پنجابی کا محاورہ ہے ’’راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے‘‘مطلب یہ ہے کہ راستے کی مشکلات وہی جانتا جو اس راہ سے گزرتا ہے اور کوئی کتنا برا ہے یا اچھا ہے، اس کا پتہ بھی اسی وقت چلتا ہے جب اس کے ساتھ ’’واہ‘‘ یا واسطہ پڑ جاتا ہے۔ مجھے یہ محاورہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کی چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ ملاقات کی خبر پڑھ کر یاد آیا ہے۔
سنا ہے کہ یہ ملاقات دوگھنٹے تک جاری رہی جس میں شکایات کے انبار لگا دیے گئے۔ عمر ایوب ، شبلی فراز، بیرسٹر گوہر علی خان، علی ظفر، بیرسٹر سلمان اکرم راجہ، سردار لطیف کھوسہ، ڈاکٹر بابر اعوان ایلیٹ کلاس کے رکن ہیں، اقتدار کی غلام گردشیں ان کی جانی پہچانی ہیں بلکہ آج بھی انھی راہ داریوں میں گھومتے پھیرتے ہیں۔ اگر وہ اس ملک کے نچلے طبقے کے لوگ ہوتے تو کیا چیف جسٹس صاحب سے مل پاتے؟ کیا یہ بھی عجوبہ نہیں ہے کہ ہمہ مقتدر طبقے کے یہ ارکان اپنے ساتھ ناانصافی کی دہائی دے رہے ہیں، واویلہ کر رہے ہیں کہ انھیں جھوٹے مقدموں میں پھنسا دیا گیا ہے ۔
بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کے مقدمات کی سماعت کب ہونی ہے ، اس کی تاریخ تک نہیں بتائی جاتی ۔ عدالت کے حکم کو کوئی مانتا نہیں ہے، بانی پی ٹی آئی سے بچوں کی بات بھی نہیں کرائی جاتی۔ (بیچارہ) ہمارے کیسز نہیں لگ رہے ۔ انھوں نے دہائی دی ہے کہ ملک میں عملاً کوئی آئین یا قانون موجود نہیں،ایک آدمی کو ضمانت کے لیے ایک عدالت سے دوسری عدالت میں بھاگنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ ملک میں انسانی حقوق عملاً ختم ہو چکے ہیں ، نظام عدل کو مذاق بنا دیا گیا ہے، نظام عدل کو آلہ کارکے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی والوں کو اب پتہ چلا ہے کہ مقدمہ بازی کیا ہوتی ہے؟ پولیس کسے کہتے ہیں، عدالتیں، کچہری اور تاریخ اور پیشی کس بلا کا نام ہوتا ہے۔وکلا کلائنٹس کی کھال کیسے اتارتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ نواز شریف نے کہا تھا کہ مجھے تو اب پتہ چلا ہے کہ وکیل کتنی زیادہ فیسیں لیتے ہیں، اس وقت یار لوگوں نے سوشل میڈیا پر میمز کی بارش برسا دی تھی، پھر محترمہ علیمہ نے بھی وکلاء کی بھاری فیسوں کی بات کی تو کئی دل جلوں نے کہا کہ چلو! حقیقت کا پتہ تو چل گیا۔
جب یہ مصیبت دوسروں پر گزر رہی ہوتی ہے تو اس کا احساس نہیں ہوتا، جب کسی بے گناہ پر مقدمہ درج ہوتا ہے، تو اسے اور اس کے گھر والوں کوکس ذہنی اذیت اور خوف سے گزرنا پڑتا ہے ، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ پولیس، وکیل اور عدالتی عملہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے، اس کا احوال جاننے کے لیے کسی لمبی چوڑی سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اپنے ضلع کی عدالت میں چلے جائیں، اور وہاں خوار اور روتے ہوئے سائلین سے پوچھ لیں، سب کچھ عیاں ہو جائے گا۔
سیانے نصیحت کرتے ہیں،کبھی اونچا بول نہیں بولنا چاہیے، یعنی جب آپ بااختیار ہیں یا طاقتور ہیں تو کسی بے گناہ کے ساتھ ظلم نہ کرو، اقتدار اوردولت کے گھمنڈ میں آکر کبھی دوسروں کی توہین اور تذلیل نہ کرو،انھیں ’’ناچیز‘‘ نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ تاریخ کی کتابیں طاقتوروں کے انجام سے بھری پڑی ہیں ۔ بادشاہ گلیوں میں بھیک مانگتے رہے یا ان کے سر قلم کر دیے گئے ہیں۔ تاریخ کے صفحات دراصل بادشاہ ہوں، فاتحین اور قارونوں کا قبرستان ہیں یا عبرت کی کہانیاں ہیں۔ پنجاب کے دیہات میں لوگ دعا کرتے ہیں:
اﷲ تین مصیبتوں سے ویری دشمن کو بھی محفوظ رکھے۔
(1) اسپتال اور ڈاکٹر
(2) مقدمہ اور تھانہ
(3) وکیل اور عدالت
یہ باتیں ہمارے ہاں کا سچ ہے۔ یہ ہمارے سسٹم کا ظالم اور بھیانک چہرہ ہے۔ جو اس سسٹم کے چنگل میں پھنس گیا، یہ نظام اسے پیس کر رکھ دیتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی اور اس کے قریبی ساتھیوں نے پاکستان کے سسٹم کا یہ بھیانک چہرہ نہیں دیکھا تھا۔
