٹریا اور قوت مدافعتایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا اینٹی بائیوٹک کی کچھ مقدار چکن میں موجود رہتی ہے اور یہ انسان کے جسم میں جذب ہو سکتی ہے۔ اس کا اثر بہت کم ہوتا ہے، مگر لمبے عرصے تک یہ اینٹی بائیوٹک مزاحمت پیدا کر سکتے ہیں، جو صحت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ اسی لیے کہا بھی جاتا ہے کہ اینٹی بائیوٹک کا زیادہ استعمال انسانوں میں بیکٹریا کے خلاف مدافعت کم کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں دواؤں کا اثر کم ہو جاتا ہے، اور بیکٹریا اینٹی بائیوٹک کا مقابلہ کرنے کے قابل بن جاتے ہیں۔ اس لیے برائلر مرغی کا زیادہ استعمال انسانی صحت کے لیے مفید نہیں سمجھا جاتا۔
پاکستان میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت (Antibiotic Resistance) ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ جب اینٹی بائیوٹک کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، تو بیکٹریا ان ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں، جس کے باعث مستقبل میں ان بیکٹریا کے خلاف علاج کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحتواضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے بھی اس مسئلے کو عالمی سطح پر سنگین قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اینٹی بائیوٹک کا استعمال اعتدال میں ہو اور اس پر قابو پایا جائے۔
یہ بھی پڑھیں:سفید چکن کڑاہی دیکھنے میں مختلف، پر ذائقے میں نہایت لذیذ
ڈاکٹرز کا ذاتی مفادحالیہ رپورٹ میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مریضوں کو اینٹی مائیکروبائل ریزسٹینس (AMR) کے ’سنگین‘ خطرے کا سامنا ہے۔ کیونکہ ڈاکٹرز کی جانب سے ذاتی مفاد کے لیے مریضوں کو اندھا دھند اینٹی بائیوٹکس دیے جاتی ہیں۔
چکن کے زیادہ استعمال کے اثراتماہر غذائیت ڈاکٹر حرمت عامر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ برائلر چکن میں اینٹی بائیوٹک کا مسئلہ صرف ایک پہلو ہے۔ چکن کے زیادہ استعمال کے دیگر پہلو بھی اہم ہیں۔ چکن پروٹین کا اچھا ذریعہ ہے، لیکن اس میں چربی اور کیلوریز کی مقدار بھی کافی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر چکن زیادہ کھایا جائے تو یہ وزن میں اضافے اور دیگر صحت کے مسائل جیسے کہ دل کی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چکن کا استعمال متوازن طریقے سے کرنا چاہیے تاکہ اس کے فوائد حاصل کیے جا سکیں اور نقصان سے بچا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:اصلی دیسی انڈے کی پہچان کیا ہے؟
ڈاکٹر حرمت عامر کے مطابق برائلر چکن بہت سے اینٹی بائیوٹکس کے ساتھ پروان چڑھتی ہے۔ اور ان کو یہ دیے ہی اس لیے جاتے ہیں تاکہ پراڈکشن کو تیز کیا جائے۔ اور زیادہ سے زیادہ مرغیوں کی افزائش کر کے انہیں فروخت کیا جائے۔ لیکن وہ اینٹی بائیوٹکس کی کچھ نہ کچھ مقدار ان مرغیوں میں باقی رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے اینٹی بائیوٹکس کے اثرات انسانی جسم میں کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چکن کے استعمال کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اپنانا ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ چکن کو اچھی طرح پکایا جائے تاکہ اس میں موجود کسی بھی قسم کے بیکٹریا یا اینٹی بائیوٹک کا اثر ختم ہو جائے۔ اس کے علاوہ، چکن کے بہت زیادہ استعمال سے گریز کرنا اور متوازن غذا کا حصہ بنانا بھی ضروری ہے۔ اگر چکن بہت زیادہ پسند ہے تو خود مرغیاں لے کر پال لینا زیادہ بہتر ہے۔ اس کے علاوہ، بعض فارموں میں مرغیوں کو صرف قدرتی طریقوں سے صحت مند رکھا جاتا ہے اور ان کی افزائش میں اینٹی بائیوٹک کا استعمال بہت کم یا پھر نہیں کیا جاتا۔ جو صحت کے لیے بہترین غذا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اینٹی بائیوٹک برائلس چکن بیکٹریا اور قوت مدافعت ڈاکٹر حرمت عامر نیوٹریشنسٹ زین مغل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اینٹی بائیوٹک برائلس چکن ڈاکٹر حرمت عامر نیوٹریشنسٹ زین مغل ان کا کہنا تھا زیادہ استعمال کہنا تھا کہ استعمال کے برائلر چکن مرغیوں کی کی افزائش مرغیوں کو سکتے ہیں جاتے ہیں حوالے سے کے خلاف جاتا ہے صحت کے چکن کے اور ان اس لیے کے لیے
پڑھیں:
کشمیری نوجوانوں میں نشے کا بڑھتا ہوا استعمال
ریاض احمدچودھری
کشمیری نوجوانوں میں منشیات کا استعمال بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ اگر اس کا تدراک بروقت نہ کیا گیا تو مستقبل قریب میں اس کا اثر پورے سماج کو دیکھنا پڑے گا۔ اور بعد میں ہمیں پچھتانے کے سوا کچھ حاصل نہیں پو گا۔نوجوانوں میں منشیات کا اثر اس قدر سرایت کرچکا ہے کہ کشمیر میں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو افیون۔ چرس۔ ہیروئین۔ کوکین۔ بھنگ۔ براؤن شوگر۔گوند۔رنگ پتلا کرنے والے محلول اور دوسرے معلوم اور نامعلوم نشہ آور مرکبات استعمال کرنے کے نتیجے میں جسمانی نفسیاتی اور جذباتی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ ایسے نوجوانوں کی تعدادبھی کثرت سے ملتی ہیں جو فارما سیوٹیکل ادویات کو بھی اب نشے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔اور یہ عمل دوسری ادویات یا منشیات استعمال کرنے سے زیادہ خطرناک ہے۔
کشمیر کے بعض علاقوںمیں جان بوجھ کروہاں کی نوجواں نسل کوبربادکرنے کے لئے بھارتی فورسز منشیات کے پھیلائوکا حربہ استعمال کر رہی ہیں تاکہ نوجوان نسل کومنشیات کی لت پڑے اوروہ اسی میں لگے رہیںانہیں اپنی اوراپنے قوم کی فکر دامن گیر نہ رہے اوروہ اس طرف دیکھنے یاسوچنے کے قابل نہ رہیں۔اس کے ساتھ ساتھ بعض علاقوں میںحالات کا جبر،بڑھتی ہوئی بے روزگاری اورروزافزوں مہنگائی بھی اس کا باعث بن رہی ہے،جبکہ منشیات کے استعمال کی ایک اہم اور بنیادی وجہ دین سے دوری اورتعلیمات دین پرمشتمل نسخہ ہائے کیمیاسے اجتناب اور نشہ آور اشیا کے استعمال کے نقصانات اور وعیدوں سے بے خبری ہے۔ لیکن سب سے افسوس سناک امریہ ہے کہ اس وقت منشیات کے استعمال کے بارے میں ہم بعض افسوس ناک مخمصوں میں مبتلا ہیں۔کشمیر پولیس کاکہنا ہے کہ وادی کشمیر میں حریت مجاہدین کی جانب سے منشیات کو فروغ دیا جارہا ہے۔جبکہ مجاہدین نے الزام پولیس پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری ایجنسیاں کشمیری نوجوانوں کو ایک ”خاص مقصد سے” منشیات کا عادی بنانا چاہتی ہیں۔حالیہ دنوں میں پولیس نے منشیات اسمگلروں کے کئی گروہوں کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ان کے تار مجاہدین کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں تک کی ہیں تاہم شمالی کشمیر کی ایک نامور کراٹے چیمپئن کا یہ الزام بھی تازہ ہے کہ پولس اور منشیات اسمگلروں کا ساز باز ہے۔ مذکورہ نے پولیس پر ان کے چھوٹے بھائی کو منشیات کا عادی بنانے والے مجرموں کو تحفظ دینے تک کا الزام لگایا ہے۔غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے 22لاکھ کشمیری نوجوانوں کی بے روزگاری اور منشیات کے بڑھتے ہوئے بحران پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کے لئے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی زیر قیادت قابض انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
میرواعظ نے اسلامیہ ہائر سیکنڈری سکول سرینگر میں” منشیات سے پاک کشمیر کی تعمیر:طلباء اور معاشرے کا کردار ”کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تقریبا 22 لاکھ کشمیری نوجوان جو 18سے 35سال کی عمرکے گروپ کا تقریبا ایک تہائی ہیں، بے روزگار ہیں۔ طبی اعداد و شمار اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تقریبا 11% نوجوان ٹراماڈول اور ہیروئن جیسی منشیات کی لت میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نشہ آور اشیا کا استعمال اب محض تشویش کا باعث نہیں رہا بلکہ یہ ایک مکمل بحران میں تبدیل ہو چکا ہے جو کشمیری نوجوانوں کی زندگیوں اور مستقبل کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔
میرواعظ کا کہنا تھا کہ جہاں اس کی روک تھام کے لئے ائمہ مساجد، علمائے کرام، سول سوسائٹی کے ارکان اور خاندانوں کی کوششیں اہم ہیں، وہیں بنیادی ذمہ داری قابض انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی سماجی تباہی کے باوجود ایک مربوط اور فوری پالیسی ردعمل کی عدم موجودگی سے سنگین حکومتی غفلت کی عکاسی ہوتی ہے۔انہوں نے علاقے میں خاص طور پر سیاحت کے فروغ کی آڑ میں شراب کی آسان دستیابی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
حریت رہنما بھی اس معاملے پر آواز بلند کر چکے ہیں کہ کشمیری نوجوانوں کو تباہ کرنے کے لئے وادی میں سرکاری سرپرستی میں بے دریغ منشیات پھیلائی جا رہی ہے۔یہ منشیات فوجی کیمپوں کے ذریعے پھیلائی جاتی ہے۔دوسری جانب بھارتی فوج اور پولیس ڈھٹائی کے ساتھ منشیات کا الزام پاکستان پر عائد کر دیتی ہے اور کہتی ہے کہ پاکستان عسکریت پسندوں کی مدد منشیات کے ذریعے کر رہا ہے۔شورش اور سماج میں بے چینی کا نشے کی لت کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ پچھلی تین دہائیوں سے شورش زدہ کشمیر میں نہ صرف ذہنی امراض میں اضافہ ہوا ہے بلکہ نشہ آور ادویات کے استعمال میں بھی بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ آئے دن سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن، تلاشی آپریشنز اور اپنے ہی گھر میں ان کی طرف سے بے عزت ہونے کا غم کشمیریوں بلکہ خاص طور پر نوجوان طبقے کو نشے کی طرف دھکیل رہا ہے۔باقی کسر بھارتی فوجی منشیات فراہم کر کے پوری کر دیتے ہیں۔وادی کشمیر میں آج اسی قوم کے جوانوں کو منشیات کا عادی بنایا جارہا ہے جن پر ہماری امیدیں وآبستہ تھیں کہ کل کو یہ جوان ہماری قوم کے قائد بنیں گے۔ مگر یہ نوجوان منشیات کی لت میں اس طرح پھنس گئے ہیں کہ کسی کو بھی نہیں معلوم کہ یہ کب اور کس جگہ نشے کی حالت میں اپنی جان گنوا بیٹھیں گے۔