Daily Ausaf:
2025-11-05@01:56:05 GMT

کارپوریٹ فارمنگ ۔۔۔۔ترقی یاتباہی

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

پاکستانی ریاست اورعوام کے درمیان ترقی کے حوالے سے ایک بنیادی خلیج ہمیشہ سے موجودرہی ہے۔حکمران ہمیشہ ترقیاتی منصوبوں کااعلان کرتے رہے ہیں،مگرعوام کاایک بڑا حصہ ان منصوبوں پرشکوک وشبہات کااظہارکرتاچلاآرہا ہے۔آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ پاکستانی عوام اورحکمران ایک دوسرے پرالزام تراشی کرتے رہتے ہیں اوراس کاملک کی ترقی پر کیا اثرپڑتاہے۔پاکستان کی زرعی معیشت میں اصلاحات کی کوششیں مختلف ادوارمیں کی گئیں،لیکن ان کے نتائج آج بھی بحث ومباحثے کا موضوع ہیں۔ایوب خان کی زرعی اصلاحات سے لے کر بھٹودورکے مزیدسخت اقدامات تک، اور بعدمیں جدیدزرعی طریقوں کے رواج تک، ان تمام پالیسیوں کامقصدزرعی پیداوارمیں اضافہ اور غربت میں کمی تھا۔تاہم،ان پالیسیوں کے اثرات متضاد نظرآتے ہیں۔ ایک طرف سبزانقلاب کے ذریعے پیداوار میں اضافہ ہوا،تودوسری طرف غربت کی شرح میں نمایاں کمی نہ آسکی۔
یہ تسلیم کرناہوگاکہ پاکستان کی زرعی تاریخ میں اصلاحات کاسلسلہ معاشی ترقی،غربت کے خاتمے، اورخوراک کی خودکفالت کے خوابوں سے جڑاہوا ہے۔ تاہم ان کوششوں کے نتائج اکثرمتنازعہ رہے ہیں۔ اگرہم ماضی کی طرف نظردوڑائیں توایوب خان اوربھٹو کے زرعی پروگراموں،سبزانقلاب کے اثرات، کارپوریٹ فارمنگ کے ماحولیاتی خطرات ، اور پانی کے بحران کوتنقیدی نظرسے پرکھیں توہمیں پتہ چلتاہے کہ پہلی مرتبہ 1959ء اور1963ء میں ایوب خان نے جاگیردارانہ نظام کوکمزورکرنے کے لئے زمینی اصلاحات نافذ کیں، جس کے تحت40لاکھ ایکڑزمین بڑے زمینداروں سے لے کربے زمین کسانوں میں تقسیم کی گئی۔انہوں نے منگلاڈیم (1967)اورتربیلا (1976)جیسے منصوبوں کے ذریعے پانی کے ذخائراوربجلی کی پیداوار بڑھائی۔ تربیلا ڈیم کی تعمیر1968 میں شروع ہوئی اور1976میں اس کی تکمیل ہوئی اور یہ دنیاکاسب سے بڑازمین سے بنایا گیاڈیم ہے اور پاکستان میں بجلی اورآبپاشی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
یہ اقدامات زرعی پیداوارمیں اضافے کی بنیاد بنے،لیکن زمین کی غیرمنصفانہ تقسیم اورنوکر شاہی کے اثرات کی وجہ سے غربت میں واضح کمی نہ ہوسکی ۔ بعدازاں ذوالفقارعلی بھٹو نے1972ء اور 1977ء میں زمین کی ملکیت کی زیادہ سے زیادہ حدکوکم کرکے ایوب خان کے پروگرام کو’’ناکافی‘‘ قراردیا۔ان اصلاحات کامقصددیہی علاقوں میں طبقہ ورائی کوختم کرناتھا لیکن سیاسی مخالفت اور بیورو کریٹک رکاوٹوں کی وجہ سے یہ بھی مکمل طورپر کامیاب نہ ہوسکا۔پھرسوال اٹھتاہے کہ زرعی ترقی کے ثمرات کس کوملے؟بعض ناقدین کاکہناہے کہ زرعی ترقی سے حاصل شدہ فوائد زیادہ تر عسکری، نوکر شاہی اورکاروباری طبقے میں محدود ہو کررہ گئے ۔ اس کے برعکس،حکومتی موقف یہ ہے کہ پیداوار میں دوگنا اضافہ ہوالیکن عوام کی آبادی میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہونے کے سبب غربت کاخاتمہ ممکن نہ ہوسکا۔
