WE News:
2025-09-19@06:39:32 GMT

پاکستانی ٹیم کا ’فاسٹ اینڈ فیورس‘ انداز میں کم بیک

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ unpredictable ہے، یعنی اس کے بارے میں کوئی بات بھی یقین سے نہیں کی جاسکتی، مگر آج قومی ٹیم نے خود پر لگے اس داغ کو دھو ڈالا۔

بھارت کے خلاف میچ سے قبل شاید ہی کوئی پاکستانی تھا جو یہ سوچ رہا تھا کہ آج قومی ٹیم جیتے گی، اور دیکھیے ان امیدوں پر پورا اترتے ہوئے ہم میچ ہار گئے اور ’فاسٹ اینڈ فیورس‘ انداز میں تیزی سے کم بیک ہوگیا اور کل تک ٹیم واپس گھر بھی آجائے گی۔ امید ہے کہ آج قومی ٹیم نے اپنا آخری میچ کھیلا ہے کیونکہ 27 تاریخ کو بنگلہ دیش کے خلاف میچ بارش سے متاثر ہونے کا امکان ہے۔

اس میچ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ کسی ایک لمحے بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ پاکستانی ٹیم یہ میچ جیت سکتی ہے، ورنہ شائقین کرکٹ کو یہ شکایت رہتی تھی کہ یہ لوگ تو ہارٹ فیل کروائیں گے، مگر دیکھیے نہ کوئی امید دلائی نہ دل کو کسی قسم کی پریشانی ہوئی۔ سب اطمینان اور سکون سے ہوگیا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے نظام میں ایک خرابی ہوگئی ہے جس کی نشاندہی اب ہر میچ میں ہورہی ہے۔ بنیادی طور پر ہمارے بیٹسمینوں کو رن مشین ہونا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے یہ والا کام اب بولرز کررہے ہیں۔ آج کے میچ میں بھی اگر دیکھیں تو شاہین شاہ آفریدی نے 8 اوورز میں 9.

25 کے حساب سے 74 رنز دیے جبکہ حارث رؤف نے 7 اوورز میں 7.42 کے اعتبار سے 52 رنز دیے۔

ماضی میں یہی بولنگ لائن اپ تھی جس کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ اگر بلے باز انہیں 200 رنز بھی دے دیں تو میچ میں جیت یقینی ہے مگر اب تلوں میں تیل نہیں رہا۔

لیکن اگر بولرز ہمارے سیر ہیں اور بیٹسمین سوا سیر، ہمارے بیٹسمین رنز بنانے سے ایسے گھبراتے ہیں جیسے ہر رن پر حکومتِ پاکستان کی جانب سے ان پر ٹیکس لاگو کیا جائے گا۔ نیوزی لیںڈ کے خلاف انہوں نے 300 میں سے 161 گیندوں پر کوئی رن نہیں بنایا تو آج بھارت کے خلاف 147 گیندوں پر بیٹ خاموش رہا۔ یعنی ڈاٹ بال کھیلنا اب شوق سے بڑھ کر عادت بن گئی ہے۔

ویسے میچ کا نتیجہ اسی وقت سمجھ آگیا تھا جب ٹاس جیتنے کے بعد کپتان محمد رضوان نے یہ بات کہی تھی کہ ہم کوشش کریں گے کہ جیسی پرفارمنس ہم نے پہلے دی ہے اب بھی ویسی ہی دیں۔ یہ بنیادی طور پر پوری قوم کے لیے اعلان تھا کہ ’جاگتے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا‘۔

لیکن ٹیم کو اس شکست کے باوجود ڈانٹ نہ پڑنے کا یقین گزشتہ روز اسی وقت ہوگیا تھا جب چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) محسن نقوی نے ٹیم سے ملاقات کی اور پیغام دیا کہ آپ نے پریشان نہیں ہونا، آپ جیتیں یا ہاریں، ہم آپ کے ساتھ ہیں، تو جب گھر کا بڑا اتنا اچھا، نرم اور رحم دل ہو تو پھر بچوں کو اپنی غلطیوں سے گھبرانے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔

محسن نقوی کا نام آتے ہی مجھے وہ مشہور و معروف سرجری یاد آگئی جو ٹی20 ورلڈ کپ کے بعد ہونی تھی، اور اس کا صرف اعلان نہیں ہوا بلکہ اس پر عمل بھی ہوا۔ یہی تو وہ سرجری تھی جس کے بعد کپتان سے لے کر ٹیم انتظامیہ تک سب تبدیل ہوگئے، ہاں اگر نتائج تبدیل نہیں ہوئے تو کیا ہوا، یہ کام اتنا ضروری بھی نہیں تھا۔

