Daily Mumtaz:
2025-09-18@22:59:00 GMT

افغانستان،امریکہ پاکستان میں دہشت گردی کے ذمہ دار

اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT

افغانستان،امریکہ پاکستان میں دہشت گردی کے ذمہ دار

اسلام آباد(طارق محمودسمیر)عالمی دہشت گردی انڈیکس 2025ء میں پاکستان دوسرے نمبر پر آ گیا،2024ء میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات
میں 45 فیصد اضافہ ہوا، 2023ء میں 517 حملے رپورٹ ہوئے تھے جو 2024ء میں بڑھ کر ایک ہزار99تک جا پہنچے، کالعدم تحریک طالبان پاکستان ملک میں تیزی سے بڑھنے والی سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے، جو 2024ء میں پاکستان میں 52 فیصد ہلاکتوں کی ذمہ دار تھی۔گزشتہ سال ٹی ٹی پی نے 482 حملے کیے، جن میں 558 افراد جاں بحق ہوئے، جو 2023ء کے مقابلے میں 91 فیصد زیادہ ہے۔ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہرمیں نء حکمت عملی کیتحت سکیورٹی فورسزکو نشانہ بنایاجارہاہے، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے شکار بیشتر علاقے پسماندگی اور جہالت میں سرفہرست ہیںاور پسماندگی اور جہالت کا خاتمہ فوجی آپریشن سے نہیں ہوگابلکہ یہ حکومت خصوصاً صوبائی حکومتوں کی کاوشوں ہی سے ہو سکتا ہے، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے وفاق اورصوبوں کے درمیان مؤثرتعاون ناگزیرہے جب کہ اس وقت وفاق اور خیبر پختونخوامیں ورکنگ ریلیشن شپ کا شدید فقدان ہے ، یہ ماننا ہو گا کہ سیاسی انتشار دہشت گردی کے عفریت کو پھیلنے کے لیے موافق ماحول فراہم کر رہا ہے،اسی طرح انسداد دہشت گردی میں نظم ونسق کا بھی بڑا عمل دخل ہے، خیبرپختونخوا حکومت نے روزاول سے جو طرزعمل اپنا رکھا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کی ترجیح صوبے کیامور یا عوام کے مسائل کا حل نہیں بلکہ پارٹی کے احتجاجی لائحہ عمل اور بیانیہ کو لے کر چلنا ہے، چنانچہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نظم ونسق کے مسائل پر بھی توجہ دینا ضروری ہے، پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کی بڑی وجہ افغان سرزمین کا دہشت گردی کے لیے استعمال ہونا ہے، اگست 2021ء میں کابل میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان کی مغربی سرحد پر سکیورٹی خدشات اور اندرونِ ملک دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا، اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کو افغان عبوری حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے اوردہشتگردانہ کارروائیوں میں افغانستان میں چھوڑاگیاامریکہ اسلحہ استعمال ہورہاہے، دہشت گردی اس لہرپر قابوپانے کیلیے سکیورٹی فورسزکے آپریشنزبھرپورانداز میں جاری ہیںاور اس حوالے سے اہم کامیابیاں بھی حاصل ہورہی ہیں،خصوصاًصوبہ خیبرپختونخوا ،جودہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے،وہاں حالیہ عرصے میں بڑی تعدادمیں خوارج کو جہنم واصل کیاجاچکاہے،اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے پاکستانی فورسزکی صلاحیتوں کی دنیامعترف ہے، ماضی میں کئے گئے  آپریشن رَدُ الفَساد ، آپریشن ضربِ عضب، آپریشن کوہِ سفید،آپریشن راہِ نجات،آپریشن راہِ راست اور آپریشن راہ حق پاکستانی فورسز کی اہلیت ،صلاحیت اور مہارت کا ثبوت ہیں لیکن اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ صرف طاقت کا استعمال دہشت گردی کے مسئلے کا حل نہیںبلکہ اس کے اسباب کا خاتمہ بھی ضروری ہے،سرحد پار سے آنے و الے دہشت گردوں کو افغان عبوری حکومت کی شہ میسر ہونے کے حوالے سے پاکستان کی تشویش بجا ہے، پاکستان کی جانب سے افغانستان کے ساتھ یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر اٹھایا جا رہا ہے لیکن افغان عبوری حکومت اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ، طالبان کا یہ اقدام دوحہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں ان کی جانب سے یقین دلایا گیا تھا کہ وہ افغانستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ نہیں بننے دیں گے، چنانچہ وقت آگیا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پالیسی کا جائزہ لیا جائے، افغان سرزمین کا دہشت گردی کے لیے استعمال روکنے کے لیے تمام ممکنہ آپشن برؤئے کار لائے جانے چاہئیں، اقوام متحدہ کی رپورٹس میں بھی افغانستان میں دہشت گردتنظیموں کے سرگرم ہونے کااعتراف کیاجاچکاہے لہذاعالمی ادارے سے مطالبہ کیاجاناچاہئے کہ وہ اس تشویش ناک صورت حال کے حوالے سے فوری اقدامات اٹھائے،اسی طرح دہشت گردی میں امریکی اسلحہ استعمال ہونے کامعاملہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اٹھایاجاناچاہئے ،صدرٹرمپ افغان طالبان سے یہ اسلحہ واپس لانے کااعلان کرچکے ہیں تاہم اس حوالے سے فوری اور سنجیدہ اقدامات ضروری ہیں،امریکہ دوحہ معاہدے کااہم فریق ہے ،اسے افغان طالبان کی طرف سے اس معاہدے کی خلاف وزریوں کاسلسلہ بندکرانے کے لیے کرداراداکرناچا ہئے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: دہشت گردی کے پاکستان میں حوالے سے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف

اسلام آباد(صغیر چوہدری )پاکستان سے افغان مہاجرین واپسی کے عمل میں تیزی آئی ہے۔ اپریل سے ستمبر تک 554000 مہاجرین کو واپس بھیجا گیا ہے اور اگست 2025 میں 143000افغان پناہ گزین واپس بھیجے گئے
جبکہ صرف ستمبر 2025 کے پہلے ہفتے میں ایک لاکھ افغانیوں کو واپس بھجوایا گیا ہے ۔ پاکستان نے افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے واضح اور سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو مزید برداشت نہیں کرے گی۔دوسری جانب مجموعی طور پر 2023 سے اب تک تقریباً 13 لاکھ افغان مہاجرین واپس بھیجے جا چکے ہیں۔ حکومت اس فیصلے کو قومی سلامتی کے لیے ضروری قرار دیتی ہے،جبکہ پی او آر کارڈز کے حامل افغان مہاجرین کی تعداد 15 لاکھ سے زائد ہے جن کی واپسی کا عمل جاری ہے لیکن سیکیورٹی ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اس،وقت غیر رجسٹرڈ افغانیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور وہ ملکی سلامتی کے لئے زیادہ خطرہ ہیں تاہم رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ تمام افغان مہاجرین کی واپسی اب ناگزیر ہے اور انہیں ہر حال میں واپس جانا ہے دوسری جانب ریاستی ادارے ان مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے دن رات کوشاں ہیں اور حکومت کا یہ ٹارگٹ ہے کہ رواں برس کے آخر تک تمام افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل مکمل کرلیا جائے ۔ تاہم ناقدین کے مطابق یہ اجتماعی سزا کے مترادف ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر دہائیوں سے پاکستان میں آباد تھے۔دوسری جانب
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) نے افغانستان میں اپنے آٹھ امدادی مراکز بند کر دیے ہیں۔ ان مراکز کا بنیادی کام واپس آنے والے افغان مہاجرین کو رجسٹریشن، بایومیٹرک تصدیق اور فوری مالی امداد فراہم کرنا تھا۔ ان مراکز کی۔بندش کی وجہ طالبان حکومت کی خواتین عملے پر ان مراکز میں کام کرنے پر پابندی بتائی گئی ہے جس کے باعث UNHCR نے کہا کہ وہ اپنی خدمات جاری نہیں رکھ سکتا۔ ان مراکز میں روزانہ سات ہزار افراد مدد کے لیے رجوع کرتے تھے، لیکن اب یہ سہولت دستیاب نہیں رہی۔ اس کے علاوہ مالی امداد اور فنڈز کے بحران کو بھی جواز بنایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ واپسی کرنے والے مہاجرین کو سب سے بڑا مسئلہ نقد امداد کی معطلی ہے۔ان تمام جواز کو بنیاد بنا کر UNHCR نے اعلان کیا ہے کہ فنڈز کی کمی اور طالبان کی سخت عدم تعاون کی پالیسی کی وجہ سے اب وہ لاکھوں افراد کو کیش اسسٹنس یعنی نقد رقم فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ مختلف ڈونر ممالک نے بھی فنڈز روک دیے ہیں، جس کی وجہ سے صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے واضح کیا ہے کہ اگر اضافی وسائل فراہم نہ کیے گئے تو افغان مہاجرین کو بنیادی سہولیات دینا ناممکن ہو جائے گا۔ یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ جو لوگ پاکستان اور ایران سے واپس جا رہے ہیں، ان کی اکثریت ایسے علاقوں میں آباد ہو رہی ہے جو حالیہ زلزلے سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ وہاں پہلے ہی رہائش، خوراک، صحت اور روزگار کی سہولیات محدود ہیں۔ خواتین اور بچے سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں، کیونکہ طالبان حکومت نے خواتین کی نقل و حرکت اور بنیادی خدمات تک رسائی پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ دوسری جانب مہاجرین کی واپسی کا یہ معاملہ صرف پاکستان اور افغانستان تک محدود نہیں رہا بلکہ یورپی ممالک بھی اپنے افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے لیے طالبان حکومت سے براہِ راست رابطے کر رہے ہیں جس میں جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک شامل ہیں ۔ اس تمام تر صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ افغان مہاجرین کا بحران عالمی سطح پر نئی سفارتی اور سیاسی صف بندی پیدا کر رہا ہے جبکہ پاکستان کی زیرو ٹالرنس پالیسی، طالبان حکومت کی سختیاں اور عدم تعاون ۔ اقوام متحدہ کے ہاتھ کھڑے کر دینا اور فنڈز کا بحران یہ سب عوامل مل کر افغان مہاجرین کے لیے ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دے رہے ہیں نتیجتا لاکھوں افراد غیر یقینی صورتحال، بنیادی سہولیات کی کمی اور سخت پالیسیوں کا شکار ہو کر مشکلات سے دوچار ہیں تاہم اسکی تمام تر ذمہ داری اب افغان حکومت اور اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ دہائیوں تک لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی میزبانی پاکستان سمیت دیگر ممالک کے لئے ممکن نہیں رہی

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سے دہشت گردی قومی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ ہے. عاصم افتخار
  • افغانستان سے دہشت گردی قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے، عاصم افتخار
  • پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف
  • افغان حکومت کی سخت گیر پالیسیاں، ملک کے مختلف علاقوں میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ بند
  • پاکستان کا سخت مؤقف، افغانستان میں ٹی ٹی پی اور “را” کی موجودگی ناقابل قبول
  • ٹی ٹی پی اور را کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان کو سخت پیغام
  • ٹی ٹی پی اور ’’را‘‘ کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان حکومت کو سخت پیغام
  • پی ٹی آئی نے ہمیشہ دہشت گردوں کے موقف کی تائید کی، وزیرمملکت قانون
  • پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ اپنے لئے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلئے ہے. عطا تارڑ
  • دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ دنیا کو محفوظ بنانے  کے لیے ہے، وفاقی وزیر اطلاعات