اللہ، کچھ لوگ دل سے کیوں نہیں اترتے
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
بعض لوگوں کی طرف سے اتنا پیار، محبت اور شفقت ملتی ہے کہ جس کو انسان بھولنا بھی چاہے تو نہیں بھلا سکتا۔پھر کچھ لوگ کسی ایسے مشکل وقت میں کام آتے ہیں کہ وہ دل میں محبت کا گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں ۔مولانا کوثر نیازی سابق وزیر اطلاعات و نشریات و چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے میرے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات تھے۔میرے وہ انتہائی شفیق، مہربان اور بھائی نما دوست تھے ان کو کسی صورت دل سے نہیں نکالا جا سکتا۔وہ مردم شناس ، موقع شناس اور انتہائی وفاداردوست تھے جہاں کہیں بھی موقع ملتا اپنے دوستوں کو جگہ بنا کر دیتے۔ایک اخبار کے سابق چیف ایڈیٹر سے مجھے انہوں نے ہی متعارف کروایا تھا۔1985ء سے لے کر ان کی وفات 2015ء تک 30سال تک ان کے ساتھ میرے سگے بھائیوں جیسے تعلقات رہے وہ مجھ پر بہت زیادہ اعتبار کرتے تھے۔میرے بہت سارے منافق دوستوں کی منافقت اورمخالفت کے باوجود اُن کا مرتے دم تک اسی طرح مجھ سے محبت کا رشتہ قائم رہاجس طرح مولانا کوثر نیازی تعارف کرا کے گئے تھے۔صوبہ سندھ کی دو بڑی شخصیات جام صادق علی اور مخدوم طالب المولیٰ کے ساتھ ساتھ سید فخر امام اور بی بی سیدہ عابد حسین سے بھی انتہائی قریبی رشتہ قائم کر گئے۔کالم میں زیادہ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت تفصیلاً لکھنے سے قاصر ہوں اور سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کس کس کا نام لکھوں ۔ نوابزادہ نصر اللہ ، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ میر اٖفضل خان حتیٰ کہ مشہور اور نامور شخصیات سے ملوانا اور پھر ا ن کو یہ بتانا کہ ملک فداالرحمن میرے چھوٹے بھائی ہیں ۔یہ جب بھی آپ کے پاس آئیں تو آپ یہی سمجھنا کہ مولانا کوثر نیازی خود آئے ہیں اور پھر یقین جانیئے انہوں نے عزت بھی وہی دی کہ جیسے کوثر نیازی خود تشریف لائے ہیں۔ ایمبیسیوں میں سفیروں کو ملنے جاتے تو تب بھی مجھے ساتھ لے کر جاتے بلکہ ایک دفعہ اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میں یوم ِ اقبال کی تقریب تھی جو میری ادبی و ثقافتی تنظیم ’’آئینہ‘‘ کے زیر اہتمام ہو رہی تھی۔
تقریب کی صدارت وفاقی وزیر تعلیم سید فخر امام فرما رہے تھے اور مہمان خصوصی جام صادق علی ،وزیراعلیٰ سندھ تھے۔ان کے مرکزیہ مجلس اقبال کے ممبر فرزندِ اقبال جسٹس جاوید اقبال اور مجید نظامی بھی موجودتھے۔سب لوگ اپنی اپنی جگہ بہت اعلیٰ تقریر کر رہے تھے ۔اس تقریب میں نظامت کے فرائض میرے ذمے تھے ۔میں نے تقریب کے صدر اور مہمان خصوصی کے خطاب سے پہلے مولانا کوثر نیازی کو خطاب کی دعوت دی۔مولانا صاحب نے تقریب کے ہر مہمان کے متعلق کچھ نہ کچھ تعریفی الفاظ کہے لیکن جب جام صادق علی ،وزیر اعلیٰ سندھ کی باری آئی تو مولانا صاحب نے ان کو مخاطب کر کے کہا کہ جام صاحب ایسا لگتا ہے کہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ والے علامہ اقبال کو وہ رتبہ نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں ۔خصوصاً سندھ کا تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے علامہ اقبالؒ سے بغض رکھتے ہوں ۔ کراچی شہر میں بہت بڑی ادبی و ثقافتی تقاریب ہوتی رہی ہیں لیکن علامہ اقبال پر کبھی کوئی تقریب نہیں کرائی گئی۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اقبالؒ قومی شاعر نہیں خصوصاً سندھ کے تو بالکل ہی نہیں بلکہ صرف لاہور کے شاعر ہیں اور ان کا یوم صرف لاہور میں منایا جاتا ہے۔ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ ہر سال کراچی میں بھی یوم اقبال پر بہت شاندار اور پروقار تقریبات ہونی چاہئیں ۔مولانا کوثر نیازی کے بعد وزیراعلیٰ سندھ جام صادق علی کو تقریر کی دعوت دی گئی تو انہوں نے خوبصورت تقریب کا اہتمام کرنے پر ’’آئینہ‘‘ تنظیم کی تعریف کے بعد علامہ اقبال کے متعلق خوبصورت الفاظ میں خراجِ عقیدت کا اظہارکیا اور پھر تنظیم کے سربراہ راقم اور مولانا کوثر نیازی سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میرے اس عہدے پرآنے سے پہلے جو کچھ ہوتا رہا اس کا میں ذمہ دار نہیں ہوں۔پھر بھی میں معافی چاہتا ہوں۔ آج میں اس تقریب میں حاضر ہوا ہوں تو میں سندھ گورنمنٹ کی طرف سے پچاس لاکھ روپے کا عطیہ مرکزیہ مجلس اقبال کوپیش کرتا ہوں ۔ یاد رہے کہ 1991ء میں پچاس لاکھ روپے بہت بڑی رقم تھی اور یہ پچاس لاکھ روپے مرکز یہ مجلس اقبال کے اکاؤنٹ میں ایک ہفتے کے اندر اندر پہنچ جائیں گے۔جس پر مولانا کوثر نیازی نے کہا کہ جام صاحب پچاس لاکھ روپے مرکزیہ مجلس اقبال کا سالانہ بجٹ بھی نہیں ہے۔لیکن انہوں نے کہا میں نے اعلان کر دیا ہے تو پچاس لاکھ ہی اقبال کے فنڈ میں دوں گا اور جب تک زندہ ہوںکراچی میں ہرسال یوم اقبال کے موقع پر کراچی میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔
بدقسمتی سے زندگی نے جام صادق علی سے وفا نہ کی اور وہ جلدی دنیا سے رخصت ہو گئے۔مولانا کوثر نیازی کی وفات کے بعد کچھ سال میں نے اپنے طور پر علامہ اقبال ؒکے یوم پر تقاریب کا اہتمام کیا لیکن چونکہ حکومت کی طرف سے ایک آنے کا بجٹ نہیں ملتا تھا تو پھر اپنی مددآپ کے تحت ان تقریبات کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ آج بھی یومِ اقبال کی عزت و احترام کا صرف ایک چھٹی کی وجہ سے پتہ چلتا ہے کہ آج یوم اقبال کی وجہ سے چھٹی ہے۔حکومت ِ وقت کو چاہیئے کہ وہ یوم قائداعظم اور یوم اقبال کے لئے خصوصی فنڈ مقرر کرے۔یوم اقبال پر مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام اور تمام بڑے تعلیمی اداروں میں اقبالؒ کے فلسفے اور حالات زندگی پر بچوں سے تقاریرکروائی جائیں تاکہ نئی نسل بھی اقبال کی شاعری ، فلسفے اور ان کی دور اندیش سوچ سے آگاہ ہوتی رہے۔ پورے پاکستان میں چھٹی دینے کی بجائے اس طرف بھی توجہ دی جائے۔بات ہو رہی تھی مولانا کوثر نیازی کے متعلق جو بیک وقت بہت اچھے شاعر، ادیب،خطیب، دانشور، مصنف، صحافی ، مذہبی سکالراور دور اندیش اور زیرک انسان تھے ۔ وہ اور نوابزادہ نصراللہ خان جیسے لوگ آج بھی زندہ ہوتے تو نہ پاکستان میں ایسے حالات ہونے تھے نہ کم ظرف اور کم عقل اپوزیشن ہونی تھی ، نہ ایسے ناتجربہ کار سیاستدانوں کی کوئی وقعت ہوتی اور نہ ہی اپوزیشن نمائندے اسمبلیوں میں اوچھے، شوشے اور کم عقلی کی بھات بھات کی بولیاں بول رہے ہوتے ۔آج کل تو بعض سیاستدانوں کے شوشے اور چٹکلے سن سن کر دل کڑھتا اور جلتا ہے اور پھر انسان سوچتا ہے کہ خدا جانے ہم سے کیا غلطی ہو گئی ہے کہ ہمیں کیسے کیسے سیاستدان ملے ہیں ۔ مولانا کوثر نیازی 19مارچ 1994ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے اس لحاظ سے آج ان کی اکتیسویںبرسی ہے۔میں آخر میں مولا نا کوثر نیازی کے لئے خصوصی دعا کے ساتھ اپنے تمام قارئین سے بھی درخواست کروں گا کہ آؤ، آج ہم سب مل کر مولانا کوثر نیازی جیسی ہر دل عزیز شخصیت کے لئے دعا کریں کہ اللہ تبارک تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کو معاف فرما کر جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔آمین۔ آخر میں اس نایاب شخصیت کی محبت میں ایک شعر لکھنا چاہتا ہوں :