اس شکست کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم ایونٹ سے باہر ہوگئی ہے، بس باقاعدہ اعلان باقی ہے، اور یہ اعلان بھی نیوزی لینڈ بمقابلہ بنگلہ دیش میچ کے فوری بعد ہوجائے گا کیونکہ نیوزی لیںڈ کا وہ میچ ہارنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا مشکل پاکستان کا سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنا ہے۔

ویسے پی سی بی کو آئی سی سی کی اس سازش کا فوری ایکشن لینا چاہیے کہ انہوں نے ایسا شیڈول کیوں بنایا جس کے بعد ہم اس ایونٹ سے باہر ہونے والی پہلی ٹیم بن گئے؟ ٹھیک ہے ہمیں باہر تو نکلنا تھا مگر سب سے پہلے نکلنا کچھ بُرا لگا، میزبان ٹیم کے ساتھ کم از کم یہ تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔

پاکستانی ٹیم نے آج ایک بار پھر ویرات کوہلی کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی فارم حاصل کرلیں۔ ویرات کوہلی نے آخری سینچری 2023 ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے خلاف بنائی تھی، اس کے بعد 8 ون ڈے میچ کھیلے مگر سینچری اسکور نہ ہوسکی۔ مگر جس لمحے کا انتظار کوہلی کو 2 سال سے تھا وہ آج پاکستان نے دے دیا اور یوں انہوں نے ایک روزہ کرکٹ کی 51ویں سینچری مکمل کرلی۔

چیمپیئنز ٹرافی سے باہر ہونے کے بعد آئیے ایک اور نئی سرجری کی خبر کا انتظار کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں اس بار کن کھلاڑیوں کا قصہ تمام ہوتا ہے، اور کونسا کھلاڑی بغیر کچھ پرفارم کیے ایک بار پھر ٹیم کا حصہ بن جاتا ہے۔

اس شکست کے بعد ایک مرتبہ پھر ہمیں ملکی اور غیر ملکی کوچ کی بحث سننے کو ملے گی، ایک بار پھر کہا جائے گا کہ ماضی کو بھلا کر ہمیں آگے بڑھنا چاہیے، غرض یہ ایسا زبردست مشغلہ ہے، جو ہر کچھ عرصے ہمارے حصے میں آتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فہیم پٹیل

گزشتہ 15 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس وقت وی نیوز میں بطور نیوز ایڈیٹر منسلک ہیں۔

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان کرکٹ کے خلاف کے بعد

پڑھیں:

پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوا، تو دونوں ممالک ایک دوسرے کی کس کس طرح مدد کر سکیں گے؟ مثلاﹰ پاکستان کی بھارت کے ساتھ پرانی رقابت ہے، تو کیا بھارت کی طرف سے کسی ممکنہ حملے کی صورت میں سعودی عرب بھی اپنی افواج کو پاکستان بھیجے گا؟ اس کے علاوہ، کیا یہ معاہدہ خلیج کے خطے میں موجودہ کشیدگی کے تناطر میں کیا گیا ہے؟

پس منظر سے متعلق بڑھتی غیر یقینی صورتحال

خلیج کا خطہ اس وقت کئی محاذوں پر کشیدگی کا شکار ہے۔

ایک جانب غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں تو دوسری طرف اسرائیل نے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

ماہرین کے مطابق قطر پر اسرائیل کے حالیہ فضائی حملے کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ کئی خلیجی ممالک، جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے، نے ماضی میں اپنی سکیورٹی کے لیے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کیا ہے۔

لیکن حالیہ واقعات نے اس اعتماد کو کمزور کر دیا ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں، ''امریکہ کی سکیورٹی گارنٹی اب وہ حیثیت نہیں رکھتی جو ماضی میں تھی، قطر پر اسرائیلی حملے اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی موجودگی کے باوجود خطہ مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ ایسے میں سعودی عرب کو خطے کے اندر نئے اتحادی تلاش کرنا پڑ رہے ہیں، اور پاکستان اس عمل میں سب سے نمایاں ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔

‘‘

ان کے مطابق اس کی ایک وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بھی ہے، جس میں پاکستان کی کارکردگی نے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔

ڈاکٹر قندیل عباس کا مزید کہنا تھا کہ خلیجی ممالک نے آپس میں گلف کوآپریشن کونسل کے تحت بھی ایک دوسرے کی حفاظت کے معاہدے کر رکھے ہیں، لیکن قطر پر حملے کے بعد سبھی ممالک اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئے۔

ڈاکٹر قندیل عباس کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملہ خلیجی ریاستوں کی نظر میں امریکی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں تھا اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئیں۔ معاہدے میں پاکستان کا کردار اور افادیت

