Express News:
2025-11-03@16:24:13 GMT

شہید کا لخت جگر بھی شہید (دوسرا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT

خود کش دھماکے میں مولانا حامد الحق کے ساتھ کئی اور مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، مجھے ا س بات کا یقین ہے کہ مولانا عبدالحقؒ، مولانا سمیع الحق شہید اور باباجانؒ نے مل کر جنت الفردوس میں حامد الحق حقانی شہید کا استقبال کیا ہوگا کیونکہ اﷲ کے دین کی سربلندی کے لیے عمریں گزارنے، قربانیاں دینے اور جانوں کے نذرانے پیش والوں کو اﷲ کریم ان کی شایان شان ابدی زندگی عطا کرتا ہے۔

مولانا حامد الحق حقانی کو شہید کرنے والا خود کش بمبار تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بن چکا ہے اور انشاء اﷲاس کے سہولت کار، سرپرست اور تمام کُھلے چُھپے مددگار بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ ایک مومن مسلمان کو قصداً عمداً قتل کرنے والے کی ذلت آمیز سزا کا اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک ہی آیت میں نہ صرف ایسے قاتل کے لیے دوزخ کی سزا کا ذکر کیا ہے بلکہ اسے اﷲ نے اپنے غضب، لعنت اور زبردست عذاب کا بھی حقدار قرار دیا ہے۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر 93 میں اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اﷲ غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کا خون بہانے، اُنہیں قتل کرنے اور فتنہ و فساد برپا کرنے کو نہ صرف کفر قرار دیا ہے بلکہ اسلام سے واپس کفر کی طرف پلٹ جانا قرار دیا ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اسے اصطلاحِ شرع میں اِرتداد کہتے ہیں اور مرتد واجب القتل ہوتا ہے۔ امام بخاری حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’تم میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کرنے کے سبب کفر کی طرف نہ لوٹ جانا‘‘۔ یعنی اس طرح کے قاتل ایمان سے فارغ ہو کر دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ولی کامل شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ کے اس عظیم خانوادے نے ہمیشہ اسلام کی سربلندی کے لیے مثالی اور قابل تحسین و قابل تقلید جدوجہد کی، اسلام کی تعلیمات اور قرآن و سنت کی ترویج و اشاعت کو مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی نہیں چھوڑا۔

اس بات کا عملی ثبوت مولانا سمیع الحق کی شہادت ہے، اتنا بڑا سانحہ رونما ہونے کے باوجود ان کے خانوادے، دارالعلوم حقانیہ اور ان کی جماعت جمعیت علماء اسلام (س) نے نہ سڑکیں بلاک کیں، نہ جلاؤگھیراؤ کیا اور نہ ہی توڑ پھوڑ کی مگر ریاست نے بلا کی بے حسی کا مظاہرہ کیا اور 7 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود قاتل گرفتار ہوئے نہ اس بہیمانہ قتل کے منصوبہ ساز۔ مگر قاتل اور منصوبہ ساز یہ جان لیں کہ اﷲ کے حکم کے مطابق شہید اسلام مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ کے خاندان نے صبر کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا مقدمہ اﷲ رب العزت کے دربار میں اسی وقت پیش کیا تھا اور انشاء اللہ منتقم اللہ ان سفاک قاتلوں، ان کے سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں سے اپنی شان کے مطابق انتقام لے گا اور مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ کو اپنے وعدے کے مطابق جنت الفردوس میں اعلی مقام اور اپنے محبوب خاتم النّبیین حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قرب سے نوازے گا۔

مولانا عبدالحق رحمہ اللہ کے اعلی ظرف اورمحب وطن خاندان کے روایات کو دیکھتے ہوئے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ مولانا عبدالحقؒکے علمی گلشن دارالعلوم حقانیہ میں ان کے پوتے اور شہید اسلام مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے لخت جگر مولانا حامد الحق حقانی کی خود کش حملے میں شہادت پر بھی نہ احتجاج ہوگا، نہ سڑکیں بلاک ہوں گی، نہ توڑ پھوڑ اور نہ جلاؤگھیراؤ کیا جائے گا مگر ریاست کے ذمے داروں نے کبھی سوچا ہے کہ آخر کب تک یہ ظلم برداشت کیا جاسکتاہے؟

جہاں تک مولاناعبدالحق رحمہ اللہ کے خاندان کاتعلق ہے، اﷲ کی رضا پر راضی اس خانوادے نے ایک بار پھر اپنی روایات کے مطابق اپنا مقدمہ اور ایف آئی آر منتقم اللہ کے دربار و عدالت میں جمع کردی ہے۔ اس اذیت ناک اور جذباتی موقع پر جس طرح مولانا انوار الحق دامت برکاتہم عالیہ سے لے کر شہید ابن شہید حامد الحق حقانی کے مجاہد بیٹوں، مولانا عبدالحق ثانی اور ان کے چھوٹے بھائی نے کیا ہے وہ قابل رشک اور قابل تقلید ہے۔

جس طرح مولانا عبد الحقؒ سے مولانا سمیع الحق شہید اورمولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ سے مولانا حامد الحق حقانی شہید تک اس خانوادے، ان کے علمی گلشن اور قرآنی علوم کے مرکز دارلعلوم حقانیہ کے شیوخ، اساتذہ کرام، طلباء کرام ، جامعہ کے منتظمین اور ان کی جماعت نے اسلام اور پاکستان کا پرچم مضبوطی سے تھام کے رکھا ہے انشاء اﷲ ان کے بھائی، بیٹے، شاگرد اور کارکنان آیندہ بھی اسلام اور پاکستان کا پرچم تھامے رکھیں گے، مگرکیا ریاست ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ان سفاک قاتلوں کے سہولت کاروں کو نشان عبرت بنانے کا ارادہ رکھتی ہے،یا مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ کے کیس کی طرح بھول جائیں گے؟

جمعیت علماء اسلام پاکستان کے قائد مولانا فضل الرحمن جو اس وقت سعودی عرب کے سفر پر ہیں نے اس ظالمانہ اور سفاکانہ خود کش حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے بالکل درست کہا کہ’’دارلعلوم حقانیہ اور مولانا حامد الحق حقانی پر حملہ میرے گھر اور مدرسے پر حملہ ہے، ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے، جمعہ اور ماہ رمضان کی آمد کی حرمت کو پامال کیا، دہشت گردی اور بے امنی معاشرے کے لیے ناسور بن چکی ہے، امن و آمان کی ناگفتہ بہ صورتحال قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، کسی کی جان، مال، عزت اور آبرومحفوظ نہیں، خیبر پختونخوا میں بے امنی کے بارے میں عرصے سے رونا رو رہے ہیں لیکن ریاست خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔‘‘

ریاست کی بے حسی اور لاتعلقی کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ ہمارے حکمرانوں کے سینوں میں دل اور دل میں خوف خدا موجود ہے اگر ریاست شہید اسلام مولانا سمیع الحق شہید کے سفاک قاتلوں کو نشان عبرت بناکر دارلعلوم حقانیہ کے لان میں الٹا لٹکا دیتے تو آج مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت کا سانحہ رونما نہ ہوتا۔ ریاست کو اب ہوش کے ناخن لے کر یہ ماننا پڑے گا کہ دارالعلوم حقانیہ اورمولانا حامد الحق پر حملہ پاکستان کی سلامتی کے اداروں پر حملہ ہے، یہ جس نے کیا انھوں نے پاکستان کی بنیادوں میں بارودی سرنگ بچھانے کی کوشش کی ہے۔

 خیبر پختونخوا میں کافی عرصے سے حکومت صرف دھرنوں اور جلسوں کی سرکار بنی ہوئی ہے مگر مولانا حامد الحق حقانی رحمہ اﷲ کی شہادت صوبائی حکومت کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان اور داغ ہے۔ صوبائی حکومت عوام کی جان و مال، عزت آبرو کی حفاظت میں جس بری طرح ناکام ہوچکی ہے ، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اس کی پوری تصویر چند روز قبل مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران دکھا دی ہے۔ پاکستان کے متقدر حلقے مولانا کی اس تقریر کو سنجیدگی سے سنیں، اس میں دہشت گردی سے نمٹنے کا ٹھوس حل موجود ہے۔

اﷲ کریم مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، ان کے تمام پسماندگان خصوصاً ان کے جواں سال جانشین مولانا عبدالحق ثانی اور ان کے اہل خانہ کو اپنے حفظ و آمان میں اور ان کے خاندان سمیت ہم سب کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین ثمہ آمین یا رب العالمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ مولانا حامد الحق حقانی مولانا عبدالحق رحمہ اللہ کے کی شہادت کے مطابق پر حملہ اور ان کے لیے گا اور

پڑھیں:

