مقبوضہ کشمیر میں ظلم و تشدد کے متاثرین کو انصاف کی فراہمی وقت کی اہم ضرورت ہے، الطاف وانی
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے 58ویں اجلاس کے موقع پر ایک تقریب میں ورلڈ مسلم کانگریس کی جانب سے اظہار خیال کرتے ہوئے الطاف حسین وانی نے کونسل کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی جانب مبذول کرائی۔ اسلام ٹائمز۔ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین الطاف حسین وانی نے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی سرپرستی میں ہونے والے ظلم و تشدد کے متاثرین کو انصاف کی فراہمی اور اس میں ملوث فوجی اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے 58ویں اجلاس کے موقع پر ایک تقریب میں ورلڈ مسلم کانگریس کی جانب سے اظہار خیال کرتے ہوئے الطاف حسین وانی نے کونسل کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی جانب مبذول کرائی۔ انہوں نے گزشتہ ماہ قاضی گنڈ سے لاپتہ ہونیوالے شوکت احمد اور ریاض احمد کی لاشوں کی دریافت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و تشدد اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی واضح مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1990ء کی دہائی کے اوائل سے بھارتی قبضے سے آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کی جبری گمشدگیاں ایک معمول بن گیا ہے۔ جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی اور دوران حراست لاپتہ افراد کے والدین کی تنظیم (اے پی ڈی پی) کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1990ء کے بعد سے جبری گمشدگیوں کے 10ہزار سے زائد واقعات ہوئے ہیں اور تقریبا 8 ہزار سے زائد کشمیریوں کو حراست کے دوران وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک کشمیری عبدالرشید ڈار کو مارچ 2023ء میں زرہامہ کے جنگلات سے گرفتار کیا گیا تھا بعد ازاں ان کی لاش برآمد ہوئی تھی۔ الطاف وانی نے کہا کہ بھارتی فوجیوں کو آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت کشمیریوں کے قتل عام کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ انہوں نے افسپانہ کو ایک ظالمانہ اور کالا قانون قرار دیا۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں ملوث بھارتی فوجیوں کے خلاف سخت کارروائی اور بھارت کو جوابدہ ٹھہرانے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے وانی نے کی جانب کہا کہ
پڑھیں:
مری کو مزید پانی نہیں دیا جائے گا، خیبرپختونخوا یہ فیصلہ کیوں کررہا ہے؟
پشاور(نیوز ڈیسک)خیبر پختونخوا حکومت نے سیاحتی مقام گلیات سے مری کو پانی کی سپلائی میں مزید توسیع اور نئی پائپ لائن بچھانے کے عمل کو روک کر، 129 سال سے جاری مفت پانی کی فراہمی پر نظرِ ثانی کا عمل شروع کر دیا ہے۔
گلیات میں پانی کی شدید قلت، معاملہ کیسے اٹھا؟
خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن رجب علی عباسی نے گلیات میں پانی کی شدید قلت اور وہاں سے مری کو مفت پانی کی فراہمی کے معاملے کو اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعے اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ گلیات کی مقامی آبادی پانی کی قلت کا شکار ہے، جبکہ ان کا پانی مفت میں مری کو دیا جا رہا ہے اور کوئی آبپاشی فیس (آبیانہ) وصول نہیں کی جا رہی، جو ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مری واٹر بورڈ مفت پانی حاصل کر کے مری کے صارفین سے فیس وصول کر رہا ہے، جبکہ گلیات کے مقامی افراد پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ اس معاملے پر اپوزیشن اور حکومتی اراکین نے غیر معمولی اتفاقِ رائے کا مظاہرہ کیا۔
نئی پائپ لائن بچھانے کا عمل روک دیا گیا
گلیات سے منتخب اراکین نے پانی کے مسئلے کو سنگین قرار دیا اور بتایا کہ گلیات ایک سیاحتی علاقہ ہے لیکن وہاں پانی کی شدید قلت ہے۔ گلیات سے رکنِ خیبر پختونخوا اسمبلی نذر احمد عباسی نے بتایا کہ مری کو پانی کی سپلائی ان کے علاقے درویش آباد سے ہوتی ہے، لیکن اب وہاں کی مقامی آبادی کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب حکومت گلیات سے مری کو پانی کی فراہمی کے لیے مزید پائپ لائن بچھا رہی تھی، جسے روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گلیات میں گورنر ہاؤس کے قریب واٹر ٹینکس بنائے گئے ہیں، جہاں پانی کو ذخیرہ کرکے اپ لفٹ کیا جاتا ہے اور پھر ڈونگا گلی میں انگریز دور کے اسٹیل ٹینک میں ذخیرہ کیا جاتا ہے، جہاں سے پانی مری کو بھیجا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپ لفٹ کا خرچہ بھی صوبائی حکومت برداشت کر رہی ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے مری کے لیے نئی لائن بچھانے کے منصوبے کو روک دیا ہے۔ مزید برآں، اس پورے معاملے کو سیاحتی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے تاکہ پانی کی تقسیم، اخراجات اور قانونی حیثیت پر جامع رپورٹ پیش کی جا سکے۔