تجزیہ کاروں کے مطابق کسی بھی جنگ کی صورت میں اس معاہدے کے تحت زیادہ نمایاں کردار پاکستان ہی کو ادا کرنا پڑے گا کیونکہ سعودی عرب جنگ لڑنے کی ویسی صلاحیت نہیں رکھتا جیسی پاکستان کے پاس ہے۔

جیو پولیٹیکل تجزیہ کار کاشف مرزا کہتے ہیں کہ ایک طرح سے اگر کوئی جنگ لڑنا پڑے، تو وہ پاکستان کو ہی لڑنا پڑے گی کیونکہ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ خلیجی ممالک تمام تر وسائل ہونے کے باوجود کوئی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

کاشف مرزا کے بقول، ''پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کو ایک طرح سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنی حفاظت کے لیے پاکستان کی خدمات لی ہیں۔

‘‘ لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھی بہرحال اس سے کافی فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ کوئی بھی ایسا معاہدہ مالی تعاون کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یقیناﹰ سعودی عرب پاکستان میں دفاع اور دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ''اب ان امکانات سے کیسے مستفید ہونا ہے، اس کا انحصار پاکستان پر ہو گا۔‘‘ ماضی میں بھی پاکستان نے سعودی عرب کا دفاع کیا؟

دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی شراکت داری کوئی نئی بات نہیں۔

سعودی افواج کے سینکڑوں افسران نے پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کے مطابق ماضی میں پاکستانی بریگیڈز سعودی عرب میں تعینات رہی ہیں۔ لیکن اس معاہدے نے اس تعلق کو ایک نئی جہت دے دی ہے، جس میں نہ صرف خطرات کے خلاف ردعمل بلکہ ایک مشترکہ حکمت عملی اور اس کا طریقہ کار بھی شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاملے میں بھارت اور اسرائیل کو مشترکہ خطرہ سمجھا جائے گا۔

لیکن بالخصوص اس وقت تو کوئی بھی ''خود کو اسرائیل سے محفوظ‘‘ نہیں سمجھ رہا۔ ان کا کہنا تھا، ''اس معاہدے کا تناظر صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے ایران پر حملوں اور اس کے بعد اسرائیل کے قطر پر حالیہ حملے کو بھی اس معاہدے کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ فوجی طاقت اور دفاعی ساز و سامان رکھنے کے باوجود قطر اسرائیل کو خود پر حملہ کرنے سے نہ روک سکا۔

‘‘

میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کہتے ہیں، ''یہ معاہدہ پاکستان کے لیے معاشی فوائد بھی لا سکتا ہے۔ سعودی عرب دفاعی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرے گا، جس سے پاکستان کو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی ملے گی بلکہ اپنی دفاعی صنعت کو بہتر بنانے کا بھی موقع ملے گا۔‘‘

پاکستان کے لیے ممکنہ مشکلات

عالمی امور کے ماہر سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

بھارت اور اسرائیل تو سعودی عرب اور پاکستان کے اس باہمی تعاون کو تشویش کی نظر سے دیکھیں گے ہی، لیکن اس پر امریکہ اور ایران کا ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔

کاشف مرزا کہتے ہیں کہ پاکستان گو کہ اس معاہدے کو سعودی عرب کے ساتھ کثیر الجہتی دفاعی تعاون کو مستحکم کرنے، مشترکہ تربیت اور دفاعی پیداوار کے ذریعے ممکنہ طور پر تعاون کو وسعت دینے کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن یہ مختلف ممالک کے بدلے ہوئے اتحاد کی عکاسی بھی کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''معاہدے کی زبان امریکہ میں تفکر کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پاکستان کے لیے سعودی عرب کی علاقائی دشمنیوں کا حصہ بننے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ ممکنہ اسرائیلی کارروائیوں کی روک تھام اس معاہدے کے تحت غیر واضح ہے۔ اس لیے کہ جب ہم اسرائیل کی بات کرتے ہیں، تو اس میں امریکہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟
  • برطانوی اداکار نے جذباتی انداز میں فلسطین کیلئے نظم پڑھی، تقریب کے شرکا رو پڑے
  • افغان مہاجرین کا انخلا باوقار انداز میں مکمل کیا جائیگا، سرفراز بگٹی
  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • افغانستان کرکٹ ٹیم کو دھچکا، فاسٹ بولر نوین الحق ایشیا کپ سے باہر ہوگئے
  • پاک سعودی تاریخی دفاعی معاہدے پر دستخط کے بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان وزیر اعظم شہباز شریف سے پرجوش انداز میں گلے ملے
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر نے عمرہ کی سعادت حاصل کرلی، سیلاب متاثرین کے لئے خصوصی دعائیں
  • پیرو نے ورلڈ کپ آف بریک فاسٹ کا دلچسپ مقابلہ جیت لیا، معمولی فرق سے وینزویلا کو شکست