برآمدی ہدف 60 ارب ڈالر کے حصول کیلئے تمام مکنہ اقدامات کیے جائیں گے، وفاقی وزیر
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کاروباری برادری کو بڑے اہداف حاصل کرنے کی کوشش پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے 60 ارب ڈالر کے برآمدی ہدف کے حصول کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال کی زیر صدارت وزیر اعظم کی جانب سے برآمدی سہولت کاری اسکیم (ای ایف ایس) کا جائزہ لینے کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا۔
ایف بی آر نے کمیٹی کو برآمدی سہولت کاری اسکیم اس میں حالیہ ترامیم اور اس کےغلط استعمال کے نشان دہی شدہ پہلوؤں پر بریفنگ دی اور اجلاس کو آگاہ کیا کہ 2021 میں متعارف کرائی گئی ای ایف ایس کے تحت لائسنس یافتہ کاروباری اداروں کی تعداد 800 سے بڑھ کر تقریباً دو ہزار ہو چکی ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ مئی 2024 میں شروع کی گئی خصوصی مہم کے نتیجے میں خاص طور پر ٹیکسٹائل صنعت میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے جس سے قدر میں اضافہ ہوا ہے۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے زور دیا کہ وزیر اعظم کی برآمدی سہولت کاری کے حوالے سے ہدایات سرمایہ کاروں کو مکمل معاونت فراہم کرنے اور پاکستان کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے ایک جامع فریم ورک کی تشکیل پر مرکوز ہیں۔
انہوں نے حکومت کی پالیسیوں کا ذکر کرتے ہوئے برآمدی حکمت عملی کے مطابق عالمی رجحانات سے ہم آہنگ ہونے پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان کی معیشت کا مستقبل تیز رفتار اور پائیدار برآمدی ترقی پر منحصر ہے اور 60 ارب ڈالر کے برآمدی ہدف کے حصول کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔
حکومت کے "اڑان پاکستان ایجنڈا” کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ برآمدی شعبے کی ترقی محض ایک پالیسی ہدف نہیں بلکہ ملکی اقتصادی استحکام، سلامتی اور خودمختاری کے لیے ناگزیر ہے۔
انہوں نے کاروباری برادری پر زور دیا کہ وہ معمولی اضافے (1 سے 1.
وزیر منصوبہ بندی نے مزید کہا کہ کاروباری اداروں کو جدت اور ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے استعداد کار پر مبنی ماڈلز کو اپنانا ہوگا تاکہ وہ عالمی منڈی میں اپنی جگہ بنا سکیں۔
انہوں نے زور دیا کہ سرمائے کی سرمایہ کاری کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے تاکہ پاکستان بین الاقوامی تجارت میں اپنی موجودگی کو مستحکم کر سکے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو متوجہ کر سکے۔
اجلاس کے دوران کمیٹی نے ایف بی آر کو ہدایت دی کہ آئرن اور اسٹیل کے شعبے کے لیے ترمیم شدہ برآمدی سہولت کاری اسکیم پر عمل درآمد اس وقت تک معطل رکھا جائے جب تک کہ کمیٹی اپنی سفارشات کو حتمی شکل نہ دے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: برآمدی سہولت کاری ارب ڈالر کے وفاقی وزیر انہوں نے زور دیا کے لیے
پڑھیں:
ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، معدنی ماہرین
کراچی:ماہرین معدنیات کا کہنا ہے کہ ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔
بدھ کو "پاکستان میں معدنی سرمایہ کاری کے مواقع" کے موضوع پر منعقدہ نیچرل ریسورس اینڈ انرجی سمٹ سے خطاب میں معدنی ماہرین کا کہنا تھا کہ اسپیشل انویسمنٹ فسلیٹیشن کونسل کے قیام کے بعد پاکستان میں کان کنی کے شعبے میں تیز رفتاری کے ساتھ سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ سال 2030 تک پاکستان کے شعبہ کان کنی کی آمدنی 8 ارب ڈالر سے تجاوز کرسکتی ہے۔
سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے لکی سیمنٹ، لکی کور انڈسٹریز کے چیئرمین سہیل ٹبہ نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعد اب پاکستان میں کان کنی کا شعبے پر توجہ دی جارہی ہے۔ شعبہ کان کنی کی ترقی سے ملک کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں ناصرف خوشحالی لائی جاسکتی ہے بلکہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں بھی کئی گنا اضافہ ممکن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صرف چاغی میں سونے اور تانبے کے 1.3 ٹریلین کے ذخائر موجود ہیں۔ کان کنی کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے ملک اور خطے میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کان کنی کے صرف چند منصوبے کامیاب ہوجائیں تو معدنی ذخائر کی تلاش کے لائسنس اور لیز کے حصول کے لیے قطاریں لگ جائیں گی۔
نیشنل ریسورس کمپنی کے سربراہ شمس الدین نے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس وقت دھاتوں کی بے پناہ طلب ہے لیکن اس شعبے میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سونے اور تانبے کی ٹیتھان کی بیلٹ ترکی، افغانستان، ایران سے ہوتی ہوئی پاکستان آتی ہے۔
شمس الدین نے کہا کہ ریکوڈک میں 7ارب ڈالر سے زائد مالیت کا تانبا اور سونا موجود ہے۔ پاکستان معدنیات کے شعبے سے فی الوقت صرف 2ارب ڈالر کما رہا ہے تاہم سال 2030 تک پاکستان کی معدنی و کان کنی سے آمدنی کا حجم بڑھکر 6 سے 8ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے شعبہ کان کنی میں مقامی وغیرملکی کمپنیوں کی دلچسپی دیکھی جارہی ہے، اس شعبے میں مقامی سرمایہ کاروں کو زیادہ دلچسپی لینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کان کنی میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا فائدہ 10سال بعد حاصل ہوتا ہے۔
فیڈیںلٹی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو حسن آر محمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کان کنی کے فروغ کے لئے اس سے متعلق انشورنس اور مالیاتی کے شعبے کو متحرک کرنا ہوگا۔ پاکستان کی مالیاتی صنعت کو بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے اپنی افرادی قوت اور وسائل کو مختص کرنا وقت کی ضرورت ہے۔