آئی ایم ایف نے بین الاقوامی سرمایہ کاری منصوبوں پر ٹیکس استثنیٰ کا مطالبہ مسترد کردیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
ایس آئی ایف سی حکام نے آئی ایم ایف کے وفد کو سرمایہ کاری، گورننس اور اسٹرکچر پر بریفنگ دی۔ اس موقع پر پاکستانی حکام نے چاغی سے گوادر تک ریلوے ٹریک کے منصوبے پر ٹیکس استثنا کا مطالبہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بین الاقوامی سرمایہ کاری منصوبوں پر ٹیکس استثنا کا مطالبہ مسترد کردیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلٹی کونسل (ایس آئی ایف سی) کی طرف سے بین الاقوامی سرمایہ کاری منصوبوں پر ٹیکس استثنا کا مطالبہ مسترد کردیا۔ آئی ایم ایف کو ایس آئی ایف سی کے کام پر بریفنگ دی گئی۔ ایس آئی ایف سی حکام نے آئی ایم ایف کے وفد کو سرمایہ کاری، گورننس اور اسٹرکچر پر بریفنگ دی۔ اس موقع پر پاکستانی حکام نے چاغی سے گوادر تک ریلوے ٹریک کے منصوبے پر ٹیکس استثنا کا مطالبہ کیا۔
ذرائع کے مطابق ریکوڈک سے نکلنے والی معدنیات کی گوادر تک ٹرانسپورٹ کے لیے ریلوے ٹریک کی ضرورت ہے۔ ریکوڈک سے نکلنے والے منرلز کی گوادر تک ٹرانسپورٹ کے لیے نئی لائن تعمیر کی جائے گی۔ چاغی۔گوادر ریل منصوبے پر وزارتِ خزانہ، وزارتِ ریلوے اور ایس آئی ایف سی نے فزیبیلٹی اسٹڈی کی۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ سرمایہ کار ممالک اس منصوبے میں سرمایہ کاری پر ریاستی گارنٹی مانگ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق قرض پروگرام میں رہتے ہوئےحکومتِ پاکستان ہر سرمایہ کاری پر ریاستی گارنٹی نہیں دے سکتی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پر ٹیکس استثنا کا مطالبہ ایس آئی ایف سی بین الاقوامی سرمایہ کاری آئی ایم ایف گوادر تک حکام نے
پڑھیں:
ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، معدنی ماہرین
کراچی:ماہرین معدنیات کا کہنا ہے کہ ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔
بدھ کو "پاکستان میں معدنی سرمایہ کاری کے مواقع" کے موضوع پر منعقدہ نیچرل ریسورس اینڈ انرجی سمٹ سے خطاب میں معدنی ماہرین کا کہنا تھا کہ اسپیشل انویسمنٹ فسلیٹیشن کونسل کے قیام کے بعد پاکستان میں کان کنی کے شعبے میں تیز رفتاری کے ساتھ سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ سال 2030 تک پاکستان کے شعبہ کان کنی کی آمدنی 8 ارب ڈالر سے تجاوز کرسکتی ہے۔
سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے لکی سیمنٹ، لکی کور انڈسٹریز کے چیئرمین سہیل ٹبہ نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعد اب پاکستان میں کان کنی کا شعبے پر توجہ دی جارہی ہے۔ شعبہ کان کنی کی ترقی سے ملک کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں ناصرف خوشحالی لائی جاسکتی ہے بلکہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں بھی کئی گنا اضافہ ممکن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صرف چاغی میں سونے اور تانبے کے 1.3 ٹریلین کے ذخائر موجود ہیں۔ کان کنی کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے ملک اور خطے میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کان کنی کے صرف چند منصوبے کامیاب ہوجائیں تو معدنی ذخائر کی تلاش کے لائسنس اور لیز کے حصول کے لیے قطاریں لگ جائیں گی۔
نیشنل ریسورس کمپنی کے سربراہ شمس الدین نے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس وقت دھاتوں کی بے پناہ طلب ہے لیکن اس شعبے میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سونے اور تانبے کی ٹیتھان کی بیلٹ ترکی، افغانستان، ایران سے ہوتی ہوئی پاکستان آتی ہے۔
شمس الدین نے کہا کہ ریکوڈک میں 7ارب ڈالر سے زائد مالیت کا تانبا اور سونا موجود ہے۔ پاکستان معدنیات کے شعبے سے فی الوقت صرف 2ارب ڈالر کما رہا ہے تاہم سال 2030 تک پاکستان کی معدنی و کان کنی سے آمدنی کا حجم بڑھکر 6 سے 8ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے شعبہ کان کنی میں مقامی وغیرملکی کمپنیوں کی دلچسپی دیکھی جارہی ہے، اس شعبے میں مقامی سرمایہ کاروں کو زیادہ دلچسپی لینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کان کنی میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا فائدہ 10سال بعد حاصل ہوتا ہے۔
فیڈیںلٹی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو حسن آر محمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کان کنی کے فروغ کے لئے اس سے متعلق انشورنس اور مالیاتی کے شعبے کو متحرک کرنا ہوگا۔ پاکستان کی مالیاتی صنعت کو بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے اپنی افرادی قوت اور وسائل کو مختص کرنا وقت کی ضرورت ہے۔