Express News:
2025-11-05@01:52:08 GMT

رمضان، مہنگائی پر قابو پانا ضروری

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

وزیراعظم شہباز شریف نے چینی کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ رمضان المبارک میں چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔

وزیر اعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ملک میں چینی کی سپلائی، قیمتوں کے کنٹرول اور عام عوام کو سستی اشیائے خور و نوش کی فراہمی پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ مل کر عام آدمی کو بنیادی اشیاء مناسب نرخوں پر فراہم کرنے کے اقدامات یقینی بنائیں۔

 مخصوص مافیاز رمضان شریف کی آمد سے پہلے اور تاجر حضرات طلب و رسد میں عدم توازن کا بہانہ بنا کر خود ساختہ مہنگائی کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں مہنگائی کی ایک بڑی وجہ کاسٹ اینڈ اکاؤنٹس کی اہمیت کو تسلیم نہ کرنا ہے، دنیا بھر میں اشیاء کی قیمتوں کا تعین حکومتی سطح پر کیا جاتا ہے، کاسٹ اکاؤنٹینٹ ہر قسم کی مصنوعات کی لاگت، صنعت کار، ڈسٹری بیوٹر، ریٹیلر کا منافع، فریٹ اور اسٹوریج کا تخمینہ لگا کر مصنوعات کی قیمت متعین کرتے ہیں، تاجر حضرات اس قیمت پر اشیاء کی فروخت پر مجبور ہوتے ہیں، مگر پاکستان میں ابھی اس شعبے کو انڈسٹری کا درجہ حاصل نہیں ہوا، جس کی وجہ سے ہر کوئی اپنی مصنوعات کی قیمت مرضی سے متعین کرتا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کا سیلاب ہر وقت رواں دواں رہتا ہے۔

 ایک اور المیہ صنعتکاروں کا کارٹل ہے جو مل کر اپنی مصنوعات کی قیمت متعین کرتے ہیں، ان کے نزدیک اہم ترین اپنا منافع ہوتا ہے اور حکومتیں ہمیشہ ان کارٹلز کے سامنے بے بس رہی ہیں، شوگر مل مالکان کو ہی لے لیں وہ کسان سے گنا بھی اپنی قیمت پر خریدتے ہیں اور پھر اس سے تیار شدہ چینی بھی اپنی مرضی کے نرخوں پر بیچتے ہیں، کچھ عرصہ قبل انھوں نے مل ملا کر چینی کی برآمد کی اجازت لے لی اور کہا کہ وہ صرف فالتو چینی باہر بھیجیں گے، ملکی عوام اس سے متاثر نہیں ہوں گے مگر ہوا وہی جس کا خدشہ تھا اب چینی کی قیمت کو پکڑنے اور روکنے والا ہی کوئی نہیں اور اس پر رمضان المبارک کی آمد ان کے لیے لامحدود منافع خوری کا ذریعہ بن گیا ہے، اگرچہ مہنگائی پر قابو پانا کچھ زیادہ مشکل نہیں، مگر سیاسی مفادات آڑے آتے ہیں اور حکومت ان کی مرضی کے سامنے چاروں شانے چت ہو جاتی ہے، اگر سیاسی مصلحتوں کو آڑے نہ آنے دیا جائے تو کارٹلز کی اجارہ داری کو نہ صرف توڑا جا سکتا ہے بلکہ عوام کو بھی ریلیف دینا ممکن ہے۔

قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور مافیا کھل کر کھیل رہے ہیں اور عام آدمی اس مافیا کے ہاتھوں لٹ رہا ہے۔ ملک میں چالیس فیصد لوگ خط غربت کی لکیر نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث غربت اور مہنگائی میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے الارمنگ حالات میں عام آدمی کی معاشی حالت کمزور ہوتی جا رہی ہے جس کے باعث قوت خرید جواب دیتی جا رہی ہے۔

