ضلع کٹھوعہ میں تین بے گناہ کشمیریوں کی ہلاکت کی ذمہ دار بی جے پی ہے، سلمان ساگر
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
ایک خصوصی انٹرویو میں این سی کے لیڈر نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بلاور میں تین نوجوانوں کی جان چلی گئی، ہم ان ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہیں لیکن اسکی پوری ذمہ داری لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے سینیئر لیڈر اور حضرت بل اسمبلی حلقہ سے منتخب ایم ایل اے سلمان ساگر نے ضلع کٹھوعہ میں تین شہریوں کی ہلاکت کی شدید مذمت کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو عسکریت پسندی پر قابو پانے اور امن و قانون برقرار رکھنے میں ناکامی کا راست ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ایک خصوصی انٹرویو میں سلمان ساگر نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بلاور میں تین نوجوانوں کی جان چلی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہیں لیکن اس کی پوری ذمہ داری لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے کو سیاست کا رنگ نہیں دینا چاہتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی حکومت جموں و کشمیر کے اس دوہرے نظامِ حکومت میں سیکورٹی برقرار رکھنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
 
 انہوں نے مزید کہا کہ یونین ٹیریٹری بنائے جانے کے بعد جموں و کشمیر میں پولیس کا کنٹرول لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے پاس ہے، نہ کہ کسی جمہوری حکومت کے پاس۔ لہٰذا ایل جی انتظامیہ کو چاہیئے کہ وہ جموں و کشمیر میں امن و قانون کی بحالی کو یقینی بنائے۔ سلمان ساگر نے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ ایل جی یونائیٹڈ کمانڈ کے سربراہ ہیں اور پولیس براہِ راست ان کے کنٹرول میں ہے، اس لئے ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات کئے جانے چاہیئے۔ اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سلمان ساگر نے ایل جی انتظامیہ کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ ان ہلاکتوں کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایل جی کو جواب دینا ہوگا کہ جب پولیس اور ہوم ڈیپارٹمنٹ براہ راست ان کے ماتحت ہیں تو پھر قانون و امن کی صورتحال بدتر کیوں ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے کسی بھی حصے میں تہذیب و تمدن کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ 
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ سلمان ساگر نے میں تین ایل جی
پڑھیں:
ملزم مقتول اور بے گناہ قاتل کی روداد
گزشتہ مضمون سے آپ کو اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ امریکی شہریوں کی ہلاکت سمیت اسرائیل پر ہر خون معاف ہے۔آٹھ جون انیس سو سڑسٹھ کو یو ایس ایس لبرٹی پر بمباری کے نتیجے میں امریکی بحریہ کے چونتیس فوجیوں کی ہلاکت سے واشنگٹن کے درگزر کے سبب جو خون اسرائیل کے منہ کو لگ گیا اس نے آگے چل کے اور گل کھلائے۔
فاسٹ فارورڈ ہم سن دو ہزار میں داخل ہوتے ہیں جب فلسطینیوں کا دوسرا انتفادہ شروع ہوا اور اسرائیل نے اگلے پانچ برس تک سول نافرمانی اور مزاحمت کچلنے کے لیے طاقت کا ننگا استعمال کیا۔اسی انتفادہ کے بیچ ایک ایسا واقعہ بھی ہوا جو ہر فلسطینی کو ازبر ہے۔
ریچل کوری واشنگٹن میں پلی بڑھی۔اس کے والد کریگ کوری جنگِ ویتنام میں شریک رہے۔البتہ ریچل کا میلان شہری حقوق کی جدوجہد کی جانب تھا۔وہ عین انتفادہ کے عروج پر مقبوضہ فلسطین پہنچی تاکہ اپنے یونیورسٹی تھیسس کے لیے مواد جمع کر سکے۔غزہ کے شہر رفاہ میں ریچل نصراللہ خاندان کے گھر میں رہی۔
ایک روز فوجی بلڈوزر آ گئے اور انھوں نے محلے کے گھروں کو غیرقانونی قرار دے کر ڈھانا شروع کر دیا۔اگلے دن بلڈوزر پھر آئے اور انھوں نے نصراللہ خاندان کا گھر بھی گرانے کی کوشش کی۔ تئیس سالہ ریچل کوری مہمان ہونے کے باوجود بلڈوزر کے آگے کھڑی ہو گئی اور پھر بلڈوزر اسے کچلتا ہوا بڑھ گیا۔یہ سانحہ سولہ مارچ دو ہزار تین کو ہوا۔واشنگٹن میں ریچل کوری کی ہلاکت کی خبر پہنچی تو میڈیا میں ہنگامہ ہو گیا۔کانگریس کے ستر سے زائد ارکان نے ایک قرار داد میں بش انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ اس واقعہ کی امریکا خود تحقیق کرے ۔
اسرائیلی فوج نے اپنی انکوائری میں کہا کہ یہ کوئی جانی بوجھی حرکت نہیں تھی بلکہ ریچل جہاں کھڑی تھی وہاں سے بلڈوزر کا ڈرائیور اسے نہیں دیکھ سکا۔ قصور ریچل کا ہے کہ وہ جان بوجھ کے بلڈوزر کے سامنے سے کیوں نہیں ہٹی۔
امریکی حکومت نے اسرائیلی انکوائری کے نتائج پر حسبِ معمول چپ سادھ لی۔مگر ریچل کے والدین کریگ اور سینڈی نے ہمت نہیں ہاری۔انھوں نے تل ابیب کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ پہلی سماعت ہی دو برس کی تاخیر سے ہوئی۔عدالت نے ریچل کے والدین کی غیر موجودگی میں بند کمرے میں فوجی گواہوں کے بیانات سنے۔ پانچ برس کی سماعتوں کے بعد عدالت نے بلڈوزر ڈرائیور کو سزا سنانے اور ہرجانے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔
ریچل کے والدین نے اس فیصلے کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔سپریم کورٹ نے تین برس بعد دو ہزار پندرہ میں فیصلہ سنایا کہ حالتِ جنگ میں ہلاکتوں پر کسی فوجی کو قصوروار قرار نہیں دیا جا سکتا۔نیز یہ کہ اسرائیلی قوانین بین الاقوامی قوانین کے دائرے سے باہر ہیں۔
مگر ریچل کوری کو فلسطینی کبھی نہیں بھولے۔کئی بچیوں کے نام ریچل رکھے گئے۔اس کے والدین نے ریچل کوری فاؤنڈیشن قائم کی جس نے رفاہ میں تعلیمی اور کھیل سرگرمیوں کے فروغ میں مقامی بچوں کی حوصلہ افزائی کی ( اب رفاہ ملبے کا ایک بڑا سا ڈھیر ہے )۔
مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رملہ میں ریچل کوری اسٹریٹ ہے۔دو ہزار دس میں جو ببن الاقوامی فریڈم فلوٹیلا غزہ کی بحری ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کر رہا تھا اس پر اسرائیلی حملے میں نو رضاکار جاں بحق ہوئے۔اس فلوٹیلا میں شامل ایک کشتی کا نام ایم وی ریچل کوری تھا۔
شیریں ابو عاقلہ کون تھی ؟ یوں سمجھئے جیسے بی بی سی کے نامہ نگار مارک ٹیلی کا نام لوگوں کے حافظہ میں ہے۔اسی طرح الجزیرہ کی شیریں ابو عاقلہ کا نام پچیس برس تک گونجتا رہا۔بالاخر وہ رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک اسرائیلی فوجی گولی کا نشانہ بن گئیں۔شیریں ابوعاقلہ امریکی شہری تھیں۔ان کا تعلق ایک فلسطینی مسیحی خاندان سے تھا۔وہ مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کے چار برس بعد انیس سو اکہتر میں یروشلم میں پیدا ہوئیں۔بچپن کے کچھ برس نیو جرسی میں گذارے ۔
پہلے انتفادہ ( انیس سو ستاسی تا نوے ) کے دوران شیریں اردن میں آرکیٹیکچر پڑھ رہی تھیں۔ پھر اردن کی یرموک یونیورسٹی میں صحافت کا مضمون اختیار کر لیا۔موت سے کچھ عرصہ پہلے ایک انٹرویو میں شیریں نے کہا کہ میں نے سوچا کہ میں زمینی حقائق تو شاید نہ بدل سکوں مگر فلسطینیوں کی آواز ضرور بن سکتی ہوں۔یوں میں نے صحافت چنی۔گریجویشن کے بعد شیریں نے کچھ عرصہ اقوامِ متحدہ کے ادارہِ بحالیات برائے فلسطین ( انرا ) میں کام کیا۔ساتھ ساتھ مختلف ٹی وی اور ریڈیو چینلز کے لیے رپورٹنگ شروع کر دی۔یروشلم کی بیرزیت یونیورسٹی میں کئی برس صحافت کی جزوقتی تدریس بھی کرتی رہیں۔
