Express News:
2025-07-26@15:04:13 GMT

تیسری عالمی جنگ تیار(دوسرا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

ولادی میر زیلنسکی کی بدتمیزی کی دوسری وجہ اس کی ناتجربہ کاری‘ حماقت اور نالائقی تھی‘ یہ اسکرین کے ذریعے اقتدار میں آ گیا‘اس نے 2018 میں ’’سرونٹ آف دی پیپل‘‘پارٹی رجسٹرڈ کرائی اور یہ 2019 میں براہ راست صدر تھا‘ یہ بالکل ایسے ہے جیسے آپ دس سال کے بچے کے حوالے 300 مسافروں کا جہاز کر دیں‘ اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہی نتیجہ یوکرائن میں نکلا۔ 

اس نے تقریریں کر کے قوم کو تقسیم کر دیا‘ سرکاری افسروں کی لائیو بے عزتی شروع کر دی اور ’’ہماری رگوں میں عظیم لوگوں کا لہو ہے‘‘ جیسے نعرے لگا کر قوم کے جذبات ابھار دیے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا اس نے روس جیسے اس بم کو لات مار دی جسے آج تک امریکا اور یورپ نے بھی چھیڑنے کی غلطی نہیں کی تھی۔

پیوٹن اس کا باپ تھا‘ اس نے 24 فروری 2022 کو اپنی فوجیں یوکرائن میں داخل کر دیں اور اس کے بعد یوکرائن ملبے کا ڈھیر بن گیا‘ اب تک یوکرائن میں ہزاروں لوگ ہلاک‘لاکھوںزخمی اور 70لاکھ نقل مکانی کر چکے ہیں‘ چھ بڑے شہروں کی سڑکیں‘ پل‘ائیرپورٹس‘ ڈیمز اور عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ 

آج اگر یوکرائن کو دوبارہ 2022 پر واپس لانا ہو تو اس کے لیے ہزار ارب ڈالر چاہییں‘ یوکرائن کیوں کہ یورپ کی فوڈ باسکٹ تھا‘ پورے یورپ کے لیے گندم‘ کوکنگ آئل‘ فروٹس اور سبزیاں یوکرائن سے آتی تھیں لہٰذا یورپ میں خوراک کا بحران پیدا ہو گیا۔ 

یورپ کی 40 فیصد گیس روس سے آتی ہے‘ جنگ کی وجہ سے یہ بھی مہنگی ہو گئی جس کے نتیجے میں یورپ میں بجلی اور گیس دونوں نایاب ہو گئیں اور یہ افراط زر کا شکار ہو گیا‘ دوسرا یورپ پر جنگ کے بادل بھی منڈلانے لگے یوں یورپ زیلنسکی کی حمایت پر مجبور ہو گیا۔ 

امریکا نیٹو کی وجہ سے پھنسا ہوا تھا‘ یہ بھی یوکرائن آنے پر مجبور ہو گیا‘ امریکا اب تک یوکرائن میں ساڑھے تین سو ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے جب کہ زیلنسکی سینہ چوڑا کر کے کبھی یورپ اور کبھی امریکا میں دندناتا پھر رہا ہے‘ اسے اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی کوئی پرواہ ہے اور نہ دنیا کی‘کیوں؟ کیوں کہ یہ جنگ اسے سوٹ کرتی ہے‘ اس نے جنگ کی وجہ سے ملک میں مارشل لاء لگا رکھا ہے۔

اگر جنگ ختم ہو جاتی ہے تو اسے مارشل لاء ختم کرنا پڑے گا جس کے بعد اس کے اختیارات ختم ہو جائیں گے اور دوسرا یہ صرف جنگ کے خاتمے تک یوکرائن کا صدر ہے اگر جنگ ختم ہو گئی تو الیکشن ہوں گے اور یوں اقتدار اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور یہ اس کے لیے تیار نہیں ہے‘ اس سیناریو میں یوکرائن کاکیا بنے گا؟ ہمیں اس طرف آنے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کی فلاسفی سمجھنا ہوگی۔

جمی کارٹر امریکا کے 39 ویں صدر تھے‘ یہ 1977سے 1981تک صدر رہے‘ کارٹر کا 2024 میں 100سال کی عمر میں انتقال ہوا‘ یہ آخری عمر میں اپنے گاؤں پلین کے چرچ میں ہر اتوارکو لیکچر دیا کرتے تھے‘ پوری دنیا سے لوگ لیکچر سننے پلین آتے تھے۔ 