یہ فلتیھی رچ (filthy rich) سوشلائٹ ایلیٹ کے رکن ہیں، جہاں ہر طرف خوشحالی ہے، کزنز، ماموں، چچا، سسر اور دیگر رشتہ داروں میں کوئی سیلبریٹی ہے، ایک چیف سیکریٹری ہے، کوئی کمشنر تعینات ہے، کوئی نامور وکلا ہے، کوئی جج ہے اور جنرل ہے، امریکا اور یورپ کے پاسپورٹس یا گرین کارڈز ہیں یعنی سارا سسٹم جیب میں ہے، خود ہی سسٹم ہیں اور خود ہی آپریٹر ہیں ۔ لیکن پھر وقت بدلتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سسٹم سہولتیں دیتا ہے، اختیار دیتا ہے، بے پناہ دولت دیتا ہے اور کوئی سوال بھی نہیں کرتا، یہ سسٹم ہی ہے جو نکمے کو اعلیٰ ترین ، نالائق کو لائق ترین ، لالچی کو سخی، کنجوس کو دریا دل اور بے ایمان کو ایماندار بنا دیتا ہے۔
یہ سسٹم ایسی بلا ہے جو اپنے آپ کو بچانے کے لیے اپنوں کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔جس نے چیلنج کیا، وہ کہیں کا نہیں رہا۔ پھر پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں طاقتور اور بااختیار کون ہے؟ یاد کریں ، وہ دن جب بانی پی ٹی آئی نے رعونت آمیز لہجے میں کہا تھا ’’میں فلاں قیدی کے کمرے میں لگے اے سی اتروا دوں گا۔‘‘ میں اس بارے میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس وقت بانی پی ٹی آئی اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں، جو پہلے ہی مشکل میں ہو، اس کے بارے میں کوئی تلخ بات کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ پی ٹی آئی والوں نے زندگی بھر سسٹم کی وہ شکل دیکھی تھی، جو بڑی مہذب تھی۔عمرایوب ہوں یا شاہ محمود قریشی، کس کی جرات ہے کہ انھیں آنکھ اٹھا کر دیکھ لے۔
وہ کسی کو جو مرضی کہہ دیں، سسٹم کے کان بند تھے۔ وہ خیراتی ادارے بنائیں، توشہ خانہ سے گھڑیاں لیں، دولت میں کھیلیں، سسٹم اندھا بنا رہا بلکہ ان پڑھ بن گیا۔ سیانے لوگ اس وقت بھی کہتے رہے ذرا سنبھل کر! ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور۔ سسٹم کے ساتھ چلیں تو سب اچھا ہے لیکن سسٹم کو آنکھیں دکھائیں گے تو نتیجہ بھگتنا پڑے گے۔ لیکن کیا کریں ’’اولیاں دا کھادا تے سیانا دا آکھایا‘‘ اس کا پتہ بعد میں چلتا ہے، لیکن پی ٹی آئی والوں نے کسی محاورے، کسی نصیحت اور کسی سچ کی پرواہ نہیں کی۔
آج وقت بدل گیا ہے، نظام غصے میں آ گیا ہے، اب پتہ چل گیا ہے کہ سسٹم کی آنکھیں بھی ہیں، کان بھی ہیں، دماغ بھی ہے ، تیز اور مضبوط دانت بھی ہیں جب کہ ہاتھ بھی لمبے ہیں۔ نافرمان اور گستاخ کے لیے یہ نظام بے رحم اور بے حس ہے۔ بقول چلبل پانڈے ’’جب میں غصے میں آ جاؤں تو پھر میں خود کی بھی نہیں سنتا۔‘‘ قارئین کو یاد ہو گا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو مقدمات کی تاریخ بھگتنے کیسے راولپنڈی سے لاہور اور پھر کراچی جایا کرتی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ سسٹم نے کیا کیا۔
میاں نواز شریف کو سسٹم نے ہائی جیکر بنا دیا، کرپٹ بنا دیا، آصف زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ قرار پائے۔ آج بانی پی ٹی آئی ’’گھڑی چور‘‘ کا خطاب پا چکے ہیں۔ جس طرح دل کسی کا دوست نہیں ہوتا، اسی طرح سسٹم بھی کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ سسٹم کو اوورہال کرنے کا سوچیں، یہ کام ہماری سیاسی قیادت کا ہے، ہماری پارلیمان کا ہے۔ یاد رکھیں جو لوگ اپنے تئیں آج سسٹم پر سواری کر رہے ہیں، کچھ بعید نہیں کہ کل کسی ایک غلطی کے نتیجے میں یہ سسٹم ان پر سوار ہو جائے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے بانی پی ٹی آئی آج کل سسٹم کی بے مہری کا شکار ہیں۔یہاں تک قلم پہنچا تو یہ شعر زبان پر آگیا۔
میں راہ دیکھتا رہا یاروں کی صبح تک
باصربھرے بھرائے میرے جام رہ گئے
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی ا کے ساتھ چلتا ہے دیتا ہے یہ سسٹم رہے ہیں گیا ہے کے لیے ہیں کر
پڑھیں:
تجدید وتجدّْ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-9
4
مفتی منیب الرحمن
اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔
معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔
ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔
قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔
اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔
ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔
(جاری)