Daily Ausaf:
2025-11-03@18:10:46 GMT

الحادی فتنے اور ہماری ذمہ داریاں

اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT

آج کے سائنسی و تحقیقی دور میں انٹرنیٹ زندگی کالازمی حصہ بن چکا ہے۔ اب تو مصنوعی ذہانت نے اس میدان میں ایک نیا تہلکہ مچا دیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے جہاں بے شمار تحقیقی کام ہو رہے ہیں اور شعور انسانی کو جلا مل رہی ہے، وہاں اس کے ذریعے الحاد اور لادینیت کی شورشیں بھی عروج پرہیں۔ اشکالات اور وساوس پیدا کرکے اسلام کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر کے اسلام بیزار کرنے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے کئی’’ پلیٹ فارمز ‘‘الحادی افکار کو عام کرنے کے مکروہ دھندوں کیلئے استعمال کیے جا رہے ہیں جس میں ’’فیس بک‘‘ اور یوٹیوب کا اہم کردار ہے۔ فیس بک کا آغاز معاشرے میں ایک دوسرے کو جاننے پہچاننے والوں کے انٹر نیٹ کے ذریعے آسان رابطوں کیلئے ہوا تھا تاکہ لوگ اپنے خاندان اور دوست احباب کے ساتھ اپنے ذاتی معاملات، تصاویر اور وڈیوز شیئر کرلیا کریں۔ لیکن معاشرے میں جس طرح کے لوگوں کے رجحانات، مقاصد اور نظریات ہوتے ہیں اسی طرح انہیں زیر استعمال لاتے ہیں۔ اسلام دشمنی کوئی نئی بات نہیں بلکہ روز اول سے لے کرآج تک مختلف ادوار میں نئے نئے انداز میں سر اٹھاتی رہی اور کچلی بھی جاتی رہی۔ دور حاضر میں ان مذموم مقاصد کیلئے سوشل میڈیا کو بھی اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ شاخسانہ ان ڈیسک و نادیدہ ہاتھوں کا ہے کہ جنہیں پاکستان کی ترقی و بقا ایک آنکھ بھاتی ہے اور نہ اسلام کا دنیا بھر کے معاشروں میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور پرچار راس آتا ہے۔ چونکہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور دنیا بھر میں مقیم پاکستانی اچھی طرح اس زبان کو بولتے اور سمجھتے ہیں۔ اس لئے اس نظریاتی جنگ میں زیادہ تر اردو زبان میں اکاؤنٹس، پیجزاور گروپس تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ ان کی بنیاد نظریہ الحاد اور اسلام دشمنی ہوتی ہے۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ اسلامی نام کی آئی ڈیز بنا کر عام لوگوں اور خصوصا مسلمانوں کو فرینڈ لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں انہیں مختلف گروپس میں بلا اجازت ایڈ کرلیاجاتا ہے۔ یہ وہ گروپس ہوتے ہیں جو بد نیتی کی بنا پر بنائے جاتے ہیں اور ہمہ وقت اسلام کی مقدس تعلیمات کے خلاف بھیانک اور زہریلا پراپیگنڈا کرتے ہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد کو ہدف تنقید بنا کر ان پر جارحانہ حملے کیے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کواسلامی تعلیمات سے کنفیوز، متزلزل کر کے جذباتی کیا جاسکے۔ اس کے نتیجے میں مسلمان نوجوان اسلامی غیرت و حمیت کے ساتھ ان کی بے ہودہ حرکات پر سیخ پا ہوکر سخت اور تلخ لہجے میں رد عمل ظاہر کرتے ہیں کبھی کبھار بات گالی گلوچ تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ ان پوسٹس کو یہ لوگ مختلف فورمز اور پیجز پر چسپاں کرتے ہیں۔ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہ مذہبی جنونی مسلمان ہیں۔ دلچسب بات یہ ہے کہ جن کمنٹس میں علمی و فکری مواد ہو اور ان کی بیہودگی کا مکمل جواب ہو ان پوسٹس کو Delete کر دیتے ہیں جبکہ گالی گلوچ والے کمنٹس برقرار رکھ کر اپنے مذموم مقاصد پورے کرتے ہیں۔ اس حوالے سے گزارش ہے کہ یہ مکروہ دھندہ کرنے والے ساری پوسٹس ایک ناپاک ایجنڈے کے تحت لگاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ رد عمل میں اگر اہلیت ہو تو مدلل جوابات دے کر ان کی پھیلائی ہوئی الجھنوں کا قلع قمع کریں ورنہ گالیاں لکھنے کی بجائے نظر انداز کرتے ہوئے بلاک کرتے جائیں تاکہ آئندہ وہ پوسٹس نظر سے بھی نہ گزریں۔ ان سے انتقام کا یہ بہترین طریقہ ہے کیونکہ جب ان کی پوسٹس پر کوئی کمنٹس نہیں کرے گا تو یہ پوسٹس خود بخود زیرو ہو جائیں گی۔