دریائے سندھ پر نہریں نکالنے کا مسئلہ سندھ کے لوگوں کے لئے زندگی اور موت کامسئلہ ہے، شہلا رضا
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی سیدہ شہلا رضا نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی سیاست میں سنجیدہ نہیں ہے، ہمیں فخر ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکا اجلاس سے آٹھویں مرتبہ خطاب کیا، صدر کا خطاب جامع تھا جس میں تمام پہلوئوں کو خطاب میں شامل رکھا گیا، دریائے سندھ پر نہریں نکالنے کا مسئلہ سندھ کے لوگوں کے لئے زندگی اور موت کامسئلہ ہے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سیدہ شہلا رضا نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی اگر اس پارلیمنٹ کو نہیں مانتی تو انہوں نے صدر اور وزیر اعظم کے انتخاب میں حصہ کیوں لیا، پی ٹی آئی نے اپنے امیداور کیوں کھڑے کئے؟ وزیر اعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے لئے بھی امیدوار کھڑے کئے، پی اے سی بھی لی، اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھی ہیں، لیکن مانتے پھر بھی نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی والے اسمبلیوں میں بھی آتے ہیں، تنخواہیں بھی لے رہے ہیں، 26 آئینی ترمیم پر عامر ڈوگر نے اسمبلی میں کہا کہ اگر یہ ترمیم ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
شہلا رضا نے کہا ہے کہ صدر مملکت نے اپنے خطاب میں ملک میں جاری دہشت گردی پربات کی، زراعت کی طرف دیکھنا ہے، دریائے سندھ پر اس وقت نہریں نکالنے کا مسئلہ اس وقت سندھ کے لوگوں کے لئے زندگی اور موت کامسئلہ ہے، جو حکومت کی خامیاں ہیں اس پر بھی بات کی گئی۔
رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ وفاق کو تمام صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے، سندھ کا مسئلہ پاکستان بننے سے پہلے کا ہے، ارسا کو بہت طاقتور بنا دیا گیا، صدر نے اپنے خطاب میں دوبار کہا ہے کہ تمام صوبوں کو موقف سنا جائے، صوبوں کو ساتھ لے کر چلیں گے تو ملک ترقی کرے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی کہا ہے کہ شہلا رضا کا مسئلہ کے لئے نے کہا
پڑھیں:
غزہ: حصول خوراک کی کوشش میں 67 مزید فلسطینی اسرائیلی فائرنگ سے ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کی امدادی ٹیموں نے بتایا ہے کہ غزہ میں بھوک اور تباہی پھیلی ہے جہاں گزشتہ روز خوراک کے حصول کی کوشش میں 67 افراد اسرائیل کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے۔
عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق، گزشتہ روز ہلاک ہونے والے لوگ اسرائیل کے ٹینکوں، نشانہ بازوں اور دیگر کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب 25 ٹرکوں پر مشتمل امدادی قافلہ زکم کے سرحدی راستے سے شمالی غزہ میں داخل ہوا۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں نے ٹرکوں سے خوراک اتارنے کی کوشش کی تو ان پر فائرنگ شروع ہو گئی جس میں درجنوں لوگ ہلاک ہو گئے۔ Tweet URL'ڈبلیو ایف پی' نے کہا ہے کہ ہلاک و زخمی ہونے والے لوگ اپنے اور بھوک سے ستائے خاندانوں کے لیے صرف خوراک حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
(جاری ہے)
یہ واقعہ اسرائیل کی اس یقین دہانی کے باوجود پیش آیا کہ غزہ میں امداد کی تقسیم کے حالات کو بہتر بنایا جائے گا اور امدادی قافلے کے ساتھ کسی بھی مرحلے پر مسلح فوج موجود نہیں ہو گی۔فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ اس وقت غزہ کے تمام لوگ موت کے گھیرے میں ہیں جہاں ان پر بم برس رہے ہیں جبکہ بچے غذائی قلت اور پانی کی کمی سے ہلاک ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ادارے کے طبی مراکز پر معالجین اور طبی عملہ روزانہ اپنی آنکھوں کے سامنے بچوں کو بھوک سے ہلاک ہوتا دیکھتے ہیں اور ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس زندگی کو تحفظ دینے کے لیے درکار وسائل نہیں ہیں۔
دیرالبلح سے انخلا کے احکاماتوسطی غزہ کے علاقے دیرالبلح میں اسرائیل کی جانب سے دیے جانے والے انخلا کے احکامات نے 50 تا 80 ہزار لوگوں کو متاثر کیا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو جنگ شروع ہونے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اس علاقے سے لوگوں کو نقل مکانی کے لیے کہا گیا ہے۔'انروا' کے مطابق، ان احکامات کے تحت لوگوں کو دیرالبلح سے سمندر کے کنارے تک تمام خالی کرنا ہوں گے۔ اس طرح اقوام متحدہ اور امدادی شراکت داروں کے لیے غزہ میں محفوظ اور موثر طور سے اپنی سرگرمیاں انجام دینا ممکن نہیں رہےگا۔ علاقے میں اقوام متحدہ کا عملہ بہت سی جگہوں پر موجود ہے جس کے بارے میں متحارب فریقین کو مطلع کر دیا گیا ہے اور ان لوگوں کو جنگی کارروائیوں سے تحفظ ملنا چاہیے۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے ٹینک شہر کے جنوبی اور مشرقی حصوں کی جانب بڑھ رہے ہیں جہاں 7 اکتوبر 2023 کو یرغمال بنائے گئے بعض یرغمالی ممکنہ طور پر موجود ہو سکتے ہیں۔
بقا کی جدوجہداس وقت غزہ کی 21 لاکھ آبادی ایسی جگہوں پر محدود ہو کر رہ گئی ہے جہاں ضروری خدمات وجود نہیں رکھتیں جبکہ اس میں بہت سے لوگ پہلے ہی کئی مرتبہ بے گھر ہو چکے ہیں۔
ہنگامی امدادی امور کے لیے 'انروا' کی اعلیٰ سطحی عہدیدار لوسی ویٹریج نے کہا ہے کہ ان لوگوں کے پاس فرار کی کوئی راہ نہیں۔ نہ تو وہ غزہ کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو تحفظ دے سکتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔انہوں نے یو این نیوز کو بتایا کہ غزہ میں خوراک دستیاب نہیں ہے اور پینے کا صاف پانی بھی بہت معمولی مقدار میں میسر ہے۔ بچے غذائی قلت اور پانی کی کمی کا شکار ہیں جو اپنے والدین کی آنکھوں کے سامنے ہلاک ہو رہے ہیں۔ علاقے میں بمباری مسلسل جاری ہے۔ اسی لیے بہت سے لوگ اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر امداد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