جمی کاٹر نے ڈونلڈ ٹرمپ کے پچھلے دور حکومت کے ایک لیکچر میں بتایا ’’مجھے صدر ٹرمپ کا فون آیا تھا‘ ٹرمپ نے مجھ سے پوچھا‘ امریکا چین کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟ میں نے صدر کو جواب دیا‘ ہم چین کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘ ٹرمپ نے پوچھا‘ ہم جب پوری دنیا کا مقابلہ کر رہے ہیں توپھر چین کا کیوں نہیں کر سکتے؟ میں نے بتایا‘ ہم اور چین میں ایک فرق ہے‘ ہم نے پوری دنیا میں محاذ کھول رکھے ہیں‘ دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں ہمارے فوجی اور ہتھیار نہ ہوں‘ اس وجہ سے ہمارا دفاعی بجٹ بہت زیادہ ہے۔

جب کہ چین پچھلے 75 برسوں میں کسی ملک سے نہیں لڑا‘ یہ اپنے سارے وسائل صنعتی گروتھ اور لوگوں کی ڈویلپمنٹ پر خرچ کر رہا ہے لہٰذا ہمارے پاس اب دو آپشن ہیں‘ ہم اپنی ساری جنگیں ختم کر دیں اور یہ رقم اپنے لوگوں پر خرچ کریں یا پھر ہم چین کو کسی بڑی جنگ میں دھکیل دیں تاکہ اس کے وسائل بھی ضایع ہوں اور یہ بھی اپنی صنعت اور ہیومین ڈویلپمنٹ پر توجہ نہ دے سکے‘‘۔

یہ مشورہ جمی کارٹر نے ٹرمپ کو اس کے پچھلے دور اقتدار میں دیا تھا‘ مجھے محسوس ہوتا ہے یہ آئیڈیا اس کو کلک کر گیا تھا اور یہ اس دور میں اس پر عمل نہیں کر سکا لیکن اس بار یہ اس نیت سے اقتدار میں آیا ہے اور اس نے پہلے دن سے اس پر کام شروع کر دیا ہے۔ 

یہ امریکا کو جنگوں اور دفاعی اخراجات سے نکال رہا ہے‘ ٹرمپ نے پہلے دن امریکا کو نہ صرف غزہ سے نکال لیا بلکہ تمام اخراجات بھی اسرائیل پر ڈال دیے اور قبضے کی دھمکی دے کر عربوں کو غزہ سے ملبہ اٹھانے اور اس کی دوبارہ تعمیر پر لگا دیا۔

مصر میں چند دن قبل عرب کانفرنس ہوئی اور عرب ملکوں نے فنڈ پول کر کے غزہ کی تعمیر کا فیصلہ کر لیا‘ آپ تصور کریں اگر ڈونلڈ ٹرمپ نیتن یاہو کے ساتھ بیٹھ کر غزہ پر قبضے کا اعلان نہ کرتا تو کیا عرب آگے بڑھتے‘کیا یہ غزہ کی ذمے داری اٹھاتے اور کیا موجودہ صورتحال میں امریکا کو غزہ کی بحالی کے لیے فنڈز جاری نہ کرنا پڑتے؟

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک دھمکی دی اور امریکا کے اربوں ڈالرز بچ گئے‘ اسی طرح اس نے حلف اٹھاتے ہی افغانستان کی امداد بند کر دی‘ امریکا سے نیروبی کے ذریعے ہر منگل کو 40 ملین ڈالر کابل آتے تھے‘ یہ ماہانہ 160 ملین ڈالر اور سالانہ دوبلین ڈالر بنتے ہیں اور امریکا انخلاء کے بعد اب تک اس مد میں افغانستان کو 18 بلین ڈالر ادا کر چکا ہے‘ ٹرمپ نے یہ رقم بھی بچا لی اور الٹا اپنا اسلحہ مانگ کر افغان حکومت کے پاؤں میں آگ بھی لگا دی۔ 

امریکا کو داعش سے خطرہ تھا چناں چہ کابل میں سی آئی اے کا باقاعدہ دفتر قائم تھا‘ اس پر بھی اربوں ڈالر خرچ ہو رہے تھے‘ ٹرمپ نے یہ ذمے داری اب پاکستان کو تھوپ دی ہے‘ اس نے پاکستان کو کولڈ شولڈر دے کر اور رچرڈ گرنیل سے عمران خان کے حق میں ٹویٹس کرا کر پہلے پاکستان کو خوف زدہ کیا اور پھر اس سے داعش کے کمانڈر محمد شریف اللہ عرف جعفر کی گرفتاری کے لیے مدد مانگ لی۔ 

