WE News:
2025-09-18@13:50:08 GMT

سعودی عرب میں غیرملکیوں کو ملکیتی جائیداد کی مشروط اجازت

اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT

سعودی عرب میں غیرملکیوں کو ملکیتی جائیداد کی مشروط اجازت

سعودی حکومت نے غیرسعودی افراد واداروں کے لیے مملکت میں جائیداد کی ملکیت وسرمایہ کاری سے متعلق نیا نظام منظور کرلیا ہے، جو موجودہ عالمی سرمایہ کاری کے رجحانات اور وژن سعودی عرب 2030 کے اہداف سے ہم آہنگ ہے۔ اس نئے نظام کا نفاذ جنوری 2026 سے ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:فرانس کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کا سعودی عرب کی جانب سے خیرمقدم

ریئل اسٹیٹ جنرل اتھارٹی کے تحت جاری کیے گئے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ نیا نظام غیرسعودی افراد، غیرسعودی کمپنیوں، سفارتی مشنز اور ان غیرملکی کمپنیوں پر لاگو ہوگا جن کے سعودی شراکت دار ہوں۔

نیا قانون مملکت کے اندر اور باہر سے آنے والے افراد کو جائیداد کی تمام اقسام میں ملکیت کی اجازت دیتا ہے، بشرطیکہ وہ قانون میں درج معیار پر پورا اتریں۔

نئے نظام کے تحت غیر سعودیوں کو مخصوص دستاویزات کے تحت جغرافیائی حدود میں ملکیت کی اجازت دی جائے گی، تاہم مکہ ومدینہ میں ملکیت صرف مسلمانوں کو دی جا سکے گی، وہ بھی ان علاقوں میں جو حکومت کی جانب سے متعین کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب میں ٹرین سے سفر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ

یہ قانون سابقہ قوانین کی نسبت زیادہ کھلا اور سرمایہ کاری دوست تصور کیا جا رہا ہے، جس میں سابقہ نظام 1421 اور سفارتی نظام 1440 کو شامل کر کے جامع اصلاحات کی گئی ہیں۔

تاہم نئے ضوابط کے تحت خالصتاً خالصہ اراضی، عسکری یا حساس مقامات اور ان علاقوں میں ملکیت کی اجازت نہیں ہوگی جہاں قانوناً اجازت نہیں دی گئی۔

ریئل اسٹیٹ اتھارٹی نے واضح کیا ہے کہ نیا قانون سرمایہ کاروں کو یہ موقع دے گا کہ وہ مملکت میں جائیداد کو ذاتی رہائش یا کاروباری مقصد کے لیے حاصل کرسکیں۔

نئے نظام کے تحت ملک میں پراپرٹی کے شعبے میں نئی سرگرمیوں کا آغاز متوقع ہے جس سے ہاؤسنگ مارکیٹ، تعمیراتی شعبے اور ملکی معیشت کو مزید تقویت ملے گی۔

یہ اقدام نہ صرف سعودی عرب میں بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ رہائشی بحران پر قابو پانے میں بھی مددگار ثابت ہو گا، جیسا کہ وژن 2030 میں بیان کردہ قومی ترقیاتی اہداف میں درج ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جائیداد ریئل اسٹیٹ جنرل اتھارٹی سعودی عرب مدینہ مکہ وژن 2030.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ریئل اسٹیٹ جنرل اتھارٹی مکہ وژن 2030 سرمایہ کاری میں ملکیت کے تحت

پڑھیں:

ٹرمپ مودی بھائی بھائی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نریندر مودی نے شنگھائی کانفرنس میں شرکت اور چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمر پیوٹن کے ساتھ سر جوڑ کر کانا پھونسی کرکے وہ مقاصد حاصل کر لیے جو پہلے ہی طے کر لیے گئے تھے۔ شنگھائی کانفرنس کے چند ہی دن بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے لب ولہجے پر ایک سو ڈگری کی تبدیلی کرکے بھارت اور نریندر مودی کے لیے شیریں بیانی شروع کر دی۔ ایکس پر اپنے پیغام میں صدر ٹرمپ نے ڈرانے دھمکانے کی زبان ترک کرکے بھارت کو امریکا کا دوست قرار دیتے ہوئے کہا وہ مودی سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور وہ دونوں ملکوں کے درمیان مجوزہ تجارتی معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ جس کے جواب میں نریندر مودی نے بھی ایکس پر لکھا کہ بھارت اور امریکا فطری حلیف ہیں مجھے یقین ہے کہ ہماری تجارتی بات چیت ہند امریکا شراکت کے لامحدود امکانات سے استفادے کی راہ ہموار کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے معاشی مشیر وی انتھانا گیشورن نے صاف لفظوں میں بتادیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں متبادل کرنسی بنانے میں بھارت کے ملوث ہونے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ بھارت ایسے کسی منصوبے پر غور نہیں کر رہا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندر مودی پر مختلف اوقات میں جو فردِ جرم عائد کی تھیں ان میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ بھارت ڈالر کے متبادل نظام قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ امریکی معاشی بالادستی کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ اب بھارت نے ایسی کسی منصوبے کا حصہ ہونے کی تردید کر دی۔ بھارت اور امریکا کے درمیان ٹیرف کے معاملے پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور کسی بھی وقت دونوں کے درمیان بریک تھرو کا امکان موجود ہے۔ اس طرح امریکا اور بھارت کے تعلقات کے درمیان عارضی اور وقتی بحران اب حل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس پر یہی کہا جا سکتا ہے