ذخیرہ اندوزی ناقابل ضمانت جرم ہے، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے انسداد کے لیے مروجہ قوانین پر عمل نہ ہونا مافیاز کو تقویت دینے کا باعث ہے۔ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے انسداد کے لیے دو ایکٹ اور کئی ضمنی قوانین موجود ہیں، لیکن قوانین کا عملی نفاذ دیکھنے میں نہیں آیا یہی وجہ ہے یہ مافیا آئے روز عام آدمی کو معاشی ناہمواری کی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ ملک میں امتناع ناجائز منافع خوری و ذخیرہ اندوزی ایکٹ مجریہ 1977اور فوڈ سٹی کنٹرول ایکٹ 1958 کے تحت سرکاری محکموں کو مارکیٹ میں روزمرہ ضروری اشیاء کی مناسب رسد کی فراہمی،قیمتوں پر کنٹرول، ذخیرہ کی گئی اشیاء کی برآمدگی اور اس بارے ذمے داروں کو سزا دلوانے کے وسیع اختیارات موجود ہیں۔

المیہ ہے مروجہ قوانین چھوٹے دکانداروں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں ایسے مل مالکان، ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں جنھیں سزائیں ہوئیں۔ مروجہ ایکٹ کا سیکشن 7حکومتی محکموں کو ذخیرہ کی گئی چینی، آٹا، دالیں دیگر روزمرہ کی ضروری اشیاء ضرورت کے مطابق مارکیٹ میں لانے کی اجازت دیتا ہے۔ سیکشن 8 کے تحت حکومت قیمتوں کے تعین کا جائزہ لے سکتی ہے اور سیکشن 11 کے تحت مرتکب ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سمری ٹرائل کیا جا سکتا ہے، لیکن مروجہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے، کرپشن اور کنٹرولر آف پرائسزکے عہدے ذخیرہ اندوزی اور منافع خور مافیا کے محافظ بن گئے ہیں۔

 اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اعتدال نہ ہونے کے باعث عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن نہیں رہا۔ رمضان المبارک میں ہر خاص و عام کی کوشش ہوتی ہے، افطار کے وقت دستر خوان کشادہ ہو لیکن غریب آدمی 7 سو روپے کلو مرغی کا گوشت نہیں خرید سکتا، پھل اتنے مہنگے کہ قیمت سن کر عام آدمی کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ مہنگائی کا ماتم اپنی جگہ بجلی اور گیس کے بھاری بلوں نے عام آدمی اور متوسط طبقہ کا بجٹ تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔

خریداری کرتے ہوئے دس بار سوچنا پڑتا ہے کہ کیا خریدیں کیا چھوڑ دیں۔ عام آدمی مشکل سے اپنے گھر کی بسر اوقات کرتا ہے۔ مروجہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا اس بات کا غماز ہے حکومت اس مافیا کے سامنے بے بس ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کے مرتکب افراد کو نہ بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں اور نہ ہی سزائیں دی جاتی ہیں۔ چیک اینڈ بیلنس کا کوئی سسٹم ہے اور نہ ہی کوئی میکانزم ہے اور یہی وجہ ہے مہنگائی کے خلاف کیے گئے حکومتی اقدامات غیر موثر ہیں۔

حالیہ دنوں میں چینی کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جو چینی چند ماہ قبل 120 روپے فی کلو تھی، اب 170 سے 180 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔ یہ وہی چینی ہے جو رمضان میں غریب عوام روزہ افطار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح دیگر اشیاء کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں، جس سے عام آدمی کی زندگی مزید دشوار ہو گئی ہے۔غیر مسلم اپنے مذہبی تہواروں کے موقع پر خور نوش کی اشیاء کی قیمتوں میں جہاں کمی کا اعلان کرتے ہیں تو وہاں اشیاء بھی وافر مقدار میں دستیاب کرتے ہیں لیکن ہم کیا کرتے ہیں جیسے ہی ماہ رمضان قریب آتا ہے تو اشیائے ضروریہ کی قیمتیں دگنی کر دیتے ہیں۔

دنیا بھر میں مذہبی تہواروں اور مقدس ایام کے موقع پر تاجر حضرات ازخود قیمتوں میں کمی کر کے ہر کس و ناکس کو خوشیوں میں شریک ہونے کے اسباب اور وسائل فراہم کرتے ہیں، مگر ہمارے ہاں تاجر رمضان کی آمد سے قبل ہی اشیاء کی قلت کر کے قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں، ہمارے یہاں گراں فروشوں کو کھلی چھٹی دیدی جاتی ہے۔

