پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں تنزلی کا رجحان جاری ہے، یہ فروری 2025 میں ماہانہ بنیادوں پر ساڑھے 9 سال کی کم ترین سطح 1.51 فیصد پر آگئی۔
بروکریج فرم ٹاپ لائنز سیکیورٹیز نے نوٹ کیا کہ پاکستان میں کنزیومر پرائس انڈیکس سے پیمائش کردہ مہنگائی فروری 2025 میں 1.5 فیصد رہی، جو 113 مہینے کی کم ترین شرح ہے۔
ٹاپ لائنز سیکیورٹیز کے مطابق مہنگائی کی شرح میں مارکیٹ کی توقعات سے زیادہ کمی ہوئی، جبکہ مالی سال 2025 کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران اوسط مہنگائی کی شرح 5.

85 فیصد ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 27.96 فیصد رہی تھی۔
عارف حبیب لمیٹڈ نے نوٹ کیا کہ مہنگائی کی شرح ستمبر 2015 کے بعد سے کم ترین ہے۔
پاکستان ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق سی پی آئی مہنگائی فروری میں سال بہ سال 1.5 فیصد بڑھی، جبکہ جنوری میں افراط زر کی شرح 2.4 فیصد اور فروری 2024 میں 23.1 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماہانہ بنیادوں پر فروری 2025 میں مہنگائی کی شرح 0.8 فیصد کم ہوئی جبکہ گزشتہ مہینے اس میں 0.2 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا تھا۔
ادارہ شماریات کے مطابق سالانہ بنیادوں پر شہری علاقوں میں جن غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا، ان میں دال مونگ (32.65 فیصد)، بیسن (28.97 فیصد)، دال چنا (25.40 فیصد)، آلو (22.88 فیصد)، تازہ پھل (21.55 فیصد)، مکھن (21.12 فیصد)، شہید (20.77 فیصد)، خشک دودھ (20.58 فیصد) اور گوشت (18.59فیصد) شامل ہیں۔
اسی طرح جن غیر غذائی اشیا کی قیمت میں اضافی ریکارڈ کیا گیا، ان میں گاڑیوں پر ٹیکس (168.79 فیصد)، جوتے (31.9 فیصد)، ڈینٹل سروسز (26.55 فیصد)، ادویات (16.53 فیصد) اور طبی ٹیسٹس (15.48 فیصد) شامل ہیں۔
دیہی علاقوں میں جن غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا، ان میں بیسن (33.86 فیصد)، دال مونگ (32.16 فیصد)، دال چنا (30.68 فیصد)، خشک دودھ (26.42 فیصد)، گوشت (21.01 فیصد)، شہد (20.5 فیصد)، آلو (20.27 فیصد) اور تازہ پھل (19.83) فیصد شامل ہیں۔
دیہی علاقوں میں جن غیر غذائی اشیا کی قیمتیں بڑھیں، ان میں گاڑیوں پر ٹیکس (126.61 فیصد)، تعلیم (24.49 فیصد)، ڈینٹل سروسز (19.53 فیصد)، ادویات (17.96 فیصد)، تفریحی سہولیات (16.25 فیصد)، سوتی کپڑا (15.5 فیصد) اور اونی تیار ملبوسات (15.39pc) شامل ہیں۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: مہنگائی کی شرح غذائی اشیا کی شامل ہیں

پڑھیں:

بٹ کوائن کی گراوٹ نے 7 سالہ ریکارڈ توڑ دیا، سرمایہ کار خوفزدہ

دنیا کی سب سے بڑی ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن سات سال کے بعد پہلی بار اکتوبر میں خسارے کا شکار رہی۔ 2018 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اکتوبر، جو عموماً بٹ کوائن کے لیے ”خوش قسمت مہینہ“ سمجھا جاتا تھا، منفی ثابت ہوا ہے۔

ماہرین کے مطابق بٹ کوائن کی قیمت اس ماہ تقریباً 5 فیصد کم ہوئی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں عالمی منڈیوں میں غیر یقینی صورتحال اور سرمایہ کاروں کی جانب سے خطرے سے گریز نے کرپٹو کرنسی مارکیٹ کو بھی متاثر کیا ہے۔

ڈیجیٹل مارکیٹ کے ریسرچ تجزیہ کار ایڈم مک کارتھی نے ”رائٹرز“ سے گفتگو میں کہا کہ ”اکتوبر کے آغاز میں کرپٹو مارکیٹ سونا اور اسٹاکس کے ساتھ اوپر جا رہی تھی، مگر جیسے ہی غیر یقینی صورتحال بڑھی، لوگ دوبارہ بٹ کوائن کی طرف واپس نہیں آئے۔“

