عصر حاضر کے گداگر اداکار کے ساتھ ماہر نفسیات بھی
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مارچ 2025ء) ایک دور ایسا بھی گزرا کہ جب لوگ فقیروں کی دعا کو اپنے لیے "لکی" سمجھتے تھے۔ فقیر بھی ایسے سادہ ہوا کرتے تھے کہ گویا درویش ہوں۔ وہ دروازوں پر آکر صدا لگایا کرتے تھے اور لوگ حسبِ توفیق آٹا خیرات کر دیا کرتے تھے یا انہیں کھانا کھلا دیا جاتا تھا۔ لیکن عصرِ حاضر میں براہ راست گھروں کے باہر گھنٹیاں بجائی جاتی ہے۔
چاہے آرام کا ہی وقت کیوں نہ ہو۔ اگر ان کی مدد کر دی جائے تو بغیر دعا دیے دفعتاً فرار ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہم کوئی ڈاکو ہوں کہ دوبارہ گداگروں سے پیسے واپس لے لیں گے۔ اگر خلاف توقع کم پیسے دیے جائیں تو کمنٹس ضرور دیں گے۔ "ارے اتنا بڑا گھر۔۔۔ اور دل چھوٹا"۔۔۔" یہ کیا دے رہے ہیں آپ حاجی صاحب"۔(جاری ہے)
آج کل کے گداگر پیسے نہ دینے پر گوڈزیلا اور کنگ کانگ جیسا منہ بنا کر بدعا کی دھمکی بھی دے جاتے ہیں۔
یہ گداگر صرف ماہر نفسیات ہی نہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک اداکار بھی ہوتے ہیں۔ لوگوں کی توجہ اور ہمدردیاں اپنی طرف مبذول کرنے کے یہ سارے ہنر و گر بخوبی جانتے ہیں۔ مثال کے طور پر کالج، یونیورسٹی کے باہر سوال کرنے والوں نے یہ فقرہ رٹا ہوا ہوتا ہے ، " اے باجی دے جاؤ پیسے اللہ تمہیں چاند جیسا صاحب دے۔" مارکیٹس میں جہاں خواتین ذرا امید سے نظر آتی ہیں فوراً بھانپ کر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ"تمہیں لڑکا ہو"۔ بینک، بزنس سیکٹرز میں باہر یہ صدا لگائی جاتی ہے کہ "اگر مجھ غریب کو نوازو گے تو ارب پتی بن جاؤ گے" وغیرہ۔ لوگوں کی نفسیاتی اور جذباتی کیفیت کو مدنظر رکھنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے۔سوشل میڈیا پر مضحکہ خیز وائرل ویڈیو نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ جس میں دن بھر مانگنے کے بعد ایک معذور گداگر وہیل چیئر پر اپنی بستی میں داخل ہوتا ہے اور وہیل چیئر پارک کرکے صحیح سلامت پیدل چل کر اپنی جھونپڑی میں داخل ہو جاتا ہے۔
دوسری جانب یہ اٹل حقیقت ہے کہ گداگر مصنوعی طور پر زخم لگانے میں بہت سمارٹ ہو گئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے واقعی گہرے زخم ہیں۔ حالانکہ یہ پینٹ ہوتا ہے اب بندہ کس پر اعتماد کرے اور کس پر نہ کرے۔؟گداگروں کی اتنی بھرمار ہوتی جا رہی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یاجوج ماجوج نکل آئے ہوں۔ ہر مارکیٹ، فوڈ پوائنٹ، ہسپتال، ریلوے اسٹیشن، تعلیمی اداروں حتی کہ قبرستانوں کے باہر بھی گداگر ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوتے ہیں۔
مجال ہے کہ آپ کسی فوڈ کارنر پر کچھ کھا رہے ہوں اور وہ اپنی انٹری نہ ماریں۔ کھانا ہی حلق میں اٹک جاتا ہے۔مانا کہ سوال کرنے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں جیسا کہ ہم اگر کسی سے کسی چیز کا تقاضا کریں تو آداب یا جس سے مانگا جا رہا ہو اس کی نفسیات یعنی پسند و ناپسند کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہی مانگنے کی جسارت کی جاتی ہے۔ مگر پاکستانی گداگروں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔
یورپین حکومتیں اس لئے گداگری پر قدغن لگاتی ہیں کہ یہاں ریاست روٹی، کپڑا، مکان، صحت عامہ اور تعلیم و تربیت کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہے تو پھر بھکاریوں کا شوشہ کیوں روا رکھا جائے۔؟
بدقسمتی سے پاکستانی گداگروں کو سٹیٹ بینیفٹس کی سہولت دستیاب نہیں۔ جس کے باعث گداگری معاشرتی ناسور بنتا جا رہا ہے۔ ان کے منظم گروہ ہیں جو ان سے بھکاریوں کو بیرون ممالک بجھوانے کا بندوبست کرتے ہیں اور عموماً انہیں مذہبی سرگرمیوں اور مذہبی زیارتوں کے بہانے سعودی عرب، ایران اور عراق بھجوایا جاتا ہے۔
