Express News:
2025-11-05@02:45:21 GMT

ہم۔۔۔ پان کا پتا اورکتھا

اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT

پچھلے مہینے ہمارے میاں صاحب ایک دفتری دورے پر کراچی گئے، تو واپسی پر ہم سے پوچھا کہ آپ کے لیے کیا لاؤں؟ ہم نے جھٹ فرمائش جڑ دی کہ ’’پان دان۔۔۔!‘‘

انھیں حیرت ہوئی، لیکن اس سے خاص دل چسپی نہ ہونے کے باوجود انھوں نے منع نہیں کیا اور اگلے دن ’پان دان‘ ہمارے چَرنوں میں موجود تھا۔ دراصل ہم برس ہا برس سے ایک روایتی بھاری بھرکم ’پان دان‘ کے لیے ترس رہے تھے۔ ہم نے اس کی ملکیت کے لیے کئی بار قصداً خواب دیکھے اور کئی بار عملی کوششیں کیں۔ کئی نایاب چیزوں کے لیے معروف ’کباڑیے‘ بھی دیکھ لیے، لیکن ایک بھی کوشش بار آور ثابت نہ ہو سکی تھی، سو ہم نے کراچی میں مروّج پان دان پر اکتفا کرنے کا ارادہ کر لیا۔۔۔ کراچی میں اسٹیل کے ہلکے پھلکے پان دان انتہائی مناسب قیمت میں مل جاتے ہیں، کیوں کہ وہاں اب بھی علامتی طور پہ  بیٹیوں کو جہیز میں پان دان دینے کا رواج ہے۔ جس کی اگر  کیمرا ٹِرکس کے ساتھ تصویر لیجیے، تو یہ اپنے بھاری ہونے کا تاثر بھی دینے لگتے ہیں، سو، ہماری فرمائش پر کراچی سے یہ ’پان دان‘ آگیا۔

پڑھنے والے سوچتے ہوں گے کہ ہم پنجابی ہیں، تو ’پان دان‘ سے ہمارا تعلق کیسے بھلا۔۔۔؟ کچھ تعلق جذباتی لگاؤ  کے سبب بھی ہو جاتے ہیں، اس لیے پان اور ’پان دان‘ سے ہمارا لگاؤ قلبی اور بہت جذباتی سا ہے۔۔۔ ہمارے بچپن میں ابّا کی ایک چچی ہمارے گھر آیا کرتی تھیں، جنھیں ہم سب بہن بھائی ’غرارے والی دادی‘ کہتے تھے۔

وہ گرمیوں میں عام طور پر سفید خوب صورت گھیرے دار غرارے اور سفید دوپٹے پر گلاس نائیلون کی چوڑی بیل والے دوپٹے پہنتی تھیں اور شادی کی تقریبات میں بنارسی اور چٹا پٹی کے غرارے زیب تن فرماتیں۔ ہم نے مختلف شادیوں میں دو چار بار ہی انھیں دیکھا، جتنا دیکھا ویسا ہی یاد ہے۔

ان کے ساتھ ساتھ ان کا ’پان دان‘ بھی ہوتا تھا۔ ’غرارے والی دادی‘ بڑی خوش مزاج شخصیت کی مالک تھیں، پلنگ پر تکیہ لگا کے بیٹھتیں، اپنی ذات میں انجمن۔۔۔ ارد گرد مقناطیس کی سی کشش رکھتیں، ہر کوئی ان کی جانب کھنچا چلا آتا اور وہ مزے سے پورے ماحول کو اپنی گرفت میں کر لیا کرتیں، دن میں کئی بار چھوٹے چھوٹے خوش بودار پان بنا کے کھاتیں اور ساتھ بیٹھی ہوئی خواتین کے لیے بھی فرمائشی پان بنا بنا کر کھلاتیں۔ جیسے خوش بو دار پان ہوتے، بالکل ایسی ہی خوب صورت اور خوش بو دار گفتگو بھی کرتی تھیں۔۔۔ یوں لگتا جیسے ان کے ’پان دان‘ میں ہزاروں بے فکر اور خوش باش کہانیاں بند ہیں، جو ہر بار اس کا ڈھکنا کھولے جانے سے ایک نیا جنم لے لیتی ہیں۔