پاکستان کے پاس ہاں کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا‘ ہم جب راضی ہو گئے تو نہ صرف رچرڈ گرنیل کی ٹویٹس بند ہو گئیں بلکہ اس نے پرانی ٹویٹس ڈیلیٹ بھی کر دیں۔ ’’فری عمران خان‘‘ ایک ڈھکوسلہ تھا اور اس کا مقصد بکرے کو اگلی قربانی کے لیے تیار کرنا تھا‘ ہم نے جوں ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو اس کی پہلی تقریر کے لیے مصالحہ دے دیا۔ 

اس نے پاکستان کا شکریہ ادا کر دیا اور ہم اب آنے والے دنوں میں ٹی ٹی پی کے ساتھ ساتھ داعش کا ٹارگٹ بھی ہوں گے جب کہ امریکا افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائے گا جس سے کابل میں سی آئی اے کے دفتر کے اخراجات بھی بچ جائیں گے‘ ٹرمپ اسی طرح یوکرائن روس جنگ سے بھی امریکا کو نکالنا چاہتا ہے۔

اس کا خیال ہے یہ یورپ کی جنگ ہے‘ امریکی بلاوجہ اس میں گھسے اور 350 بلین ڈالر خرچ کر دیے‘ ہمیں یہ رقم بھی وصول کرنی چاہیے اور مزید رقم بھی خرچ نہیں کرنی چاہیے چناں چہ اس نے 350 بلین ڈالر کے عوض یوکرائن سے معدنیات مانگ لیں اور ساتھ ہی اسے جنگ بندی کا حکم بھی دے دیا۔

جنگ بندی ولادی میر زیلنسکی کو سوٹ نہیں کرتی کیوں اس کے بعد یہ نہ صرف اقتدار سے فارغ ہوجائے گابلکہ پوری دنیا کا ولن بھی بن جائے گا اور یہ بھی عین ممکن ہے ڈونلڈ ٹرمپ اس کے خلاف کوئی بین الاقوامی تفتیش بھی اسٹارٹ کرا دے چناں چہ یہ جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کیا یہ امریکا کے بغیر ایسا کر سکے گا‘ کیا یورپ اکیلا اس جنگ کا بوجھ اٹھا سکے گا؟ اگر برطانیہ اور اس کے اتحادی دوسری جنگ عظیم میں امریکا کے بغیر جنگ کا بوجھ نہیں اٹھا سکے تھے تو یہ آج یہ وزن کیسے برداشت کریں گے لہٰذا یورپ اور یوکرائن کے پاس صرف ایک آپشن ہے‘ یہ ٹرمپ کی بات مانیں اور روس کے مطالبات مان کر جنگ ختم کر دیں اور یہ جورقم جنگ پر خرچ کر رہے ہیں وہ اسے یوکرائن کی بحالی اور ری کنسٹرکشن پر خرچ کردیں۔

لیکن یہاں دو ایشوز ہیں‘ اس وقت دنیا کی زیادہ تر پاورز یہودیوں کے ہاتھ میں ہیں‘ آپ اگر روس کی طرف سے یوکرائن پر حملے کی پلاننگ کرنے والے لوگوں کے بارے میں تحقیق کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا‘ یہ یہودی ہیں‘ یوکرائن کا صدر بھی یہودی اور فوج کے اہم ترین آفیسرز بھی اور دوسری طرف یورپ کے زیادہ تر اختیارات بھی یہودیوں کے ہاتھ میں اور امریکا کو اس جنگ میں دھکیلنے والے امریکی بھی یہودی اور یہ سب لوگ مل کر تیسری عالمی جنگ چاہتے ہیں‘ یہ باز نہیں آئیں گے‘ یہ زمین کو آگ لگا کر رہیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ ان حالات میں کیا کر رہا ہے؟ یہ کیا چاہتا ہے؟ یہ جنگیں بند کر کے‘ امریکی وسائل اور سرمایہ بچا کر چین کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے‘ یہ دیکھ رہا ہے چین ٹیکنالوجی‘ انڈسٹری‘ پیداوار اور سڑکوں کے ذریعے تیزی سے سپرپاور بن رہا ہے‘ چین کی قیادت نے 2049ء تک خود کو ہر صورت سپرپاور ڈکلیئر کرنا ہے جب کہ ٹرمپ چین کو روکنا چاہتا ہے‘یہ اس کا ہر فیلڈ میں مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔

یہ ہے اس کا منصوبہ اور آپ یہ بھی یاد رکھیں یہ شخص جانے کے لیے نہیں آیا‘ یہ کوشش کرے گا یہ بھی چین کے صدر شی چن پھنگ اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کی طرح تاحیات صدر بن جائے‘ یہ ورلڈ آرڈر میں اپنا ویٹ بھی مستقل کر دے اور یہ اس ’’نیک کام‘‘ کے لیے کیا کیا کرتا ہے یہ آنے والے دنوں میں نظر آ جائے گا۔

تاہم یہ حقیقت ہے اس شخص میں کچھ بھی کرنے کی صلاحیت موجود ہے‘ اسے اگر اپنے اہداف کے لیے امریکا کا آئین بھی بدلنا پڑا تو یہ بدل دے گا اگر آپ کو یقین نہ آئے تو آپ اس کے گرد جمع میڈیا اور سوشل میڈیا ٹائیکون دیکھ لیجیے‘ ٹرمپ نے یہ لوگ اپنے گرد صرف اس لیے جمع کیے ہیں کہ یہ ان لوگوں کو استعمال کر کے امریکی عوام کویقین دلا دے امریکا دنیا اورٹرمپ امریکا کے لیے ناگزیر ہے اور یہ سوشل میڈیا کی طاقت سے چند ماہ میں پورے امریکا کو یہ یقین دلا دے گا اور اس کے بعد کیا ہوگا؟ اللہ ہی خیر کرے‘ دنیا اگرزیلنسکی سے بچ گئی تو یہ ٹرمپ سے نہیں بچ سکے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یوکرائن میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے پوری دنیا کا مقابلہ امریکا کو چاہتا ہے جائے گا نہیں کر اور یہ ہو گیا رہا ہے اور اس کے لیے دی اور چین کا یہ بھی کے بعد

پڑھیں:

ٹرمپ کا گوگل، مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں کو بھارتی شہریوں کو ملازمتیں نہ دینے کا انتباہ

ٹرمپ کا گوگل، مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں کو بھارتی شہریوں کو ملازمتیں نہ دینے کا انتباہ WhatsAppFacebookTwitter 0 24 July, 2025 سب نیوز

واشنگٹن(آئی پی ایس) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گوگل اور مائیکرو سافٹ جیسی بڑی ٹیک کمپنیوں کو سخت پیغام دیا ہے کہ وہ بیرون ملک، خاص طور پر بھارت جیسے ممالک میں ملازمتیں دینے سے باز رہیں۔

بھارتی میڈیارپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں بدھ کو ہونے والے ایک اے آئی سمٹ میں ٹرمپ نے کہا کہ امریکی کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ چین میں فیکٹریاں بنانے یا بھارتی ٹیک ورکرز کو نوکریاں دینے کے بجائے اب ملک کے اندر ہی روزگار پیدا کرنے پر زیادہ توجہ دیں۔

انہوں نے ٹیک انڈسٹری کی ’گلوبل ذہنیت‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس رویے نے بہت سے امریکیوں کو ’نظر انداز کیا ہوا‘ محسوس کرایا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ بڑی ٹیک کمپنیوں نے امریکی آزادی کے ذریعے منافع کمائے، لیکن اپنی سرمایہ کاری زیادہ تر ملک سے باہر کی ہے، انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے دور میں وہ دن ختم ہوگئے ہیں۔

امریکی صدر نے کہا کہ ہماری بڑی ٹیک کمپنیاں امریکی آزادی کے فوائد اٹھا کر چین میں فیکٹریاں بناتی رہی ہیں، بھارت میں ورکرز کو ملازمت دیتی رہی ہیں اور آئرلینڈ میں منافع چھپاتی رہی ہیں، وہیں امریکی شہریوں کو نظر انداز کرنے اور سنسر کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا، اب وہ دن ختم ہوگئے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اے آئی کی دوڑ جیتنے کے لیے سلیکون ویلی اور اس سے باہر نئی حب الوطنی اور قومی وفاداری کی ضرورت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں پورے دل سے امریکا کے لیے کام کریں، ہم چاہتے ہیں کہ آپ امریکا کو پہلے رکھیں، بس ہم اتنا چاہتے ہیں۔

امریکی صدر نے اسی سمٹ میں مصنوعی ذہانت سے متعلق 3 نئے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے، ان میں سے ایک قومی حکمت عملی کا خاکہ پیش کرتا ہے جس کا مقصد امریکا میں اے آئی کی ترقی کو بڑھانا اور ایسی رکاوٹوں کو کم کرنا ہے جو ملک کی ترقی کو سست کر سکتی ہیں۔