مہنگائی کی ایک اور بڑی وجہ خریداروں کی کوئی ایسوسی ایشن نہ ہونا ہے،دنیا بھر میں بائرز اور کسٹمرز ایسوسی ایشنز ہیں،جیسے ہی کسی چیز کی قیمت میں مصنوعی اضافہ ہوتا ہے خریدار انجمنیں اس کا بائیکاٹ کر دیتی ہیں، خریدار ایسی اشیاء کی خریداری کم کر دیتے ہیں، جس کے نتیجہ میں تاجر حضرات کو مجبوراً قیمت کم کرنا پڑ جاتی ہے،مگر ہمارے ہاں اس کا کوئی تصور نہیں جس کی وجہ سے تاجر اور صنعتکار من مرضی کرنے کے لیے آزاد ہیں، صاحب حیثیت اور صاحب ثروت طبقہ بھی مہنگائی کا ذمے دار ہے جو پسندیدہ اشیاء کو من مرضی قیمت پر خریدنے کو ہر وقت تیار رہتا ہے، اگر یہ طبقہ تھوڑی سی مزاحمت کرے تو مصنوعی مہنگائی کی لہر کو روکا جا سکتا ہے۔

سب سے اہم ذمے داری پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی ہے، جن کے قیام کا مقصد ہی قیمتوں پر نظر رکھنا ہے، مگر پاکستان میں اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی غفلت، لاپروائی اور رشوت لینے کی وجہ سے دکانداروں سے لے کے ریڑھی والا ہرکوئی مرضی کی قیمت وصول کر رہا ہوتا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ قیمت کنٹرول کرنے والے اپنی ذمے داری اور اس کے معاشرتی اثرات سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے آفیسر مارکیٹوں سے ہفتہ یا دیہاڑی وصول کرتے ہیں اور انھیں من مرضی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں۔

انھیں نہیں معلوم ہوتا کہ جس دکاندار سے وہ ہزار روپیہ رشوت لے رہے ہیں وہ چیزیں مہنگی بیچ کے لوگوں سے لاکھوں روپے زیادہ وصول کرے گا۔ وہ یہ نقطہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی لالچ،غفلت اور بے ایمانی کی وجہ سے عوام کو روزانہ کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے ارکان اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہی فعال ہوتے ہیں۔ ان کمیٹیوں کے لوگوں کا مقصد خدمت عوام نہیں بلکہ اپنی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔

حکومت اگر چاہتی ہے کہ ان کی طرف سے کیے گئے اقدامات کے اثرات عام لوگو ں تک پہنچیں تو بہت ضروری ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے کا م کرنے کے طریقہ کار کو بہتر کیا جائے اور ضلعی انتظامیہ اپنے افسران پر کڑی نظر رکھے۔ سخت قوانین بنائے جائیں اور کوتاہی کے مرتکب ہونے والوں کے خلاف انضباطی کارروائیاں کی جائیں تاکہ کسی کو لاپروائی پر سزا ملتی دیکھ کے باقی ملازمین اپنی ذمے داریوں کو ایمانداری سے سرانجام دینے کی کوشش کرنے لگیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور ناجائز منافع خور مروجہ قوانین منافع خوری کمیٹیوں کے تاجر حضرات مصنوعات کی قیمتوں میں کی قیمتوں کی وجہ سے کرتے ہیں دیتے ہیں اشیاء کی سکتا ہے کے باعث ہونے کے ہیں اور کی قیمت ہوتا ہے کے خلاف نہ ہونے کرنے کے چینی کی اور اس کے لیے ہے اور

پڑھیں:

ایران میں بدترین خشک سالی، دارالحکومت کو پانی فراہمی کرنے والے ڈیم میں صرف دو ہفتے کا ذخیرہ رہ گیا

ایران میں بدترین خشک سالی، دارالحکومت کو پانی فراہمی کرنے والے ڈیم میں صرف دو ہفتے کا ذخیرہ رہ گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 3 November, 2025 سب نیوز

