مہنگائی ساڑھے 9 سال کی کم ترین سطح پر آگئی، فروری میں 1.5 فیصد ریکارڈ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں تنزلی کا رجحان جاری ہے، یہ فروری 2025 میں ماہانہ بنیادوں پر ساڑھے 9 سال کی کم ترین سطح 1.51 فیصد پر آگئی۔
بروکریج فرم ٹاپ لائنز سیکیورٹیز نے نوٹ کیا کہ پاکستان میں کنزیومر پرائس انڈیکس سے پیمائش کردہ مہنگائی فروری 2025 میں 1.5 فیصد رہی، جو 113 مہینے کی کم ترین شرح ہے۔
ٹاپ لائنز سیکیورٹیز کے مطابق مہنگائی کی شرح میں مارکیٹ کی توقعات سے زیادہ کمی ہوئی، جبکہ مالی سال 2025 کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران اوسط مہنگائی کی شرح 5.
عارف حبیب لمیٹڈ نے نوٹ کیا کہ مہنگائی کی شرح ستمبر 2015 کے بعد سے کم ترین ہے۔
پاکستان ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق سی پی آئی مہنگائی فروری میں سال بہ سال 1.5 فیصد بڑھی، جبکہ جنوری میں افراط زر کی شرح 2.4 فیصد اور فروری 2024 میں 23.1 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماہانہ بنیادوں پر فروری 2025 میں مہنگائی کی شرح 0.8 فیصد کم ہوئی جبکہ گزشتہ مہینے اس میں 0.2 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا تھا۔
ادارہ شماریات کے مطابق سالانہ بنیادوں پر شہری علاقوں میں جن غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا، ان میں دال مونگ (32.65 فیصد)، بیسن (28.97 فیصد)، دال چنا (25.40 فیصد)، آلو (22.88 فیصد)، تازہ پھل (21.55 فیصد)، مکھن (21.12 فیصد)، شہید (20.77 فیصد)، خشک دودھ (20.58 فیصد) اور گوشت (18.59فیصد) شامل ہیں۔
اسی طرح جن غیر غذائی اشیا کی قیمت میں اضافی ریکارڈ کیا گیا، ان میں گاڑیوں پر ٹیکس (168.79 فیصد)، جوتے (31.9 فیصد)، ڈینٹل سروسز (26.55 فیصد)، ادویات (16.53 فیصد) اور طبی ٹیسٹس (15.48 فیصد) شامل ہیں۔
دیہی علاقوں میں جن غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا، ان میں بیسن (33.86 فیصد)، دال مونگ (32.16 فیصد)، دال چنا (30.68 فیصد)، خشک دودھ (26.42 فیصد)، گوشت (21.01 فیصد)، شہد (20.5 فیصد)، آلو (20.27 فیصد) اور تازہ پھل (19.83) فیصد شامل ہیں۔
دیہی علاقوں میں جن غیر غذائی اشیا کی قیمتیں بڑھیں، ان میں گاڑیوں پر ٹیکس (126.61 فیصد)، تعلیم (24.49 فیصد)، ڈینٹل سروسز (19.53 فیصد)، ادویات (17.96 فیصد)، تفریحی سہولیات (16.25 فیصد)، سوتی کپڑا (15.5 فیصد) اور اونی تیار ملبوسات (15.39pc) شامل ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مہنگائی کی شرح غذائی اشیا کی شامل ہیں
پڑھیں:
ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے
لاہور:ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری اور کاروبار شروع کرنے میں طرح طرح کی ایسی مشکلات کہ اللہ کی پناہ، اگر کسی طریقے سے کاروبار شروع ہو جائے تو درجنوں ادارے تنگ کرنے پہنچ جاتے ہیں جبکہ رہی سہی کسر بجلی اور گیس کی قیمتوں نے پوری کر دی۔
بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم دلانا مشکل اور مہنگا ترین کام، اگر تعلیم مکمل ہو جائے تو اس حساب سے نہ ملازمت اور نہ تنخواہیں، انہی حالات سے تنگ آئے 28 لاکھ 94 ہزار 645 پاکستانی اپنے بہن، بھائی اور والدین سمیت دیگر عزیز و اقارب کو روتے دھوتے ملک چھوڑ کر بیرون ممالک چلے گئے جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینیئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاؤنٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
ایکسپریس نیوز کو محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔ بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔
https://cdn.jwplayer.com/players/GOlYfc9G-jBGrqoj9.html
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاؤنٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔
باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔
خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