پاکستانی ٹیم کا ’فاسٹ اینڈ فیورس‘ انداز میں کم بیک
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ unpredictable ہے، یعنی اس کے بارے میں کوئی بات بھی یقین سے نہیں کی جاسکتی، مگر آج قومی ٹیم نے خود پر لگے اس داغ کو دھو ڈالا۔
بھارت کے خلاف میچ سے قبل شاید ہی کوئی پاکستانی تھا جو یہ سوچ رہا تھا کہ آج قومی ٹیم جیتے گی، اور دیکھیے ان امیدوں پر پورا اترتے ہوئے ہم میچ ہار گئے اور ’فاسٹ اینڈ فیورس‘ انداز میں تیزی سے کم بیک ہوگیا اور کل تک ٹیم واپس گھر بھی آجائے گی۔ امید ہے کہ آج قومی ٹیم نے اپنا آخری میچ کھیلا ہے کیونکہ 27 تاریخ کو بنگلہ دیش کے خلاف میچ بارش سے متاثر ہونے کا امکان ہے۔
اس میچ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ کسی ایک لمحے بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ پاکستانی ٹیم یہ میچ جیت سکتی ہے، ورنہ شائقین کرکٹ کو یہ شکایت رہتی تھی کہ یہ لوگ تو ہارٹ فیل کروائیں گے، مگر دیکھیے نہ کوئی امید دلائی نہ دل کو کسی قسم کی پریشانی ہوئی۔ سب اطمینان اور سکون سے ہوگیا۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے نظام میں ایک خرابی ہوگئی ہے جس کی نشاندہی اب ہر میچ میں ہورہی ہے۔ بنیادی طور پر ہمارے بیٹسمینوں کو رن مشین ہونا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے یہ والا کام اب بولرز کررہے ہیں۔ آج کے میچ میں بھی اگر دیکھیں تو شاہین شاہ آفریدی نے 8 اوورز میں 9.
ماضی میں یہی بولنگ لائن اپ تھی جس کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ اگر بلے باز انہیں 200 رنز بھی دے دیں تو میچ میں جیت یقینی ہے مگر اب تلوں میں تیل نہیں رہا۔
لیکن اگر بولرز ہمارے سیر ہیں اور بیٹسمین سوا سیر، ہمارے بیٹسمین رنز بنانے سے ایسے گھبراتے ہیں جیسے ہر رن پر حکومتِ پاکستان کی جانب سے ان پر ٹیکس لاگو کیا جائے گا۔ نیوزی لیںڈ کے خلاف انہوں نے 300 میں سے 161 گیندوں پر کوئی رن نہیں بنایا تو آج بھارت کے خلاف 147 گیندوں پر بیٹ خاموش رہا۔ یعنی ڈاٹ بال کھیلنا اب شوق سے بڑھ کر عادت بن گئی ہے۔
ویسے میچ کا نتیجہ اسی وقت سمجھ آگیا تھا جب ٹاس جیتنے کے بعد کپتان محمد رضوان نے یہ بات کہی تھی کہ ہم کوشش کریں گے کہ جیسی پرفارمنس ہم نے پہلے دی ہے اب بھی ویسی ہی دیں۔ یہ بنیادی طور پر پوری قوم کے لیے اعلان تھا کہ ’جاگتے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا‘۔
لیکن ٹیم کو اس شکست کے باوجود ڈانٹ نہ پڑنے کا یقین گزشتہ روز اسی وقت ہوگیا تھا جب چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) محسن نقوی نے ٹیم سے ملاقات کی اور پیغام دیا کہ آپ نے پریشان نہیں ہونا، آپ جیتیں یا ہاریں، ہم آپ کے ساتھ ہیں، تو جب گھر کا بڑا اتنا اچھا، نرم اور رحم دل ہو تو پھر بچوں کو اپنی غلطیوں سے گھبرانے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔
محسن نقوی کا نام آتے ہی مجھے وہ مشہور و معروف سرجری یاد آگئی جو ٹی20 ورلڈ کپ کے بعد ہونی تھی، اور اس کا صرف اعلان نہیں ہوا بلکہ اس پر عمل بھی ہوا۔ یہی تو وہ سرجری تھی جس کے بعد کپتان سے لے کر ٹیم انتظامیہ تک سب تبدیل ہوگئے، ہاں اگر نتائج تبدیل نہیں ہوئے تو کیا ہوا، یہ کام اتنا ضروری بھی نہیں تھا۔
اس شکست کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم ایونٹ سے باہر ہوگئی ہے، بس باقاعدہ اعلان باقی ہے، اور یہ اعلان بھی نیوزی لینڈ بمقابلہ بنگلہ دیش میچ کے فوری بعد ہوجائے گا کیونکہ نیوزی لیںڈ کا وہ میچ ہارنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا مشکل پاکستان کا سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنا ہے۔
ویسے پی سی بی کو آئی سی سی کی اس سازش کا فوری ایکشن لینا چاہیے کہ انہوں نے ایسا شیڈول کیوں بنایا جس کے بعد ہم اس ایونٹ سے باہر ہونے والی پہلی ٹیم بن گئے؟ ٹھیک ہے ہمیں باہر تو نکلنا تھا مگر سب سے پہلے نکلنا کچھ بُرا لگا، میزبان ٹیم کے ساتھ کم از کم یہ تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔
پاکستانی ٹیم نے آج ایک بار پھر ویرات کوہلی کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی فارم حاصل کرلیں۔ ویرات کوہلی نے آخری سینچری 2023 ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے خلاف بنائی تھی، اس کے بعد 8 ون ڈے میچ کھیلے مگر سینچری اسکور نہ ہوسکی۔ مگر جس لمحے کا انتظار کوہلی کو 2 سال سے تھا وہ آج پاکستان نے دے دیا اور یوں انہوں نے ایک روزہ کرکٹ کی 51ویں سینچری مکمل کرلی۔
چیمپیئنز ٹرافی سے باہر ہونے کے بعد آئیے ایک اور نئی سرجری کی خبر کا انتظار کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں اس بار کن کھلاڑیوں کا قصہ تمام ہوتا ہے، اور کونسا کھلاڑی بغیر کچھ پرفارم کیے ایک بار پھر ٹیم کا حصہ بن جاتا ہے۔
اس شکست کے بعد ایک مرتبہ پھر ہمیں ملکی اور غیر ملکی کوچ کی بحث سننے کو ملے گی، ایک بار پھر کہا جائے گا کہ ماضی کو بھلا کر ہمیں آگے بڑھنا چاہیے، غرض یہ ایسا زبردست مشغلہ ہے، جو ہر کچھ عرصے ہمارے حصے میں آتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ 15 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس وقت وی نیوز میں بطور نیوز ایڈیٹر منسلک ہیں۔
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان کرکٹ کے خلاف کے بعد
پڑھیں:
پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی کے لیے صرف فلم سٹی کافی نہیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2025ء) ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی فلم انڈسٹری کی صورت حال پر قریب سے نظر رکھنے والے صحافی طاہر سرور میر نے صوبہ پنجاب میں ایک فلم سٹی بنانے کے اعلان کا خیر مقدم تو کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر جملہ سہولیات کی فراہمی کے باوجود مواد کی تخلیق میں آزادی کو یقینی نہ بنایا گیا، تو ملکی فلمی صنعت کی بحالی کا مقصد پورا نہیں ہو گا۔
لاہور میں نیشل کالج آف آرٹس کی اسما نامی ایک سابقہ طالبہ نے، جو ایک نوجوان فلم میکر بھی ہیں، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لوگ سینما گھروں میں اس لیے جاتے ہیں کہ وہ حقیقی دنیا سے کچھ دیر کے لیے دور ہو کر دلچسپ اور تفریحی فلمیں دیکھ سکیں۔
اسما کا کہنا تھا کہ اگر سینما گھروں میں بھی شائقین نے پراپیگنڈا ہی دیکھنا اور سننا ہے، تو پھر ایسی فلمیں دیکھنے کے لیے ٹکٹیں کون خریدے گا؟ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں کئی فلمیں معمولی غلط فہمیوں کی وجہ سے بھی طویل عرصے تک ریلیز نہ ہو سکیں، ''تو یہ ایسے معاملات ہیں، جن پر حکومت کو توجہ دینا چاہیے۔
(جاری ہے)
‘‘ عوام کو فلموں سے دور کن عوامل نے کیا؟طاہر سرور میر کہتے ہیں کہ پاکستان میں سابق فوجی حکمران ضیا الحق کے دور میں بھارتی اداکار شتروگھن سنہا ان کے گھر آتے جاتے رہے لیکن پاکستان میں فلم انڈسٹری پابندیوں ہی کا شکار رہی۔ اس کے علاوہ پاکستانی فلم انڈسٹری کو پابندیوں کے علاوہ دہشت گردی کا بھی سامنا کرنا پڑا، سینما گھروں میں بم دھماکے ہوتے رہے اور رہی سہی کسر ان کم تعلیم یافتہ لوگوں نے پوری کر دی، جو پاکستانی فلمی صنعت کا حصہ بن گئے تھے، ''ان عوامل کے باعث تخلیقی شخصیات اور عام شائقین فلموں سے دور ہوتے چلے گئے۔
‘‘آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں بیشتر روایتی سینما گھر اب شادی ہالوں، ورکشاپوں،پارکنگ ایریاز اور شو رومز میں بدل چکے ہیں۔ لاہور کے معروف گلستان سینما میں موجود اکرم نامی ایک شخص نے بتایا کہ پچھلے کئی ہفتوں سے یہ سینما بند ہے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ سینما دوبارہ کب کھلے گا۔ اسی طرح نغمہ سینما کے باہر موجود نثار نامی ایک شخص نے بتایا کہ وہاں سینما مستقل طور پر ختم ہو چکا ہے۔
کئی ماہرین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فلم سٹی جیسے منصوبے کو اگر افسر شاہی کے سپرد کر دیا گیا، یا اگر اسے اقربا پروری اور سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا، تو یہ صرف وسائل کے ضیاع کا باعث بنے گا۔
فلموں سے متعلق عمومی سوچ کی تبدیلی کی ضرورتاداکارہ جیا علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آرٹ، کلچر اور فلموں کے بارے میں ملکی اشرافیہ کو اپنی سوچ بدلنا ہو گی اور مقابلتاﹰ زیادہ بہتر طرز عمل اپنانا ہو گا۔
