سپریم کورٹ نے کرسچن کمیونٹی سے امتیازی سلوک کے خلاف درخواست خارج کردی
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ نے کرسچن کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف درخواست رجسٹرار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے خارج کر دی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت عدالت نے درخواست گزار خاتون وکیل کے رویے پر برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ "آپ کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کا طریقہ کار نہیں آتا، کیا آپ اس سپریم کورٹ کی ایڈووکیٹ ہیں؟" جس پر وکیل نے جواب دیا، "میں ایڈووکیٹ ہائیکورٹ اور اس کیس میں درخواست گزار ہوں۔"جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ "اتنے سینئر وکلاء پیش ہوئے ہیں، کسی نے آواز اتنی اونچی کی ہے؟"
درخواست گزار وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ "اقلیتوں کے حوالے سے کنفیوژن کو 1965 کے آئین میں دور کرنے کی کوشش کی گئی۔"
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ "مسیحی برادری کے بہت سے لوگ اچھی نوکریوں پر بھی ہیں، وہ سی ایس پی افسران بھی بنتے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا "آپ کہتی ہیں کہ کرسچنز کو صرف سوئیپر کا عہدہ ہی دیا جاتا ہے؟" جس پر درخواست گزار وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ "اخباری اشتہارات میں ایسی نوکریاں کرسچنز سے منسوب کی جاتی ہیں۔"
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ "اگر ایسا ہے تو کرسچن کمیونٹی کے لوگ ان نوکریوں پر اپلائی نہ کریں۔ اگر آپ نے تقریر کرنی ہے تو ہم آپ کی تقریر سن لیتے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "مسیحی برادری کے بہت سے لوگ ایم این اے، ایم پی ایز اور سینیٹرز بھی ہیں۔ جہاں میرٹ پر آئیں، وہاں بہت سے لوگ ایوان میں بھی بیٹھے ہیں۔"
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ "ہم آپ کو آپ کے حق سے محروم نہیں کر رہے، بلکہ ایک طریقہ کار بتا رہے ہیں۔"
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار
پڑھیں:
سی سی ڈی کے قیام کیخلاف درخواست، لاہورہائیکورٹ نے وکیل کو پٹیشن میں ترمیم کی مہلت دیدی
پنجاب میں کاؤنٹر کرائم ڈیپارٹمنٹ کے قیام کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے 700 مبینہ پولیس مقابلوں کا ذکر کیا ہے، یہ تفصیلات کہاں سے حاصل کی گئیں۔
جس پر وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ معلومات سوشل میڈیا سے لی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں ’نیفے میں پستول چلنے‘ کے بڑھتے واقعات، عوام اور ماہرین قانون کیا کہتے ہیں؟
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ آپ قانونی نکات کو چیلنج کر رہے ہیں لیکن پٹیشن میں خود پڑھیں، پیرا نمبر 25 کیا کہتا ہے۔
وکیل نے مؤقف اپنایا کہ یہ تمام مبینہ پولیس مقابلے سی سی ڈی نے کیے ہیں مگر محکمہ ان کی تفصیلات فراہم نہیں کر رہا۔
وکیل نے مزید کہا کہ سی سی ڈی کا قیام پولیس آرڈر کے بنیادی اسٹرکچر کے خلاف ہے، اگر عدالت چاہے تو جو ترمیم یا ڈیٹا مطلوب ہے وہ فراہم کرنے کو تیار ہیں۔
مزید پڑھیں: برطانیہ کی معاونت سے پاکستان میں ڈیجیٹل کیس مینجمنٹ سسٹم کا آغاز
تاہم چیف جسٹس نے واضح کیا کہ پٹیشن میں ترمیم آپ خود کریں، عدالت اس بارے میں کوئی ڈائریکشن نہیں دے رہی۔
بعد ازاں وکیل نے پٹیشن میں ترمیم کے لیے مہلت مانگی جس پر عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب پولیس آرڈر چیف جسٹس عالیہ نیلم ڈیٹا سوشل میڈیا سی سی ڈی لاہور ہائیکورٹ