میرا لاہور شہربے مثال کے کچھ خوب صورت نظارے (دوسرا حصہ)

شہزادی بمبا صدر لینڈ

 مارچ 1957 کی ایک اداس دوپہر لاہور شہر کی سڑکوں پر ٹریفک اسی طرح رواں دواں تھا جیسا کہ آج کل ہوتا ہے۔ کسی کو دوسرے کی کچھ خبر نہیں تھی۔ ہر شخص ایک دوسرے کے پیچھے یوں بھاگ رہا تھا جیسے اسے کسی چیز کی تلاش ہے لیکن لاہور کے جیل روڈ پر مسیحی قبرستان میں ایک عجیب سی اداسی تھی۔

یہاں ایک خاتون کی آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں۔ مرنے والی خاتون پنجاب کے شاہی خاندان کی آخری رکن شہزادی بمبا صدر لینڈ تھیں۔ وہ سکھ سلطنت کے بانی مہاراجا رنجیت سنگھ کی پوتی اور آخری مہاراجا دلیپ سنگھ کی چہیتی بیٹی اور صوفیہ دلیپ سنگھ کی بڑی بہن تھیں۔ شہزادی صوفیہ برطانیہ میں خواتین کے حقوق کی نمائندگی کی علم بردار رہیں جب کہ ان کی ایک دوسری بہن نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی میں یہودیوں کو نازیوں کے ظلم و ستم سے بچانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔

شہزادی بمبا کی آخری رسومات میں کوئی بہت سارے لوگ نہیں تھے۔ چوں کہ برطانوی ہائی کمشنر کی ذمے داری تھی اس شہزادی کو دفن کرنا، اس کی آخری رسومات کی نگرانی کرنا اور اس کی تدفین کرنا اس لیے برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر اور سفارت خانے کے کچھ لوگ اور کچھ مقامی لوگ ان آخری رسومات میں شامل تھے۔ انہوں نے آخری رسومات ادا کی اور نہایت ہی بجھے ہوئے دل کے ساتھ ان خاتون کو قبر میں اتارا جو سکھ خاندان کا خاتمہ تصور کی جاتی ہیں۔ 1849 میں دوسری اینگلو سکھ جنگ میں مقامی فوجیوں کی شکست کے ساتھ ہی جب انگریز راج کا پنجاب پر قبضہ کرنے کا خواب پورا ہوا تو 29 مارچ 1849 کو آخری سکھ مہاراجا دلیپ سنگھ کو ڈاکٹر جان لوگن کی سرپرستی میں دے دیا گیا جو اسے لے کر فوری طور پر فتح گڑھ کے لیے روانہ ہوگیا۔ اس کی اگلی منزل میسور تھی۔

مہاراجا دلیپ سنگھ کو اسی سال لندن بھیج دیا گیا اور وہ ملکہ وکٹوریا سے متعارف ہوا۔ یوں مہاراجا کو اس کی اپنی سلطنت سے دور کردیا گیا۔ تب دلیپ کی عمر 11 سال تھی لیکن وہ اپنے باپ یعنی مہاراجا رنجیت سنگھ سے بھی زیادہ دل چسپ اور لااوبالی کردار تھا۔ ملکہ وکٹوریا کو وہ بیٹوں کی مانند عزیز تھا۔ اسے اوائل میں اپنے ساتھ شاہی محل میں ہی رکھا۔ اس کی پرورش عیسائی ماحول میں ہوئی یا شاید اپنی مرضی سے یا وکٹوریا کو خوش کرنے کی خاطر مہاراجا دلیپ سنگھ نے 1853 میں عیسائیت اختیار کرلی اور بعض جگہوں پر اس کا پورا نام فریڈرک دلیپ سنگھ لکھا گیا۔ دلیپ سنگھ کی ماں رانی جند کور یا مائی جندا ایک نہایت با حوصلہ اور جری خاتون تھیں۔

اس نے تخت لاہور کی شکست کو کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ تلوار سونپ کر انگریزوں کے خلاف جنگ کا اغاز کردیا جنہوں نے دو معرکوں میں سکھ فوج کی کمان کی۔ نہایت بے جگری سے لڑی لیکن انگریز کی قوت کے سامنے کچھ پیش نہ گئی۔ انگریزوں نے 1846 میں اسے گرفتار کرکے پہلے 10 دن قلعہ لاہور کے مثمن برج میں اور پھر قلعہ شیخوپورہ میں قید کردیا۔ 1848 میں اسے پنجاب بدر کر کے ہندوستان کی موجودہ ریاست اترپردیش کے شہر وراناسی کے قریب چنار قلعہ بھیج دیا گیا۔

وہ وہاں ایک سال رہیں اور پھر ایک ملازمہ کے روپ میں وہاں سے فرار ہوکر 800 کلومیٹر جنگلوں اور ویرانوں میں سفر کر کے اپریل 1849 میں نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو پہنچیں۔ شروع میں وہ چھپ کر اور بھیس بدل کر رہتی رہیں لیکن بعد میں انہیں با ضابطہ طور پر نیپال میں سیاسی پناہ دے دی گئی۔ وہ 11 سال سے زیادہ عرصہ نیپال میں رہیں۔ اس دوران دلیپ مستقل اپنی ماں سے ملنے کی کوشش کرتا رہا لیکن انگریز اس کی اجازت دینے کو تیار نہ تھے۔ بالآخر 16 جنوری 1861 کو دونوں کی کلکتہ میں ملاقات ہوئی۔

اس وقت تک مہارانی جند کور کی بینائی تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ شہر میں شاہی جوڑے اور سکھ فوجی دستوں کی بیک وقت موجودگی کے پیش نظر فسادات کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ چناںچہ اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ کلنگ نے مہاراجا دلیپ سنگھ سے اپنی ماں سمیت اگلے دست یاب جہاز سے انگلینڈ روانی کی درخواست کی۔ مہارانی انگلینڈ پہنچ کر مشکل سے دو سال زندہ رہیں اور یکم اگست 1863 کی صبح نیند کے عالم میں ہی اس جہان فانی سے کوچ کرگئیں۔ مہارانی سے انگریز کے خوف کا یہ عالم تھا کہ مہاراجا دلیپ سنگھ کو اپنی ماں کی میت پنجاب لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مہارانی جند کور کی خواہش تھی کہ اس کی آخری رسومات لاہور میں ادا کی جائیں لیکن انگریزوں نے 1864 پہ مہاراجا دلیپ سنگھ کو میت ممبئی لے جانے کی اجازت دی۔

مہارانی کا انتم سنسکار دریائے گداوری کے کنارے کیا گیا اور وہیں اس کی یاد میں ایک چھوٹی سی سمادی بنا دی گئی۔ مہارانی جند کور برصغیر کی تاریخ میں رضیہ سلطانہ اور جھانسی کی رانی سے کم نہ تھی لیکن پنجاب کی اس مہارانی کی شجاعت کو فراموش کردیا گیا۔ شہزادی بمبا اسی مہارانی جند کور کی پوتی تھیں۔

اسی نے اپنی دادی کی آخری خواہش پوری کرنے کے لیے 1924 میں اس کی راکھ ممبئی سے لاہور منگوائی اور اپنے دادا مہاراجا رنجیت سنگھ کی سمادھ میں رکھوا دی۔ 1864 میں دلیپ سنگھ اپنی والدہ کی آخری رسومات کے بعد جب لندن واپس جا رہا تھا تو مصر کے شہر قاہرہ میں ایک خاتون بمبا ملر کو دل دے بیٹھا جو ایک مشنری اسکول میں کام کرتی تھیں۔ انہوں نے جلدی شادی کرلی۔ جب یہ جوڑا لندن واپس لوٹا تو ملکہ وکٹوریہ نے ان کا استقبال کیا۔ 29 ستمبر 1869 کو اس جوڑے کے ہاں پہلی اولاد ہوئی جس کا نام بمبا صوفیہ جندل دلیپ سنگھ رکھا گیا۔

اس کا نام اس کی دادی جند جثور اور نانی صوفیہ اور ماں بمبا سے مستعار لیا گیا تھا جب کہ عربی میں بمبا گلابی کو کہتے ہیں۔ اس کی دو چھوٹی بہنیں اور تین بھائی تھے جب کہ دو سوتیلی بہنیں بھی تھیں۔ شہزادی بمبا نے ابتدائی تعلیم لندن میں حاصل کرنے کے بعد آکسفورڈ یونی ورسٹی میں داخلہ لیا جس کے بعد وہ امریکی شہر شکاگو کے ایک میڈیکل کالج چلی گئیں۔