ان کا ’پان دان‘ منقش اور خوب بھاری سا تھا، گلٹ کا تھا یا چاندی کا۔ یہ تو ہمیں علم نہیں، لیکن اس ’پِِٹاری‘ کا ڈھکنا کھولتے ہی گردو پیش میں سونف، چھالیا اور الائچی اور کتھے جیسے پان کے بنیادی لوازمات کی ملی جلی محسور کُن خوش بو پھیل جاتی تھی۔ یہ ہمارا انتہائی کم سنی کا زمانہ تھا، لیکن ’غرارے والی دادی جان‘ کی مقناطیسی شخصیت یاد کے دھیان میں کامل مجسم رہی ہے۔ دراصل ابا کی چچی لکھنؤ سے تھیں اور لکھنوی تہذیب و ثقافت کی مکمل آئینہ دار تھیں۔

بیاہ کر وہ پنجاب آگئیں، ہمارے چھوٹے دادا ’بیوروکریٹ‘ تھے، جن کی اُس زمانے میں ہندوستان میں کہیں پوسٹنگ بھی ہوئی تھی، اب اُن کی شادی کیسے ہوئی۔۔۔؟ اس حوالے سے ہمارے خاندان کی تاریخ خاموش ہے، مگر پھر وہ  تمام زندگی پنڈی اور اسلام آباد میں رہیں۔ ان کی اولادیں بھی اب یہاں اسلام آباد میں ہی مقیم ہیں اور بہت سے کلیدی عہدوں پہ فائز ہیں۔

پان سے ہمارا دوسرا جذباتی لگاؤ اپنے ابّا کی وجہ سے ہے۔ ہمارے ابّا بھی پان کھاتے تھے۔ ہمیں اپنے ابّا سے بے پناہ محبت تھی، جب تک ابا گھر میں رہتے، ہم ان کے گرد ہی کسی پروانے کی طرح موجود رہتے۔ ابّا پان کھانے کا شوق رکھتے تھے، لیکن ہماری والدہ یہ پسند نہیں کرتی تھیں، سو جھوٹ موٹ ڈر کے وہ تھوڑی بہت احتیاط کرتے تھے۔ اس لیے ہمارے گھر میں ’پان دان‘ نہیں تھا، بس ’ڈھاکا پان ہاؤس‘ والا پانچ چھے پان کی گلوریاں بنا کے ایک لفافے میں ڈال کے ’چھوٹے‘ کے ہاتھ ہمارے گھر بھجوا دیتا تھا۔ کبھی کبھار یہ ’سروس‘ یعنی ’ہوم ڈیلیوری‘ شام کو بھی ہوتی تھی کہ ’’ابھی تازہ تازہ مال آیا ہے، اس لیے تازہ بھیج رہا ہوں۔۔!‘‘

مہینے کے مہینے اس کے پانوں کا حساب چُکتا کیا جاتا۔۔۔ ہمیں ابّا کے پان چبانے کا انداز بے حد پسند تھا، ایک بار پان کا لفافہ  انگیٹھی پہ ہی پڑا رہ گیا، ہوا یوں کہ ’پنواڑی‘ نے نئے پان بھیج دیے تھے، سو ہم نے انگیٹھی والا لفافہ اپنے قبضے میں کر لیا کہ ابّا تو بھول گئے ہیں، آج ہم بھی اپنے ابا کے ’اسٹائل‘ میں پان کھائیں گے۔ سو ہم نے ’پدرانہ انداز‘ میں ایک پان  اپنے کّلے میں دبا لیا، اس کے بعد یہ ہوا کہ یک دم سر چکرانے اور دل گھبرانے لگا، کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو ہم تازہ ہوا کے لیے ’ٹیوب ویل‘ کے حوض کنارے جا بیٹھے۔۔۔ لیکن یہاں گھومتے سر  اور چکروں کے اگلے پھیر میں ’غڑاپ‘ سے ’حوض برد‘ ہو گئے! وہ تو شکر ہے ایک ’کسان‘  وہیں موجود تھا، جس نے ہمیں بچا لیا ورنہ ہم نہ جانے کہاں جاتے۔۔۔ اس واقعے کے بعد والدہ ہم پر خوب ناراض ہوئی تھیں۔

