لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 11 مارچ2025ء) پاکستان کو شہری آزادیوں سے متعلق سنگین خدشات والے ممالک کی واچ لسٹ میں شامل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے محافظوں، صحافیوں کے خلاف مجرمانہ کارروائیاں، ڈیجیٹل پابندیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سول سوسائٹی تنظیموں اور کارکنوں کے عالمی اتحاد "سیویکس" کی تازہ ترین مانیٹر واچ لسٹ میں پاکستان کو بھی شامل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس ملک میں آزادیوں سے متعلق سنگین خدشات پائے جاتے ہیں۔

پاکستان کو تازہ ترین مانیٹر واچ لسٹ میں اس لیے شامل کیا گیا ہے کیونکہ اس ملک میں انسانی حقوق کے محافظوں اور صحافیوں کے خلاف مجرمانہ کارروائیاں، انسانی حقوق کی تحریکوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور احتجاج اور ڈیجیٹل پابندیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔

(جاری ہے)

اکتوبر 2024 ء میں حکام نے انسانی حقوق کی ممتاز محافظ اور بلوچ رہنما ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کو نشانہ بنایا، جنہیں علیحدگی پسند گروپوں کی مدد کرنے کے بے بنیاد الزامات کا سامنا ہے۔

یہ کیس اس وقت سامنے آیا جب مہرنگ بلوچ کو ساتھی کارکن سمیع دین بلوچ کے ساتھ بیرون ملک سفر کے لیے ایک مسافر پرواز پر سوار ہونے سے روک دیا گیا۔ اسی ماہ انسانی حقوق کی وکیل ایمان زینب مزاری اور ان کے شوہر پر بھی 'دہشت گردی کی کارروائیوں‘ کے الزامات عائد کیے گئے۔ انسانی حقوق کے محافظ ادریس خٹک نے اپنے کام کے بدلے میں اب پانچ سال حراست میں گزارے ہیں جبکہ حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جو کہ پشتون عوام کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ملک بھر میں فعال تحریک ہے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے احتجاج کے خلاف بھی شدید نوعیت کا کریک ڈاؤن کیا گیا۔ اکتوبر 2024 ء میں مبہم اور حد سے زیادہ قوانین کے تحت مظاہروں سے قبل سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا اور ان پر الزامات عائد کیے گئے۔ نومبر 2024 ء میں حکام نے مظاہرین کی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اسلام آباد جانے والی اہم شاہراہوں اور راستوں کو بند کر دیا۔

ملک بھر میں مظاہروں سے قبل ہزاروں افراد کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ کراچی پولیس نے اکتوبر 2024 ء میں کراچی میں ''سندھ روا داری مارچ‘‘ کے گرد کریک ڈاؤن شروع کیا اور جنوری 2025 ء میں صوبہ سندھ میں نسلی بلوچوں کے پرامن مظاہرے سے پہلے۔ پاکستان میں الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے ایکٹ پیکا کے تحت صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جن پر 'ریاستی اداروں کے خلاف غلط بیانیہ‘ پھیلانے کا الزام ہے۔

صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد پولیس نے نومبر 2024 ء میں منشیات رکھنے اور دہشت گردی کے جعلی الزامات میں حراست میں لیا تھا۔ صحافی ہرمیت سنگھ کو دسمبر 2024ء میں ان الزامات پر پوچھ گچھ کے لیے پیش ہونے کے لیے طلب کیا گیا تھا کہ وہ ''ریاستی اداروں کے خلاف منفی بیان بازی‘‘ میں مصروف تھے۔ جنوری 2025 ء میں حکومت نے قومی اسمبلی میں الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے سخت قانون پیکا میں ترامیم کی منظوری کے ذریعے آن لائن تقریر پر اپنا کنٹرول مزید سخت کر دیا۔ نومبر 2024ء کے آخری ہفتے میں پاکستانی اپوزیشن کے منصوبہ بند مظاہروں سے پہلے بنیادی طور پر انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کر دیا گیا جبکہ سوشل میڈیا سائٹ ایکس فروری 2024 ء سے بند ہے۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انسانی حقوق کی واچ لسٹ میں پاکستان کو کے خلاف کیا گیا کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