بیسویں صدی کے آغاز میں شہزادی بمبا نے اپنے آباؤ اجداد کی سرزمین ہندوستان کے دورے کرنا شروع کردیے۔ وہ ہمیشہ لاہور اور شملہ میں رہتی تھیں۔ شہزادی بمبا کو اپنے دادا کا شہر لاہور اس قدر پسند آیا کہ انھوں نے انگلینڈ چھوڑ کر تنہا ہی اسے اپنا مستقل مسکن بنالیا۔ پہلے شہزادی نے جیل روڈ کے شروع میں ایک عالی شان بنگلے میں رہائش رکھی بعد میں یہاں ایک سنیما بھی قائم رہا۔ شہزادی کی یہ رہائش گاہ اب تاریخ کی گرد میں کہیں کھوچکی ہے۔ اس کے بعد شہزادی بمبا نے لاہور کے پوش علاقے ماڈل ٹاؤن اے بلاک میں 104 نمبر گھر خریدا۔ شہزادی نے یہاں ایک کنال پر صرف گلاب اگائے۔

1915 میں شہزادی بمبا نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر ڈیورڈ واٹر صدر لینڈ سے شادی کرلی اور اپنا نام شہرازی بمبا صدر لینڈ رکھ دیا۔ وہ خود کو مہاراجا رنجیت سنگھ کی اکلوتی وارث سمجھتی تھیں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ ورثے میں اسے رنجیت سنگھ کا بُھس سے بھرا گھوڑا لائلا ملا تھا۔ اس کے علاوہ لاہور دربار کی چند نایاب پینٹنگز بھی اس کی ملکیت میں تھیں۔

 شہزادی بمبا کی زندگی کا ایک اور اہم باب ان کی زندگی میں کریم بخش سُپرا کا آنا تھا۔ شہزادی جب لاہور آئیں تو ان کی ملکیت میں تصاویر اور دیگر نادر فن پارے موجود تھے جو انہیں اپنے والد سے ورثے میں ملے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس فارسی اور عربی میں تاریخی دستاویزات اور شاہی احکامات تھے جو ان کے دادا نے 40 سالہ عہد اقتدار میں جاری کیے تھے۔ چوںکہ ان کی اہمیت سے آگاہ ہونا چاہتی تھیں، چناں چہ انہوں نے اخبار میں فارسی کے ماہر کی خدمات حاصل کرنے کے لیے اشتہار دیا۔ شہزادی نے بہت سے لوگوں کو انٹرویوز کیے اور بالاخر کریم بخش سپرا کو اس ملازمت پر رکھ لیا۔

لاہور میں قیام کے دوران شہزادی بمبا کا شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے ساتھ بھی ملنا جلنا رہا۔ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال شہزادی بمبا کی انتہائی عزت کیا کرتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کئی بار ماڈل ٹاؤن بس سروس میں سوار وہ لاہور شہر کی جانب سفر کرتیں اور اگر نشست نہ ملتی تو بلند آواز میں مسافروں کو مخاطب کر کے کہتیں کہ میں لاہور دربار کی آخری شہزادی ہوں، میرے احترام میں ایک نشست خالی کردو۔ ڈاکٹر ڈیوڈ اپریل 1939 میں وفات پاگئے۔ ان دونوں کی کوئی اولاد نہیں تھی اور یوں مہاراجا دلیپ سنگھ کی نسل آگے نہ بڑھ سکی، کیوںکہ اس کے بیٹوں اور بیٹیوں میں سے کوئی بھی صاحب اولاد نہیں تھا۔

 1942 میں شہزادی کی دوسری بہن بھی چل بسی جس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی میں یہودیوں کو نازیوں کے ظلم و ستم سے بچانے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ 1947 میں تقسیم ہند کے باعث پنجاب کا بٹوارا شہزادی بمبا کے لیے کسی دھچکے سے کم نہ تھا۔ شہزادی پنجاب کے بکھرنے پر افسردہ تھیں۔ ان کے تمام دوست احباب اور ساتھی ہندوستان چلے گئے لیکن خود انہوں نے لاہور چھوڑنے سے انکار کردیا۔ 1948 میں ان کی سب سے چھوٹی بہن شہزادی صوفیا دلیپ سنگھ بھی انتقال کرگئی تو شہزادی بمبا مزید تنہا ہوگئیں، کیوںکہ اب ان کا اپنا کوئی بھی نہیں رہا تھا۔

تقسیم اور بہن بھائیوں کی وفات کے باعث شہزادی بمبا کے لیے زندگی ایک آزمائش بن گئی۔ انہوں نے چند سال مشکل میں گزارے اور بالآخر 10 مارچ 1957 کو 88 سال کی عمر میں اپنے اسی مکان یعنی اے 104 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ کریم بخش سپرا کا خاندان بھی شہزادی بمبا کے ساتھ ماڈل ٹاؤن میں ہی قیام پذیر تھا۔

انہوں نے اپنی جائیداد ایک وصیت کے ذریعے کریم بخش سپرا کے نام کر دی۔ لوگ اسے رانی کی کوٹھی کے نام سے جانتے تھے اور کہتے تھے کہ شہزادی کے منشی نے اس پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس کوٹھی کی باڑ میں کبھی کبھی سفید پھول بھی کھلتے تھے۔ مشہور تھا کہ اس باڑ میں بے شمار سانپوں کا بسیرا ہے جو لوگوں کو اس ویران گھر سے دور رکھتا ہے۔ بمبا نے موت سے پہلے اپنا بیشتر حصہ حکومت پاکستان کے سپرد کردیا تاکہ اس کی دیکھ بھال کی جاسکے۔

وہاں پُراسرار طور پر ہیروں سے مزین ساز و سامان چوری ہوگیا۔ کچھ اشیاء انہوں نے اپنے وفادار پیر بخش کو تحفے کے طور پر عطا کردیں جن میں 18 واٹر کلر پینٹنگز، 14 آئل کلر پینٹنگز، ہاتھی دان پر بنائے گئے 22 فن پارے اور 17 تصاویر کے علاوہ چند نوادرات بھی شامل تھے۔ بعد میں حکومت نے ان تمام اشیاء کو قومی ورثہ قرار دے کر خرید لیا۔ شاہی قلعہ لاہور کی سکھ گیلری میں شہزادی بمبا کلیکشن کے نام سے نمائش کے لیے بھی رکھا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کلیکشن میں سے بہت سے قیمتی نوادرات اور جواہرات چوری کر لیے گئے ہیں جو حکومت تک پہنچے ہی نہیں یا حکومت کی تحویل میں آنے کے بعد غائب ہوئے، اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ماڈل ٹاؤن لاہور میں رانی کا یہ محل مسمار کردیا گیا۔

شہزادی بمبا کی قبر کے کتبے پر فارسی کے دو شعر لکھے ہیں، جن کا مطلب ہے حاکم اور محکوم میں تفریق باقی نہیں رہتی۔ جسم میں تقدیر کا لکھا ملتا ہے۔ اگر کوئی قبر کو کھود کر دیکھے تو امیر اور غریب کو الگ الگ نہیں کر سکتا۔ کہتے ہیں یہ دو فارسی کے شعر وصیت کے مطابق شہزادی کے کتبے پر لکھے گئے۔ قبر کے تعویذ پر لکھا ہوا ہے آخری آرام گاہ شہزادی بمبا صدر لینڈ دختر مہاراجا دلیپ سنگھ، پوتی مہاراجا رنجیت سنگھ شیر پنجاب ولادت 29 ستمبر 1869 لنڈن۔ وفات دس مارچ 1957 لاہور اور نیچے فارسی کی پوری نظم ہے۔ یہ کتبہ کریم بخش سپرا نے ہی لگوایا ہے۔ ماڈل ٹاؤن میں واقع رانی کا یہ محل مسمار کردیا گیا ہے۔

منشی نے محل پر قبضہ کیا یا نہیں؟ اس سوال کا جواب غالباً کبھی نہیں مل پائے گا لیکن شہزادی کی اہم ترین یادگار کی مسماری صرف لاہور شہر ہی نہیں بلکہ پنجاب کے عوام کے ساتھ زیادتی تھی، جس کے لیے حکومت وقت کو بروقت اقدام کرنا چاہیے تھا کیوںکہ جب یہ محل گرایا جا رہا تھا یا کوٹھی گرائی جا رہی تھی اس وقت برسرِاقتدار حکومت پاکستان میں خاص طور پر لاہور میں سکھ یادگاروں کی بحالی پر کام کر رہی تھی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ شہزادی کا گھر گرنے پر کسی نے احتجاج نہیں کیا، نہ اس کی موت پر اس کے پرکھوں کے ملک میں کسی نے آنسو بہائے۔ یہ چوںکہ پنجاب کی تاریخ کے ایک عہد کا خاتمہ تھا اس لیے یہ سلوک ظالمانہ تھا کیوں کہ بہرحال وہ پنجاب کی آخری شہزادی تھی۔

