مارک کارنی کینیڈا کے نئے وزیر اعظم منتخب، ٹرمپ کو کھلا چیلنج دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
اوٹاوا: کینیڈا کی لبرل پارٹی نے مارک کارنی کو اپنا نیا رہنما منتخب کر لیا، جس کے بعد وہ جلد ہی وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی جگہ سنبھالیں گے۔
کارنی نے انتخاب میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور اپنی جیت کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا۔
سابق بینک آف کینیڈا اور بینک آف انگلینڈ کے گورنر مارک کارنی نے 85.
اپنی جیت کے بعد مارک کارنی نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کینیڈا کے مزدوروں، خاندانوں اور کاروبار کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور مزید کہا کہ ہمیں امریکہ پر بھروسہ نہیں رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کینیڈا کی زمین، پانی اور وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، اور کینیڈا کو اپنی خودمختاری کے لیے کھڑا ہونا ہوگا۔
کارنی کا وزیر اعظم بننا زیادہ دیر تک یقینی نہیں، کیونکہ کینیڈا میں اکتوبر میں عام انتخابات متوقع ہیں، اور حالات کے پیش نظر قبل از وقت انتخابات بھی ہو سکتے ہیں۔ تازہ ترین سروے کے مطابق اپوزیشن کنزرویٹو پارٹی کو معمولی برتری حاصل ہے۔
نتائج کے اعلان سے قبل جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ کینیڈا کو اپنے ہمسایہ ملک (امریکہ) کی طرف سے وجودی خطرات کا سامنا ہے۔
مارک کارنی نے اپنی بینکنگ کیریئر کا آغاز گولڈمین ساکس سے کیا تھا، اور بعد میں وہ بینک آف کینیڈا اور بینک آف انگلینڈ کے سربراہ رہے۔ تاہم، وہ کبھی بھی کسی منتخب عہدے پر فائز نہیں رہے، جس کی وجہ سے کچھ ماہرین کے مطابق انتخابی مہم کے دوران ان کی قیادت کا امتحان ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کارنی کا سخت اینٹی ٹرمپ بیانیہ لبرل ووٹرز کو متحرک کر سکتا ہے، لیکن کنزرویٹو پارٹی پہلے ہی ان پر الزامات لگا رہی ہے کہ وہ اپنے مؤقف میں مستقل مزاج نہیں رہے۔
حالیہ سروے کے مطابق 43 فیصد کینیڈین شہری مارک کارنی کو ٹرمپ سے نمٹنے کے لیے بہتر لیڈر سمجھتے ہیں، جبکہ 34 فیصد پیئر پوئلیور کی حمایت کر رہے ہیں۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ مارک کارنی کی قیادت میں لبرل پارٹی دوبارہ عوامی مقبولیت حاصل کر پائے گی یا نہیں، کیونکہ ٹروڈو کے استعفیٰ سے پہلے پارٹی کی مقبولیت شدید متاثر ہو چکی تھی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مارک کارنی کارنی نے
پڑھیں:
امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع بیان کے بعد ایٹمی تجربات کے معاملے پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
امریکی وزیر توانائی کرس رائٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ واشنگٹن اس وقت کسی بھی قسم کے ایٹمی دھماکوں کی تیاری نہیں کر رہا۔ رائٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے جن تجربات کا حکم دیا گیا ہے، وہ صرف سسٹم ٹیسٹ ہیں، جنہیں نان کریٹیکل یعنی غیر دھماکا خیز تجربات کہا جاتا ہے اور ان کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے دیگر حصوں کی کارکردگی کو جانچنا ہے، نہ کہ کسی نئے ایٹمی دھماکے کا مظاہرہ کرنا۔
عالمی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کرس رائٹ نے واضح کیا کہ یہ تجربات دراصل ہتھیاروں کے میکانزم اور ان کے معاون سسٹمز کی جانچ کے لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ یقین دہانی کی جا سکے کہ امریکی ایٹمی ہتھیار مستقبل میں بھی محفوظ اور مؤثر رہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تجربات کے ذریعے یہ دیکھا جائے گا کہ نئے تیار ہونے والے ہتھیار پرانے ایٹمی نظاموں سے زیادہ بہتر، محفوظ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں یا نہیں۔
کرس رائٹ نے مزید بتایا کہ امریکا اب اپنی سائنسی ترقی اور سپر کمپیوٹنگ کی مدد سے ایسے تجربات کر سکتا ہے جن میں حقیقی دھماکے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جدید کمپیوٹر سمیولیشنز کے ذریعے بالکل درست انداز میں یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے کے دوران کیا ہوگا، توانائی کیسے خارج ہوگی اور نئے ڈیزائن کس طرح مختلف نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ ہمیں زیادہ محفوظ اور کم خطرناک تجربات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر پہلے ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو 33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے بین الاقوامی برادری میں تشویش پیدا کر دی تھی کیونکہ امریکا نے آخری بار 1980 کی دہائی میں زیرِ زمین ایٹمی دھماکے کیے تھے۔
جب ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ آیا ان کے احکامات میں وہ زیر زمین دھماکے بھی شامل ہیں جو سرد جنگ کے دوران عام تھے، تو انہوں نے اس کا واضح جواب دینے سے گریز کیا اور معاملہ مبہم چھوڑ دیا۔ ان کے اس غیر واضح بیان نے دنیا بھر میں قیاس آرائیاں جنم دیں کہ کیا امریکا ایک نئی ایٹمی دوڑ شروع کرنے جا رہا ہے۔
اب امریکی وزیر توانائی کے تازہ بیان نے ان خدشات کو جزوی طور پر ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال امریکا کی کوئی ایسی پالیسی نہیں جس کے تحت حقیقی ایٹمی دھماکے کیے جائیں۔ موجودہ تجربات صرف تکنیکی نوعیت کے ہیں، جن کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے نظام کی جانچ اور مستقبل کی تیاری ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ککہ صدر ٹرمپ کے بیانات اکثر سیاسی مقاصد کے لیے دیے جاتے ہیں، جن کا حقیقت سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا، لیکن اس بار معاملہ حساس ہے، کیونکہ دنیا پہلے ہی جوہری ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی دوڑ پر فکرمند ہے۔