انیس سو ستانوے میں الجزیرہ قائم ہوا اور ایک برس بعد شیریں الجزیرہ کی رپورٹر اور رفتہ رفتہ یروشلم بیورو چیف بن گئیں۔دو برس بعد فلسطین میں دوسرا انتفادہ شروع ہو گیا۔مشکل ترین حالات میں بھی شیریں رپورٹنگ میں آگے آگے رہیں اور مختصر عرصے میں ہی اتنی مشہور ہو گئیں کہ اسرائیلی فوجیوں نے ان کی نقالی شروع کر دی ’’ خبردار۔کرفیو لگ چکا ہے۔گھروں سے باہر نہ نکلیں۔شیریں ابو عاقلہ الجزیرہ نیوز ‘‘…
گیارہ مئی دو ہزار بائیس کو بھی شیریں جنین شہر کے فلسطینی مہاجر کیمپ میں اسرائیلی فوجی کارروائی کی کوریج کر رہی تھیں۔انھوں نے حسبِ معمول نیلی بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی تھی جس پر سفید جلی حروف میں پریس لکھا ہوا تھا۔ایک اسرائیلی سنائپر کی سنگل گولی شیریں کی کنپٹی میں پیوست ہو گئی۔وہ زمین پر گر گئیں۔انھیں سہارا دینے والے صحافی علی السمودی سنائپر کی دوسری گولی سے زخمی ہو گئے۔
اسرائیلی فوج نے پہلا بیان یہ جاری کیا کہ شیریں مسلح فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان تصادم میں ایک فلسطینی کی گولی سے مریں۔ جب اسرائیل کو دوطرفہ فائرنگ کی ٹھوس شہادت نہ ملنے کا احساس ہوا تو پھر یہ اعتراف کیا گیا کہ وہ ایک فوجی کی گولی کا حادثاتی طور پر نشانہ بن گئیں۔
مگر شیریں کے جنازے میں شریک ہزاروں سوگواروں پر اسرائیلی پولیس نے جس طرح وحشیانہ لاٹھی چارج کر کے تابوت گرانے اور چھیننے کی کوشش کی اس سے اسرائیل کا سارا موقف بیچ چوراہے میں چوپٹ ہو گیا۔
چونکہ شیریں امریکی شہری بھی تھیں لہٰذا ایف بی آئی نے بادلِ نخواستہ اپنے تئیں تحقیقات شروع کیں مگر یہ کوشش حسبِ توقع کہیں بیچ میں ہی رہ گئی۔بائڈن انتظامیہ نے اسرائیل اور فلسطینی امور سے متعلق امریکی رابطہ کار لیفٹیننٹ جنرل مائیکل فیزل کو چھان پھٹک پر مامور کیا۔اس بابت جو کمیٹی بنی اس کی رپورٹ کبھی شایع نہیں ہوئی۔تاہم گزشتہ ہفتے اس کمیٹی میں شامل ایک رکن کرنل ریٹائرڈ سٹیو گیباوس نے بھانڈا پھوڑ دیا۔انھوں نے کہا کہ ہم نے اسرائیلی فوج کی وائرلیس ریکارڈنگ سننے کے علاوہ بھی جو شواہد اکٹھے کیے ان سے ثابت ہوتا ہے کہ فوجی گاڑی میں بیٹھے فوجیوں کو صاف دکھائی دے رہا تھا کہ کچھ فاصلے پر صحافی کھڑے ہیں۔فائر صرف ایک جانب سے ہوا۔اگر یہ اتفاقی فائر تھا تو پھر زمین پر گری شیریں کی مدد کرنے والے ایک اور صحافی ( علی السمودی ) کیسے زخمی ہوئے۔ان پر دوسری گولی کیوں چلائی گئی ؟
کرنل سٹیو کے بقول کمیٹی کی اکثریت اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ ٹارگٹ کلنگ تھی۔ہم نے اپنی زبانی و تحریری رائے جنرل مائیکل فیزل کو پیش کی۔مگر انھوں نے وائٹ ہاؤس اور محکمہ خارجہ کو جو رپورٹ پیش کی وہ ہماری رائے کے برعکس تھی۔چنانچہ محکمہ خارجہ نے اس ’’ ٹیمپرڈ رپورٹ ‘‘ کی بنیاد پر یہ بیان دیا کہ شیریں ابو عاقلہ کی موت اگرچہ افسوسناک ہے مگر ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ کوئی جانا بوجھا قتل تھا۔
شیریں کے بھائی ٹونی نے کرنل سٹیو کے بیان کی روشنی میں ٹرمپ انتظامیہ سے ازسرِ نو تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے ( اس مطالبے پر یقیناً ٹرمپ انتظامیہ ہنس رہی ہو گی ) ۔
غزہ کی جنگ کے دوران گزشتہ دو برس میں چار مزید امریکی شہری بھی مارے گئے ہیں اور ایک فلسطینی نژاد نو عمر امریکی شہری نو ماہ سے اسرائیلی جیل میں ہے۔ٹرمپ انتظامیہ ’’ بھرپور سفارتی تگ و دو ’’ کے باوجود اب تک اپنے لڑکے کو رہائی نہیں دلوا سکی۔یہ قصہ اگلے مضمون میں…
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)