غزہ کی تعمیر نو اور صیہونی عزائم
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
اسلامی تعاون تنظیم نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے اور اس کے باشندوں کو بے گھر کرنے کے منصوبے کے خلاف عرب لیگ کی جوابی تجویزکو باضابطہ طور پر منظورکر لیا، او آئی سی نے عالمی برادری سے منصوبے کی حمایت کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے، دوسری جانب فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے ہفتے کو غزہ کی تعمیر نو کے عرب منصوبے کی حمایت کا اعلان کردیا ہے، جس پر 53 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔
فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کر کے یہودیوں کی بھاری اکثریت کے ساتھ ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا خیال بہت پرانا ہے لیکن تمام ترکوششوں، سازشوں اور جنگوں کے باوجود اسرائیل اور اس کے سب سے بڑے حمایتی امریکا کو منہ کی کھانا پڑی،کیونکہ دنیا میں کسی بھی ملک نے اس کی حمایت نہیں کی حتیٰ کہ جرمنی اور فرانس نے بھی اس تجویز کو ناقابلِ عمل اور ایک خطرناک مثال قرار دے کر مسترد کردیا۔
غزہ میں جنگ بندی کے بعد مغربی کنارے پر آباد فلسطینی باشندوں پر یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی فوج کے حملے، اس ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود اسرائیل نے دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور دیگر مقبوضہ عرب علاقوں میں سات سے آٹھ لاکھ یہودیوں پر مشتمل بستیاں تعمیرکر رکھی ہیں۔
ان یہودی بستیوں کی تعمیر سے اسرائیل کی سخت گیر دائیں بازو کی حکومت نے فلسطین میں ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کی راہ روکنے کی کوشش کی ہے۔ غزہ کے بعد اب مغربی کنارے میں بھی اسرائیل فلسطینی آبادیوں کو حملوں کو نشانہ بنا رہا ہے تاکہ مغربی کنارے میں بھی غزہ جیسے حالات پیدا کرکے فلسطینیوں کے انخلا کا جواز پیش کیا جاسکے۔ صدر ٹرمپ سے بائیڈن انتظامیہ نے بھی غزہ کے فلسطینیوں کو اُردن منتقل کرنے کا خیال ظاہر کیا تھا اور یہ اُردنی اور قطری حکام کے ساتھ سابق سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کی ملاقاتوں کے دوران پیش کیا گیا تھا مگر اُردن کے شاہ عبداللہ دوم نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔
اب بھی اُردن، مصر اور قطر نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کو صرف دو ریاستوں کے فارمولے کی بنیاد پر حل کرنے پر زور دیا ہے۔ ’گریٹر اسرائیل‘ کو اکثر سازشی نظریات رکھنے والوں اور یوٹیوب کی پیداوارکہہ کر مسترد کردیا جاتا ہے۔ پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ اپنی زمین کو وسعت دینا اور دیگر لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا، سیاسی صیہونیت کے ڈی این اے میں موجود ہے۔
اسی طرح اسرائیلی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ تل ابیب واشنگٹن اور حماس کے درمیان ممکنہ مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ حالیہ مغربی میڈیا رپورٹس میں انکشاف ہوا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے غزہ جنگ کے معاملے پر حماس سے رابطہ کیا تھا، جس پر اسرائیلی حکام سخت ناراض ہیں۔ اسرائیلی حکام کو خدشہ ہے کہ اگر واشنگٹن نے حماس کے ساتھ مذاکرات کیے تو اسرائیل پر سفارتی دباؤ بڑھ جائے گا۔