اس منصوبے کا نام ’دور جیتنا‘ ہے، جس کا مقصد امریکا کو اے آئی میں عالمی رہنما بنانا ہے، ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر کو تیز کرنا اور کمپنیوں کو اے آئی کے لیے ضروری انفرااسٹرکچر بنانے میں آسانی فراہم کرنا ہے۔

دوسرا بڑا آرڈر ان کمپنیوں کے لیے ہے، جو وفاقی فنڈ حاصل کرتی ہیں تاکہ وہ سیاسی طور پر غیر جانبدار اے آئی ٹولز تیار کریں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا کہ ان کی حکومت ووکڈ اے آئی ماڈلز کی حمایت نہیں کرتی، انہوں نے پچھلی حکومت پر تنقید کی کہ اس نے تنوع اور شمولیت کی پالیسیاں اپنائی تھیں، جن کی وجہ سے اے آئی کی ترقی سست ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم ووکڈ کو ختم کر رہے ہیں، اے آئی ماڈلز کو درست ہونا چاہیے اور کسی بھی نظریاتی اثر سے آزاد ہونا چاہیے، نئے قواعد حکومت کی جانب سے استعمال ہونے والے اے آئی سسٹمز پر بھی لاگو ہوں گے، یعنی وہ جانبدار یا سیاسی طور پر متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔

امریکی صدر نے ’مصنوعی ذہانت‘ کے لفظ سے ناپسندیدگی ظاہر کی اور کہا کہ وہ ایسی اصطلاح پسند کرتے ہیں جو اس ٹیکنالوجی کی ذہانت اور طاقت کو بہتر ظاہر کرے، ’یہ مصنوعی نہیں، یہ ذہانت ہے‘۔

تیسرا آرڈر امریکی اے آئی ٹولز کی عالمی مقابلے میں مدد کرنے پر مرکوز ہے، جس میں ان کی برآمدات کو بڑھانا اور امریکا میں اے آئی کی مکمل ترقی کی حمایت شامل ہے۔

اگرچہ یہ تبدیلیاں فوری اثر انداز نہیں ہوں گی، مگر یہ اشارہ دیتی ہیں کہ اگر ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو بھارتی آئی ٹی پیشہ ور افراد اور آؤٹ سورسنگ کمپنیوں کے لیے مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسرمایہ کاری کے لیے پاکستان بہترین مقام بن چکا ہے، وفاقی وزیر قیصر احمد شیخ پاکستان سنجیدہ مذاکرات کی دعوت دے چکا، اب فیصلہ بھارت کو کرنا ہوگا: دفتر خارجہ روس میں مسافر طیارہ گر کر تباہ ، تمام مسافر ہلاک امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی نے قانونی جنگ ختم کرنے اور وفاقی فنڈنگ پر ٹرمپ انتظامیہ سے ڈیل کر لی ٹرمپ انتظامیہ کاامریکا کا سفر کرنے والے ہر فرد پر 250 ڈالرز اضافی رقم عائد کرنے کا فیصلہ مٹھی بھر دہشتگرد بلوچستان اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا راستہ نہیں روک سکتے، ترجمان پاک فوج اسرائیل کیساتھ جنگ کیلئے تیار، پر امن مقاصد کیلئے جوہری پروگرام جاری رہے گا، ایرانی صدر TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • اسٹارلنک نیٹ ورک میں فنی خرابی، امریکا و یورپ میں انٹرنیٹ سروس معطل
  • اسٹارلنک نیٹ ورک میں فنی خرابی، امریکا و یورپ میں انٹرنیٹ سروس گھنٹوں معطل
  • امریکا سے گوشت نہ خریدنے والے ممالک ‘نوٹس’ پر ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا انتباہ
  • گندھارا تہذیب کا دوسرا بڑا عجائب گھر سوات میں
  • ٹرمپ کا گوگل، مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں کو بھارتی شہریوں کو ملازمتیں نہ دینے کا انتباہ
  • امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی نے قانونی جنگ ختم کرنے اور وفاقی فنڈنگ پر ٹرمپ انتظامیہ سے ڈیل کر لی
  • ٹرمپ انتظامیہ کاامریکا کا سفر کرنے والے ہر فرد پر 250 ڈالرز اضافی رقم عائد کرنے کا فیصلہ
  • تیل کی قیمت نیچے لانا چاہتے ہیں، امریکا میں کاروبار نہ کھولنے والوں کو زیادہ ٹیرف دینا پڑے گا، ٹرمپ
  • اوباما نے 2016 امریکی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق جعلی انٹیلیجنس تیار کی، ٹولسی گیبارڈ کا دعویٰ
  • امریکا مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا، ٹرمپ