’نیشنل آئیڈنٹی کارڈ‘ کیوں ضروری؟ حاصل کیسے کریں؟ فیس کتنی؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
ویب ڈیسک: یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی شہریوں کو نیشنل آئیڈنٹی کارڈ فار اوورسیز پاکستانی (NICOP) کے اجرا کے لیے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے رجوع کرنا ہوگا۔
NICOP حاصل کرنے کے لئے قریبی نادرا رجسٹریشن سینٹر پر جا کر درخواست دینا ہوگی، آپ کی تصویر، فنگر پرنٹس اور دستخط لیے جائیں گے، نادرا کی پاک آئیڈینٹٹی ویب سروس (nadra.
درکار دستاویزات:پرانا NICOP یا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNIC)
پاسپورٹ کی کاپی: یورپی ملک کا رہائشی یا ورک پرمٹ ثبوت، دیگر ضروری دستاویزات (شادی شدہ افراد کے لیے نکاح نامہ، بچوں کے لیے برتھ سرٹیفکیٹ وغیرہ)
فیس اور پروسیسنگ کا وقت: فیس کا انحصار درخواست کی نوعیت (نئی، تجدید، ترمیم) اور ترجیح (نارمل، ارجنٹ، ایگزیکٹو) پر ہوتا ہے۔
پھلوں اور سبزیوں کی آج کی ریٹ لسٹ -جمعہ07 مارچ, 2025
نادرا NICOP ان پاکستانی شہریوں کے لیے لازمی ہے جو بیرون ملک سفر کرنے یا کسی غیر ملکی ملک میں مستقل رہائش اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
NICOP کیوں ضروری ہے؟
✔ پاکستانی شہری NICOP کے ذریعے بغیر ویزا کے پاکستان آ جا سکتے ہیں۔
✔ یورپ سمیت دیگر ممالک میں قانونی رہائش اور شناخت کے لیے ضروری ہے۔
✔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے بینک اکاؤنٹ کھلوانے اور پاکستان میں جائیداد کی خرید و فروخت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
✔ جو پاکستانی دوہری شہریت رکھتے ہیں، وہ NICOP کے ذریعے پاکستان میں اپنی شناخت برقرار رکھ سکتے ہیں۔
سٹاک مارکیٹ میں تیزی، ڈالر سستا
NICOP کے بغیر ممکنہ مسائل:
1-پاکستان آمد پر ویزا درکار ہوگا
2-قانونی اور سفری پیچیدگیاں
3- پاکستان میں جائیداد اور بینکنگ امور میں مشکلات
نادرا NICOP کے لیے درخواست دینے کی فیس: نارمل پروسیسنگ کے لیے 11,340 روپے، ارجنٹ فیس 16,589 روپے، ایگزیکٹو فیس 21,820 روپے ہے۔
نئے اسمارٹ NICOP کی فیس: نارمل فیس $39 (پاکستانی 10921 روپے )، ارجنٹ فیس $57 (پاکستانی 15962 روپے)، ایگزیکٹو فیس $75 (21003 روپے) مقرر کی گئی ہے۔
ٹڈاپ کرپشن کیس: چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی 3 مقدمات میں بری
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلیے اسٹرکچرل اصلاحات مکمل کرنا ہوں گی، وزیر خزانہ
اسلام آباد:وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اگر موجودہ اسٹرکچرل اصلاحات مکمل نہ کی گئیں تو آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
وفاقی وزراء اویس لغاری، شزہ فاطمہ خواجہ، چیئرمین ایف بی آر اور سیکرٹری خزانہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ پائیدار معاشی ترقی کے لیے اسٹرکچرل ریفارمز ناگزیر ہیں، اصلاحات کی تکمیل سے ہی معاشی خودمختاری اور پائیدار ترقی ممکن ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ریاستی ملکیتی اداروں میں بڑی اصلاحات کی گئی ہیں اور وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ پر تیزی سے کام جاری ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ سعودی عرب، چین اور خلیجی ممالک نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔
قرضوں کی واپسی، بانڈز کا اجرا اور پنشن اصلاحات
سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے بتایا کہ رواں مالی سال میں 8.3 ٹریلین روپے سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں جبکہ 9.8 ٹریلین روپے کے قرضے واپس کیے جائیں گے۔ اب تک 2.6 ٹریلین روپے کے قرضے واپس ہو چکے ہیں۔
امداد اللہ بوسال نے کہا کہ جلد پانڈا بانڈ اور بعد ازاں یورو بانڈ جاری کیے جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ نئے ملازمین کو ڈائریکٹ کنٹری بیوشن پنشن اسکیم کے تحت بھرتی کیا جا رہا ہے، اور اس مقصد کے لیے ایک کمپنی قائم کی جا رہی ہے۔
سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ افواج میں ریٹائرمنٹ جلدی ہو جاتی ہے، اس لیے مسلح افواج کے لیے بھی ڈائریکٹ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم پر کام جاری ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک میں یہی اسکیم لائی گئی تھی مگر بعد میں واپس لینا پڑی۔
چیئرمین ایف بی آر کی بریفنگ
ایف بی آر کی کارکردگی اور اصلاحات سے متعلق چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے بتایا کہ انکم ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ انکم ٹیکس کا مجموعی گیپ 1.7 ٹریلین روپے ہے، جس میں سے ٹاپ پانچ فیصد کا حصہ 1.2 ٹریلین روپے بنتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم ہر منگل کو ایف بی آر کا احتساب کرتے ہیں جس سے ادارے کو سپورٹ ملتی ہے۔ ٹوبیکو سیکٹر میں کارروائیوں کے دوران ایف بی آر کے دو اہلکار شہید ہوئے، جبکہ رینجرز مکمل تعاون فراہم کر رہی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر کے مطابق ادارے میں گورننس کے حوالے سے بڑی اصلاحات کی گئی ہیں، افسران کو اے، بی اور سی کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ایف بی آر کو سیاسی و انتظامی اثر و رسوخ سے آزاد کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈیجیٹائزیشن کے باعث شوگر سیکٹر سے 75 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوا، جس میں 42 ارب روپے سیلز ٹیکس اور 43 ارب روپے انکم ٹیکس کی مد میں حاصل کیے گئے۔ ریٹیلرز سے حاصل ہونے والا ٹیکس 82 سے بڑھ کر 166 ارب روپے ہوگیا ہے۔
توانائی شعبے میں اصلاحات
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ ہمیں مہنگی بجلی وراثت میں ملی، جس کی لاگت 9.97 روپے فی یونٹ ہے۔ روپے کی بے قدری اور کیپیسٹی چارجز کے باعث بجلی مہنگی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر انڈسٹری کے لیے بجلی 16 روپے فی یونٹ سستی کی گئی۔ سرپلس بجلی عوام کو 7.5 روپے فی یونٹ کے حساب سے پیشکش کی جا رہی ہے۔
اویس لغاری نے کہا کہ حکومت بجلی کی خرید و فروخت کے کاروبار سے باہر آرہی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار صارفین پر بوجھ ڈالے بغیر 1.2 کھرب روپے کا سرکلر ڈیٹ ختم کیا جا رہا ہے۔ پاور پلانٹس کے مالکان سے مذاکرات کے ذریعے 2058 تک 3600 ارب روپے کی اضافی ادائیگی روکی گئی۔
نجکاری
وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی نے کہا کہ نجکاری کمیشن کا ڈھانچہ تبدیل کر دیا گیا ہے اور نجکاری پروگرام 2024 میں 24 ادارے شامل کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری سرفہرست ہے اور اس کی خریداری کے لیے چار کنسورشیم دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں۔ ہدف ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری رواں سال کے آخر تک مکمل ہو۔
محمد علی نے کہا کہ 39 میں سے 20 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ مکمل ہوچکی ہے، 54 ہزار آسامیاں ختم کر دی گئی ہیں جس سے 56 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ پاسکو اور یوٹیلیٹی اسٹورز بند کیے جا رہے ہیں جبکہ نیشنل آرکائیو آف پاکستان سمیت اہم اداروں کو مزید مضبوط کیا جا رہا ہے۔
وزیر مملکت انفارمیشن ٹیکنالوجی
وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے کہا کہ وزیراعظم کیش لیس اکانومی کے فروغ کے لیے باقاعدہ اجلاس کر رہے ہیں۔ تین کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، جن میں سے ایک ان کی سربراہی میں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نیشنل ڈیٹا ایکسچینج لیئر کا پائلٹ پراجیکٹ دسمبر میں متعارف کرایا جائے گا جس سے ٹیکس نیٹ بڑھے گا اور لیکج میں کمی ہوگی۔
شزہ فاطمہ نے کہا کہ پاکستان کی 400 ارب ڈالر کی معیشت دراصل 800 ارب ڈالر کی ہوسکتی ہے کیونکہ نصف حصہ انفارمل اکانومی پر مشتمل ہے۔
وزیر مملکت نے بتایا کہ جون 2026 تک ڈیجیٹل پیمنٹس کو 20 لاکھ صارفین تک بڑھایا جائے گا۔