مختلف ممالک پر ٹیرف کے اطلاق سے امریکی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو سکتی ہے. صدر ٹرمپ کا اعتراف
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 مارچ ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس بات کے اعتراف کے بعد کہ امریکہ کی جانب سے دیگر ممالک پر ٹیرف کے اطلاق کے نتیجے میں امریکی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو سکتی ہے ایشیا کی سٹاک مارکیٹس میں کمی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے. ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران جب صدر ٹرمپ سے کساد بازاری کے امکان کے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ امریکی معیشت اس وقت تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اتوار کو نشر ہونے والے امریکی صدر کے بیان کے بعد سے ٹرمپ انتظامیہ کے حکام اور مشیران سرمایہ کاروں کے خدشات دور کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں تاہم ان کی کوششیں بے سود دکھائی دیتی ہیں.
(جاری ہے)
سرمایہ کاری بینک سیکسو سے منسلک چارو چنانا کا کہنا ہے کہ پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک سٹاک مارکیٹ دوست صدر ہیں تاہم اب اس تصور کا دوبارہ جائزہ لیا جا رہا ہے منگل کی صبح کاروبار کے آغاز پر جاپان کی سٹاک مارکیٹ کے 225 1.7 فیصد، جنوبی کوریا کی مارکیٹ 1.5 فیصد جبکہ ہانگ کانگ کے ہینگ سینگ انڈیکس میں 0.7 فیصد مندی دیکھنے میں آئی سوموار کے روز نیو یارک میں امریکہ کی سب سے بڑی کمپنیوں پر نظر رکھنے والی S&P 500 کاروبار کے اختتام پر 2.7 فیصد نیچے چلی گئی جبکہ ڈو جونز انڈسٹریل ایوریج میں دو فیصد کمی دیکھنے میں آئی. امریکی سٹاک بازاروں میں سب سے زیادہ نیس ڈیک متاثر ہوئی جو دن کے اختتام پر چار فیصد کمی پر بند ہوئی صدر ٹرمپ کے قریب سمجھے جانے والے ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا کے حصص میں 15 فیصد سے زائد کمی دیکھنے میں آئی جبکہ مصنوعی ذہانت کی چپس بنانے والی کمپنی اینویڈیا کے شیئر کی قیمت میں بھی پانچ فیصد سے زائد کی کمی ہوئی دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں بشمول میٹا، امیزون اور ایلفابیٹ کے حصص میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے. مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی فرم کے سی ایم ٹریڈ کے چیف مارکیٹ تجزیہ کار ٹم واٹر کا کہنا ہے کہ سیاسی رہنما ٹیرف کے حوالے سے ٹرمپ کی اگلی چال کے بارے میں اندازے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ کار بھی اس بارے میں محض اندازے ہی لگا رہے ہیں اور مارکیٹ کے سنگین موڈ سے یہ واضح ہے اگرچہ کساد بازاری کی بات قبل از وقت ہو سکتی ہے لیکن اس کے نتیجہ خیز ہونے کا محض امکان ہی سرمایہ کاروں کو دفاعی ذہنیت میں ڈالنے کے لیے کافی ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دیکھنے میں آئی
پڑھیں:
ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
میری بات/روہیل اکبر
ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