اب کبھی ابّا کی یاد آئے، تو کبھی کبھی پان کے ہرے پتے کی خوش بو میں لپٹ کر یہ دو آتشہ ہو جاتی ہے۔ یہ ہمیں بے تحاشا بے چین بھی کر دیتی ہے۔ بس اسی بے چینی کے لیے ہی ہم نے یہ ’پان دان‘ منگوایا تھا۔۔۔ اس لیے کبھی کبھار منہ میں خوش ذائقہ پان رکھ لیتے ہیں، کبھی باقاعدہ گلوری بنا بنا کے کھاتے ہیں اور اپنا بھولا بِسرا بچپن یاد کر لیتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو پان کھانے کے آداب ہمیں معلوم نہیں ہیں، ہم تو مُنّا سا پان محبت سے  بنا کے تمیز سے کھا جاتے ہیں۔ ویسے بہت سے پان ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کے لیے باقاعدہ ’اگال دان‘ کا اہتمام ہوتا ہے، جس پر کسی ناواقف نے کیا سادہ  تبصرہ کیا تھا کہ ’یہ لوگ تو تھوکتے بھی ’برتن‘ میں ہیں۔‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پان دان بھی ہو بنا کے اس لیے کے لیے

پڑھیں:

ہمارے ٹاؤن چیئرمینوں کی کارکردگی قابض میئر سے کہیں زیادہ بہترہے ، حافظ نعیم الرحمن

