پشاور: بیوی سمیت 7 افراد کے قتل میں نامزد ملزم کی سزا کیخلاف اپیل
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
پشاور ہائیکورٹ۔
پشاور ہائیکورٹ میں بیوی سمیت خاندان کے7 افراد کے قتل میں نامزد ملزم کی سزا کے خلاف اپیل پر عدالت عالیہ نے کہا کہ کیوں نہ ملزم کی سزا عمر قید سے سزائے موت میں تبدیل کی جائے۔
درخواست گزار کے وکیل کے مطابق ملزم پر گھریلو ناچاقی پر 2021 میں بیوی سمیت خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا الزام ہے۔
انکا کہنا تھا کہ عدالت نے ملزم کو عمر قید کی سزا سنائی، ملزم نے سزا کے خلاف اپیل دائر کی۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے مطابق ملزم کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں، ملزم سے آلہ قتل بھی برآمد ہوا۔
عدالت عالیہ کے جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے پوچھا کہ ملزم کی سزا میں اضافے کے لیے کوئی اپیل دائر کی گئی؟
جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نعمان الحق کاکاخیل نے کہا سزا بڑھانے کے لیے کسی نے اپیل دائر نہیں کی، ملزم نے اپنی بیوی سمیت خاندان کے سات افراد کو بے دردی سےقتل کیا۔
انھوں نے کہا ملزم کا ایک بیٹا زخمی ہوا، ڈرامے کے لیے بیٹے کو اسپتال لے گیا۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نعمان الحق کاکاخیل نے کہا ملزم کی نشاندہی پر آلہ قتل برآمد ہوا، الزام ثابت ہوچکا ہے، عدالت نے سزا بڑھانے سے متعلق ملزم کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ملزم کی سزا بیوی سمیت
پڑھیں:
نور مقدم کو قتل کیس: مجرم ظاہر جعفر نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 جولائی ۔2025 )اسلام آباد میں اپنی اہلیہ نور مقدم کو قتل کرنے کے جرم میں سزا پانے والے مجرم ظاہر جعفر نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی ہے مجرم کی جانب سے دائر کی جانے والی نظر ثانی کی درخواست میں کہا گیا ہے عدالت نے ملزم کی ذہنی حالت کا تعین نہیں کروایا گیا. درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ملزم کی جانب سے سپریم کورٹ سے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست کی تھی لیکن عدالت نے اس متفرق درخواست پر فیصلہ نہیں دیا نظر ثانی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ملزم کو سزائے موت دینے کے لیے ویڈیو ریکارڈنگ پر انحصار کیا گیا لیکن ٹرائل کے دوران ان درست ثابت نہیں کیا گیا اور نہ ہی ملزم کو ان کی ریکارڈنگز فراہم کی گئیں. ظاہر جعفر کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے ٹرائل کے دوران وہ ویڈیوز چلا کر بھی نہیں دیکھی گئیں درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ کیس کا فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا اور سپریم کورٹ کے 20 مئی کے فیصلے پر نظر ثانی ٹھوس وجوہات موجود ہیں. یاد رہے کہ 20 مئی کو سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی موت کی سزا کے خلاف دائر کی گئی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ان کو سزائے موت دیے جانے کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا تاہم عدالت نے نور مقدم کے ساتھ ریپ کا جرم ثابت ہونے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے دی گئی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا اسی طرح سپریم کورٹ نے نور مقدم کو اغوا کرنے کے الزام میں ظاہر جعفر کو دی گئی دس سال قید کی سزا کو کم کر کے ایک سال کر دیا جبکہ عدالت نے نور مقدم کے ورثا کو مالی معاوضہ فراہم کرنے سے متعلق ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا. یاد رہے کہ 27 سالہ نور مقدم کو 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون فور کے ایک مکان میں قتل کر دیا گیا تھا اور اسی روز پولیس نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو گرفتار کر لیا تھا اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے 24 فروری 2022 کو نور مقدم کا قتل ثابت ہونے پر ظاہر جعفر کو سزائے موت جبکہ ریپ کے الزام کے تحت 25 سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی ان کے دو ملازمین جان محمد اور افتخار کو اعانت جرم میں دس، دس سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ ظاہر جعفر کے والدین سمیت دیگر نامزد ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا. مقامی عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائے جانے کے اِس فیصلے کے خلاف ظاہر جعفر نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔(جاری ہے)
تاہم مارچ 2023 میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ظاہر جعفر کی سزائے موت کے خلاف اپیل ناصرف مسترد کر دی بلکہ ریپ کے جرم میں انہیںدی گئی 25 سال قید کی سزا کو بھی سزائے موت میں تبدیل کر دیا تھا.