جہاں پہنچ کر کسی فلمی سین کی مانند یہ گداگروں والے اپنے اصلی روپ میں آ جاتے ہیں۔افسوسناک بات یہ ہے کہ گداگروں کے لیے ہمارے ملک میں بڑا نرم گوشہ پایا جاتا ہے کیونکہ یہ مذہب کارڈ استعمال کرتے ہیں تو لوگ ان سے دعائیں بھی کرواتے ہیں۔ اگر اس پیشے کو برا سمجھا جائے تو یہ کیسے مزید پروان چڑھ سکتا ہے۔ بہرکیف جس سرعت سے گداگری کا گراف بڑھ رہا ہے ان بھکاریوں کی تعداد پر قابو پانا مشکل نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہوتا ہے جاتا ہے
پڑھیں:
سلمان خان اداکار سونو سود سے کیوں جلتے تھے؟فلم دبنگ کے ہدایتکار کا حیران کن انکشاف
بھارتی فلمساز ابھینو کشیپ جنہوں نے بالی ووڈ میں اپنے کیریئر کا آغاز فلم دبنگ سے کیا، نے ایک حالیہ انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ چُلبُل پانڈے کے کردار کے لیے سلمان خان نہیں بلکہ رندیپ ہودا ان کی پہلی پسند تھے لیکن سہیل خان نے انہیں مسترد کر دیا تھا۔
ابھینو کشیپ نے بتایا کہ انہوں نے ارباز خان کو فلم کی کہانی صرف پندرہ منٹ میں سنائی۔ ارباز خود چُلبُل پانڈے کا کردار ادا کرنا چاہتے تھے اور ابھینو کو منانے کی کوشش کی، لیکن ہدایتکار نے محسوس کیا کہ ارباز معاون کردار کے لیے زیادہ موزوں ہوں گے۔ اس پر ارباز نے شرط رکھی کہ اگر وہ فلم پروڈیوس کریں تو وہ اس میں کام کریں گے، اور ابھینو نے اس شرط کو قبول کر لیا۔ اس کے بعد ارباز نے کہا کہ کہانی اپنے بھائی سہیل خان کو بھی سناؤ۔
یہ بھی پڑھیں: اپنی شادی پر سلمان خان سے یہ توقع نہ تھی، اداکارہ بھاگیاشری کا انکشاف
انہوں نے یاد کیا کہ سہیل کو بھی اسکرپٹ پسند آیا اور انہوں نے پوچھا کہ ہیرو کے لیے کس کو کاسٹ کرنا چاہتے ہیں؟ جب ابھینو نے رندیپ ہودا کا نام لیا تو سہیل خان نے جواب دیا ’نہیں یار رندیپ ہودا کا کیا مارکیٹ ہے، کون پیسے لگائے گا؟ کوئی بڑا ہیرو سوچو‘۔
فلمساز کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے سنجے دت اور سنی دیول کے نام لیے اور کہا کہ سلمان خان کی باڈی بھی اچھی ہے اگر وہ یہ ٹَف رول کر پائیں، کیونکہ ان کی ایک ’چِچھورا‘ امیج تھی، یعنی ان کی چھاپ ایک آوارہ قسم کے کردار کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ’میں 3 بڑی بیماریوں سے لڑ رہا ہوں‘، بالی ووڈ اداکار سلمان خان کے انکشافات
ابھینو کے مطابق جیسے ہی سلمان خان کا نام آیا سہیل اور ارباز دونوں نے کہا کہ اگر سلمان خان کو کہانی پسند آئی تو وہ فلم پروڈیوس کریں گے۔ بعد میں فلم ویر کے سیٹ پر سلمان خان کو کہانی سنائی گئی اور خان برادران نے ابھینو کو سائن کرنے کے لیے دس لاکھ روپے کا چیک دیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سوناکشی سنہا کی کاسٹنگ ان کا فیصلہ نہیں تھا مگر آخر کار وہ ان کی کارکردگی سے خوش ہوئے۔
ابھینو نے بتایا کہ جب ولن کے کردار پر بات ہوئی تو انہوں نے سونو سود کا نام تجویز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سونو میرا پرانا دوست تھا، میں نے ہی اسے مَنی رتنم کی فلم یُووا میں کام دلانے میں مدد کی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ ولن ایسا ہو جو سلمان سے زیادہ مضبوط دکھے اور سونو کی فزیک اچھی تھی۔ لیکن سلمان کو وہ پسند نہیں آیا۔ وہ سونو کی باڈی دیکھ کر تھوڑا ان سیکیور ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ’پارٹنر‘ کی شوٹنگ کے دوران سلمان خان اور گووندا ایک دوسرے سے خوفزدہ کیوں تھے؟ دیپشیکھا ناگپال کا انکشاف
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ اس موقع پر کترینہ کیف نے مدد کی جو ان دنوں سلمان کے قریب تھیں۔ کترینہ نے سونو سود کو کاسٹ کرنے کے حق میں بات کی جس کے بعد سلمان خان بھی مان گئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بالی ووڈ سلمان خان سوناکشی سنہا سونو سود فلم دبنگ