UrduPoint:
2025-06-09@16:41:33 GMT

عصر حاضر کے گداگر اداکار کے ساتھ ماہر نفسیات بھی

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

عصر حاضر کے گداگر اداکار کے ساتھ ماہر نفسیات بھی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مارچ 2025ء) ایک دور ایسا بھی گزرا کہ جب لوگ فقیروں کی دعا کو اپنے لیے "لکی" سمجھتے تھے۔ فقیر بھی ایسے سادہ ہوا کرتے تھے کہ گویا درویش ہوں۔ وہ دروازوں پر آکر صدا لگایا کرتے تھے اور لوگ حسبِ توفیق آٹا خیرات کر دیا کرتے تھے یا انہیں کھانا کھلا دیا جاتا تھا۔ لیکن عصرِ حاضر میں براہ راست گھروں کے باہر گھنٹیاں بجائی جاتی ہے۔

چاہے آرام کا ہی وقت کیوں نہ ہو۔ اگر ان کی مدد کر دی جائے تو بغیر دعا دیے دفعتاً فرار ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہم کوئی ڈاکو ہوں کہ دوبارہ گداگروں سے پیسے واپس لے لیں گے۔ اگر خلاف توقع کم پیسے دیے جائیں تو کمنٹس ضرور دیں گے۔ "ارے اتنا بڑا گھر۔۔۔ اور دل چھوٹا"۔۔۔" یہ کیا دے رہے ہیں آپ حاجی صاحب"۔

(جاری ہے)

آج کل کے گداگر پیسے نہ دینے پر گوڈزیلا اور کنگ کانگ جیسا منہ بنا کر بدعا کی دھمکی بھی دے جاتے ہیں۔

یہ گداگر صرف ماہر نفسیات ہی نہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک اداکار بھی ہوتے ہیں۔ لوگوں کی توجہ اور ہمدردیاں اپنی طرف مبذول کرنے کے یہ سارے ہنر و گر بخوبی جانتے ہیں۔ مثال کے طور پر کالج، یونیورسٹی کے باہر سوال کرنے والوں نے یہ فقرہ رٹا ہوا ہوتا ہے ، " اے باجی دے جاؤ پیسے اللہ تمہیں چاند جیسا صاحب دے۔" مارکیٹس میں جہاں خواتین ذرا امید سے نظر آتی ہیں فوراً بھانپ کر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ"تمہیں لڑکا ہو"۔

بینک، بزنس سیکٹرز میں باہر یہ صدا لگائی جاتی ہے کہ "اگر مجھ غریب کو نوازو گے تو ارب پتی بن جاؤ گے" وغیرہ۔ لوگوں کی نفسیاتی اور جذباتی کیفیت کو مدنظر رکھنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے۔

سوشل میڈیا پر مضحکہ خیز وائرل ویڈیو نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ جس میں دن بھر مانگنے کے بعد ایک معذور گداگر وہیل چیئر پر اپنی بستی میں داخل ہوتا ہے اور وہیل چیئر پارک کرکے صحیح سلامت پیدل چل کر اپنی جھونپڑی میں داخل ہو جاتا ہے۔

دوسری جانب یہ اٹل حقیقت ہے کہ گداگر مصنوعی طور پر زخم لگانے میں بہت سمارٹ ہو گئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے واقعی گہرے زخم ہیں۔ حالانکہ یہ پینٹ ہوتا ہے اب بندہ کس پر اعتماد کرے اور کس پر نہ کرے۔؟

گداگروں کی اتنی بھرمار ہوتی جا رہی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یاجوج ماجوج نکل آئے ہوں۔ ہر مارکیٹ، فوڈ پوائنٹ، ہسپتال، ریلوے اسٹیشن، تعلیمی اداروں حتی کہ قبرستانوں کے باہر بھی گداگر ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوتے ہیں۔

مجال ہے کہ آپ کسی فوڈ کارنر پر کچھ کھا رہے ہوں اور وہ اپنی انٹری نہ ماریں۔ کھانا ہی حلق میں اٹک جاتا ہے۔

مانا کہ سوال کرنے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں جیسا کہ ہم اگر کسی سے کسی چیز کا تقاضا کریں تو آداب یا جس سے مانگا جا رہا ہو اس کی نفسیات یعنی پسند و ناپسند کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہی مانگنے کی جسارت کی جاتی ہے۔ مگر پاکستانی گداگروں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔

یورپین حکومتیں اس لئے گداگری پر قدغن لگاتی ہیں کہ یہاں ریاست روٹی، کپڑا، مکان، صحت عامہ اور تعلیم و تربیت کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہے تو پھر بھکاریوں کا شوشہ کیوں روا رکھا جائے۔؟