اگر ان ملحدین کے اعتراضات علمی و فکری ہوتے اور نیک نیتی کے ساتھ تلاش حق مقصود ہوتا تو ان کے سوالوں کے جوابات دینا مسلمانوں کی اخلاقی ذمہ داری بنتی تھی۔ ہردور میں مستشرقین اور ملحدین کی طرف سے اسلام پر اٹھنے والے اعتراضات اور سوالات کے جوابات اہل علم نے دیئے اور قیامت تک دیتے رہیں گے لیکن ان ملحدین کے طریقہ کار سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصد تخریب کاری اور اسلام دشمنی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ جو بھی علمی و فکری جواب ان کو دیا جاتا ہے اس کو فورا ڈیلیٹ کر دیتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جواب دینا اہل علم کا کام ہے اورعام آدمی اس میں الجھ کر پریشان اور کنفیوز ہوگا۔یاد رہے کہ ان ملحدین کی قابل مذمت کاروائیوں کے ذریعے (نعوذ باللہ من ذلک)ذات باری تعا لیٰ کا انکارکیا جاتا ہے۔
ہمارے آقا ومولی محمدﷺ کی ذات اقدس پر بہتان تراشی کی جاتی ہے۔ اسلام کو دہشت گرد مذہب ثابت کرنے کی ناکام کوشش ہوتی ہے۔ قرآن پاک کے بارے میں گھٹیا اور لغوزبان استعمال کی جاتی ہے۔ اسلامی تاریخ کے جھروکوں سے مختلف واقعات کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں اور وہ مسلمان جو اس دور پر فتن میں دین اسلام کی ترویج و اشاعت کا کام کر رہے ہوں ان کی کردار کشی کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے خلاف زہر اگل کر اسے جنونیوں کی آماج گاہ تک کہا جاتا ہے۔ یہ الحادی فورمز افواج پاکستان کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کرتے ہیں۔ ان تمام مکروہ اور بھیانک دھندوں کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور مسلمانوں کے دلوں سے حب الٰہی، عشق رسول ﷺ اور حب الوطنی کو کھرچ کر نکالنا اور افواج پاکستان سے بد دل کرنا ہے۔ ایک منصوبے کے تحت اپنے آپ کو سابق مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے ہیں کہ تحقیق کے بعد ہم مرتد ہوئے ہیں۔ یہ بھی فقط ان کے پھیلائے ہوئے جالوں میں سے ایک جال ہے۔ اسی طرح مختلف مسالک کی اہم شخصیات کی تصویریں چسپاں کر کے پیجز اور فورمز بناتے ہیں۔ دوسرے مسلک کے لوگوں کے بارے میں نفرت آمیز لٹریچرز اور پوسٹس لگا کر تکفیری مہم شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کو آپس میں باہم دست و گریباں کر کے اپنے مذموم مقاصد پورے کرتے اور ہماری سادگی اور غفلت پر ہنستے ہیں۔ کچھ لوگوں کوگمنام جعلی پیر کا روپ دے کر ان کی غیر اسلامی حرکات پر مشتمل وڈیوز تیار کر کے سوشل میڈیا پر پھیلا دی جاتی ہیں تاکہ حقیقی تصوف اسلامی کو بد نام کیا جا سکے۔ ہم اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے یا جانتے بوجھتے ہوئے بھی انہیں موضوع بحث بنا کر اپنی توانائیاں ایک دوسرے پر طعن و تشنیع میں صرف کرتے رہتے ہیں۔اس وقت اہل اسلام خصوصا علمائے ملت اسلامیہ کو بیدار مغز ہونے کی ضرورت ہے۔ایسے دگر گوں حالات میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے طوفان ٹل نہیں جایا کرتے۔ موجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھنا اور پیش آمدہ مسائل سے نبرد آزما ہونا ان کی منصبی ذمہ داری ہے۔ جس طرح امام غزالی نے اپنے دور کے فتنہ الحاد کو ’’تحافۃ الفلاسفہ‘‘ لکھ کر دفن کیا تھا۔ آج پھر اسی نہج پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ آج کا فتنہ الحاد پہلے سے بھی خطرناک اور نقصان دہ ہے کیونکہ اس دور کے الحادیوں کے پاس ایسی سائنس اور سوشل میڈیا نہ تھا کہ اپنے نظریات کو پھیلا سکیں جیسا کہ آج پھیلایا جارہا ہے۔ البتہ یہ خبر قابل ستائش ہے کہ پاکستانی حکام بالا کی کوششوں سے ان الحادیوں کی خاصی ویب سائٹس اکاؤنٹس ختم کیے جاچکے ہیں ۔ لیکن پھر بھی معاشرے میں ہر سطح پر اس فتنے کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا کرتے ہیں کے ذریعے لوگوں کو کے خلاف ہیں اور جاتی ہے جاتا ہے کرنے کی کیا جا

