لاہور میں ڈی آئی جی ایڈمن کے عہدے پر تعینات ایس ایس پی عمران کشور نے پولیس سروس سے استعفیٰ دے دیا  ۔ انہوں نے تحریری استعفی آئی پنجاب کے نام تحریر کیا  ۔
اس استعفیٰ کے اندر تحریر میں انہوں نے اس بات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ بظاہر اس تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی بات پر نالاں نظر آتے ہیں۔
اردونیوکے مطابق  عمران کشور نے استعفے میں لکھا  کہ اپنی سروس کے سخت حقائق کے بوجھ تلے میں پولیس سروس آف پاکستان سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ قصور، شیخوپورہ، نارووال اور مظفر گڑھ جیسے اضلاع کی پولیس کمانڈ کرنے کے ساتھ ساتھ میں نے لاہور میں ایس ایس پی انویسٹیگیشن، ڈی آئی جی انویسٹیگیشن اور ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم یونٹ کی سخت ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔
انہوں نے لکھا کہ ’میں نو مئی کی جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کا سربراہ بھی رہا اور اب ڈی آئی جی ایڈمن کے فرائض بھی سر انجام دیے، میں نے اپنے حلف کی پاسداری کی، جس کی مجھے ذاتی طور پر بھاری قیمت بھی چکانا پڑی ہے۔  (اس بھاری قیمت نے) مجھے کئی ایسے سوالوں میں مبتلا کر دیا جن کے جواب میرے پاس نہیں ہیں۔ اور ان سوالوں کی بنا پر میرے اندر غیراطیمنان بخش خلش پیدا ہو گئی۔
عمران کشور کا کہنا تھا کہ ’اس صورت حال نے مجھے اس دوراہے پر کھڑا کر دیا کہ شاید میری سروس کی اب ریاست کو ضرورت نہیں رہی۔ جس وجہ سے میرا سروس سے رشتہ کمزور ہو گیا جو کبھی میرا مضبوط سہارا تھا۔ اس لیے اب میں استعفیٰ دے کر قلم اٹھانا چاہتا ہوں تاکہ اپنے ضمیر کے مطابق لکھ سکوں۔‘
ان کا یہ استعفیٰ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا اور تحریک انصاف سے منسلک اکاونٹس نے اس کو نو مئی کے تناظر میں دیا گیا ایک استعفیٰ قرار دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ استعفی آئی پنجاب کے نام تحریر کیا جبکہ وفاقی ملازم ہونے کی بنا پر قانونی طور پر انہیں یہ استعفٰی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھیجنا چاہیے تھا۔
اس استعفے کے بعد پیدا ہونے والے ابہام کے سبب ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ان کا موبائل نمبر مسلسل بند جا رہا ہے۔
اس موضوع پر آئی جی آفس اور سی سی پی او آفس نے بھی کسی طرح کے تبصرے سے گریز کیا ہے البتہ سوشل میڈیا پر یہ موضوع بحث بن چکا ہے۔
پاکستان کی سیاست کا منظر نامہ تبدیل کر کے رکھ دینے والے واقعات جن میں عمران خان کی لاہور سے گرفتاری اور اس سے پہلے نو مئی کے واقعات کے سینٹر سٹیج پر ایس ایس پی عمران کشور کا کردار بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔  یہ استعفیٰ ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آیا ہے جب سینٹرل سلیکشن بورڈ نے پاکستان پولیس سروس کے 19ویں اور 20ویں گریڈ کے 10 افسران کو ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کے عہدوں پر ترقی دی ۔ جن افسران کو ترقی دی گئی ہے ان میں عمران کشور کا نام شامل نہیں تھا تاہم جن ناموں پر غور کیا گیا دستاویزات کے مطابق ان کا نام اس فہرست میں موجود تھا۔
عمران کشور 33ویں کامن کے آفیسر ہیں اور ان کے بیج کے تقریباً سبھی افسران ترقی پا کر 20ویں گریڈ میں جا چکے ہیں۔
اس صورتحال سے آگاہ لاہور کے ایک اعلیٰ پولیس آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر  بتایا کہ ’یہ دوسری بار ہے کہ عمران کشور کا نام فہرست میں ہونے کے باوجود ترقی پانے والے افسران میں شامل نہیں ہو سکا۔‘
گزشتہ برس بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی لیکن اس سال تو 34ویں کامن کے بھی کچھ افسران جو ان کے جونئیر تھے ان کی گریڈ 20 میں ترقی ہو گئی جس کی وجہ سے یقیناً وہ دل برداشتہ ہوئے ہوں گے اس کے علاوہ تو ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’تاہم ان کے استعفے میں جو الفاظ استعمال ہوئے اس نے سب کو چونکا دیا ہے، اور اب صورت حال اتنی سادہ نہیں رہی۔یہ ایک غیرمعمولی استعفیٰ ہے جس کی مثال پہلے نہیں ملتی، ایک آدھ دن میں یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ ان کا استعفیٰ آئی جی آفس سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو جائے گا یا پھر بورڈ کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی لیے کوئی ہنگامی صورت حال پیدا کی جائے گی۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: عمران کشور کا ڈی ا ئی جی ا انہوں نے کرنے کی