سپریم کورٹ کا مقامی آبادی کے حق میں فیصلہ
رکن اسمبلی نذیر عباسی نے بتایا کہ اس معاملے پر مقامی لوگ سپریم کورٹ گئے اور کیس کیا۔ عدالت نے مقامی آبادی کے مؤقف کو درست قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ 6 سال قبل عدالت میں جو رائیلٹی کا تخمینہ لگایا گیا تھا، وہ 40 سے 50 ارب روپے بنتا ہے۔ مری واٹر بورڈ کا مؤقف تھا کہ پانی کی فراہمی پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا اور نہ ہی کوئی رائیلٹی طے ہوئی تھی۔
نذیر احمد عباسی نے کہا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ مری واٹر بورڈ اس مفت پانی کو آگے بیچ کر پیسے کما رہا ہے، جبکہ جس علاقے سے پانی آ رہا ہے، وہاں کے لوگ بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور انہیں ان کا آئینی حق نہیں دیا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ اگر گلیات کو رائیلٹی کی مد میں ادائیگی کی جائے تو اس سے پانی کی سپلائی کو بہتر بنانے اور مقامی آبادی کو فراہمی پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔
معاملہ سیاحتی کمیٹی کے حوالے، پنجاب حکام کو بھی بلانے کی ہدایت
معاملے پر وزیر قانون خیبر پختونخوا آفتاب عالم نے بھی بات کی اور کہا کہ پنجاب صوبے کے وسائل کو استعمال تو کر رہا ہے لیکن رائیلٹی ادا نہیں کر رہا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے کو ہر فورم پر اٹھائے گی اور اس پر حکمتِ عملی تیار کی جا رہی ہے۔ اراکین نے اسپیکر خیبر پختونخوا سے مری کو پانی کی فراہمی فوری طور پر بند کرنے کے لیے رولنگ دینے کی درخواست کی، جس پر اسپیکر نے کہا کہ عام شہریوں کو پینے کا پانی بند کرنا درست نہیں۔ جو توسیع ہو رہی تھی، اسے پہلے ہی روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے معاملے کو اسمبلی کی سیاحتی کمیٹی کے سپرد کیا اور ہدایت دی کہ تمام متعلقہ حکام کو بلا کر پوچھ گچھ کی جائے اور پنجاب کے حکام کو بھی بلایا جائے۔
مری کو گلیات سے پانی کی فراہمی کب شروع ہوئی تھی؟
رکن اسمبلی اور گلیات کے رہائشی نذیر احمد عباسی کے مطابق، مری کو پانی کی فراہمی 1896 سے ہو رہی ہے۔ اس وقت گلیات میں پانی کی قلت نہیں تھی اور پانی لینے والے بااختیار اور طاقتور ہونے کی وجہ سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت پانی کے بدلے نارتھ ویسٹ کو پنجاب سے گندم کوٹہ بڑھانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ نذیر عباسی نے کہا کہ اس وقت سے مری کو پانی کی فراہمی جاری ہے۔
گلیات سے یومیہ مری کو کتنا پانی جاتا ہے؟
رکن اسمبلی نذیر عباسی کے مطابق، گلیات سے مری کو بغیر کسی رکاوٹ کے پانی کی فراہمی جاری ہے اور یومیہ پانچ لاکھ گیلن پانی مری کو بھیجا جاتا ہے، جس سے مقامی آبادی متاثر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یومیہ مفت پانی صوبائی حکومت کے خرچ پر مری کو سپلائی کرنا ناانصافی ہے اور حکومت اب اس پر باقاعدہ کام کر رہی ہے تاکہ مقامی آبادی کو انصاف اور پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سیاحتی کمیٹی اپنی رپورٹ پیش کرے گی، جس کی روشنی میں معاملہ وفاق اور پنجاب کے ساتھ اٹھایا جائے گا، اور اگر بات نہ بنی تو پانی کی فراہمی بند بھی کی جا سکتی ہے۔
مری کا پانی کے لیے 70 فیصد گلیات پر انحصار
پنجاب کے مشہور مقام سیاحتی مری کا پانی کے لیے خیبر پختونخوا پر انحصار ہے۔ اور گلیات سے فراہم پانی کو ہوٹلز اور گھروں سپلائی کیا جاتا ہے۔ مری کے مقامی رہائشی نے بتایا کہ مری کا پانی کے لیے 70 فیصد گلیات پر ہے جبکہ 30 فیصد تک مقامی سطح ہر پانی دستیاب ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ خیبر پختونخو اگر پانی کی فراہمی بند کرتی ہے یا کم بھی کرتی ہے تو اس کا مری میں زندگی پر بہت زیادہ منفی اثر پڑے گا۔ انھوں نے بتایا کہ پانی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے تو سیاحت کو نقصان پہنچے گا۔
مزید پڑھیں: آج پاکستان نے بھارتی گیدڑ بھبکیوں کا جواب دیا، عطا تارڑ