مقبوضہ کشمیر ، بی جے پی حکومت نے مزید 5 کشمیریوں کی جائیداد ضبط کر لیں
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
اگست 2019ء میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے بھارتی قابض انتظامیہ نے مختلف حیلے بہانوں سے سینکڑوں کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کر لی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ کشمیریوں کی املاک ضبط کرنی کی اپنی کشمیر مخالف استعماری پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے، بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع رام بن میں مزید 5 کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کر لی ہیں۔ ذرائع کے مطابق بھارتی پولیس نے ضلع کے علاقے گول میں سراج الدین، محمد اشرف، ریاض احمد، مشتاق احمد اور فاروق احمد کی جائیدادوں کو ضبط کیا ہے۔ سب ڈویژنل پولیس آفیسر گول کی طرف سے جاری حکمنامے میں ان کشمیریوں کی جائیدادوں کی خرید و فروخت یا لیزپر دینے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ یہ اقدام کشمیریوں کی معیشت اور اپنے حق خودارادیت کے حصول کیلئے جاری جدوجہد آزادی کو کمزور کرنے کی بھارتی حکومت کی مذموم مہم کا حصہ ہے۔ اگست 2019ء میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے بھارتی قابض انتظامیہ نے مختلف حیلے بہانوں سے سینکڑوں کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کر لی ہیں۔ یہ مہم بڑے پیمانے پر کشمیریوں کو معاشی طور پر کمزور اور غیر کشمیریوں کو ان کی سرزمین پر آباد کر کے مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب کو بگاڑ نے کی ایک کوشش بھی ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کشمیریوں کی
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، زعفران کی پیداوار میں 90 فیصد کمی، کاشتکار پریشان
کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کا مشہور زعفران سیکٹر ایک بار پھر شدید بحران کی لپیٹ میں ہے، کاشتکاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس سال کی پیداوار میں تقریباً 90 فیصد کمی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق وادی کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ کے علاقے پامپور کے کسانوں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ زعفران کی پیداوار بمشکل 10 تا 15 فیصد ہے اور ہزاروں خاندان معاشی بدحالی کے دہانے پر ہیں۔ پامپور جہاں زعفران کی سب سے زیادہ کاشت ہوتی ہے، کے کاشتکاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر فوری طور پر اصلاحی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو صدیوں سے کشمیر کی شناخت کی حامل زعفران کی فصل ختم ہو سکتی ہے۔ ”زعفران گروورز ایسوسی ایشن جموں و کشمیر“ کے صدر عبدالمجید وانی نے کہا کہ پیداوار بمشکل 15 فیصد ہے۔ یہ گزشتہ سال کی فصل کا نصف بھی نہیں ہے، جو بذات خود عام فصل کا صرف 30 فیصد تھا۔ ہر سال اس میں کمی آ رہی ہے اور حکومت اس شعبے کی حفاظت کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ بار بار کی خشک سالی، موثر آبپاشی کی کمی اور دستیاب کوارمز کا خراب معیار ہے۔ کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ پامپور کے پریشان کسانوں کے ایک گروپ نے کہا، "زعفران کی بحالی صرف فصل کو بچانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک روایت، ایک ثقافت اور ایک شناخت کو بچانے کے بارے میں ہے اور اگر فوری اور موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2030ء تک پامپور میں زعفران نہیں بچے گا۔