گورا قبرستان سے نکلے تو اب ہمارا رخ میانی صاحب قبرستان کی طرف تھا۔

نہ جانے آپ دوستی کو کتنے نمبر دیتے ہیں یا آپ کے نزدیک دوستی کی اہمیت کیا ہے مگر مجھے سو فیصد یقین ہے کہ میری طرح کے ایسے بہت سے لوگ اس دنیا میں موجود ہیں جو اپنے دوستوں سے شدید محبت کرتے ہیں اور پھر آخر پر تنہائی ہی ان کا مقدر بنتی ہے۔ بہت سی مصلحتوں کے تحت کسی نے مجھے چھوڑ دیا اور کسی کو میں نے۔ یہ دنیا دوستوں کی محبت کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ ان ہی محبت بھری داستانوں میں سے ایک داستان میجر شبیر شریف شہید اور ان کے دوست تنویر احمد خان کی بھی ہے۔ ملکِ پاکستان ایسا کون ہو گا جو میجر شبیر شریف کو نہ جانتا ہو۔

میجر شبیر شریف شہید (نشانِ حیدر) پاکستان آرمی کے ایک عظیم اور بہادر سپوت تھے۔ وہ 28 اپریل 1943ء کو گجرات (پاکستان) کے گاؤں کنجاہ میں پیدا ہوئے۔ آپ مشہور جنرل راحیل شریف (سابق آرمی چیف) کے بڑے بھائی تھے۔ میجر شبیر شریف نے 1964ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے کمیشن حاصل کیا اور 6 ایف ایف رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ 1971ء کی پاک-بھارت جنگ میں آپ نے شجاعت اور غیر معمولی قیادت کا مظاہرہ کیا۔

جنگِ 1971ء کے دوران سلیمانکی سیکٹر میں میجر شبیر شریف نے اپنی بٹالین کی قیادت کرتے ہوئے بھارتی فوج کے مضبوط مورچوں پر قبضہ کیا۔ انہوں نے ٹینک شکن ہتھیار سے کئی بھارتی ٹینک تباہ کیے۔ شدید دشمن فائر کے باوجود آگے بڑھتے ہوئے اپنی جان قربان کی۔ آپ کی قیادت اور دلیری سے دشمن کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ میجر شبیر شریف کو نشانِ حیدر (پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز) عطا کیا گیا۔ آپ کو یہ اعزاز 6 دسمبر 1971ء کو شہادت کے بعد دیا گیا۔ میجر شبیر شریف 6 دسمبر 1971ء کو جامِ شہادت نوش کر گئے اور ہمیشہ کے لیے تاریخِ پاکستان میں امر ہوگئے۔

 میجر شبیر شریف شہید نے صرف 1971ء کی جنگ میں ہی نہیں بلکہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ اُس وقت وہ سیکنڈ لیفٹیننٹ تھے اور اپنی 6 فرنٹیئر فورس (6 ایف ایف) رجمنٹ کے ساتھ تعینات تھے۔ جنگ کے دوران انہیں جوڑیاں-سیالکوٹ سیکٹر میں تعینات کیا گیا۔ اس محاذ پر بھارتی فوج نے بڑے پیمانے پر حملہ کیا تھا تاکہ سیالکوٹ کی طرف پیش قدمی کر سکے۔

شبیر شریف نے جوانی کے ابتدائی دور میں ہی غیر معمولی بہادری اور قیادت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنی کمپنی کے ساتھ دشمن کی پوزیشنوں پر بھرپور حملہ کیا اور کئی بھارتی مورچے تباہ کیے۔ ان کی بہادری اور قیادت سے بھارتی فوج کو بھاری نقصان ہوا اور پیش قدمی ناکام بن گئی۔ 1965ء کی جنگ میں شان دار خدمات پر انہیں تمغۂ جرأت (Tamgha-e-Jurat) سے نوازا گیا۔

میجر شبیر شریف شہید راجہ عزیز بھٹی کے بعد وہ دوسرے نشانِ حیدر ہیں جنہیں پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر ہی اعزازیِ شمشیر سے نوازا گیا تھا۔ اگرچہ کہ اپ کے والد میجر شریف 1965 کی پاک بھارت جنگ سے تین ماہ قبل ہی ریٹائر ہو چکے تھے مگر ہنگامی حالات کے باعث ان کی خدمات دوبارہ حاصل کی گئیں۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ 1965 کی ہی پاک بھارت جنگ میں آپ کو ستارۂ جرأت، تمغہ جنگ اور تمغہ دفاع سے بھی نوازا گیا تھا۔ آپ سے پہلے اپ کے ماموں میجر عزیز بھٹی کو بھی نشان حیدر سے نوازا جاچکا تھا۔

مقبرہ غازی عِلم دین شہید

جب جب ناموس رسالت پر کسی نے میلی آنکھ سے دیکھا ہے تو تاریخ میں ایسے چند ہی کردار موجود ہیں جن کے عمل نے تاریخِ انسانی پر اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔ غازی اسلام غازی عِلم الدین شہید رحمت اللہ علیہ کا تاریخی کردار بھی انہی میں سے ایک ہے۔ 1929 میں لاہور کی آبادی پانچ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس وقت علم الدین کا نماز جنازہ ادا کرنے والوں کی تعداد تقریباً چھ لاکھ سے زائد ریکارڈ کی گئی اور نمازجنازہ ساڑھے پانچ میل پر پھیلا ہوا تھا۔

عِلم الدین 4دسمبر 1908 کو لاہور کے ایک ترکھان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے ایک مدرسے سے حاصل کی اور تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے آبائی پیشہ اختیار کیا۔ آپ کے دو بھائی تھے جن میں سے ایک سرکاری ملازمت کرتے تھے اور دوسرے میاں محمد امین صاحب تھے۔ میاں محمد امین صاحب بھی اپنے خاندانی پیشے سے منسلک تھے۔ اس خاندان کی شرافت و کاری گری کی دھوم دور دور تک تھی۔ آپ کا گھرانا متوسط گھرانوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ کاری گری میں ملکہ حاصل کر چکنے کے بعد انھوں نے اپنا فرنیچر کا کام شروع کیا۔

 یہ واقعہ 1928 کا ہے۔ راجپال نامی لاہور کے ایک ناشر نے نبی آخر الزماں ﷺ کے خلاف ایک گستاخانہ کتاب شائع کی۔ اس دل آزار عمل نے اہل ایمان کے جذبات کو مجروح کیا اور مسلمانوں میں سخت غصہ اور غم پیدا ہوگیا۔ جب مسلمان راہ نماؤں نے اس کتاب کو ضبط کرنے اور ناشر کے خلاف کارروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کیا تو انگریز حکومت کے مجسٹریٹ نے راجپال کو صرف چھے ماہ قید کی سزا سنائی۔

اس کے علاوہ کتاب کو ضبط کرنے کے مطالبے کو رد کردیا گیا اور ظلم یہ ہوا کہ راجپال نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ نے اس کو رہا کردیا۔ مسلمانوں کا غم و غصہ آسمان کو چھونے لگا اور گلی گلی احتجاج شروع ہوگیا۔

بجائے راجپال کو سزا دینے کے دو سپاہی اور ایک حوال دار اس کی حفاظت پر مامور کردیے گئے اور ساتھ ہی ساتھ روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگریز حکومت نے دفعہ 144 نافذ کر کے مسلمان راہ نماؤں کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ بلاشبہہ حکومت وقت ملعون راجپال کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا تھی۔ 24 ستمبر 1928 کو لاہور کے ایک شخص خدا بخش راجپال کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا تاہم اس نے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔ خدا بخش گرفتار ہوگیا اور اسے سات سال قید کی سزا سنائی گئی۔

افغانستان کا ایک شخص عبدالعزیز کفن باندھ کر گھر سے نکلا۔ اس نے لاہور آکر راجپال ملعون کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود ہی نہ تھا۔ راجپال کا ایک دوست اس کی جگہ موجود تھا۔ غلط فہمی میں عبدالعزیز نے اسی دوست کو راجپال سمجھ کر قتل کردیا۔

عبدالعزیز کو انگریز حکومت نے گرفتار کیا اور 14 سال کی سزا سنائی۔ مختلف روایات اور علماء کے اقوال سے پتا چلتا ہے کہ عِلم الدین ایک روز دلی دروازے پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رک گئے۔ وہاں راجپال کے خلاف تقریریں ہورہی تھیں۔ جس بات نے عِلم الدین کو سب سے زیادہ آگ بگولا کیا وہ راجپال کی نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی تھی۔ عِلم الدین بھی اس بات کو برداشت نہیں کرسکا کہ کوئی اس کی محبوب ترین ہستی کی شان میں گستاخی کرے۔

