کسی بھی ملک کی ترقی میں خواتین کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے، سید یوسف رضا گیلانی
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 مارچ2025ء) چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں خواتین کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے،خواتین کو بااختیار بنائے بغیر اور ان کی صلاحیتوں کو قومی ترقی میں شامل کیے بغیر ایک مضبوط اور خوشحال معاشرے کا قیام ممکن نہیں۔
ہفتہ کو سینیٹ سیکرٹریٹ کی طرف سے جاری بیان میں چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اسلام نے خواتین کو عزت، وقار اور حقوق دیئے ہیں اور ہر قسم کے صنفی امتیاز کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ خواتین کو زندگی کے تمام شعبوں میں مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے اجتماعی کوششیں ناگزیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم، صحت، معیشت، سیاست اور دیگر سماجی شعبوں میں خواتین کی شرکت اور قیادت کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔(جاری ہے)
سید یوسف رضا گیلانی نے اس موقع پر بینظیر بھٹو شہید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں، جنہوں نے خواتین کے حقوق، جمہوریت کے استحکام اور سماجی ترقی کے لیے بے مثال جدوجہد کی۔چیئرمین سینیٹ نے تحریکِ پاکستان کے دوران خواتین کے تاریخی کردار کو اجاگر کرتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان اور دیگر خواتین رہنماؤں کی جدوجہد کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ خواتین نے ہر دور میں قومی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور آج بھی وہ ملک کی خوشحالی اور استحکام میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں۔سید یوسف رضا گیلانی نے امید ظاہر کی کہ پارلیمان اور حکومت خواتین کی فلاح و بہبود، ان کے حقوق کے تحفظ اور انہیں قومی ترقی کے دھارے میں مزید مؤثر انداز میں شامل کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سید یوسف رضا گیلانی کہا کہ
پڑھیں:
صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) دنیا میں صنفی مساوات کی جانب پیشرفت سنگین مسائل کا شکار ہے اور اس کی قیمت انسانی جانوں، حقوق، اور مواقع کی صورت میں ادا کی جا رہی ہے۔ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو رواں دہائی کے آخر تک 351 ملین سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں شدید غربت کا شکار ہوں گی۔
اقوام متحدہ کے شعبہ معاشی و سماجی امور اور خواتین کے لیے ادارے 'یو این ویمن' کی جانب سے پائیدار ترقی کے اہداف سے متعلق شائع کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت صنفی مساوات کے بارے میں کسی بھی ہدف کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین میں غربت کی شرح گزشتہ پانچ برس میں تقریباً 10 فیصد پر ہی برقرار ہے۔ اس غربت سے سب سے زیادہ متاثرہ خواتین ذیلی صحارا افریقہ اور وسطی و جنوبی ایشیا میں رہتی ہیں۔
(جاری ہے)
گزشتہ سال ہی 67 کروڑ 60 لاکھ خواتین اور بچیاں ایسے علاقوں میں یا ان کے قریب رہتی تھیں جو مہلک تنازعات کی زد میں تھے۔ یہ 1990 کی دہائی کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔
جنگ زدہ علاقوں میں پھنس جانے والی خواتین کے لیے صرف بے گھر ہونا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ان کے لیے خوراک کی قلت، طبی خطرات اور تشدد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد اب بھی دنیا بھر میں سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔گزشتہ سال ہر آٹھ میں سے ایک خاتون کو اپنے شریکِ حیات کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ہر پانچ میں سے ایک نوجوان لڑکی 18 سال کی عمر سے پہلے بیاہی گئی۔
علاوہ ازیں، ہر سال تقریباً 40 لاکھ بچیوں کو جنسی اعضا کی قطع و برید کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سے نصف کی عمر پانچ سال سے کم ہوتی ہے۔مایوس کن اعداد و شمار کے باوجود، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب حکومتیں صنفی مساوات کو ترجیح دیتی ہیں تو کیا کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔
2000 سے اب تک زچگی کے دوران اموات میں تقریباً 40 فیصد کمی آئی ہے اور لڑکیوں کے لیے سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے امکانات پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں۔
یو این ویمن میں پالیسی ڈویژن کی ڈائریکٹر سارہ ہینڈرکس نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب وہ 1997 میں زمبابوے منتقل ہوئیں تو وہاں بچے کی پیدائش زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتی تھی۔
تاہم، آج وہاں یہ صورتحال نہیں رہی اور یہ صرف 25 یا 30 سال کے عرصے میں ہونے والی شاندار پیش رفت ہے۔صنفی ڈیجیٹل تقسیمصنفی مساوات کے معاملے میں جدید ٹیکنالوجی نے بھی امید کی کرن دکھائی ہے۔آج 70 فیصد مرد انٹرنیٹ سے جڑے ہیں جبکہ خواتین کی شرح 65 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اگر یہ ڈیجیٹل فرق ختم کر دیا جائے تو 2050 تک مزید 34 کروڑ 35 لاکھ خواتین اور بچیاں انٹرنیٹ سے مستفید ہو سکتی ہیں اور 3 کروڑ خواتین کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے۔
اس طرح 2030 تک عالمی معیشت میں 1.5 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو گا۔یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث کا کہنا ہے کہ جہاں صنفی مساوات کو ترجیح دی جاتی ہے وہاں معاشرے اور معیشتیں ترقی کرتے ہیں۔ صنفی مساوات پر کی جانے والی مخصوص سرمایہ کاری سے معاشروں اور معیشتوں میں تبدیلی آتی ہے۔ تاہم، خواتین کے حقوق کی مخالفت، شہری آزادیوں کو محدود کیے جانے اور صنفی مساوات کے منصوبوں کے لیے مالی وسائل کی کمی نے برسوں کی محنت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
معلومات میں کمی کا مسئلہیو این ویمن کے مطابق، اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو خواتین پالیسی سازی اور ڈیٹا میں نظروں سے اوجھل رہیں گی کیونکہ جائزوں کے لیے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل میں کمی کے باعث اب صنفی امور پر دستیاب معلومات میں 25 فیصد کمی آ گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے اقتصادی و سماجی امور لی جن ہوا نے کہا ہے کہ اگر نگہداشت، تعلیم، ماحول دوست معیشت، افرادی قوت کی منڈی اور سماجی تحفظ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تیز رفتار اقدامات کیے جائیں تو 2050 تک شدید غربت میں مبتلا خواتین اور بچیوں کی تعداد میں 11 کروڑ کی کمی ممکن ہے اور اس کے نتیجے میں 342 ٹریلین ڈالر کے معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
تاہم اس حوالے سے موجودہ پیش رفت غیر متوازن اور تکلیف دہ حد تک سست ہے۔
دنیا بھر میں خواتین کے پاس صرف 27.2 فیصد پارلیمانی نشستیں ہیں جبکہ مقامی حکومتوں میں ان کی نمائندگی 35.5 فیصد پر آ کر تھم گئی ہے۔ انتظامی عہدوں میں خواتین کا حصہ صرف 30 فیصد ہے اور موجودہ رفتار سے دیکھا جائے تو حقیقی مساوات حاصل کرنے میں تقریباً ایک صدی لگ سکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی مساوات کوئی نظریہ نہیں بلکہ یہ امن، ترقی، اور انسانی حقوق کی بنیاد ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اہم ترین ہفتہ شروع ہونے سے قبل جاری کردہ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اب صنفی مساوات کے لیے فیصلہ کن اقدام کا وقت آ پہنچا ہے۔ اب یا تو خواتین اور لڑکیوں پر سرمایہ کاری کی جائے گی یا ایک اور نسل ترقی سے محروم رہ جائے گی۔سارہ ہینڈرکس نے عالمی رہنماؤں کو 'یو این ویمن کا پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ تبدیلی ممکن ہے اور نیا راستہ بھی موجود ہے لیکن یہ خودبخود حاصل نہیں ہو گی۔
یہ تبھی ممکن ہے جب دنیا بھر کی حکومتیں سیاسی عزم اور پختہ ارادے کے ساتھ صنفی مساوات، خواتین کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے کام کریں گی۔رپورٹ میں 2030 تک تمام خواتین اور لڑکیوں کے لیے صنفی مساوات کی خاطر چھ ترجیحی شعبوں میں کام کی سفارش کی گئی ہے جن میں ڈیجیٹل انقلاب، غربت سے آزادی، تشدد سے مکمل تحفظ، فیصلہ سازی میں برابر شرکت، امن و سلامتی اور ماحولیاتی انصاف شامل ہیں۔