انہوں نے کہا، ''ہم نے اپنے سکولوں میں طلبا کو ڈرامہ، میوزک، ڈانس اور تھیٹر کی تربیت حاصل کرتے دیکھا تھا۔ اسی طرح آج بھی آرٹ کو اسکولوں میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے، تاکہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں سامنے آ سکیں۔‘‘ ان کے بقول آرٹ اور کلچر سے متعلق ملکی پالیسیوں کا دیرپا ہونا بھی ناگزیر ہے۔
کن فلمی میلہ: ٹرانس جینڈر سے متعلق پاکستانی فلم انعام کی حقدار
طاہر سرور میر سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی ریاست اور معاشرے کی ترجیح ہے ہی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں فلم کو بھی ابلاغ عامہ کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے، تاہم پاکستان میں فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد کو کمتر اور برا سمجھا جاتا ہے۔طاہر سرور میر کے بقول، ''پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے اس سیکٹر کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا۔ اسے عزت دینا ہو گی۔ اس شعبے کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔ دوسری طرف پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کو بھی ذمہ دارانہ طرز عمل اپنانا ہو گا۔
‘‘ ماضی میں فلمی شعبے سے متعلق کیے گئے اعلاناتصحافت کے سینئر استاد، پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کی فلمی صنعت کی بحالی کے کئی اعلانات ماضی میں بھی کیے گئے، لیکن ان کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔
انہوں نے کہا، ''اہم ترین بات تربیت یافتہ افرادی قوت کی عدم دستیابی ہے۔‘‘ ان کے بقول یونیورسٹیوں میں فلم اسٹڈیز پڑھانے والے خود فلم کی عملی تربیت سے عاری ہیں اور اسی لیے ان سے تعلیم حاصل کرنے والوں کو بھی کچھ نہیں آتا۔
‘‘لالی وڈ کا زوال: کراچی پاکستان فلم انڈسٹری کا مرکز کیسے بنا؟
پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر کے بقول پاکستانی معاشرے میں یہ غلط تاثر عام ہے کہ لوگ پیدائشی اداکار ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق فلم سازی ایک سنجیدہ کام ہے، جس کے لیے اداکاروں، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز سب کو اچھی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، ''پہلے لوگ اداکار بننے کی آرزو کرتے تھے۔
اب ہر کوئی پہلے ہی دن سے سپر سٹار بن جانا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ معیار کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتا۔‘‘ڈرامہ نگار اور اداکار افتخار احمد عثمانی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فلم سٹی کے قیام کا اعلان ایک اچھا اقدام ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ فلمی صنعت ''بےجا سرکاری پابندیوں میں جکڑی ہوئی نہیں ہونا چاہیے۔
‘‘ وفاقی وزارت کے پاس سو سے زائد فلموں کی تجاویزافتخار احمد عثمانی کے مطابق، ''اب تک میں نے خود جتنے بھی ڈرامے لکھے ہیں، ان میں ایک ڈرامہ نگار کے طور پر میرے اپنے اندر بھی ایک سنسرشپ تھی، کہ فلاں بات نہیں لکھنا چاہیے کیوں کہ وہ معاشرے کے لیے بہتر نہیں۔ آج بھی میں جو ویڈیوز بناتا ہوں، ان میں میری کوشش ہوتی ہے کہ اچھے اور مہذب الفاظ کا چناؤ کروں۔
یا پھر اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کر کے زیب داستاں کے لیے اسے اس قابل بنا دوں کہ اس ویڈیو کہانی کو بچے، بچیاں، بزرگ، سبھی دیکھ سکیں اور اس سے کچھ نہ کچھ سیکھ بھی سکیں۔‘‘پاکستانی فلمی صنعت: زوال کی گرد سے عروج کے چڑھتے سورج تک
پاکستان کی وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات میں فلم کے شعبے کے سربراہ جاوید میاں داد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فلمی صنعت کی بحالی کے لیے وفاقی حکومت کے پاس 107 فلموں کی تجاویز آئی ہوئی ہیں اور حکومت اگلے چند ہفتوں میں ان میں سے 50 کے قریب فلموں کی تجاویز منظور کر کے انہیں فلمیں بنانے کے لیے گرانٹ دے گی جو کہ زیادہ سے زیادہ پانچ کروڑ تک ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے صوبے میں پہلے فلم سٹی، فلم اسٹوڈیو، پوسٹ پروڈکشن لیب اور فلم اسکول کے قیام کی منظوری دے دی۔ ساتھ ہی فلموں کی تیاری کے لیے امدادی رقوم کی فراہمی کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔
ادارت: مقبول ملک