اس دور میں دلی دروازہ لاہور سیاسی سرگرمیوں کا گھڑ سمجھا جاتا تھا۔ یہاں سے جو بات بھی کی جاتی وہ ملک کے طول و عرض میں بآسانی پہنچتی تھی۔ یہاں پر ہونے والی گفتگو اپنے آپ میں ایک سند کی حیثیت رکھتی تھی مگر عِلم الدین اس وقت کا روشن خیال شخصیت کا مالک انسان تھا۔ اس نے جو سنا اس پر یقین نہیں کیا بلکہ اپنے والد محترم سے تائید حاصل کی۔

اپنے دوست جس کا نام شیدا تھا، اس کے اور ایک دوست کی مدد سے راجپال کا حلیہ، کتابوں کی دکان کا پتا اور دیگر معلومات اکٹھی کی گئیں۔ یہاں یہ روایت بھی نقل کی جاتی ہے کہ بعد ازیقین ایک رات انہیں خواب میں ایک بزرگ ملے۔ انہوں نے کہا پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی ہورہی ہے اور تم ابھی تک سو رہے ہو۔ اٹھو، جلدی کرو۔ علم الدین اٹھے اور سیدھا اپنے دوست شیدے کے گھر پہنچے۔

پتا چلا کہ شیدے کو بھی ویسے ہی خواب آیا تھا۔ دونوں ہی کو بزرگ نے راجپال کو قتل کرنے کو کہا۔ دونوں میں یہ بحث چلتی رہی کہ کون یہ کام کرے کیوںکہ دونوں ہی یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے دونوں نے فیصلہ کیا۔ تین مرتبہ علم الدین کے نام کی پرچی نکلی تو شیدے کو ہار ماننی پڑی۔ 6 اپریل 1929 کو ایک بجے دوپہر غازی علم الدین نے ایک دکان والے کی نشاندہی پر راجپال کو اس کی دکان جو انارکلی بازار میں مزار قطب الدین ایبک لاہور میں تھی، داخل ہوتے ہوئے پہچانا اور جیسے ہی راجپال اپنی نشست پر بیٹھا آپ نے راجپال کو للکارا، چھری نکالی اور راجپال کے جگر میں پیوست کردی۔

ایک ہی وار نے راجپال ملعون کا کام تمام کردیا۔ تھانہ انارکلی پولیس کو دکان کے ایک ملازم نے اطلاع دی اور غازی علم الدین نے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے گرفتاری پیش کی۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اگر آپ چاہتے تو فرار ہوسکتے تھے مگر آپ نے فرار ہونے کی کوشش بھی نہیں کی۔ مقدمہ لوئس نامی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا جس نے غازی علم الدین پر فرد جرم عائد کرد کے صفائی کا موقع دیے بغیر مقدمہ سیشن کورٹ میں منتقل کردیا۔

22 مئی 1929 کو علم الدین کو سیشن کورٹ کے انگریز جج نے سزائے موت کا حکم سنایا۔ وکیل علم الدین کی جانب سے بھی پیش ہوئے اور آپ کے حق میں دلائل دیے مگر تمام دلائل بے سود ثابت ہوئے۔ ہائی کورٹ میں اپیل کے لیے اس وقت کے سب سے بڑے اور مشہور وکیل محمد علی جناح کی خدمات حاصل کی گئیں۔ آپ بمبئی سے لاہور تشریف لائے اور اپ کی معاونت بیرسٹر فرخ حسین نے کی۔

7 جولائی 1929 کو ہائی کورٹ نے غازی علم الدین کو سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ 15 جولائی 1929 کو ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے بھی سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا اور غازی علم الدین کی اپیل خارج کردی۔ اپیل خارج ہونے کی اطلاع جب غازی علم الدین کو دی گئی تو اپ نے فرمایا شکر الحمدللّہ میں یہی چاہتا تھا کہ بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کی بجائے تختہ دار پر چڑھ کر ناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا میرے لیے ہزار درجے بہتر ہے۔ 31 اکتوبر سال 1929 بروز جمعرات کو میاں والی جیل میں آپ کو شہید کردیا گیا۔

4 نومبر 1929 کو جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ لے کر مسلمان ذمے داران کے ایک وفد نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی جن میں علامہ محمد اقبال، مولانا عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خان، سر محمد شفیق، خلیفہ شجاع، میاں امیرالدین، سرفضل حسین، مولانا غلام محی الدین قصوری اور دیگر صاحبان شامل تھے اور یقین دلایا کہ تدفین پُرامن ہونے کی ذمے داری ہے۔ 13 نومبر 1929 کو مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن اور سید مراتب علی شاہ کی سربراہی میں ایک وفد میاں والی روانہ ہوا اور 14 نومبر 1929 کو جسدخاک وصول کیا۔ 15 نومبر 1929 کو محکمہ ریلوے نے علم الدین کا جسدِ خاکی لاہور چھاؤنی میں علامہ محمد اقبال اور سر محمد شفیع کے حوالے کیا۔ اس وقت علم الدین کا نماز جنازہ ادا کرنے والوں کی تعداد تقریباً چھے لاکھ سے زائد ریکارڈ کی گئی اور نماز جنازہ ساڑھے پانچ میل پر پھیلا ہوا تھا۔

 آپ کی نماز جنازہ خطیب مسجد وزیرخان قاری شمس الدین نے پڑھائی۔ سید محمد دیدار علی شاہ محدث لاہوری اور علامہ محمد اقبال نے علم الدین کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا۔ آپ کی آخری آرام گاہ میانی صاحب قبرستان بہاولپور روڈ لاہور میں ایک نمایاں مقام پر موجود ہے۔

دُلا بھٹی

میانی صاحب میں ہی پنجاب کے بہادر سپوت دُلا بھٹی کی قبر بھی ہے۔ میں ایک بار اسد سلیم شیخ (جو کہ پنجاب کے معاملات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں) کو سن رہا تھا تو درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں۔

اکثر لوگ دلا بھٹی کا نام میاں محمد عبداللہ بھٹی لکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی قبر کے کتبے کے اوپر بھی یہ نام لکھا ہوا ہے۔ کئی دانشوروں نے بھی اس کو عبداللّہ کے نام سے پکارا۔ کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ہاں عبداللّہ کا ایک جو نک نیم ہے وہ دُلا ہوجاتا ہے۔ حنیف رامے صاحب نے اپنی کتاب مقدمہ پنجاب کے اندر بھی اسی رائے کا اظہار کیا بلکہ انہوں نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ اس کا اصل نام عبداللّہ تھا لیکن مغلوں نے اس ہیرو کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کے لیے یا دکھانے کے لیے اسے دُلا کے نام سے پکارا۔

 پہلی بات تو یہ ہے کہ مغلوں کی ہم عصر تاریخ کے اندر عبداللّہ بھٹی کا نام ملتا ہی نہیں ہے۔ اس کا نام عبداللہ ہو یا دُلا ہو، اس کا تو ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ یہ تو لوک واروں کے ذریعے سے ہم تک یہ کردار پہنچا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کا اپنا کردار ہے، وہ ہمارا ہیرو ہے لیکن اس کا کردار کچھ اور نظر سے ہے۔

دُلا بھٹی کا اصل نام دُلا بھٹی ہی ہے جو اس زمانے میں پنجاب کے مقامی ناموں میں سے ایک نام تھا۔ اس طرح کے کئی نام آپ کو اور مل جائیں گے کہ جن کا بظاہر آپ کو مفہوم آج کے دور کے اندر شاید نظر نہیں اتا لیکن اس زمانے کے لوگوں کو شاید علم ہوگا کہ اس کا مفہوم کیا تھا۔ جیسا کہ سِیو نام تھا، بوٹا، مُولی، کرتو نام تھے، تو اس طرح کے مقامی نام اس زمانے میں رائج تھے اور بے شک کہ مغلوں کا زمانہ تھا اور عربی اور فارسی کے نام رکھنے کا رواج شروع ہوچکا تھا لیکن یہ عربی اور فارسی کے نام عمومی طور پر ایلیٹ کلاس کے اندر ابھی رائج تھے یا بڑے شہروں کے اندر رائج تھے۔ دیہات میں ابھی تک پنجابی کے مقامی ناموں کا ہی رواج تھا تو اس اعتبار سے ایک دلیل تو یہ ہے کہ دُلا بھٹی کا نام دُلا تھا اور کسی بھی لوک وار کے اندر جو روایتیں ہم تک پہنچیں اس کا نام عبداللّہ نہیں لکھا گیا۔

