یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کا دورۂ امریکہ ’مکمل ناکام‘ رہا: روس کا ردِعمل
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر کے درمیان سخت جملوں کے تبادلے کے بعد روس نے ولادیمیر زیلنسکی کے دورۂ امریکہ کو ’ناکام‘ قرار دیا ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے ایک بیان میں کہا کہ ’نیو نازی حکومت کے سربراہ ولادیمیر زیلنسکی کا 28 فروری کو واشنگٹن کا دورہ کیئف حکومت کی مکمل سیاسی اور سفارتی ناکامی ہے۔‘
روس اکثر یوکرین پر ’نیو نازی ازم‘ کو بڑھاوا دینے کا الزام لگاتا ہے اور اسے یوکرین پر حملے کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اس الزام کو مغربی رہنما اور کیئف جھوٹا اور مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ’واشنگٹن میں اپنے قیام کے دوران اپنے اشتعال انگیز رویے سے زیلنسکی نے اس امر کی تصدیق کی کہ وہ ایک غیرذمہ دار اور جنگ کو بڑھاوا دینے والے شخص کے طور پر عالمی برادری کے لیے سب سے خطرناک خطرہ ہیں۔‘
انہوں نے یوکرینی صدر پر لڑائی جاری رکھنے کے ’جنون‘کا الزام عائد کرتے ہوئے مزید کہا کہ یوکرین میں روس کے فوجی اہداف ’تبدیل نہیں ہوئے۔‘
زیلنسکی نے اپنے دورے کے دوران امریکہ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اس کا اختتام اس وقت بہت برا ہوا جب ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس نے یوکرینی صدر پر ’بد لحاظی‘کا الزام لگایا اور انہیں امریکی اور بین الاقوامی میڈیا کے سامنے ڈانٹا۔
یوکرین کو امید تھی کہ یہ معاہدہ امریکہ کی جانب سے حفاظت کی ضمانت کی راہ ہموار کرے گا۔
.
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اسپین میں یوکرین کی حمایت جائز فلسطین کی ممنوع قرار،اسکولوں سے پرچم ہٹانے کا حکم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسپین: میڈرڈ کی قدامت پسند حکومت نے سرکاری فنڈنگ سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں فلسطین کی حمایت پر خاموشی سے پابندی عائد کردی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسپین کے دارالحکومت نے مختلف اسکولوں کو فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے تمام نشانات، جن میں فلسطینی پرچم بھی شامل ہیں، ہٹانے کی ہدایات دی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی موقف یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کو غیر سیاسی ہونا چاہیے اور فلسطین کی حمایت ایک سیاسی معاملہ ہے، یہ ہدایات حال ہی میں جاری کی گئی ہیں کیونکہ اس سے قبل میڈرڈ ریجن کے کئی اسکول مہینوں تک فلسطین کے حق میں تقریبات کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔
خیال رہےکہ اسی حکومت نے 2022 میں یوکرین جنگ کے بعد تعلیمی اداروں میں یوکرین کی حمایت کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی تھی، جس سے اس فیصلے پر دوہرا معیار اختیار کرنے کا الزام لگ رہا ہے۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ اسپین کی قومی سیاست میں بھی شدت اختیار کر رہا ہے، گزشتہ دنوں میڈرڈ ریجن کی پاپولر پارٹی کی سربراہ ایزابیل دیاس اییوسو نے وزیراعظم پیڈرو سانچیز کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے حق میں مظاہرے ملکی آزادی اور کھیلوں کے تقدس پر حملہ ہیں۔
اسی دوران پاپولر پارٹی کے قومی سربراہ البیرتو نونیز فیخوو نے بھی حکومت کی فلسطین نواز پالیسی پر تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ سانچیز اپنی ناکامیوں اور کرپشن اسکینڈلز سے توجہ ہٹانے کے لیے غزہ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں،میں آپ کو اجازت نہیں دوں گا کہ غزہ میں ہونے والی اموات کو ہسپانوی عوام کے خلاف استعمال کریں۔”
جواب میں وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے فیخوو کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ حالیہ سروے کے مطابق 82 فیصد اسپین کے عوام غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیتے ہیں ۔
یاد رہے کہ اسپین کی بائیں بازو کی مخلوط حکومت یورپی یونین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف سب سے مؤثر آواز رہی ہے۔ 2024 میں اسپین نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا، اس کے ساتھ ہی اسرائیل پر مستقل اسلحہ پابندی اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے درآمدات پر بھی پابندی عائد کی۔
میڈرڈ ریجن کی حکومت کی اس پالیسی نے نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ عوامی سطح پر بھی شدید بحث کو جنم دیا ہے اور یہ واضح تضاد اجاگر کیا ہے کہ ایک طرف یوکرین کی حمایت کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ فلسطین کی حمایت کو دبایا جا رہا ہے۔
غزہ کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امداد کے نام پر امریکا اور اسرائیل دہشت گردی کر رہے ہیں جبکہ عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور مسلم حکمران بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