ہم الزامات کی بجائے عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں، میئر کراچی

کراچی:

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے عیدالاضحیٰ کی نماز کے بعد شہر میں صفائی ستھرائی اور دیگر شہری مسائل پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ قربانی کے جانوروں کی الائشیں اٹھانے کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں اور شہر کی صفائی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کو کئی بار مل کر کام کرنے کی پیشکش کی لیکن افسوس کہ سیاسی مفادات کو شہر کے مفاد پر ترجیح دی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب شہر میں بہتری آتی ہے تو اسے سب کا کارنامہ بتایا جاتا ہے اور جب کوئی خرابی ہوتی ہے تو سارا الزام پیپلز پارٹی پر ڈال دیا جاتا ہے۔

مرتضیٰ وہاب نے طنزاً کہا کہ اگر کسی کو مرچیں لگتی ہیں تو صبر کریں، اللہ بہتر کرے گا، اور اگر پھر بھی برداشت نہ ہو تو سوڈا پیئیں اور خوش رہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ان کی ٹیم بیان بازی کے بجائے میدان میں نکل کر عملی اقدامات پر یقین رکھتی ہے۔

میئر کراچی نے وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کاروباری افراد سے ملاقاتیں کی جاتی ہیں، لیکن کراچی کے عوامی مسائل پر میئر کی بات نہیں سنی جاتی۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین میں یہ نہیں لکھا کہ خالد مقبول بولیں گے اور صوبہ بن جائے گا، آئین میں طریقہ کار درج ہے، اسی پر عمل ہونا چاہیے۔

مرتضیٰ وہاب نے دعویٰ کیا کہ کراچی میں نئی کینال بننے سے شہر کو 40 فیصد اضافی پانی میسر آئے گا، جبکہ سیوریج کے پانی کی ٹریٹمنٹ کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

پانی کی تقسیم کے حوالے سے انہوں نے اعتراف کیا کہ قلت موجود ہے، تاہم منصفانہ تقسیم کا نظام شروع کر دیا گیا ہے، جس سے متاثرہ علاقوں کو ریلیف ملے گا۔

انہوں نے خالد مقبول اور مصطفیٰ کمال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ وفاق کا حصہ ہیں، انہیں کراچی کے مسائل پر بات کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کا مطالبہ تھا کہ شہری حکومت کو اختیارات دیے جائیں، لیکن آج کراچی کے عوام انہیں وعدے پورے نہ کرنے پر برا بھلا کہہ رہے ہیں۔

میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا مزید کہنا تھا کہ ان کی پوری توجہ شہر کی بہتری پر مرکوز ہے اور وہ الزامات کی سیاست سے بالاتر ہو کر عملی خدمت کو ترجیح دے رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان: ملک چھوڑنے والے واپس آجائیں انہیں کچھ نہیں کہا جائیگا، طالبان کا اعلان
  • پاکستان کے حلوہ پوری اورسری پائے دنیا کے 100 بہترین ناشتوں کی فہرست میں شامل
  • یورپی یونین کا نیتن یاہو کے وارنٹ جاری کرنے والے آئی سی سی ججوں کی حمایت کا اعلان
  • میر واعظ عمر فاروق کو عیدالاضحیٰ پر مسجد جانے سے روک دیا گیا
  • فرانس کا اسرائیل سے فوری طور پر لبنان سے انخلا کا مطالبہ
  • یورپی حکام بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی سے روکیں، علی رضا سید
  • انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیریوں پر بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کیخلاف آواز بلند کریں، میر واعظ
  • ہم الزامات کی بجائے عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں، میئر کراچی
  • فلسطین میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اقوام عالم کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے، سردار عتیق
  • دوستی دشمنی میں بدل گئی، ٹرمپ اور مسک کے ایک دوسرے پر سنگین الزامات