اکتوبر کے وسط میں بٹ کوائن مارکیٹ کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے درآمدات پر 100 فیصد ٹیکس عائد کرنے اور حساس سافٹ ویئر پر ایکسپورٹ پابندیوں کی دھمکی دی۔ اس اعلان کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی کرپٹو منڈیوں کی لیکویڈیشن (فروخت) ہوئی۔

بٹ کوائن کی قیمت 10 اور 11 اکتوبر کے درمیان تیزی سے گر کر 104,782 ڈالر تک آگئی، جبکہ چند دن پہلے ہی اس نے 126,000 ڈالر کی بلند ترین سطح کو چھوا تھا۔

ایڈم مک کارتھی کے مطابق، ”10 اکتوبر کا حادثہ سرمایہ کاروں کو یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ یہ مارکیٹ بہت محدود ہے۔ یہاں بٹ کوائن اور ایتھیریم جیسے بڑے سکے بھی 15 سے 20 منٹ میں 10 فیصد گر سکتے ہیں۔“

اکتوبر کے اختتام پر بھی سرمایہ کار ابہام کا شکار ہیں کیونکہ امریکی فیڈرل ریزرو نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس سال مزید شرحِ سود میں کمی نہیں کرے گا، جب کہ امریکی حکومت کے جزوی شٹ ڈاؤن کے باعث اہم معاشی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔

دوسری جانب جے پی مورگن کے سی ای او جیمی ڈائمن نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگلے چھ ماہ سے دو سال کے دوران امریکی اسٹاک مارکیٹ میں ایک بڑی گراوٹ یا کرکشن آسکتی ہے۔

ٹریڈنگ کمپنی ونٹرمیوٹ کے سربراہ جیک اوستروفسکیس کے مطابق، ”اکتوبر میں ریکارڈ توڑ فروخت کے بعد سرمایہ کار ابھی بھی محتاط ہیں۔ وہ نظام میں ممکنہ کمزوریوں پر غور کر رہے ہیں جو ابھی تک ختم نہیں ہوئیں۔“

اگرچہ بٹ کوائن نے اکتوبر میں کمی کا سامنا کیا، مگر مجموعی طور پر یہ کرنسی سال 2025 کے آغاز سے اب تک 16 فیصد منافع میں ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی کرپٹو کرنسیوں کے لیے نرم پالیسیوں، جیسے بڑی کرپٹو کمپنیوں کے خلاف مقدمات کا خاتمہ اور مالیاتی اداروں کے لیے خصوصی ضوابط نے مجموعی طور پر اس سال ڈیجیٹل کرنسیوں کے لیے مثبت ماحول فراہم کیا ہے۔

تاہم، اکتوبر کا اتار چڑھاؤ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کرپٹو مارکیٹ اب بھی غیر یقینی سیاسی اور معاشی فیصلوں کے رحم و کرم پر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اکتوبر میں مہنگائی کی شرح ماہانہ بنیاد پر 1.83 فیصد بڑھ گئی
  • ملک میں مہنگائی ایک سال کی بلند ترین سطح 6.24فیصد تک پہنچ گئی، متعدد اشیا مہنگی ہو گئیں
  • اکتوبر بھی عوام پر گراں گزرا، مہنگائی کی شرح ماہانہ بنیاد پر 1.83 فیصد بڑھ گئی
  • ملک میں اکتوبر میں مہنگائی تخمینے سے زائد ریکارڈ
  • صائم ایوب کی ٹی ٹوئنٹی میں بدترین کارکردگی، نیا ریکارڈ بنا لیا
  • لاہور کے شائقین کرکٹ نے نیا ریکارڈ بنا ڈالا
  • 2025 میں ریکارڈ 59 لاکھ ٹیکس گوشوارے جمع ،وزیراعظم کی ایف بی آر حکام کی ستائش
  • پنجاب میں 8ویں جماعت کے بورڈ امتحانات کا سلسلہ دوبارہ شروع، حکومتی فیصلہ
  • بٹ کوائن کی گراوٹ نے 7 سالہ ریکارڈ توڑ دیا، سرمایہ کار خوفزدہ
  • پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگیا، حکومت نے عوام پر مہنگائی کا نیا بوجھ ڈال دیا