 بقول اسد سیلم شیخ صاحب ان کے پاس امرتسر لاہور کے چھپے ہوئے سوا سو، ڈیڑھ سو سال پرانے قصے بھی موجود ہیں۔ کسی ایک قصے کے اندر اس کا نام عبداللہ نہیں لکھا گیا۔ کسی ہم عصر تاریخ کے اندر جہاں اول تو اس کا تذکرہ ہوا نہیں اگر کہیں ہوا تو اس کا نام دلا بھٹی کے طور پر لیا گیا۔ یہاں ایک اور اہم نکتہ بھی ہے کہ دُلا بھٹی کے جو پانچ بھائی تھے ان پانچ بھائیوں کے ناموں کے اوپر غور کیجیے تو پھر آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ ایک نام اسلامی کیوں ہوسکتا تھا باقی پانچ نام مقامی ہیں جیسے کہ ایک کا نام بہلول تھا تو ایک ادم۔ پھر ایک ممود، بڈھا اور سلار بھی تھے۔ باپ کا نام بھی فرید تھا، دادا کا نام ساندل تھا۔

ہم کیوں اس نام کو ایک اسلامی لیبل ڈال کر اس کا مقام بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ہمارا پنجابی ہیرو ہے اس کا نام دُلا بھٹی ہی ہے اور دُلا کا ایک مفہوم ہوگا۔ وہ بہادری کی علامت ہے، وہ جرأت کی علامت ہے تو ہم تاریخ کو اپنی مرضی کے مطابق اور مذہب کے اوپر چاندی کا ورق ڈال کر اس کا مقام بلند کرنے کی جو کوشش کرتے ہیں یہ شاید مناسب بات نہیں ہے۔ دُلا بھٹی تو بہادری کا ایک کردار تھا، یہ ہے اور رہے گا۔ اس کا نام عبداللّہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

میانی صاحب میں ایک طرف سعادت حسن منٹو بھی سورہا ہے۔

معلوم نہیں کہ سعادت حسن منٹو کے بارے میں کیا لکھا جائے اور کیا نہ لکھا جائے مگر ایک بات تو ضرور ہے میں جب جب منٹو کے بارے میں سوچتا ہوں تب تب مجھے منٹو کے اس فیصلے کے بارے میں افسوس ہوتا ہے کہ اس نے تقسیم ہند کے وقت پاکستان آنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ جس وقت برصغیر کی تقسیم ہوئی اس وقت منٹو، عصمت چغتائی سمیت بہت سے لکھاری بطور اسکرپٹ رائٹر بولی وڈ میں کام کر رہے تھے۔ منٹو نے تقسیم ہند تک بولی وڈ میں بہت زیادہ قدم تو نہ جمائے تھے مگر میرا خیال ہے کہ اگر وہ کچھ مزید وقت بولی وڈ میں یا ممبئی میں ہی قیام کرتا تو ایک نہ ایک دن جاوید اختر کی طرح ضرور کام یاب ہوجاتا مگر پھر تقسیم ہند اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات نے منٹو کو پاکستان آنے پر مجبور کیا۔

 تقسیم ہند کے اثرات بمبئی تک بھی پہنچے تو وہاں کچھ مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔ قتل کے ان واقعات نے منٹو کو بہت مایوس کیا۔ اس نے ایک بار دوستوں کی محفل میں یہ اعلان کردیا کہ اب وہ چپ چاپ پاکستان چلا جائے گا۔ کسی نے آواز کَسی کہ بھائی منٹو تم کون سا کوئی اتنے بڑے مسلمان ہو جو بھارت سے پاکستان ہجرت کرجاؤ گے۔ منٹو نے کہا کم از کم اتنا مسلمان تو ضرور ہوں کہ ممبئی میں بغیر کسی وجہ کے قتل کردیا جاؤں۔

منٹو نے اپنی زندگی میں انتہائی تلخ افسانے بھی لکھے۔ ایک مرتبہ منٹو کے بارے میں کسی نے کہا کہ منٹو معاشرے کے کپڑے اتارتا ہے تو جواباً منٹو نے کہا میں ایسے معاشرے کے کپڑے کیسے اتار سکتا ہوں جو پہلے سے ہی ننگا ہے۔ تقسیم ہند کے فسادات ہوئے تو منٹو نے ’’کھول دو‘‘ جیسا افسانہ ترتیب دیا۔ بظاہر شاید آپ کو یہ ایک فحش نام لگے مگر جب آپ اس افسانے کا مطالعہ کرتے ہیں تو جانتے ہیں کہ یہ تو محض ایک نفسیات کا افسانہ ہے کہ اس بے چاری لڑکی کے ساتھ اس قدر زیادتی کی گئی کہ اب کی بار جب کہ ڈاکٹر نے صرف کھڑکی کھولنے کے لیے نرس کو ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا کھول دو تو لڑکی نے اپنا ازار بند کھول دیا۔

منٹو ان چند لوگوں میں سے ایک تھا جس نے واضح طور پر لکھا کہ تقسیم ہند کے وقت ہونے والے فسادات یک طرفہ نہیں تھے۔ کچھ زیادتیاں اگر وہاں سے کی گئیں تو کچھ زیادتیاں یہاں سے بھی ہوئیں۔

مجھے منٹو سے صرف اور صرف ایک ہی شکایت ہے کہ منٹو اپنی گھریلو ذمے داریاں اٹھانے کے لیے تیار نہ تھا۔ آج بھی میرے آس پاس ایسے کچھ افراد موجود ہیں جو اپنے اپ کو منٹو سمجھتے ہیں اور اپنی گھریلو ذمے داریاں اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ اپنے جسم کی بھوک کو مٹانے کے لیے انہوں نے وقتی طور پر تو شادی کرلی، بچے بھی پیدا کر لیے مگر اب گھریلو معاملات سے اس قدر تنگ ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی اور بچوں کو صرف خدا کے آسرے اور اپنے گھر والوں کی باتیں سننے کے لیے اپنے گھروں میں چھوڑ دیا ہے۔ منٹو بھی بالکل ایسا ہی تھا۔ گھر میں بیٹی شدید بیمار تھی جس کی دوا تک کے لیے پیسے نہ تھے۔ منٹو نے اپنا ایک افسانہ پبلشر کو دیا، چند پیسے لیے اور بجائے بیٹی کی دوا کا بندوبست کرنے کے، اس نے اپنی شراب کی بوتل خرید لی۔ مجھے منٹوں سے اس کے سوا اور کوئی شکایت نہیں کہ اس نے اپنی گھریلو ذمے داریاں احسن طریقے سے نہیں نبھائیں۔ منٹو کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ منٹو کو بیٹے سے عشق تھا جو انتہائی کم عمری میں ہی چل بسا۔

منٹو کے چند جملے بہت مشہور ہیں۔

’’اگر آپ میری کہانیاں برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ہی ناقابلِ برداشت ہے۔‘‘

’’میں ادب کو معاشرے کا آئینہ سمجھتا ہوں، اور آئینہ دکھانے والے کو کبھی بھی برا نہیں کہنا چاہیے۔‘‘

 یہ واقعہ 1928 کا ہے۔ راجپال نامی لاہور کے ایک ناشر نے نبی آخر الزماں ﷺ کے خلاف ایک گستاخانہ کتاب شائع کی۔ اس دل آزار عمل نے اہل ایمان کے جذبات کو مجروح کیا اور مسلمانوں میں سخت غصہ اور غم پیدا ہوگیا۔ جب مسلمان راہ نماؤں نے اس کتاب کو ضبط کرنے اور ناشر کے خلاف کارروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کیا تو انگریز حکومت کے مجسٹریٹ نے راجپال کو صرف چھے ماہ قید کی سزا سنائی۔ اس کے علاوہ کتاب کو ضبط کرنے کے مطالبے کو رد کردیا گیا اور ظلم یہ ہوا کہ راجپال نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ نے اس کو رہا کردیا۔ مسلمانوں کا غم و غصہ آسمان کو چھونے لگا اور گلی گلی احتجاج شروع ہوگیا۔

بجائے راجپال کو سزا دینے کے دو سپاہی اور ایک حوال دار اس کی حفاظت پر مامور کردیے گئے اور ساتھ ہی ساتھ روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگریز حکومت نے دفعہ 144 نافذ کر کے مسلمان راہ نماؤں کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ بلاشبہہ حکومت وقت ملعون راجپال کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا تھی۔ 24 ستمبر 1928 کو لاہور کے ایک شخص خدا بخش راجپال کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا تاہم اس نے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔ خدا بخش گرفتار ہوگیا اور اسے سات سال قید کی سزا سنائی گئی۔ 

افغانستان کا ایک شخص عبدالعزیز کفن باندھ کر گھر سے نکلا۔ اس نے لاہور آکر راجپال ملعون کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود ہی نہ تھا۔ راجپال کا ایک دوست اس کی جگہ موجود تھا۔ غلط فہمی میں عبدالعزیز نے اسی دوست کو راجپال سمجھ کر قتل کردیا۔ عبدالعزیز کو انگریز حکومت نے گرفتار کیا اور 14 سال کی سزا سنائی۔