پڑھیں:

سالانہ 500 سے زائد لوگوں کی ہلاکت، افغانستان میں زلزلے کیوں عام ہیں؟

افغانستان کے شہر مزارِ شریف کے قریب پیر کی صبح 6.3 شدت کا زلزلہ آیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 7 افراد جاں بحق اور تقریباً 150 زخمی ہوگئے۔

یہ زلزلہ صرف چند ماہ بعد آیا ہے جب اگست کے آخر میں آنے والے زلزلے اور اس کے جھٹکوں سے 2 ہزار 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے: افغانستان: مزارِ شریف کے قریب زلزلہ، 7 افراد جاں بحق، 150 زخمی

افغانستان میں زلزلے کیوں عام ہیں؟

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پہاڑوں میں گھرا ہوا افغانستان مختلف قدرتی آفات کا شکار رہتا ہے، تاہم زلزلے سب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ملک میں ہر سال اوسطاً 560 افراد زلزلوں سے جان کی بازی ہار دیتے ہیں، جب کہ سالانہ مالی نقصان کا تخمینہ تقریباً 8 کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ 1990 سے اب تک افغانستان میں 5 شدت یا اس سے زیادہ کے 355 سے زائد زلزلے آ چکے ہیں۔

افغانستان یوریشیائی اور بھارتی ٹیکٹونک پلیٹس کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ دونوں پلیٹس ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں، جب کہ جنوب میں عرب پلیٹ کا اثر بھی موجود ہے۔ انہی پلیٹس کے باہمی دباؤ اور ٹکراؤ کے باعث یہ خطہ دنیا کے سب سے زیادہ زلزلہ خیز علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ بھارتی پلیٹ کا شمال کی طرف دباؤ اور اس کا یوریشیائی پلیٹ سے تصادم اکثر شدید زلزلوں کا باعث بنتا ہے۔

سب سے زیادہ متاثرہ علاقے

مشرقی اور شمال مشرقی افغانستان، خصوصاً پاکستان، تاجکستان اور ازبکستان کی سرحدوں سے متصل علاقے، زلزلوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ دارالحکومت کابل بھی ایک خطرناک زون میں واقع ہے، جہاں ہر سال زلزلوں سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر لگایا گیا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں زلزلے زمین کھسکنے کا باعث بنتے ہیں، جس سے جانی نقصان میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: وزیراعلیٰ گنڈا پور کا افغانستان کے زلزلہ متاثرین کے لیے مزید 1000 خیمے بھیجے کا اعلان

افغانستان کے بدترین زلزلے

گزشتہ ایک صدی میں افغانستان میں تقریباً سو بڑے تباہ کن زلزلے آ چکے ہیں۔ 2022 میں 6 شدت کے زلزلے نے 1000 افراد کی جان لی، جب کہ 2023 میں ایک ہی مہینے میں آنے والے کئی زلزلوں نے 1000 سے زائد افراد کو ہلاک اور درجنوں دیہات کو تباہ کر دیا۔ 2015 میں 7.5 شدت کے زلزلے سے افغانستان، پاکستان اور بھارت میں 399 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ 1998 میں 3 ماہ کے دوران 2 بڑے زلزلوں نے 7 ہزار سے زائد افراد کی جان لے لی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • ایم ڈبلیو ایم کے زیر اہتمام کانفرنس "آزادی اور ہماری زمہ داریاں"
  • کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
  • سالانہ 500 سے زائد لوگوں کی ہلاکت، افغانستان میں زلزلے کیوں عام ہیں؟
  • سیاست سہیل آفریدی کا حق، اپنے صوبے کے معاملات دیکھنا بھی ان کی ذمہ داری: عطا تارڑ
  • علماء کرام کیلئے حکومت کا وظیفہ مسترد،اسلام آباد آنے میں 24 گھنٹے لگیں گے، مولانا فضل الرحمان کی دھمکی
  • اسلام آباد: ٹریفک پولیس اہلکاروں پر تشدد کرنے والا نوجوان گرفتار
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • کوئٹہ میں سردیوں کی آمد، موسم کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مزاج بھی بدلنے لگے
  • سوڈان کی صورتحال پر سید عباس عراقچی کا تبصرہ
  • وقار یونس نوجوان کھلاڑیوں سے حسد کرتے ہیں، میرا کیریئر بھی تباہ کیا؛ عمر اکمل