ایک بڑامسئلہ یہ ہے کہ حکومت عوام سے اعتمادکی توقع رکھتی ہے،جبکہ عوامی حلقے حکومت پرمکمل بھروسہ نہیں کرتے۔ ووٹرزکاکہناہے کہ جب حکومت خوداپنی عدلیہ اورپارلیمنٹ پراعتماد نہیں کرتی توعوام حکومت پرکیسے یقین کریں؟ترقیاتی منصوبے اکثراس شک وشبہ کاشکار ہو جاتے ہیں کیونکہ عوام ان کی شفافیت پرسوالات اٹھاتے ہیں۔عوام کایہ بھی مطالبہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی تیاری میں عوام کی رائے کوبھی شامل کیاجائے تاکہ عوامی ضروریات کے مطابق پالیسیاں تشکیل دی جا سکیں۔
حکمرانوں کے مطابق عوام ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ بنتے ہیں،جبکہ عوام کاکہناہے کہ ترقیاتی منصوبے ان کے مشورے کے بغیرتیارکیے جاتے ہیں۔ عوام کی رائے کوترقیاتی پالیسیوں میں شامل کرنے سے اس خلیج کوکم کیاجاسکتاہے۔عوامی نمائندوں کے ذریعے ترقیاتی فیصلے کیے جائیں تاکہ شفافیت اوراعتمادکویقینی بنایاجاسکے۔عوام کی ایک بڑی شکایت یہ بھی ہے کہ قومی وسائل چندخاندانوں کے ہاتھوں میں مرکوزہیں اورعام شہری کوترقی میں شراکت داری کاموقع نہیں ملتا۔اگر قومی وسائل کومساوی بنیادوں پرتقسیم کیاجائے توعوام میں خودبخودپاکستانی شناخت مضبوط ہوگی۔
پاکستان قحطِ آب کے شکاردس بڑے ممالک میں شامل ہے۔حکومت بڑے ڈیم اورآبپاشی منصوبے بنانے کی کوشش کرتی ہے،مگر اس حوالے سے ہمیشہ اختلافات پیداہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال کالا باغ ڈیم ہے اوراب چولستان میں70لاکھ ایکڑ پر زرعی منصوبہ ایک نئی بحث چھیڑچکاہے،جس پرسندھ اوردیگرصوبے اپنے خدشات کااظہارکر رہے ہیں۔پانی کی تقسیم، موسمیاتی تبدیلیاں،اورزراعت کے جدید طریقے اس بحث کے اہم نکات ہیں۔لوگوں کویہ خدشہ ہے کہ ان منصوبوں کے لئے اضافی پانی کی فراہمی ممکن نہیں ہوگی اورپہلے سے موجودپانی کی دستیابی مزیدکم ہوجائے گی۔
جدیدزرعی طریقوں میں کارپوریٹ فارمنگ کوخصوصی اہمیت دی جارہی ہے،اورحکومت کاکہنا ہے کہ کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے پیداواری کارکردگی بڑھانا،برآمدات کوفروغ دینااورزرعی شعبے کوعالمی معیارکے مطابق ڈھال کرہم ملک میں زرعی انقلاب لاسکتے ہیں جوملک کی آبادی کے70 فیصد کسانوں، کاشتکاروں کی زندگی میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے لیکن یادرہے کہ کاپوریٹ فارمنگ ایک ایسافارمولہ ہے جس کے ذریعے زیادہ پیداوارکے لئے جینیاتی طورپرترمیم شدہ اورہائیبر ڈبیجوں کا استعمال کیا جاتاہے۔اگرچہ یہ بیج ابتدائی طور پر زیادہ پیداوار دیتے ہیں لیکن طویل المدتی اثرات زمین کی زرخیزی کے لئے نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں۔ مسلسل10 سے 20سال کے عرصے میں یہ زمین نامیاتی زرخیزی سے محروم ہوکربنجر ہوسکتی ہے، جس سے مستقبل میں خوراک کے بحران کاخطرہ بڑھ جاتاہے۔
ماضی میں ہم اس کاتجربہ کرچکے ہیں۔ 1967ء سے1970ء کی دہائی میں ہائی برڈبیجوں،کیمیائی کھادوں،اورجدید آبپاشی کے ذریعے گندم اور چاول کی پیداواردوگنی ہوئی۔تاہم چھوٹے کسانوں تک رسائی کے فقدان،قرضوں کے بوجھ، اور منڈیوں تک ناہمواررسائی کی وجہ سے غربت کم نہ ہوئی۔حکومت کامؤقف تھاکہ آبادی میں تیزی سے اضافے( 3 فیصد سالانہ)نے ترقی کے اثرات کوزائل کردیا، جبکہ نقادوں کاخیال تھاکہ فوائد فوج، بیوروکریٹس،اورسیاسی اشرافیہ تک محدود رہے۔