مختلف روایات اور علماء کے اقوال سے پتا چلتا ہے کہ عِلم الدین ایک روز دلی دروازے پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رک گئے۔ وہاں راجپال کے خلاف تقریریں ہورہی تھیں۔ جس بات نے عِلم الدین کو سب سے زیادہ آگ بگولا کیا وہ راجپال کی نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی تھی۔ عِلم الدین بھی اس بات کو برداشت نہیں کرسکا کہ کوئی اس کی محبوب ترین ہستی کی شان میں گستاخی کرے۔

اس دور میں دلی دروازہ لاہور سیاسی سرگرمیوں کا گھڑ سمجھا جاتا تھا۔ یہاں سے جو بات بھی کی جاتی وہ ملک کے طول و عرض میں بآسانی پہنچتی تھی۔ یہاں پر ہونے والی گفتگو اپنے آپ میں ایک سند کی حیثیت رکھتی تھی مگر عِلم الدین اس وقت کا روشن خیال شخصیت کا مالک انسان تھا۔ اس نے جو سنا اس پر یقین نہیں کیا بلکہ اپنے والد محترم سے تائید حاصل کی۔ اپنے دوست جس کا نام شیدا تھا، اس کے اور ایک دوست کی مدد سے راجپال کا حلیہ، کتابوں کی دکان کا پتا اور دیگر معلومات اکٹھی کی گئیں۔ یہاں یہ روایت بھی نقل کی جاتی ہے کہ بعد ازیقین ایک رات انہیں خواب میں ایک بزرگ ملے۔ انہوں نے کہا پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی ہورہی ہے اور تم ابھی تک سو رہے ہو۔ اٹھو، جلدی کرو۔ علم الدین اٹھے اور سیدھا اپنے دوست شیدے کے گھر پہنچے۔

پتا چلا کہ شیدے کو بھی ویسے ہی خواب آیا تھا۔ دونوں ہی کو بزرگ نے راجپال کو قتل کرنے کو کہا۔ دونوں میں یہ بحث چلتی رہی کہ کون یہ کام کرے کیوںکہ دونوں ہی یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے دونوں نے فیصلہ کیا۔ تین مرتبہ علم الدین کے نام کی پرچی نکلی تو شیدے کو ہار ماننی پڑی۔ 6 اپریل 1929 کو ایک بجے دوپہر غازی علم الدین نے ایک دکان والے کی نشاندہی پر راجپال کو اس کی دکان جو انارکلی بازار میں مزار قطب الدین ایبک لاہور میں تھی، داخل ہوتے ہوئے پہچانا اور جیسے ہی راجپال اپنی نشست پر بیٹھا آپ نے راجپال کو للکارا، چھری نکالی اور راجپال کے جگر میں پیوست کردی۔ ایک ہی وار نے راجپال ملعون کا کام تمام کردیا۔ تھانہ انارکلی پولیس کو دکان کے ایک ملازم نے اطلاع دی اور غازی علم الدین نے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے گرفتاری پیش کی۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اگر آپ چاہتے تو فرار ہوسکتے تھے مگر آپ نے فرار ہونے کی کوشش بھی نہیں کی۔ مقدمہ لوئس نامی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا جس نے غازی علم الدین پر فرد جرم عائد کرد کے صفائی کا موقع دیے بغیر مقدمہ سیشن کورٹ میں منتقل کردیا۔ 

22 مئی 1929 کو علم الدین کو سیشن کورٹ کے انگریز جج نے سزائے موت کا حکم سنایا۔ وکیل علم الدین کی جانب سے بھی پیش ہوئے اور آپ کے حق میں دلائل دیے مگر تمام دلائل بے سود ثابت ہوئے۔ ہائی کورٹ میں اپیل کے لیے اس وقت کے سب سے بڑے اور مشہور وکیل محمد علی جناح کی خدمات حاصل کی گئیں۔ آپ بمبئی سے لاہور تشریف لائے اور اپ کی معاونت بیرسٹر فرخ حسین نے کی۔

7 جولائی 1929 کو ہائی کورٹ نے غازی علم الدین کو سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ 15 جولائی 1929 کو ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے بھی سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا اور غازی علم الدین کی اپیل خارج کردی۔ اپیل خارج ہونے کی اطلاع جب غازی علم الدین کو دی گئی تو اپ نے فرمایا شکر الحمدللّہ میں یہی چاہتا تھا کہ بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کی بجائے تختہ دار پر چڑھ کر ناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا میرے لیے ہزار درجے بہتر ہے۔ 31 اکتوبر سال 1929 بروز جمعرات کو میاں والی جیل میں آپ کو شہید کردیا گیا۔

4 نومبر 1929 کو جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ لے کر مسلمان ذمے داران کے ایک وفد نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی جن میں علامہ محمد اقبال، مولانا عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خان، سر محمد شفیق، خلیفہ شجاع، میاں امیرالدین، سرفضل حسین، مولانا غلام محی الدین قصوری اور دیگر صاحبان شامل تھے اور یقین دلایا کہ تدفین پُرامن ہونے کی ذمے داری ہے۔ 13 نومبر 1929 کو مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن اور سید مراتب علی شاہ کی سربراہی میں ایک وفد میاں والی روانہ ہوا اور 14 نومبر 1929 کو جسدخاک وصول کیا۔ 15 نومبر 1929 کو محکمہ ریلوے نے علم الدین کا جسدِ خاکی لاہور چھاؤنی میں علامہ محمد اقبال اور سر محمد شفیع کے حوالے کیا۔ اس وقت علم الدین کا نماز جنازہ ادا کرنے والوں کی تعداد تقریباً چھے لاکھ سے زائد ریکارڈ کی گئی اور نماز جنازہ ساڑھے پانچ میل پر پھیلا ہوا تھا۔

 آپ کی نماز جنازہ خطیب مسجد وزیرخان قاری شمس الدین نے پڑھائی۔ سید محمد دیدار علی شاہ محدث لاہوری اور علامہ محمد اقبال نے علم الدین کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا۔ آپ کی آخری آرام گاہ میانی صاحب قبرستان بہاولپور روڈ لاہور میں ایک نمایاں مقام پر موجود ہے۔

دُلا بھٹی 
میانی صاحب میں ہی پنجاب کے بہادر سپوت دُلا بھٹی کی قبر بھی ہے۔ میں ایک بار اسد سلیم شیخ (جو کہ پنجاب کے معاملات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں) کو سن رہا تھا تو درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں۔ اکثر لوگ دلا بھٹی کا نام میاں محمد عبداللہ بھٹی لکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی قبر کے کتبے کے اوپر بھی یہ نام لکھا ہوا ہے۔ کئی دانشوروں نے بھی اس کو عبداللّہ کے نام سے پکارا۔ کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ہاں عبداللّہ کا ایک جو نک نیم ہے وہ دُلا ہوجاتا ہے۔ حنیف رامے صاحب نے اپنی کتاب مقدمہ پنجاب کے اندر بھی اسی رائے کا اظہار کیا بلکہ انہوں نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ اس کا اصل نام عبداللّہ تھا لیکن مغلوں نے اس ہیرو کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کے لیے یا دکھانے کے لیے اسے دُلا کے نام سے پکارا۔

 پہلی بات تو یہ ہے کہ مغلوں کی ہم عصر تاریخ کے اندر عبداللّہ بھٹی کا نام ملتا ہی نہیں ہے۔ اس کا نام عبداللہ ہو یا دُلا ہو، اس کا تو ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ یہ تو لوک واروں کے ذریعے سے ہم تک یہ کردار پہنچا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کا اپنا کردار ہے، وہ ہمارا ہیرو ہے لیکن اس کا کردار کچھ اور نظر سے ہے۔ 

دُلا بھٹی کا اصل نام دُلا بھٹی ہی ہے جو اس زمانے میں پنجاب کے مقامی ناموں میں سے ایک نام تھا۔ اس طرح کے کئی نام آپ کو اور مل جائیں گے کہ جن کا بظاہر آپ کو مفہوم آج کے دور کے اندر شاید نظر نہیں اتا لیکن اس زمانے کے لوگوں کو شاید علم ہوگا کہ اس کا مفہوم کیا تھا۔ جیسا کہ سِیو نام تھا، بوٹا، مُولی، کرتو نام تھے، تو اس طرح کے مقامی نام اس زمانے میں رائج تھے اور بے شک کہ مغلوں کا زمانہ تھا اور عربی اور فارسی کے نام رکھنے کا رواج شروع ہوچکا تھا لیکن یہ عربی اور فارسی کے نام عمومی طور پر ایلیٹ کلاس کے اندر ابھی رائج تھے یا بڑے شہروں کے اندر رائج تھے۔ دیہات میں ابھی تک پنجابی کے مقامی ناموں کا ہی رواج تھا تو اس اعتبار سے ایک دلیل تو یہ ہے کہ دُلا بھٹی کا نام دُلا تھا اور کسی بھی لوک وار کے اندر جو روایتیں ہم تک پہنچیں اس کا نام عبداللّہ نہیں لکھا گیا۔