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-01-24
کراچی (اسٹاف رپورٹر)امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ہمارے 9ٹاؤنز چیئرمینوں کی کارکردگی قابض میئر کی کارکردگی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہے، ہم تو چاہتے ہیں کہ تعلیم،صحت، عوامی خدمت اور تعمیر وترقی میں مقابلہ ہولیکن پیپلزپارٹی کا ان کاموں سے کوئی تعلق نہیں، کراچی کے اداروں اور وسائل پر قابض صوبائی حکومت نے کراچی کو صرف کھانے کمانے اور مال بنانے کا ذریعہ بنارکھا ہے، وسائل تو لیتی ہے لیکن مسائل حل نہیں کرتی،اختیارات و وسائل کی کمی کے باوجود ہمارے تمام ٹاؤنز میں تعمیر وترقی کا سفر شروع ہوچکا ہے، ہمارا عزم ہے کہ اختیارات سے بڑھ کر عوامی خدمت کا عمل جاری رکھیں گے،پیپلزپارٹی رکاوٹیں ڈالنے کے بجائے ٹاؤن،یوسیز کو فنڈز دے، فارم 47والی حکومت اور قبضہ میئر شپ کو تسلیم نہیں کرتے، کراچی کے ترقیاتی منصوبے تو شروع ہوجاتے ہیں لیکن مکمل ہونے کا نام نہیں لیتے، ریڈ لائن کے نام پر پوری یونیورسٹی روڈ کو کھود کر رکھ دیا ہے، کریم آباد انڈر پاس اور گرین لائن کا بقیہ حصہ مکمل نہیں کیا جارہا،انفرااسٹرکچر تباہ حال، سڑکیں ٹوٹی پھوٹی لیکن ای چالان کے نام پر اہل کراچی کے جیبوں پر ڈاکا ڈالا جارہا ہے، کراچی کو لوٹنے و تباہ و برباد کرنے والا وڈیرہ شاہی مائنڈ سیٹ اب مزید نہیں چلے گا،سسٹم کو اب خیرآباد کہنے کا وقت آگیا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ٹی ایم سی نارتھ ناظم آباد کے تحت پارک بارہ دری بلاک Aمیں نارتھ ناظم آباد کے عوام کے لیے تکمیل شدہ اور آئندہ کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے منعقدہ تقریب و پریس بریفنگ اور ٹی ایم سی نیو کراچی کے تحت پاور ہاؤس چورنگی سے نیو کراچی نمبر 3تک نئی تعمیر شدہ سڑک کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔حافظ نعیم الرحمن نے نارتھ ناظم آباد ٹاؤن کے آئندہ کے منصوبوں کے حوالے سے تختی کی نقاب کشائی بھی کی اور نیو کراچی میں معروف نعت گو شاعر اعجاز رحمانی کے نام سے منسوب سڑکوں کا افتتاح کیا۔ تقریب سے امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان،امیر ضلع شمالی طارق مجتبیٰ، ٹاؤن چیئرمین نیو کراچی ٹاؤن محمد یوسف ودیگر نے بھی خطاب کیا۔اس موقع پر نائب امیر کراچی و اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈووکیٹ، سیکرٹری کراچی توفیق الدین صدیقی، سینئر ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات صہیب احمد ودیگر بھی موجود تھے۔نارتھ ناظم آباد ٹاؤن کے چیئرمین عاطف علی خان نے صحافیوں کو پریس بریفنگ دی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی ضلع وسطی کے امیرسید وجیہ حسن، وائس چیئرمین ضیا جامعی،سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری سمیت ذمے داران اور علاقہ مکینوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔حافظ نعیم الرحمن نے ٹاؤن چیئرمین نارتھ ناظم آباد عاطف علی خان اور ٹاؤن چیئرمین نیو کراچی محمد یوسف اور ان کی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ مشکل حالات میں بھی انہوں نے منصوبہ بندی اور محنت سے اپنے اپنے ٹاؤنز میں ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا۔ اگلے چند مہینوں میں تمام گلیوں اور بلاکس میں ترقیاتی منصوبے مکمل کیے جائیں گے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کراچی کے عوام نے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی پر اعتماد کا اظہار کیا مگر سندھ حکومت نے اختیارات کی منتقلی میں رکاوٹیں ڈال کر جمہوریت کے اصولوں کی نفی کی، پیپلز پارٹی نے شہر کے تمام بلدیاتی اداروں کو مفلوج کر دیا ہے، یہاں تک کہ کچرا اٹھانے سے لے کر سڑکوں کی تعمیر تک کے اختیارات بھی ٹاؤنز کو نہیں دیے گئے، سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے نام پر اربوں روپے کی کرپشن جاری ہے جبکہ عوامی نمائندوں کو اختیارات سے محروم رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے 9 ٹاؤنز میں اب ترقی کا نیا دور شروع ہو گیا ہے۔ نارتھ ناظم آباد میں برسوں پرانے نکاسی آب کے مسائل حل کیے گئے ہیں، سڑکوں اور گلیوں کی کارپٹنگ،پارکس، اسکولز اور ڈسپنسریز کی بہتری بھی ترجیحی بنیادوں پر کی جا رہی ہے۔ نارتھ ناظم آباد کے سرکاری اسکولوں کو ماڈل اسکولوں میں تبدیل کیا جائے گا تاکہ متمول طبقہ بھی ان میں اپنے بچوں کو فخر سے داخل کروائے۔حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ کراچی کو 15 ہزار بسوں کی ضرورت ہے، مگر سندھ حکومت صرف چند سو بسیں لا کر عوام کو دھوکا دے رہی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث پورا شہر چنگ چی رکشوں اور موٹر سائیکل پر چل رہا ہے، خواتین،بزرگ اور طلبہ و طالبات روزانہ شدید اذیت کا شکار ہوتے ہیں،ای چالان کے نام پر شہریوں سے ہزاروں روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی خدمت و دیانت، تعمیر و ترقی اور عوامی حقوق کی جدوجہد کو ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ ہم حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’بنو قابل‘‘ پروگرام نوجوانوں کے لیے ایک انقلابی منصوبہ ہے، جو لاکھوں نوجوانوں کو باصلاحیت اور خود کفیل بنانے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کر رہا ہے۔ یہ پروگرام لسانی و علاقائی تفریق کے بغیر ملک بھر کے نوجوانوں کو ایک لڑی میں پرو رہا ہے۔حافظ نعیم الرحمن نے نیو کراچی میں نئی سڑک کی تعمیر و افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بے شمار ایسی چیزیں جو ٹاؤن کے ماتحت نہیں ہے، اس کے باوجود ہمارے ٹاؤن اپنے بجٹ سے کام کروارہے ہیں۔وہ کام جس کی براہ راست ذمے داری واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی ہے، وہ کام بھی ٹاؤن کی ٹیم کررہی ہے۔ جماعت اسلامی اس وقت شہر کراچی میں سب سے بڑی جماعت ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں کراچی کے عوام نے جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ ووٹ اور سیٹیں دیں۔ پیپلز پارٹی نے اسٹبلشمنٹ کی مدد سے جماعت اسلامی کی جیتی ہوئی نشستیں چھینی۔ ہمارے 4ٹاؤنز اور میئر شپ میں ڈاکا ڈالا،عوام کو آئندہ ہمیں ووٹ بھی بڑے پیمانے پر ڈالنے ہوں گے اور ووٹ کا تحفظ بھی کرنا ہوگا۔اسی طرح مینڈیٹ کا تحفظ اور شہر میں تعمیر و ترقی ہوسکتی ہے۔جماعت اسلامی صرف دعوے نہیں کرتی بلکہ موقع ملتا ہے تو کام کرتی ہے۔ جماعت اسلامی کی پوری ٹیم نے ثابت کیا ہے کہ ہم اختیارات سے بڑھ کر کام کریں گے اور بقیہ اختیارات بھی حاصل کریں گے۔ظالمانہ نظام کو بدلنے کی جدوجہد کو تیز کرنی ہے۔ ظلم کے اس نظام میں چند لوگوں کی اجارہ داری ہے۔انگریز کے بنائے ہوئے نظام کو بدلنا ہوگا۔21، 22اور 23 نومبر کو نظام کی تبدیلی کے لیے جماعت اسلامی کے لاہور اجتماع عام میں شرکت کریں۔ محمد یوسف نے کہاکہ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کو نیو کراچی ٹاؤن آمد پر خوش آمدید کہتے ہیں۔آج نیو کراچی ٹاؤن میں تعمیر و ترقی کا سفر تیزی سے جاری ہے۔آج تک صوبائی حکومت نے ترقیاتی فنڈ کی مد میں ایک ٹکا بھی نہیں دیا۔ ہم قابض مئیر مرتضیٰ وہاب کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ آئیں اور نیو کراچی ٹاؤن میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا کے ایم سی سے مقابلہ کرلیں۔ قابض مئیر واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے چیئرمین ہیں، ان کا کام ہے کہ وہ شہریوں کو بلا تفریق پانی فراہم کریں۔ آج سے 2 سال قبل ہر طرف تباہی و نا اہلی نظر آ رہی تھی۔ ہم نے اہلیان نیو کراچی کو واٹر پارک کا تحفہ 8 ہزار سے زائد اسٹریٹ لائٹس لگائیں۔ 10 لاکھ اسکوائر فٹ پیور بلاکس لگائے اور گلیوں کو پکا کیا ہے۔ نیو کراچی ٹاؤن کو سوئی سدرن کی طرف سے دی گئی رقم پر سب سے زیادہ پریشانی قابض مئیر مرتضیٰ وہاب کو ہوئی۔نیو کراچی ٹاؤن کے سرکاری اسکولز میں بچوں کے لیے ڈیکس موجود نہیں تھیں۔ ہم 30 کمروں پر مشتمل ماڈل اسکول بنانے جارہے ہیں اورمزید 2 اسکولوں کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے۔ اسکولوں کے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے لیپ ٹاپ کی تقسیم اورکاپیاں،کتابیں وبیگز بھی مفت فراہم کیے گئے،ہمارے ٹاؤن کے ایسے ملازمین و افسران جو اپنے واجبات کے لیے پریشان تھے، انہیں اب تک 10 کروڑ روپے کے واجبات ادا کیے جاچکے ہیں۔ گزشتہ 20 سال سے جن گھرانوں کو لائن میں پانی نہیں ملا کرتا تھا انہیں پانی پہنچایا۔ہم نے 9 کروڑ روپے سیوریج کے مسائل پر خرچ کیے ہیں جبکہ سیوریج کا کام واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کا کام ہماری ذمے داری نہیں ہے۔ہمارا عزم ہے کہ آئندہ دنوں میں 600 گلیوں پر پیور بلاکس لگائے جائیں گے۔ 600 گلیوں میں سے 100 سے زائد گلیاں مکمل ہوچکی ہیں۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن بارہ دری بلاک Aمیں ٹی ایم سی نارتھ ناظم آباد کے تحت عوام کے لیے تکمیل شدہ اور آئندہ کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کررہے ہیں

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • افغان وزیر خارجہ کی متعدد کالز آئیں، انہیں بتا یا کہ ان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو، اسحاق ڈار
  • عورتوں کو بس بچے پیدا کرنے والی شے سمجھا جاتا ہے؛ ثانیہ سعید
  • ہمارے ایٹمی ہتھیار پوری دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
  • یومِ شہدائے جموں پر آئی ایس پی آر کا نغمہ ’’کشمیر ہمارے خوابوں کی تعبیر‘‘ ریلیز
  • پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • ہمارے ٹاؤن چیئرمینوں کی کارکردگی قابض میئر سے کہیں زیادہ بہترہے ، حافظ نعیم الرحمن
  • زباں فہمی267 ; عربی اسمائے معرفہ اور ہمارے ذرایع ابلاغ
  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • ہمارے بلدیاتی نمائندوں نے اختیارات سے بڑھ کر کام کرنے کا وعدہ پورا کیا‘ حافظ نعیم الرحمن