اب ایک مرتبہ پھرکارپوریٹ فارمنگ کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ ہم بڑھ رہے ہیں۔اس نظام کی مختصرتعریف یہ ہے کہ جہاں بڑے زرعی زمینوں پرتجارتی بنیادوں پرپیداواری سرگرمیاں،جہاں کمپنیاں یاکارپوریشنزجدیدٹیکنالوجی، مشینری،اور مینجمنٹ کے ذریعے فصلوں یامویشیوں کی پرورش کرتی ہیں وہاں ان وسائل سے محروم تمام کاشتکاران کمپنیوں کے رحم وکرم پرہوتے ہیں۔
پاکستانی حکومت کاکہناہے کہ حالیہ برسوں میں کارپوریٹ فارمنگ کوفروغ دینے کے لئے جواقدامات کیے ہیں،خاص طورپر2020ء کے بعدجب ایک مرتبہ پھرزرعی اصلاحات کے نام پرپروگرام شروع کیاگیاہے جس میں غیراستعمال شدہ سرکاری زمینوں کولیز پردینے کی تجاویزکے ساتھ زرعی آلات اور جدیدٹیکنالوجی درآمدپرٹیکس چھوٹ دینابھی شامل ہے۔
چین ۔پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک کے تحت ایگریکلچرل انڈسٹریل پارکس قائم کرنے کی تجاویزپربھی کام ہورہاہے۔کارپوریٹ فارمنگ کے لئے ڈرون،مصنوعی ذہانت اور پریسائزن فارمنگ کے ذریعے پیداوارمیں اضافہ کے منصوبے کوبھی حتمی شکل دی جارہی ہے۔جس سے زرعی برآمدات (مثلاً گندم، چاول، کپاس) بڑھانے سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کئی گنااضافہ ہوگا۔یقیناکارپوریٹ فارمنگ سے جہاں نئے ہنرمنداورغیرہنرمند روزگارکی تخلیق میں اضافہ ہوگاوہاں ڈرپ اریگیشن جیسے طریقوں سے پانی کی بچت بھی ہوگی ۔
کارپوریٹ فارمنگ میں جینیاتی طورپرتبدیل شدہ اورہائیبرڈبیجوں کااستعمال وقتی پیداوار بڑھاتا ہے لیکن یہ زمین کی نامیاتی زرخیزی کوتباہ کردیتاہے ۔ کیمیائی کھادوں اورکیڑے مارادویات کے مسلسل استعمال سے مٹی کابنیادی ڈھانچہ کمزورہوتاہے،اور 10-20سال میں زمین بنجرہوجاتی ہے۔مثال کے طورپر،پنجاب کے بعض علاقوں میں گندم کی پیداوار میں 30فیصد تک کمی رپورٹ ہوئی ہے،جس کی وجہ مٹی کی نمکیات میں اضافہ اورنامیاتی مادوں کاخاتمہ بتایاجاتاہے۔
چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ کے تحت ملکی وغیرملکی کمپنیوں کوزمین دی جارہی ہے۔سعودی عرب، متحد ہ عرب امارات اور چین کی کمپنیاں پاکستان میں کارپوریٹ فارمنگ میں دلچسپی رکھتی ہیں۔انگرو فوڈز، نیشنل فوڈزجیسی کمپنیاں زرعی شعبے میں سرگرم ہیں۔ مگرسوال یہ ہے کہ کیااس کے فوائدچھوٹے کسانوں تک بھی پہنچیں گے؟جب کارپوریٹ فارمنگ کے لئے پہلے سے محدودپانی مختص کیاجائے گاتومقامی کسان کہاں کھڑے ہوں گے؟مزیدبرآں،کیاحکومت نے سرمایہ کاروں کوبتادیاہے کہ اگرکسی سال دریا میں مطلوبہ پانی نہ آیاتو ان کے فارمزکونقصان ہوگا؟چھوٹے کاشتکاروں کے لئے سہولیات اورمارکیٹ تک رسائی کویقینی بنائے بغیراس منصوبے کاکامیاب ہونامشکل نظرآتاہے۔ (جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: میں کارپوریٹ فارمنگ کارپوریٹ فارمنگ کے میں اضافہ کے ذریعے کے اثرات یہ ہے کہ پانی کی رہے ہیں کہ عوام عوام کی زمین کی ہے اور کی وجہ کے لئے