 بقول اسد سیلم شیخ صاحب ان کے پاس امرتسر لاہور کے چھپے ہوئے سوا سو، ڈیڑھ سو سال پرانے قصے بھی موجود ہیں۔ کسی ایک قصے کے اندر اس کا نام عبداللہ نہیں لکھا گیا۔ کسی ہم عصر تاریخ کے اندر جہاں اول تو اس کا تذکرہ ہوا نہیں اگر کہیں ہوا تو اس کا نام دلا بھٹی کے طور پر لیا گیا۔ یہاں ایک اور اہم نکتہ بھی ہے کہ دُلا بھٹی کے جو پانچ بھائی تھے ان پانچ بھائیوں کے ناموں کے اوپر غور کیجیے تو پھر آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ ایک نام اسلامی کیوں ہوسکتا تھا باقی پانچ نام مقامی ہیں جیسے کہ ایک کا نام بہلول تھا تو ایک ادم۔ پھر ایک ممود، بڈھا اور سلار بھی تھے۔ باپ کا نام بھی فرید تھا، دادا کا نام ساندل تھا۔ ہم کیوں اس نام کو ایک اسلامی لیبل ڈال کر اس کا مقام بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وہ ہمارا پنجابی ہیرو ہے اس کا نام دُلا بھٹی ہی ہے اور دُلا کا ایک مفہوم ہوگا۔ وہ بہادری کی علامت ہے، وہ جرأت کی علامت ہے تو ہم تاریخ کو اپنی مرضی کے مطابق اور مذہب کے اوپر چاندی کا ورق ڈال کر اس کا مقام بلند کرنے کی جو کوشش کرتے ہیں یہ شاید مناسب بات نہیں ہے۔ دُلا بھٹی تو بہادری کا ایک کردار تھا، یہ ہے اور رہے گا۔ اس کا نام عبداللّہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

میانی صاحب میں ایک طرف سعادت حسن منٹو بھی سورہا ہے۔ 

معلوم نہیں کہ سعادت حسن منٹو کے بارے میں کیا لکھا جائے اور کیا نہ لکھا جائے مگر ایک بات تو ضرور ہے میں جب جب منٹو کے بارے میں سوچتا ہوں تب تب مجھے منٹو کے اس فیصلے کے بارے میں افسوس ہوتا ہے کہ اس نے تقسیم ہند کے وقت پاکستان آنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ جس وقت برصغیر کی تقسیم ہوئی اس وقت منٹو، عصمت چغتائی سمیت بہت سے لکھاری بطور اسکرپٹ رائٹر بولی وڈ میں کام کر رہے تھے۔ منٹو نے تقسیم ہند تک بولی وڈ میں بہت زیادہ قدم تو نہ جمائے تھے مگر میرا خیال ہے کہ اگر وہ کچھ مزید وقت بولی وڈ میں یا ممبئی میں ہی قیام کرتا تو ایک نہ ایک دن جاوید اختر کی طرح ضرور کام یاب ہوجاتا مگر پھر تقسیم ہند اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات نے منٹو کو پاکستان آنے پر مجبور کیا۔ 

 تقسیم ہند کے اثرات بمبئی تک بھی پہنچے تو وہاں کچھ مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔ قتل کے ان واقعات نے منٹو کو بہت مایوس کیا۔ اس نے ایک بار دوستوں کی محفل میں یہ اعلان کردیا کہ اب وہ چپ چاپ پاکستان چلا جائے گا۔ کسی نے آواز کَسی کہ بھائی منٹو تم کون سا کوئی اتنے بڑے مسلمان ہو جو بھارت سے پاکستان ہجرت کرجاؤ گے۔ منٹو نے کہا کم از کم اتنا مسلمان تو ضرور ہوں کہ ممبئی میں بغیر کسی وجہ کے قتل کردیا جاؤں۔ 

منٹو نے اپنی زندگی میں انتہائی تلخ افسانے بھی لکھے۔ ایک مرتبہ منٹو کے بارے میں کسی نے کہا کہ منٹو معاشرے کے کپڑے اتارتا ہے تو جواباً منٹو نے کہا میں ایسے معاشرے کے کپڑے کیسے اتار سکتا ہوں جو پہلے سے ہی ننگا ہے۔ تقسیم ہند کے فسادات ہوئے تو منٹو نے ’’کھول دو‘‘ جیسا افسانہ ترتیب دیا۔ بظاہر شاید آپ کو یہ ایک فحش نام لگے مگر جب آپ اس افسانے کا مطالعہ کرتے ہیں تو جانتے ہیں کہ یہ تو محض ایک نفسیات کا افسانہ ہے کہ اس بے چاری لڑکی کے ساتھ اس قدر زیادتی کی گئی کہ اب کی بار جب کہ ڈاکٹر نے صرف کھڑکی کھولنے کے لیے نرس کو ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا کھول دو تو لڑکی نے اپنا ازار بند کھول دیا۔ 

منٹو ان چند لوگوں میں سے ایک تھا جس نے واضح طور پر لکھا کہ تقسیم ہند کے وقت ہونے والے فسادات یک طرفہ نہیں تھے۔ کچھ زیادتیاں اگر وہاں سے کی گئیں تو کچھ زیادتیاں یہاں سے بھی ہوئیں۔ 

مجھے منٹو سے صرف اور صرف ایک ہی شکایت ہے کہ منٹو اپنی گھریلو ذمے داریاں اٹھانے کے لیے تیار نہ تھا۔ آج بھی میرے آس پاس ایسے کچھ افراد موجود ہیں جو اپنے اپ کو منٹو سمجھتے ہیں اور اپنی گھریلو ذمے داریاں اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ اپنے جسم کی بھوک کو مٹانے کے لیے انہوں نے وقتی طور پر تو شادی کرلی، بچے بھی پیدا کر لیے مگر اب گھریلو معاملات سے اس قدر تنگ ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی اور بچوں کو صرف خدا کے آسرے اور اپنے گھر والوں کی باتیں سننے کے لیے اپنے گھروں میں چھوڑ دیا ہے۔ منٹو بھی بالکل ایسا ہی تھا۔ گھر میں بیٹی شدید بیمار تھی جس کی دوا تک کے لیے پیسے نہ تھے۔

منٹو نے اپنا ایک افسانہ پبلشر کو دیا، چند پیسے لیے اور بجائے بیٹی کی دوا کا بندوبست کرنے کے، اس نے اپنی شراب کی بوتل خرید لی۔ مجھے منٹوں سے اس کے سوا اور کوئی شکایت نہیں کہ اس نے اپنی گھریلو ذمے داریاں احسن طریقے سے نہیں نبھائیں۔ منٹو کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ منٹو کو بیٹے سے عشق تھا جو انتہائی کم عمری میں ہی چل بسا۔

منٹو کے چند جملے بہت مشہور ہیں۔ 

’’اگر آپ میری کہانیاں برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ہی ناقابلِ برداشت ہے۔‘‘

’’میں ادب کو معاشرے کا آئینہ سمجھتا ہوں، اور آئینہ دکھانے والے کو کبھی بھی برا نہیں کہنا چاہیے۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • سکھر: جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا محمد صالح انڈھڑ ودیگر لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کررہے ہیں
  • جمعیت علماء اسلام کے تحت عوامی حقوق کیلئے لانگ مارچ
  • عاشقان رسولﷺ کو غازی علم دین کے راستے کو اپنانا ہوگا، مفتی طاہر مکی
  • میرا لاہور شہربے مثال کے کچھ خوب صورت نظارے (دوسرا حصہ)
  • پیپلز پارٹی، نون لیگ اور پی ٹی آئی کا خاتمہ ہو تو پاکستان ٹھیک ہوسکتا ہے، سراج الحق
  • علماء کرام کیلئے حکومت کا وظیفہ مسترد،اسلام آباد آنے میں 24 گھنٹے لگیں گے، مولانا فضل الرحمان کی دھمکی
  • بیرون ممالک کا ایجنڈا ہمارے خلاف کام کررہا ہے، مولانا فضل الرحمان
  •  دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن 
  • اسلام آباد بار کونسل انتخابات،نتائج سامنے آ گئے،حامد خان گروپ صرف ایک سیٹ پر کامیاب
  • ہمیں فورتھ شیڈول کی دھمکی نہ دی جائے،اسلام آباد آنے میں 24 گھنٹے لگیں گے: مولانا فضل الرحمان