تہران :ایران کے دارالحکومت تہران کو پانی فراہمی کے سب سے بڑے ذخیرے امیر کبیر ڈیم میں صرف 14 ملین کیوبک میٹر پانی رہ گیا ہے جو تہران کے شہریوں کی 2 ہفتے کی ضروریات پوری کرنے سے زیادہ نہیں ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق پانی کی قلت کی تازہ ترین تصدیق پانی فراہمی کی کمپنی کے ڈائریکٹر بہزاد پارسا نے بھی کرتے ہوئے کہا ہے کہ امیر کبیر ڈیم میں گنجائش کے مقابلے میں صرف 8 فیصد پانی باقی رہ گیا ہے جو شہریوں کی صرف دو ہفتے کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ انہوں ایران کے دوسرے ڈیموں کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کیں کہ ان میں پانی کی صورتحال کیا ہے۔
ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق تہران کے شہریوں کی یومیہ ضرورت تین ملین کیوبک میٹر پانی ہے۔ پانی کی اس قلت کے پیش حکومت نے ہفتہ وار چھٹیوں کی تعداد دو کر دی ہے تاکہ پانی کا استعمال کم ہو سکے۔
اس ایک کروڑ سے زیادہ آبادی والے شہر کی آبی ضروریات کا انحصار جنوب سے اترنے والے پہاڑی چشموں اور برف پگھلنے سے ملنے والے پانی پر ہوتا ہے کیونکہ البروز کے پہاڑ جن کی بلندی 18000 فٹ تک ہے عام طور پر برف پوش ہوتے ہیں لیکن ان برسوں میں ایران بدترین خشک سالی سے گزر رہا ہے اس لئے کہ پہاڑوں پر ہمیشہ موجود رہنے والی برف نہ ہونے کے برابر ہوگئی ہے۔
تہران شہر کو پانی کی قلت اور اس نوعیت کی سنگین موسمیاتی تبدیلی کا گزشتہ ایک صدی تک کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ایران کو پانی کی اس بحرانی صورتحال کا ایک طویل عرصے سے سامنا ہے کیونکہ کئی دہائیوں سے بارشوں کا سلسلہ متاثر ہے اور آبی ضروریات کے لئے اہم سمجھے جانے والے کئی علاقے مسلسل خشک سالی کا شکار ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسانحہ9 مئی؛ زمان پارک میں پولیس کی گاڑیاں جلانے کے مقدمے میں گواہ طلب سانحہ9 مئی؛ زمان پارک میں پولیس کی گاڑیاں جلانے کے مقدمے میں گواہ طلب افغانستان کے ہندوکش خطے میں 6.3 شدت کا زلزلہ، 7 افراد ہلاک، 150 زخمی بھارتی ہواؤں سے پنجاب کی فضا مضر صحت، آلودہ ترین شہروں میں لاہور کا دوسرا نمبر غزہ میں کارروائیوں سے متعلق امریکاکو آگاہ کرتے ہیں اجازت نہیں مانگتے: نیتن یاہو ترکیہ میں غزہ امن منصوبے پر مشاورتی اجلاس آج، پاکستان جنگ بندی کے مکمل نفاذ اور اسرائیلی فوج کے انخلاکا مطالبہ کرےگا ڈاکٹر شفیق الرحمن تیسری مرتبہ امیر جماعت اسلامی بنگلا دیش منتخب TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • چینی کی سرکاری قیمت پر عدم دستیابی
  • عالمی مارکیٹ میں سونا مہنگا ہوگیا، مقامی سطح پر بھی قیمتوں میں مزید اضافہ
  • ایران میں بدترین خشک سالی، دارالحکومت کو پانی فراہمی کرنے والے ڈیم میں صرف دو ہفتے کا ذخیرہ رہ گیا
  • سرکاری نرخوں پر چینی کی عدم دستیابی، کئی شہروں میں 220 روپے کلو تک جا پہنچی
  • چینی کی قیمت میں کمی نہ ہوسکی، انتظامیہ دفاتر تک محدود
  • چینی کی سرکاری قیمت پر عدم دستیابی، مختلف شہروں میں قیمت 210روپے تک جا پہنچی
  • مختلف شہروں میں چینی کی قیمت 210 روپے فی کلو تک پہنچ گئی
  • چینی کی سرکاری قیمت پر عدم دستیابی، مختلف شہروں میں فی کلو قیمت 210 روپےتک جا پہنچی
  • چینی عوام کی پہنچ سے دور، مختلف شہروں میں قیمت 220 روپے کلو تک پہنچ گئی
  • ملک میں چینی کی قیمت 210 روپے فی کلو تک پہنچ گئی