جنگ بندی کی تجویز کا جواب نہ دینے کا مطلب روس جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے، یوکرینی صدر
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے 30 روزہ جنگ بندی کی تجویز پر روس کی جانب سے کوئی ’بامعنی‘ ردِعمل نہیں آیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یوکرین میں لڑائی جاری رکھنا چاہتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق صدر ولادیمیر زیلنسکی نے جمعرات کو سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ ’افسوس، ایک سے زیادہ دن گزرنے کے باوجود دنیا نے تاحال جنگ بندی کی تجویز پر رُوس کا کوئی معنی خیز جواب نہیں سُنا۔
انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ’یہ ایک بات ایک بار پھر ظاہر کرتی ہے کہ رُوس جنگ کو مزید طُول دینے اور امن کو ہر ممکن حد تک مؤخر کرنا چاہتا کرتا ہے۔‘
ولادیمیر زیلنسکی کہتے ہیں کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ امریکی دباؤ یوکرین میں رُوس کو جنگ ختم کرنے پر مجبور کرنے کے لیے کافی ہو گا۔
اس سے قبل کریملن کے ایک اعلٰی عہدے دار کا جمعرات کو روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کے لیے امریکہ اور یوکرین کی تجویز پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’یہ یوکرینی فوج کے لیے ایک ’ریلیف‘ ہو گا۔
یُوری اوشاکوف نے امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز سے ٹیلی فونک گفتگو کرنے کے بعد سرکاری میڈیا کو بتایا کہ ’یہ یوکرین کی فوج کے لیے ایک عارضی ریلیف کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’صدر ولادیمیر پوتن جمعرات کو اس تجویز کا ’شاید زیادہ مخصوص اور ٹھوس جائزہ لیں گے۔‘
روس کے اعلیٰ عہدے دار نے یہ بھی کہا کہ ان کا ملک ایک ’طویل المدت پُرامن حل‘ کا ہدف رکھتا ہے جو روس کے ’جائز مفادات‘ کے تحفظ کو یقینی بنائے اور ہم اسی کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’کوئی بھی قدم جو پُرامن کارروائی کی نقل کرتا ہے، مجھے یقین ہے کہ موجودہ حالات میں کسی کو بھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔
امریکہ کے مذاکرات کاروں نے جمعرات کو یوکرین میں 30 روزہ جنگ بندی اور اپنا منصوبہ پیش کرنے کے لیے رُوس کا دورہ کیا۔
واضح رہے کہ امریکہ نے تین برس سے جاری یوکرین کی جنگ میں ’غیر مشروط‘ وقفے کے لیے رُوس پر 30 روز کی جنگ بندی پر زور دیا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
نئی دہلی کا نام “انڈرپراستھا”تبدیلیکیلئے، بی جے پی رہنما کا خط
نئی دلی (ویب ڈیسک )بی جے پی حکومت کے رکن پارلیمنٹ پروین کھنڈیلوال نے وزیر داخلہ امت شاہ کو خط لکھ کر نئی دہلی کا نام “انڈرپراستھا” رکھنے کی درخواست کر دی۔بھارتی میڈیا کے مطابق پروین کھنڈیلوال نے اپنے خط میں کہا کہ دہلی کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، اور یہ بھارتی تہذیب کی جڑوں اور اس شہر “انڈرپراستھا” کی نمائندگی کرتا ہے، جسے پانڈووں نے قائم کیا تھا۔انہوں نے تجویز دی کہ پرانے دہلی ریلوے اسٹیشن کا نام “انڈرپراستھا جنکشن” اور دہلی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا نام “انڈرپراستھا ایئرپورٹ”* رکھا جائے۔ ان کے مطابق یہ تبدیلی بھارت کی تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی شناخت کو اجاگر کرے گی۔
کھنڈیلوال نے مزید کہا کہ دارالحکومت میں پانڈووں کے مجسمے بھی نصب کیے جائیں تاکہ نئی نسل اپنے ورثے، تاریخ اور ایمان سے جڑ سکے۔ ان کے مطابق یہ قدم تاریخی انصاف کے ساتھ ساتھ ثقافتی نشاۃ ثانیہ(Cultural Renaissance) کی سمت ایک اہم پیش رفت ہوگی۔بی جے پی رہنما نے کہا کہ جیسے ورانسی، پریاگ راج، ایودھیہ اور اُجن جیسے تاریخی شہروں کو ان کے قدیم نام واپس مل رہے ہیں، ویسے ہی دہلی کو بھی اس کی اصل پہچان اور عزت واپس دی جانی چاہیے۔
انہوں نے اس تجویز کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ثقافتی وژن کے مطابق قرار دیا۔ کھنڈیلوال کے مطابق، دہلی کا نام “انڈرپراستھا” رکھنے سے آنے والی نسلوں کو یہ پیغام ملے گا کہ بھارت کا دارالحکومت صرف طاقت کا مرکز نہیں بلکہ مذہب، اخلاقیات اور قوم پرستی کی علامت بھی ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ وشو ہندو پریشد (VHP) نے بھی دہلی کے نام کی تبدیلی کے حق میں اسی نوعیت کی تجویز دی تھی، جس میں انڈرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور نیو دہلی ریلوے اسٹیشن کے نام بھی بدلنے کی سفارش کی گئی تھی۔
اس سے قبل سابق وزیر وجے گوئل نے دہلی کے سرکاری دستاویزات میں انگریزی ہجے “Delhi” کے بجائے“Dilli” لکھنے کی تجویز پیش کی تھی۔
نام تبدیل