اگرچہ یہ مذاکرات اسرائیل کی ناراضگی کا باعث بنے ہیں، لیکن واشنگٹن میں طاقتور صیہونی لابی مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کوکنٹرول کر رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ ممکن نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ حماس کے حوالے سے اسرائیل کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھائے۔ امریکی پالیسی عموماً تل ابیب کے مفادات کو مدنظر رکھتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔
غزہ میں سوا سال سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ، جس میں صہیونی افواج نے سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے شہری آبادی کو وحشیانہ فضائی اور زمینی حملوں کا نشانہ بنا کر عورتوں بچوں سمیت پچاس ہزار نہتے فلسطینی مسلمانوں کو شہید اور اسپتالوں اور تعلیمی اداروں سمیت رہائشی بستیوں کو ملبے کا ڈھیر بنادیا، بالآخر ایک معاہدے کے نتیجے میں بند ہوئی۔ درحقیقت صہیونی ریاست کی سرپرست عالمی طاقتوں نے پندرہ ماہ تک اسے غزہ میں بدترین خوں ریزی جاری رکھنے کا کھلا موقع دیے رکھا تاکہ وہ فلسطینی مزاحمت کا جڑ سے قلع قمع کرکے پورے علاقے پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرسکے لیکن حماس کی سخت جان مزاحمت اور غزہ کے شہریوں کی بے مثال قربانیوں نے یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔
اسرائیل اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا جب کہ حماس نے مختلف عرب ریاستوں سمیت دنیا کے متعدد ملکوں کی جانب سے اسرائیل کو جائز ریاست تسلیم کیے جانے اور یوں تنازع فلسطین کو ردی کی ٹوکری کی نذر کردیے جانے کے ابھرتے ہوئے خدشات کے آگے بند باندھ دیا۔ اس لازوال اور بے مثال مزاحمت نے خطے میں پائیدار امن کے حوالے سے مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہنے دیا ہے۔
اس لیے اسلامی تعاون تنظیم کے 57ملکوں سمیت دنیا کی تمام انصاف پسند طاقتوں کو اب جلد از جلد اس تنازع کے انصاف کے تقاضوں پر مبنی مستقل حل کے لیے یکسو ہو کر پیش رفت کرنا ہوگی۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو لگام دینا عالمی امن کے لیے ناگزیر ہے جس نے حال ہی میں عظیم تر اسرائیل کا نقشہ جاری کر کے متعدد عرب ریاستوں پر قبضے کے مکروہ عزائم کا اظہار کیا ہے۔
ایک نیوز ایجنسی نے انکشاف کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے ایلچی اسٹیون وٹکوف نے جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کرنے سے قبل صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے شمالی غزہ پٹی میں تعمیر نو کو روکنے کے وعدے کیے تھے۔ انھوں نے غزہ پٹی کے شمالی علاقوں میں (جو کہ صہیونی بستیوں کے قریب واقع ہیں)، پہلے سے تیار شدہ مکانات (کانکس) کے داخلے کے عمل کو اس وقت تک ملتوی کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے جب تک ان بستیوں سے متعلق حفاظتی منصوبوں پر کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا۔ امریکی صیہونی گٹھ جوڑ میں وہ حفاظتی منصوبے شامل ہیں جو غزہ پٹی اور اس کے آس پاس کی غاصب صہیونی آبادکار بستیوں کے درمیان بفر زون میں امریکا اور خلیج فارس کے ممالک کی مالی معاونت سے انجام دیے جائیں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مستقبل میں قابضین کی بستیوں کو غزہ پٹی میں مقیم فلسطینی باشندوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔
نیتن یاہو کو جنگ بندی کے معاہدے پر مجبور کرنے کے پیچھے امریکی وعدے ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کو بے گھر کرنا، تعمیرنو کے عمل کو سبوتاژ کر کے آبائی فلسطینی باشندوں کو غزہ پٹی سے نکلنے پر مجبور کرنا اور شمالی غزہ کو محفوظ بنانے کے بہانے طویل مدت تک ناقابل رہائش رکھنا ہے۔