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحرانی کیفیت پاکستان کے لیے مغرب کی سمت امکانات کی کھلنے والی واحد کھڑکی تھی جو اب ایک بار پھر بند ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جس طرح پاکستان کے حکمران طبقات امریکا کی طرف سے بھارت کی کلائی مروڑے جانے پر جشن منارہے تھے اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی سوائے اس کے امریکا ایک بار پھر کچھ عرصہ کے لیے پاکستان پر معاشی اور سیاسی طور پر مہربان رہے۔ معاشی طور پر اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دھول اْڑتی رہے اور اس میں قاتل مقتول جارح ومجروح کے چہرے پہچاننا اور نشاندہی ہونا ناممکن رہے۔ امریکا کے زیر اثر برادر وغیر برادر ملک پاکستان کی معاشی ضرورتوں کو قرض کی صورت میں دیکھتے رہیں۔ سیاسی ضرورت یہ ہے کہ مغربی ممالک اور جمہوری نظام کے لیے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرنے والے مغربی ادارے پاکستان کے سیاسی نظام اور یہاں تنگ ہوتی ہوئی آزادیوں سے اسی طرح غافل رہیں جیسے کہ وہ بھارت کے ان معاملات سے قطعی لاتعلق ہیں۔ مصر میں تو ہم نے مغربی جمہوریت کے دعوؤں کا برہنہ اور بے گورو کفن لاش کو دیکھا تھا۔ جہاں تاریخ کے پہلے انتخابات میں پہلا منتخب نظام قائم ہوا مگر خطے میں اسرائیل کی سلامتی کے لیے قائم نظام کے لیے مستقبل بعید میں اْبھرنے والے خطرے کے خوف میں اس جمہوری نظام کا گلہ گھوٹ دیا گیا۔ ایک غیر منتخب نظام قائم ہوا اور نہ جمہوریت کے فروح کے قائم عالمی اداروں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا نہ ہی اس پر کوئی اختلافی آواز بلند کی۔ یوں مغربی نظام میں مرسی کا تختہ اْلٹنے کی مہم کے سیاسی پوسٹر بوائے محمد البرادی کی بھی پلٹ کر خبر نہ لی۔ محمد البرادی وہی ذات شریف ہیں جو عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے نمائندے کے طور پر عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر روز بغداد میں دندناتے پھرتے تھے اور کبھی دوٹوک انداز میں یہ نہ کہہ سکے کہ عراق ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار نہیں بنا رہا۔

بہرحال بھارت اور امریکا کے درمیان عارضی شنکر رنجی ختم ہونے کا امکان پیدا ہونے لگا ہے۔ اب بھارت کی بہت سی کج ادائیاں ماضی کی طرح ایک بار پھر ادائے دلبرانہ بن جائیں گی۔ لازمی بات ہے کہ پاکستان اس خانے میں ایک مخصوص مقام سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو اپنا فطری حلیف قرار دے کر نئی بات نہیں کی۔ دنیا میں اسرائیل اور بھارت دو ایسے ممالک ہیں جنہیں امریکا نے نائن الیون کے بعد اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دے رکھا ہے۔ ایک اسٹرٹیجک پارٹنر اسرائیل کے لیے امریکا جس حد تک جا سکتا ہے اس کا مظاہرہ آج کل مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے۔ اسی طرح چین کے ساتھ امریکا کی مخاصمت میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کم یا زیادہ بھارت ہی امریکا کی ضرورت پورا کر سکتا ہے۔ بھارت کا یہ پوٹینشل اسے امریکا کا فطری حلیف بنائے ہوئے ہے۔ بھارت امریکا کے لیے بروئے کار آنے کے لیے تیار ہے مگر وہ چین کے خلاف بے رحمی سے استعمال ہونے اور روس کے ساتھ امریکی ہدایات پر مبنی تعلقات کے قیام سے انکاری ہے۔ ان دونوں معاملات کا تعلق بھارت کے طویل المیعاد مقاصد سے ہے۔ اس عارضی ماحول میں پاکستان کے لیے مغرب میں جو وقتی گنجائش پیدا ہورہی تھی اب یہ سلسلہ رک سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے کسی نئے انداز سے ڈومور کی گھنٹیاں بج سکتی ہیں۔ یہ ڈومور قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بحالی کے نام پر بھی ہو سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن تیز کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • خاندانی نظام کو توڑنے کی سازش
  • رضی دادا کی غیر مشروط معافی مسترد، کمیٹی کا چینل بند کرنے کا فیصلہ، وائرل ویڈیو پر عمر چیمہ کے بعد وسیم عباسی نے بھی رد عمل جاری کر دیا 
  • قائداعظم یونیورسٹی کی ملکیتی زمین کتنی، سی ڈی اے نے بالآخر تصدیق کردی
  •   حکومت فوری طور پر نجی شعبے کو گندم امپورٹ کی اجازت دے
  • ٹک ٹاک کی ملکیت کا معاملہ، امریکا اور چین میں فریم ورک ڈیل طے پاگئی
  • گورو نانک برسی، بھارت نے سکھ یاتریوں کو آنے کی اجازت نہ دی
  • ٹرمپ مودی بھائی بھائی
  • ریلیف پیکیج آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط کرنا قابل مذمت ہے