صدر ایف پی سی سی آئی کا بجلی قیمتوں میں کمی کیلئے حکومت سے آئی ایم ایف کو قائل کرنے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ بزنس کمیونٹی قرض پروگرام کی اگلی قسط کے لیے مذاکرات کی کامیابی کے لیے پرامید ہے، آئی ایم ایف مذاکرات پائیدار اور مستحکم معاشی ترقی کی بنیاد ثابت ہوں گے، بجلی قیمتوں میں کمی کیلئے آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔
صدر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری عاطف اکرام شیخ نے آئی ایم ایف سے جاری مذاکرات کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مذاکرات میں رئیل اسٹیٹ اور دیگر شعبوں کے لیے ٹیکس شرح میں کمی ترجیح ہونی چایئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پالیسی سطح کے مذاکرات میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کا بوجھ کم کرنے پر بات کی جائے، بجلی قیمتوں میں کمی کیلئے آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے، آئی ایم ایف پروگرام سے ملک کو معاشی ترقی ملے گی اور سماجی خوشحالی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت اپنے قدموں پر کھڑی ہو رہی ،اب ہمارا ہدف معاشی نمو ہونا چاہیے، ہمارا ٹیکس کا نظام معیاری نہیں جو کاروبار کے چلنے میں بڑی رکاوٹ ہے، مہنگائی کی شرح 1 اعشاریہ 6 فیصد پر آچکی، پالیسی ریٹ میں بڑی کمی ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف مذاکرات پائیدار اور مستحکم معاشی ترقی کی بنیاد ثابت ہونگے ، بزنس کمیونٹی قرض پروگرام کی اگلی قسط کیلئے مذاکرات کی کامیابی کیلئے پرامید ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف
پڑھیں:
روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-16
 حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر ) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے وزیرِاعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی جانب سے صنعت و زراعت کے شعبوں کے لیے ’’روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج‘‘ کے اعلان کو قابلِ تحسین اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کی صنعتی بحالی کی سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صنعتوں کی حقیقی بقا، روزگار کے تحفظ اور پاکستان میں کاسٹ آف پروڈکشن کو یقینی بنانے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بنیادی سطح پر کمی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے صنعتی و زرعی صارفین کے لیے اضافی بجلی کے استعمال پر 22.98 روپے فی یونٹ کا رعایتی نرخ ایک اچھا آغاز ہے، مگر ان ریٹوں پر بھی صنعتی طبقہ اپنی لاگتِ پیداوار کو کم نہیں کر پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگی بجلی کی اصل وجوہات ’’کپیسٹی چارجز‘‘ اور سابق معاہدے ہیں، جب تک ان پر نظرِثانی نہیں کی جاتی، بجلی کی حقیقی لاگت کم نہیں ہو سکتی اور کاروبار کرنا دن بہ دن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔صدر چیمبر سلیم میمن نے کہا کہ کاسٹ آف پروڈکشن مسلسل بڑھنے سے نہ صرف ملکی صنعت متاثر ہو رہی ہے بلکہ برآمدی مسابقت بھی کم ہو رہی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی صارفین کے لیے بجلی اور گیس دونوں کے نرخ کم از کم ممکنہ سطح تک لائے اور ان تجاویز پر عمل کرے جو حیدرآباد چیمبر اور دیگر کاروباری تنظیموں نے پہلے بھی حکومت کو پیش کی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک کپیسٹی چارجز اور غیر ضروری معاہداتی بوجھ ختم نہیں کیے جاتے، بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔ اس صورتحال میں پاکستان میں کاروبار چلانا دن بدن ناممکن ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر صنعتی شعبے کے لیے ریلیف فراہم کرنا چاہیے تاکہ روزگار کے مواقع برقرار رہیں اور چھوٹی و درمیانی صنعتیں بند ہونے سے بچ سکیں۔صدر حیدرآباد چیمبر نے مزید کہا کہ حکومت اگر صنعتی علاقوں میں (جہاں بجلی چوری کا تناسب انتہائی کم ہے) سب سے پہلے رعایتی نرخوں کا نفاذ کرے، تو یہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف بجلی کی طلب بڑھے گی بلکہ وہ صارفین جو متبادل ذرائعِ توانائی کی طرف جا رہے ہیں، دوبارہ قومی گرڈ سے منسلک ہو جائیں گے۔ اس طرح حکومت کا ریونیو بھی بڑھے گا اور اضافی 7000 میگاواٹ پیداواری گنجائش کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے گا۔انہوں نے باورکروایا کہ اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہ کی گئی تو کاروباری طبقہ مجبورا سستے متبادل توانائی ذرائع کی طرف منتقل ہوتا جائے گا، جس سے حکومت کے لیے کپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت ان پالیسیوں پر عمل کرے جو ماضی میں کیے گئے غیر متوازن معاہدوں کی اصلاح کی طرف جائیں تاکہ توانائی کا شعبہ ایک پائیدار صنعتی ماڈل میں تبدیل ہو سکے۔انہوں نے وزیرِاعظم پاکستان، وفاقی وزیرِتوانائی اور اقتصادی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام یقیناً ایک مثبت آغاز ہے۔