سیاسی صہیونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل نے اپنی ڈائریز میں لکھا تھا کہ اسرائیل کی سرحدیں ’’ مصر کے دریا سے فرات تک‘‘ پھیلنی چاہئیں جب کہ دیگر صہیونی مفکرین نے لبنان، شام اور اردن کے کچھ حصوں کو بھی ریاست میں شامل کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ یقینی طور پر جدید اسرائیل میں صہیونیت کے وارث اپنے بزرگوں کے وژن پر عمل کررہے ہیں پھر خواہ وہ مقبوضہ علاقوں میں بستیوں کے قیام کے ذریعے ہو جسے عالمی برادری غیر قانونی سمجھتی ہے یا پھر شام (گولان کی پہاڑیوں) اور لبنان (شیبا فارمز) کے علاقوں پر قبضے سے۔
درحقیقت 1973کی جنگ میں امریکا نے اپنے فوجی اور ہتھیار اسرائیل بھیجے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ اسرائیلی، عربوں کے حملوں سے محفوظ رہیں۔ اس مضبوط دفاع میں اس وقت بھی کمی نہ آئی جب اسرائیل نے 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد 13 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا سفاکانہ قتل کیا۔ حماس کے حملوں کے بعد یورپی اور امریکی رہنماؤں نے اسرائیل کے لیے صف بندی کی، بن یامین نیتن یاہو کو گلے لگایا اور اسرائیلیوں کو یقین دہانی کروائی کہ ’ہم‘ ’ان‘ کے خلاف ’آپ‘ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ غزہ میں قتلِ عام سے ثابت ہوچکا کہ مغربی ممالک اسرائیل کی حمایت ترک نہیں کریں گے۔
اگرچہ تاریخ کو بدلا نہیں جاسکتا لیکن اگر ہم چاہیں تو اس سے سیکھ ضرور سکتے ہیں۔ غیرمنصفانہ طریقے سے حالات کو معمول پر لانے سے فلسطینیوں کے مصائب ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی عرب مردوں، خواتین اور بچوں کو بے رحمی سے نشانہ بنا کر ان میں آزادی اور باوقار زندگی گزارنے کی امنگ کو کم کیا جاسکتا ہے۔ درحقیقت فلسطینیوں کو انصاف فراہم کرکے ہی اس مظلوم سرزمین پر امن قائم کیا جاسکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو سے اسرائیل اسرائیل کی کی حمایت کرنے کا غزہ پٹی حماس کے کے ساتھ کے لیے کے بعد کیا ہے اور اس
پڑھیں:
فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-7
جاوید انور
حالات حاضرہ اور عالمی و علاقائی جیو پولیٹکس میں بہت تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کا بنایا ہوا نام نہاد امن معاہدہ دراصل فلسطین کے مکمل خاتمہ اور گریٹر اسرائیل کی طرف پیش رفت کا معاہدہ ہے۔ اسرائیلی قیدیوں کی واپسی، اور حماس کو نہتا کرنا اس کی پہلی سیڑھی ہے۔ جس میں اب تک ایک حاصل ہو چکا ہے۔ قطر، مصر، اور ترکی نے حماس کے قائدین کو یرغمال بنا کر جس معاہدے پر دستخط کروائے ہیں، اس میں بھی حماس نے غیر مسلح ہونے کی شرط قبول نہیں کی ہے۔ حماس کے پاس وہ اسرائیلی قیدی جو اسرائیلی بمباری میں عمارتوں کے ملبہ میں دبے ہوئے ہیں، انہیں ہزاروں ٹن ملبے میں ان کی دبی لاشیں نکالنا ناممکن ہے۔ اسرائیل یہ بات پہلے سے سمجھتا ہے۔ وہ حماس کو اس کے ضروری آلات و مشینری بھی مہیا نہیں کر رہا ہے۔ اور انہیں مردہ قیدیوں کی رہائی نہ ہونے پر دوبارہ فلسطین پر حملہ، اور نسل کشی کو جاری رکھنے کا بہانہ بنا رہا ہے۔ اور اب اسے امریکا کو دوبارہ حملے کے لیے منانا رہ گیا ہے۔ اگر یہ کام ہو گیا تو بہت جلد اسرائیلی حملے شروع ہو جائیں گے۔