پڑھیں:

کیا 27ویں ترمیم کے ذریعے 18ویں ترمیم واپس ہونے جا رہی ہے؟

ملکی سیاست میں ایک بار پھر نئی آئینی ترمیم کے حوالے سے مختلف قیاص آرائیاں جاری ہیں، اس ترمیم میں ماضی میں پیپلزپارٹی کی جانب سے صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے لیے 18ویں آئینی ترمیم کو بھی تبدیل کرنے سے متعلق باتیں ہو رہی ہیں۔

اب سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا صوبوں کے اختیارات کم کرنے یا 18ویں ترمیم میں تبدیلی کی جا رہی ہے؟

وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم پر کسی کو اعتراض نہیں ہے، البتہ مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جیسے دفاع وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں کا بھی کیا جا تا ہے لیکن دفاعی بجٹ میں صرف وفاق ہی حصہ دیتا ہے، وفاقی حکومت کے پاس معمولی اخراجات کے لیے بجٹ نہیں جبکہ صوبوں کے پاس وسیع بجٹ موجود ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: 27ویں ترمیم: فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی بنانے کے لیے آرٹیکل 243 میں ترمیم کرنے کا فیصلہ

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے وقت وسائل کی تقسیم پر تفصیلی بات ہوئی تھی، اس وقت کے حساب سے وسائل کی تقسیم کا فارمولا طے کیا گیا تھا، اب اگر کچھ فرق آ گیا ہے اور ترمیم کی ضرورت ہے اور اگر سب کی مشاورت سے اس معاملے کو آگے بڑھایا جا رہا ہو تو وسائل کی تقسیم کے فارمولے میں تبدیلی کے لیے آئینی ترمیم ہو سکتی ہے، اگر دو تہائی ارکان پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہو گی تو اسی کے بعد ہی ترمیم ہو سکے گی۔

رانا ثنا اللہ نے واضح کیا کہ آئین کوئی جامد چیز نہیں، اس میں بہتری کے لیے ترامیم کی جاتی ہیں، اگر وقت کے ساتھ وسائل کی تقسیم میں فرق آیا ہے تو اس پر بات چیت اور غور و فکر کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، حکومت فوری طور پر 27ویں ترمیم نہیں لا رہی بلکہ ابھی محض مشاورت اور سیاسی مکالمے کا عمل جاری ہے، تمام جماعتیں متفق ہیں کہ آئینی عدالت یا آئینی بینچ کے قیام سے نظام بہتر ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: وزیراعظم کی قیادت میں لیگی وفد کی آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات، 27ویں ترمیم پر حمایت کی درخواست

پیپلز پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات شازیہ مری کا کہنا ہے کہ حکومت نے باضابطہ طور پر پیپلز پارٹی سے 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے رابطہ کیا ہے اور حمایت مانگی ہے لیکن 18ویں ترمیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ہے، 18ویں ترمیم صوبوں کے دلوں کے بہت قریب ہے اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ صوبوں کے اختیارات پر پیپلز پارٹی نے اتفاقِ رائے پیدا کیا تھا اب ان اختیارات سے پیچھے ہٹنا نہ مناسب ہوگا اور نہ ممکن ہے، کوئی بھی ترمیم اگر 18ویں ترمیم کے متصادم ہو گی تو اس کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے: مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟

شازیہ مری نے کہا کہ حکومت کا تجویز کردہ مسودہ 6 نومبر کو پیپلز پارٹی کی سی ای سی اجلاس میں پیش کیا جائے گا، جہاں اس پر غور اور فکر کے بعد  حتمی فیصلہ کیا جائے گا، پیپلزپارٹی پارٹی ہر معاملے کو اپنے اصولی مؤقف کے مطابق دیکھے گی، البتہ عوامی مفاد میں اگر کسی بات پر اتفاق کی گنجائش ہوئی تو اس پر بات ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں 18ویں ترمیم 2010 میں منظور کی گئی تھی جس کے ذریعے صوبوں کو وسیع اختیارات اور مالی خودمختاری ملی تھی اور پیپلز پارٹی اس ترمیم کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

18ویں آئینی ترمیم 26ویں آئینی ترمیم 27ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ

متعلقہ مضامین

  • دادو میں پی ایس او جدید ماڈل ولیج کا افتتاح
  • سی پیک فیزٹو پاکستان کی صنعتی و زرعی خودمختاری کی بنیاد ہے،میاں زاہد حسین
  • سعودی عرب: عازمین حج کے لیے اہم اعلان
  • فارم 47 یا اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کی بات نہیں ہوگی، عمران خان
  • کیا 27ویں ترمیم کے ذریعے 18ویں ترمیم واپس ہونے جا رہی ہے؟
  • فیصل کریم کنڈی کا صوبے کی بہتری اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے ہر کوشش کی حمایت کا اعلان
  • گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ
  • مودی کی ناکام زرعی پالیسیاں
  • پاکستان اور کینیڈا کا ہائبرڈ بیج، لائیو اسٹاک کی افزائش میں تعاون بڑھانے پر غور
  • فیلڈ مارشل کو سلام، گلگت بلتستان کو ترقی کے تمام مواقع دیئے جائینگے: صدر زرداری