بدقسمتی سے پاکستانی گداگروں کو سٹیٹ بینیفٹس کی سہولت دستیاب نہیں۔ جس کے باعث گداگری معاشرتی ناسور بنتا جا رہا ہے۔ ان کے منظم گروہ ہیں جو ان سے بھکاریوں کو بیرون ممالک بجھوانے کا بندوبست کرتے ہیں اور عموماً انہیں مذہبی سرگرمیوں اور مذہبی زیارتوں کے بہانے سعودی عرب، ایران اور عراق بھجوایا جاتا ہے۔

جہاں پہنچ کر کسی فلمی سین کی مانند یہ گداگروں والے اپنے اصلی روپ میں آ جاتے ہیں۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ گداگروں کے لیے ہمارے ملک میں بڑا نرم گوشہ پایا جاتا ہے کیونکہ یہ مذہب کارڈ استعمال کرتے ہیں تو لوگ ان سے دعائیں بھی کرواتے ہیں۔ اگر اس پیشے کو برا سمجھا جائے تو یہ کیسے مزید پروان چڑھ سکتا ہے۔ بہرکیف جس سرعت سے گداگری کا گراف بڑھ رہا ہے ان بھکاریوں کی تعداد پر قابو پانا مشکل نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہوتا ہے جاتا ہے

پڑھیں:

ہمایوں سعید اپنی بیوی کے پاؤں کیوں دباتے ہیں؟ اداکار نے خود انکشاف کردیا

پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف اداکار ہمایوں سعید نے اپنی ازدواجی زندگی کے کچھ انوکھے اور دلچسپ پہلوؤں سے پردہ اٹھاتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کے پاؤں تک دباتے ہیں۔

ہمایوں سعید نے اپنی اہلیہ ثمینہ احمد کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ شادی کے ابتدائی دنوں میں محبت اتنی گہری نہیں تھی، لیکن وقت کے ساتھ یہ رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔

ہمایوں نے مسکراتے ہوئے ایک دلچسپ شکایت کی کہ ان کی بیوی نے آج تک ان سے ’’آئی لو یو‘‘ نہیں کہا، حالانکہ وہ ہمیشہ ان کا خیال رکھتی ہیں۔ ’’میں خود اکثر انہیں فون پر ’آئی لو یو‘ اور ’آئی مس یو‘ کہتا ہوں، لیکن ان کی طرف سے ایسا کوئی جواب نہیں آتا‘‘۔

اداکار نے زور دے کر کہا کہ حقیقی محبت صرف الفاظ تک محدود نہیں ہوتی۔ ’’محبت میں عزت اور بھروسہ ضروری ہے۔ میں اپنی بیوی سے صرف زبانی نہیں، بلکہ اپنے رویے اور عمل سے بھی محبت کا اظہار کرتا ہوں‘‘۔

ہمایوں نے اپنی ازدواجی زندگی کا ایک مزیدار واقعہ بھی شیئر کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ’’جب میری بیوی ناراض ہوتی ہیں، چاہے غلطی میری نہ بھی ہو، میں انہیں منانے کےلیے ان کے پاؤں تک دبا لیتا ہوں۔ میں معافی مانگتا ہوں اور جب تک وہ راضی نہ ہوجائیں، ان کے پاؤں دباتا رہتا ہوں‘‘۔

یہ انکشافات ہمایوں سعید نے ایک انٹرویو کے دوران کیے، جہاں انہوں نے اپنی شادی کے ابتدائی دنوں سے لے کر موجودہ دور تک کے سفر پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ان کی زندگی کا تصور بھی اپنی اہلیہ کے بغیر ادھورا لگتا ہے۔

یاد رہے کہ ہمایوں سعید اور ثمینہ احمد کی شادی کو دو دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، اور ان کا یہ رشتہ شوبز انڈسٹری میں مثالی سمجھا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • گرمی کی چھٹیوں میں کون سکول حاضر رہے گا؟ حکم نامہ جاری
  • لاس اینجلس، پینٹاگون کا حاضر سروس دستوں کی تعیناتی کا عندیہ
  • جاوید شیخ نے اداکارہ میرا سے متعلق ماضی کا دلچسپ قصہ سنا دیا
  • آئی ایم ایف نے معیشت کو آئی سی یو سے نکال آپریشن تھیٹر میں ڈال دیا : ماہر معاشی امور
  • ایس ایس راجامولی کی فلم SSMB29 میں آر مادھون کی انٹری
  • ہمایوں سعید اپنی بیوی کے پاؤں کیوں دباتے ہیں؟ اداکار نے خود انکشاف کردیا
  • بلوچستان میں عید قربان کے دسترخوان: ذائقوں سے بھرپور علاقائی پکوانوں کی کہانی
  • ارطغرل غازی کے اداکار انگین آلتان نے پاکستان کی دلچسپ یادیں شیئر کردیں
  • لبنان پر اسرائیلی حملے قابل مذمت: مقبوضہ کشمیر  پر مودی کا بیان مسترد کرتے ہیں، پاکستان
  • قربانی کے بعد معیشت کا خزانہ