تاہم اب اسرائیل بالکل ننگا ہو کر دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ اس نے جتنے بھی مظالم اور نسل کشی کو چھپانے کے لیے ساری دنیا میں چادریں تانی تھیں، ان کی مضبوط لابی، سیاست، صحافت، دولت، اور پروپیگنڈے کی تمام مشینری فیل ہو رہی ہے۔ آج اسرائیل کی سب سے زیادہ مخالفت مسلم دنیا میں نہیں بلکہ امریکا، آسٹریلیا اور یورپ میں ہو رہی ہے۔ آزاد انسانوں کا سویا ہوا ضمیر بیدار ہو رہا ہے۔ صہیونی اسرائیل حمایتی اخبار نیو یارک ٹائمز میں بغاوت ہو چکی ہے۔ اس کے تین سو صحافیوں نے اخبار میں لکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور یہ بڑی تعداد ہے۔ ان لوگوں نے کہا ہے کہ جب تک اخبار یہ اداریہ نہ لکھے کہ امریکا اسرائیل کی فوجی امداد بند کرے، وہ اخبار میں واپس نہیں آئیں گے۔ یہ اس صدی کی صحافتی دنیا کی سب سے بڑی خبر ہے۔ 174 سال پرانا یہ اخبار جو واقعات کی پوری تاریخ ریکارڈ کرنے کا اکلوتا دعویٰ دار ہے اور ’’نیوز پیپر آف ریکارڈ‘‘ کہلاتا ہے، اور جس نے اسرائیل کی حمایت کی پالیسی کو باضابطہ ادارہ جاتی پالیسی (Institutionalized) بنایا ہوا تھا۔ اسی اخبار نے عراق میں ’’انبوہ تباہی کے ہتھیار‘‘ کی جھوٹی خبروں کو پھیلا کر امریکی رائے عامہ کو ’’ایجاد‘‘ کیا تھا۔ اور عراق پر بمباری کرائی۔ صدام حکومت کا خاتمہ کرایا۔ اب یہ اخبار خود پھانسی پر چڑھتا نظر آ رہا ہے۔ یہودی اسرائیلی لابی اس کی حمایت کرے گی۔ لیکن اس کا وقار اب خاک میں مل چکا ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کا جو فلسطین دھوکا دہی کا پلان ہے اسے پاکستان، سعودی عرب، اردن، امارات، قطر، ترکی، اور مصر کے منافق حکمرانوں کی طرف سے قبول کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب فلسطین کی واحد سیاسی اور فوجی قوت حماس کو کچلنے کے لیے متحد ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل اخوان کو کچلنے کے لیے یہ لوگ بشمول اسرائیل مصری آمر کی مدد کر چکے ہیں۔ اخوان المسلمون کے کارکنوں کے قتل عام پر انہیں بلینز آف ڈالرز ملے تھے۔ اب یہ لوگ اسرائیل کے ساتھ مل کر حماس کا خاتمہ چاہتے ہیں جو اس وقت فلسطین کی واحد زندہ سیاسی اور فوجی طاقت ہے۔
اخوان اور حماس انہیں اس لیے دشمن نظر آتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اسلامی نظامِ سیاست اور حکومت کے مدعی ہیں جس سے مسلم دنیا کے سارے ملوک، فوجی آمر، اور جمہوری بادشاہ، اور فوجی بیساکھی پر چلنے والی جعلی جمہوریتیں خوف کھاتی ہیں۔ اور خود کچھ نہیں کر سکتے تو انہیں اسرائیل اور امریکا کے ہاتھوں مروانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے اسرائیل کی قبولیت کی مہم ہے اور امریکا کو بلینز آف ڈالر کے تحائف دیے گئے ہیں۔ شرم الشیخ میں سارے بے شرم الشیخ جمع ہوئے۔ شہباز شریف نے ٹرمپ کو سیلوٹ کیا اور بے غیرتی کے تمام حدود کو عبور
کیا۔ مسٹر شریف نے برصغیر اور فلسطین میں ’’ملینز آف پیپلز‘‘ کی ’’جان بچانے‘‘ پر ایک بار پھر ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزدگی کا اعلان کیا۔ شراب خانے کے ساقی کا اور ہوٹل کے کسی بیرے کا کردار بھی اس سے کہیں اچھا ہوتا ہے۔ نوبل ایوارڈ دینے والی تنظیم کو چاہیے کہ وہ اپنے ایوارڈ میں ’’بے غیرتی‘‘ کا ایوارڈ کا اضافہ کرے اور مسٹر ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ مسٹر شریف کو اس ایوارڈ کے لیے نامزد کرے۔ بہر کیف بے شرمی، بے غیرتی، ذلت و رسوائی، قدم بوسی، چاپلوسی، خوشامد و مسکہ بازی کا ایک عالمی مقابلہ ہوا اس میں پاکستان کا وزیر اعظم جیت گیا۔ اور ویسے بھی نوبل امن انعام ان لوگوں کو ملتا ہے جو اسرائیل کی حمایت میں، اسے فائدہ پہنچانے میں بے غیرتی کی تمام حدود عبور کر جاتے ہیں۔ شرم الشیخ جہاں مصر نے مسلم دنیا میں سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا پہلا معاہدہ کیا تھا، اس کا ایک ظالم اور بے غیرت فوجی حاکم السیسی بہت تعجب سے مسکراتے ہوئے اس ’’شریف‘‘ انسان کو دیکھ رہا تھا کہ ایک پاکستانی کس طرح بے غیرتی اور بے شرمی میں اس کو مات دے گیا۔
