ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود خان کی خدمات پشاور ہائی کورٹ کو واپس
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود خان کی خدمات پشاور ہائی کورٹ کو واپس WhatsAppFacebookTwitter 0 25 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود خان کی خدمات پشاور ہائی کورٹ کو واپس۔تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود کو واپس پشاور ہائی کورٹ بھجوادیا گیا
قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر کی منظوری سے رجسٹرار نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود گریڈ اکیس کے جوڈیشل افسر ہیں ،ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود اسلام آباد میں فرائص سر انجام دے رہے تھے، سیشن جج طاہر محمود اسلام آباد ہائی کورٹ میں ممبر انسپکشن ٹیم ، سپیشل جج سنٹرل سمیت اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود پشاور ہائی کورٹ اسلام آباد کو واپس
پڑھیں:
اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 جولائی 2025ء ) عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعطم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی، پھر وہ پیسہ کہاں جاتا ہے؟ کرپشن انتہا کو پہنچ گئی۔ مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دو سال گزرنے کے بعد اب نو مئی کے فیصلے کوئی قبول نہیں کرے گا۔ اس طرح کے فیصلے پہلے بھی اس ملک میں آئے، نہ انہیں سیاستدان قبول کرتے ہیں اور نہ ہی قانون دان مانتے ہین، نو مئی بڑا واقعہ ہے لیکن جب دو سال گزر جائیں تو کوئی فیصلے قبول نہیں کرے گا، جس ملک کا چیف جسٹس آئینی درخواست سُن ہی نہ سکتا ہو تو وہاں پر پھر کون سا انصاف رہ گیا ہے؟ اور جس ملک میں قانون نہ ہو وہ نہیں چلتا یہ تاریخ کا سبق ہے۔(جاری ہے)
سابق وزیراعظم کہتے ہیں کہ بے شک سارے اختیارات اپنے پاس رکھ لیں، 26 کے بعد 27 ویں ترمیم کر لیں لیکن اگر صلاحیت نہیں تو ملک نہیں چلا سکتے، حکومت ناکام ہے اور اسے خود اپنے آپ سے چیلنج ہے، یہ جتنے برس بھی رہیں ملک آگے نہیں بڑھے گا، آج جتنے چیلنجز پاکستان کو درپیش ہیں یہ پہلے کبھی نہیں تھے، ملک کو آگے لے جانے کی بات کریں کیوں کہ ملک اس وقت ترقی نہیں کر رہا، سیاسی ڈائیلاگ کریں جس میں فوج اور عدلیہ کو بھی شامل کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں کرپشن حد سے زیادہ ہے گورننس نہیں ہے، پنجاب کی حقیقت بھی وہی ہے جو باقی صوبوں کی ہے، ایک بات ہوئی کہ سفارش کا خاتمہ ہوگیا، درحقیقت کرپشن انتہا کو پہنچ گئی ہے، اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی، پھر وہ پیسہ کہاں جاتا ہے؟ اب سیدھا پیسے لگائیں، انصاف بھی پیسے سے ملتا ہے، پولیس، گورننس اور ترقیاتی کام سب پیسے سے ہے، ماضی میں گیس ڈویلپمنٹ چارجز لگائے 6 سو ارب حکومت کو چلے گئے، کاربن لیوی بھی یہی ہے، معاشی اعشارے اسٹاک مارکیٹ غریب کی میز پر کھانا نہیں رکھتے، ترقی نہیں ہو رہی تو ملک آگے نہیں جائے گا۔