’سعودی عرب میں آج یوم پرچم منایا جا رہا ہے‘
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
سعودی عرب آج 11 مارچ کو یوم پرچم منا رہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد قومی پرچم کی تاریخی حیثیت، اس کی اہمیت اور ملک کے اتحاد و خودمختاری کی علامت کے طور پر اس کے کردار کو اجاگر کرنا ہے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے یکم مارچ 2023 کو ایک فرمان جاری کیا تھا، جس کے تحت ہر سال 11 مارچ کو یوم پرچم کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔
سعودی عرب کا پرچم اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے، جو اسلامی عقیدے، قومی فخر اور طاقت کی علامت ہے، اس کی موجودہ شکل کو 11 مارچ 1937 کو مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز آل سعود نے باقاعدہ طور پر منظور کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں سعودی عرب کا پائیدار آبی تحفظ کا ماڈل عالمی سطح پر قابل تحسین
سبز رنگ کے اس پرچم کے درمیان کلمہ طیبہ تحریر ہے، جو مملکت کی اسلامی بنیادوں کی نمائندگی کرتا ہے، جبکہ اس کے نیچے موجود تلوار طاقت، انصاف اور خودمختاری کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
سعودی پرچم کا ارتقا 1926 میں اس وقت شروع ہوا جب شاہ عبدالعزیز نے ملک کے پرچم کی باقاعدہ تشکیل کے لیے ایک کمیٹی قائم کی۔
1937 میں اس کا ڈیزائن حتمی طور پر منظور کیا گیا اور اس کے مختلف استعمالات کے لیے اصول و ضوابط متعین کیے گئے۔
بعد ازاں 1973 میں شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے دور میں پرچم سے متعلق قوانین کو مزید وضاحت کے ساتھ نافذ کیا گیا، جبکہ 1992 میں ملک کے بنیادی آئین میں واضح کردیا گیا کہ سعودی پرچم ہمیشہ سربلند رہے گا اور کبھی بھی سرنگوں نہیں کیا جائےگا۔
سعودی پرچم نہ صرف ملک کی شناخت کا مظہر ہے بلکہ یہ اتحاد، وقار اور عزت کا بھی استعارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں پرچم کے احترام کے لیے سخت قوانین موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں علاقائی اور عالمی امن کے حوالے سے سعودی عرب کیوں اہم ہوتا جارہا ہے؟
مملکت میں کسی بھی سرکاری، عوامی یا نجی مقام پر پرچم کی بے حرمتی کو جرم سمجھا جاتا ہے، اور اس کی حرمت کو برقرار رکھنے کے لیے باقاعدہ اصول وضوابط بنائے گئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews سعودی عرب شاہ سلمان بن عبدالعزیز مملکت وی نیوز یوم پرچم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: شاہ سلمان بن عبدالعزیز مملکت وی نیوز یوم پرچم یوم پرچم کے لیے
پڑھیں:
مودی کا دورہ سعودی عرب: تیل، تجارت اور اسٹریٹیجک شراکت داری کی نئی راہیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2025ء) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی منگل کو سعودی عرب کے شہر جدہ پہنچے، جو بطور وزیر اعظم ان کا تیل سے مالا مال اس خلیجی مملکت کا تیسرا دورہ ہے۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب بھارت اپنی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کے لیے توانائی کے وسائل کو یقینی بنانے اور سعودی عرب کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
دورے کا پس منظرنریندر مودی کا یہ دورہ ایک روز قبل نئی دہلی میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے ساتھ اعلیٰ سطحی بات چیت کے بعد شروع ہوا ہے، جس میں بھارت نے واشنگٹن کے ساتھ ایک ممکنہ تجارتی معاہدے پر تبادلہ خیال کیا اور امریکی محصولات سے بچنے کی حکمت عملی اپنائی۔
(جاری ہے)
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مودی کے سعودی عرب کے اس دورے سے بھارت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات واضح ہوتی ہیں، جو انرجی سکیورٹی، معاشی ترقی اور علاقائی تعاون پر مبنی ہیں۔
نئی دہلی میں وزیر اعظم مودی کے دفتر کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''بھارت سعودی عرب کے ساتھ اپنے طویل اور تاریخی تعلقات کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جو حالیہ برسوں میں اسٹریٹیجک گہرائی کے ساتھ ساتھ تیز رفتار بھی ہو چکے ہیں۔ ہم نے باہمی طور پر فائدہ مند اور مضبوط شراکت داری قائم کی ہے۔‘‘
توانائی اور تجارت جیسے شعبوں میں تعاونسعودی عرب کئی برسوں سے بھارت کے لیے تیل کا ایک اہم سپلائر رہا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق سعودی عرب دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت کے لیے تیل کا تیسرا بڑا فراہم کنندہ ملک ہے۔ بھارت کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بڑے پیمانے پر پٹرولیم کی درآمدات پر انحصار کرتی ہے اور سعودی عرب اس ضرورت کو پورا کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔نریندر مودی نے اپنے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ دونوں ممالک ریفائنریز اور پیٹروکیمیکلز کے شعبوں میں مشترکہ منصوبوں پر غور کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ''ہم بھارت، سعودی عرب اور وسیع تر خطے کے درمیان بجلی کے گرڈ اسٹیشنوں کی باہمی ربط کاری کے لیے فیزیبیلٹی اسٹڈیز پر کام کر رہے ہیں۔‘‘ مبصرین کے مطابق یہ منصوبے دونوں ممالک کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون کو نئی بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں۔ سعودی عرب میں بھارتی کمیونٹی کا کردارسعودی عرب میں 20 لاکھ سے زائد بھارتی شہری مقیم ہیں، جو سعودی لیبر مارکیٹ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
یہ بھارتی ورکرز سعودی عرب کے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر و تکمیل میں شامل رہے ہیں اور ہر سال اربوں ڈالر کی ترسیلات زر بھارت بھیجتے ہیں۔ مودی اپنے دو روزہ دورے کے دوران جدہ میں بھارتی کمیونٹی کے ارکان سے ملاقات کریں گے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان سماجی اور معاشی رابطوں کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ اسٹریٹیجک تعلقات اور عالمی تناظرسعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور نریندر مودی کے درمیان قریبی روابط کی بدولت حالیہ برسوں کے دوران بھارت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات نمایاں طور پر مضبوط ہوئے ہیں۔
ان دونوں رہنماؤں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت کے دوران گہرے باہمی تعلقات کی بنیاد رکھی تھی۔ صدر ٹرمپ اگلے ماہ سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں، جو ان کا اپنی دوسری مدت صدارت کے دوران پہلا غیر ملکی دورہ ہو گا۔ یہ امر بھارت، سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان سہ فریقی اسٹریٹیجک تعاون کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سعودی عرب میں بھارتی کمیونٹی کی اہمیت اور نئے مشترکہ منصوبوں کی پلاننگ اس دورے کی اہمیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ دورہ نہ صرف بھارت کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے بلکہ خطے میں اس کے اسٹریٹیجک اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوششوں کا حصہ بھی ہے۔
ادارت: مقبول ملک