مسلم ممالک کے علما سے گزارش ہے کہ آنکھیں بند کر اپنی حکومتوں کے بیانیوں پر اپنے فتوے جاری نہ کریں۔ سب سے پہلے فلسطین کے اصل مسئلے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے امریکا اور اسرائیل میں جو سازش چل رہی ہے، اسے سمجھیں۔ اپنی نگاہوں کے سامنے ہمیشہ ’’القدس‘‘ کو رکھیں۔ اس کے لیے اسرائیل فلسطینی امور کے وہ امریکی ماہرین جو فلسطین کے حمایتی ہیں اور اسرائیل کی نسل کشی کی مہم کے سخت مخالف ہیں، انہیں سنیں۔ انگریزی سے اپنی زبان میں ترجمہ حاصل کرنا اب آسان ہے۔ خبر اور معلومات لینے کے لیے اپنے قومی اخبارات اور میڈیا پر انحصار کم کریں اور اوپر اٹھ کر دنیا بھر کے متبادل میڈیا کو بھی کھنگالیں۔ فلسطین کے ایشو پر مسلم دنیا سے کہیں بہتر انڈیا کے کچھ صحافی اپنے یوٹیوب چینل پر بہت اچھی کوریج دے رہے ہیں۔ جیسے The Credible History کے اشوک کمار پانڈے، The Red Mike کے سوربھ شاہی، اور KAY Rated YouTube پر بغیر شناخت کے آنے والے ایک نوجوان۔ اور بھی کئی ہیں لیکن یہ بہترین اور قابل اعتماد معلومات کے ساتھ آتے ہیں۔ ان تینوں کی زبان اردو ہے۔
صرف پچھلے دو سال میں ہی دہشت گرد ریاست ِ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کی مہم میں لاکھوں لوگوں کا قتل کر چکا ہے۔ جس میں اکثریت بچوں کی ہے۔ لاکھوں لوگ معذور ہوئے، لاکھوں خاندان بے گھر ہو گئے۔ عمارتیں بموں سے مسمار کر دی گئیں، اور غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ اسرائیل وہ واحد دہشت گرد ریاست ہے جس نے خوراک کو بھی آلہ ِ جنگ کے طور پر استعمال کیا، اور ہزاروں لوگوں کو بھوکا مار دیا۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے پلان میں فلسطینی ریاست کا کوئی وعدہ نہیں ہے اس 20 نکاتی منصوبہ میں نکات 1، 5، 11 اور 20 میں واضح طور پر حماس مجاہدین سے اسلحہ چھیننے کی بات ہے، حماس کو حکمرانی سے باہر کرنے کی بات ہے، اور صرف ہتھیار ڈالنے والوں کو معافی اور ان کی جلاوطنی یعنی فلسطین سے نکلنے کی بات کی گئی ہے۔ حماس فلسطین اور غزہ کی منتخب اور نمائندہ اتھارٹی ہے۔ اس پلان میں اس کے کسی بھی رول کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ اور اب جو کچھ طے ہوا ہے اس سے بھی اسرائیل ببانگ ِ دہل مْکر منا رہا ہے۔
غزہ میں نسل کشی کا دوبارہ آغاز ہونے والا ہے۔ امدادی سامان کے ٹرک کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے۔ پاکستانی علما کو چاہیے کہ ایٹمی طاقت پاکستان کی افواج جس کی فضائیہ نے بھارت کے ساتھ جنگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، مشورہ دیں، فتویٰ دیں اور اس پر جمے رہیں کہ وہ اسرائیل پر حملہ کر کے مظلوم فلسطین کو آزاد کرائے۔ ایران نے بغیر اپنی فضائیہ کے زمین سے فضا میں مار کرکے اسرائیل کو اس حد تک دہلا دیا تھا کہ اس حملے کی زد میں نیتن یاہو کا اپنا سیکرٹریٹ بھی آ گیا تھا۔ پاکستان کو تو بلا شبہ فضائی برتری حاصل ہے۔ مشورہ یہ دیا جائے کہ افغانستان اور انڈیا سے جنگ (فلسطین سے توجہ ہٹانے کے لیے دشمنوں کی سازش) کی فضا کو ختم کرکے اسرائیل کے خلاف جنگ کے لیے فوکس کیا جائے۔