پڑھیں:

ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت

انسانی تاریخ میں کچھ بیماریاں ایسی بھی رہی ہیں جو نسلِ انسانی کے وجود پر سوالیہ نشان بن کر ابھریں۔ کینسر ان میں آج بھی سب سے بھیانک ہے۔ مگر سائنس نے انسان کو یہ پیغام دیا کہ اندھیروں میں بھی چراغ جلائے جاسکتے ہیں۔

انہی چراغوں میں سے ایک ہے ایچ پی وی ویکسین (Human Papillomavirus Vaccine)، جسے اردو میں ’’انسانی پیپلیلوما وائرس حفاظتی دوا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ویکسین بالخصوص خواتین کی زندگی اور صحت کی حفاظت کے لیے آج کی سائنسی دنیا میں بڑی عظیم کامیابی ہے۔


عالمی تحقیق اور ابتدا

ایچ پی وی ویکسین کی بنیاد 1990 کی دہائی میں رکھی گئی جب آسٹریلیا کے سائنس دان پروفیسر یان فریزر (Ian Frazer) اور ان کے ساتھی جیہان ژو (Jian Zhou) نے وائرس جیسے ذرات (Virus-like Particles) ایجاد کیے۔ یہ ذرات بیماری نہیں پھیلاتے لیکن جسم کو مدافعتی ردعمل کے لیے تیار کر دیتے ہیں۔ 2006 میں امریکا نے پہلی بار اسے Gardasil کے نام سے متعارف کرایا، بعد ازاں Cervarix اور Gardasil 9 جیسے مزید مؤثر ورژن سامنے آئے۔

عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (CDC) کے مطابق یہ ویکسین خواتین میں سروائیکل کینسر (Cervical Cancer) کے تقریباً 70 فیصد سے 90 فیصد تک کیسز کو روکتی ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور ناروے جیسے ممالک میں یہ ویکسینیشن پروگرام اس حد تک کامیاب رہا کہ وہاں نوجوان نسل میں سروائیکل کینسر کی شرح نصف سے بھی کم ہوگئی۔

 

پاکستان میں ضرورت

پاکستان میں ہر سال تقریباً 5,000 خواتین سروائیکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ اموات کی شرح 60 فیصد کے قریب ہے، کیونکہ عموماً مرض کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔ یہ بیماری صرف عورت تک محدود نہیں رہتی، بلکہ خاندان کی بقا، بچوں کی تربیت اور سماج کی اخلاقی ساخت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے میں ایچ پی وی ویکسین کا استعمال ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔

مزید یہ کہ عالمی تحقیق ثابت کرچکی ہے کہ ایچ پی وی صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ وائرس مردوں میں منہ، گلے اور تولیدی اعضا کے سرطان کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں ویکسین لگنے کے بعد مردوں میں بھی اس کے خلاف نمایاں تحفظ دیکھا گیا ہے۔


سماجی اور مذہبی رکاوٹیں

پاکستان میں اس ویکسین کے فروغ میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں۔
کچھ حلقے اسے مغربی سازش قرار دیتے ہیں اور مذہبی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں۔
والدین میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ یہ ویکسین نوجوانوں میں جنسی آزادی کو فروغ دے گی۔
لاعلمی اور کم علمی کی وجہ سے اکثر اسے غیر ضروری یا غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔


اسلامی ممالک اور علما کا موقف

کچھ اسلامی ممالک نے نہ صرف ایچ پی وی ویکسینیشن پروگرام فعال کیے ہیں بلکہ علما نے بھی اسے شرعی اعتبار سے جائز قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملیشیا میں 2010 میں Jabatan Kemajuan Islam Malaysia (JAKIM) نے باضابطہ فتوٰی جاری کیا کہ اگر ویکسین کی ترکیب میں کوئی مشکوک جزو نہ ہو اور یہ نقصان دہ نہ ہو تو رحمِ مادر کے سرطان سے بچاؤ کےلیے HPV ویکسین لگوانا ’’مباح‘‘ (permissible) ہے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات (UAE) نے 2018 میں HPV ویکسین کو اپنے قومی حفاظتی پروگرام میں شامل کیا، اور وہاں کے نیشنل امیونائزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ نے حکومتی سطح پر اس کی تائید کی۔

مزید یہ کہ سعودی عرب کے صوبے جازان میں عوامی رویے اور تحقیق سے واضح ہوا کہ مذہبی خدشات کے باوجود طبی اور شرعی دلائل نے ویکسین کے استعمال کو قابلِ قبول بنایا ہے۔

یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی جان کے تحفظ کو اسلام میں اولین ترجیح حاصل ہے، اور جب کوئی دوا جان بچانے کا ذریعہ ہو تو اس کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ واجب کے قریب قرار دیا جا سکتا ہے۔

ایچ پی وی ویکسین آج پاکستانی معاشرے کے لیے محض ایک طبی ایجاد اور ضرورت ہی نہیں بلکہ خواتین کی زندگی، اور معاشرتی بقا کی بھی ضامن ہے۔ اگر حکومت اسے قومی حفاظتی ٹیکوں کے دیگر ذرائع کی طرح مستقل پروگراموں میں شامل کر لے تو ہر سال ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اعداد و شمار، تحقیق اور عالمی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی اور مذہبی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کی اے ٹی سی میں ویڈیو لنک کے بجائے پیش ہونے کیلئے درخواست دائر
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلے کریں، عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • وزیرآباد کیلئے الیکٹرک بس سروس کا افتتاح، سیلاب کے باوجود ترقیاتی کام نہیں روکے: مریم نواز 
  • اگر آپ سمجھتے ہیں ہم ٹوٹ جائیں گے یہ آپ کی غلط فہمی ہے.عمران خان کا آرمی چیف کے نام پیغام
  • پی ٹی آئی قیادت جانتی ہے کہ عمران خان کے بیان عاصم منیر کے نہیں بلکہ ریاست کے کیخلاف ہیں: کوثر کاظمی 
  • پی ٹی آئی کے 17 سینیٹرز نے قائمہ کمیٹیوں سے استعفیٰ
  • عمران خان شیخ مجیب کے آزار سے ہوشیار رہیں
  • مولانا فضل الرحمان کا قطر کے سفارتخانے کا دورہ، مسلمہ امہ کے درمیان دفاعی معاہدے کی ضرورت پر زور
  • 26 نومبر احتجاج کیس،عامرکیانی ، عمران اسماعیل کی بریت درخواستوں پر سرکار کو نوٹس