امریکی صدر کی کٹوتیوں سے سی آئی اے کے راز فاش ہونے کا خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کی جانے والی سرکاری بجٹ کٹوتیوں کے باعث سی آئی اے کے حساس رازوں کے افشا ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔
امریکی میڈیا کے مطابق، فروری کے آغاز میں وائٹ ہاؤس کو ایک ای میل بھیجی گئی تھی، جس میں ممکنہ برطرفیوں کے لیے کچھ افسران کے نام دیے گئے تھے۔ سی آئی اے اب اس خدشے کا جائزہ لے رہی ہے کہ کہیں یہ ای میل انڈر کور کام کرنے والے ایجنٹس کی شناخت کے افشا ہونے کا سبب تو نہیں بنی؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق، سی آئی اے کی اعلیٰ قیادت اس بات پر غور کر رہی ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر برطرفیاں ہوئیں، تو یہ سابق ملازمین کے ایک ناراض گروپ کو جنم دے سکتی ہیں، جو کہ حساس معلومات غیر ملکی ایجنسیوں یا ہیکرز کو فروخت کرنے پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اور روس جیسی غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں، مالی مشکلات کا شکار یا ناراض سی آئی اے ملازمین کو بھرتی کر سکتی ہیں، جو کہ امریکی سیکیورٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سی آئی اے
پڑھیں:
مائیکرو پلاسٹکس ہماری روزمرہ زندگی میں خاموش خطرہ بن گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماہرین کے مطابق ہم بغیر محسوس کیے مسلسل مائیکرو پلاسٹکس کا استعمال بھی کر رہے ہیں اور انہیں نگل بھی رہے ہیں۔ یہ باریک ذرات کھانے، پانی اور سانس کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتے رہتے ہیں جبکہ عام استعمال کی متعدد مصنوعات میں بھی ان چھوٹے ذرات کی موجودگی پائی گئی ہے۔
مائیکرو پلاسٹک اصل میں وہ پلاسٹک ہے جو وقت کے ساتھ ٹوٹ کر اتنے چھوٹے ٹکڑوں میں بدل جاتا ہے کہ وہ آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ کراچی یونیورسٹی کے پروگرام باخبر سویرا میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد نے بتایا کہ ہماری روزمرہ استعمال کی بے شمار چیزوں میں یہ پلاسٹک شامل ہوتا ہے لیکن ہمیں اس کی معلومات نہیں دی جاتیں۔ خواتین کے استعمال میں آنے والے فیس واش میں استعمال ہونے والے ذرات بھی دراصل مائیکرو پلاسٹکس ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر وقار احمد کے مطابق ہر ہفتے انسان تقریباً پانچ گرام تک پلاسٹک اپنے جسم میں لے جاتا ہے جو ایک کریڈٹ کارڈ کے وزن کے برابر ہے۔ جو پانی ہم پیتے ہیں، جو غذا ہم کھاتے ہیں اور جو ہوا ہم سانس کے ذریعے اپنے جسم میں لے جاتے ہیں، ان سب میں مائیکرو پلاسٹکس شامل ہیں۔ مختلف سائنسی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب زیادہ تر بوتل بند پانی میں بھی پلاسٹک کے باریک ذرات موجود ہیں جبکہ ان میں پوشیدہ کیمیکلز بھی شامل ہوتے ہیں جو امراض قلب، ہارمون عدم توازن اور حتیٰ کہ کینسر کا بھی سبب بن سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف پلاسٹک ہی نہیں بلکہ ڈسپوزیبل مصنوعات جیسے ماسک، سرنجز، دستانے اور سرجیکل آلات بھی صحت کو متاثر کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک بار استعمال کے بعد پلاسٹک کچرے میں اضافہ کرتے ہیں اور بالآخر ماحول میں ہی واپس شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے سائنس دان اب یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ یہ باریک ذرات انسانی خون اور پھیپھڑوں تک کیسے پہنچتے ہیں اور ان سے بچاؤ کے مؤثر طریقے کیا ہو سکتے ہیں۔