میں اک بلند حوصلے والا ضدی سا شخص
جب تیری یاد سے لڑتا ہوں تو رو پڑتا ہوں
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مولانا کوثر نیازی یہ مجلس اقبال جام صادق علی علامہ اقبال یوم اقبال اقبال کی انہوں نے اقبال کے اور پھر
پڑھیں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاحاتِ حج
گفٹ یونیورسٹی کی انتظامیہ اور اسلامک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کا شکرگزار ہوں کہ ’’حجِ بیت اللہ‘‘ کے حوالہ سے منعقدہ اس سیمینار میں اربابِ علم و دانش، اساتذہ، طلبہ اور طالبات کے سامنے اس اہم ترین دینی فریضہ کے بارے میں کچھ گذارشات پیش کرنے کا موقع فراہم کیا، اللہ پاک جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
’’حجِ بیت اللہ‘‘ اسلام کی بنیادی عبادات و فرائض کا حصہ ہے اور دنیا بھر سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں مسلمان ذی الحجہ کے دوران حرمین شریفین میں حاضری دے کر حج ادا کرتے ہیں، عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مقدس پر حاضری سے مشرف ہوتے ہیں۔ حج کی ادائیگی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں بیت اللہ شریف کی تعمیر کے بعد سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی حج اور عمرہ دونوں ادا کیے جاتے تھے اور مختلف اطراف و اکناف سے لوگ حاضر ہو کر یہ سعادت حاصل کرتے تھے مگر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے نظام میں بہت سی اصلاحات فرمائی ہیں جس کے بعد دورِ جاہلیت کے حج و عمرہ اور اسلامی ماحول کے حج و عمرہ میں بہت سے فرق نمایاں دکھائی دیتے ہیں اور آج انہی میں سے چند نمایاں ترین تبدیلیوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے مناسک اور نظام میں ایک بڑی تبدیلی تو یہ کی کہ حج کے سفر میں عمرہ کی اجازت دے دی جو اس سے قبل نہیں ہوتی تھی۔ حج کے لیے مکہ مکرمہ آنے والے صرف حج کرتے تھے، عمرہ نہیں کر سکتے تھے، عمرہ کے لیے انہیں الگ موسم میں مستقل سفر کرنا پڑتا تھا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ’’حجۃ الوداع‘‘ کے لیے تشریف لائے تو اعلان فرمایا کہ جو لوگ ہدی کا جانور ساتھ نہیں لائے وہ عمرہ ادا کر کے احرام کھول دیں اور حج کے موقع پر اس کے لیے الگ احرام باندھیں۔ یہ سن کر لوگوں کو تعجب ہوا کہ پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا حتیٰ کہ بعض حضرات نے پوچھ لیا کہ یا رسول اللہ! یہ سہولت صرف اس سال کے لیے ہے یا آئندہ کے لیے بھی ہو گی؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ہمیشہ کے لیے عمرہ کو حج کے ساتھ شامل کر دیا ہے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اور صحابہ کرامؓ نے بھی حج کے ساتھ عمرہ کیا جو اب تک مسلسل جاری ہے بلکہ اکیلے حج سے عمرہ کے ساتھ ادا کیا جانے والا حج ثواب اور فضیلت میں زیادہ شمار ہوتا ہے۔
جاہلیت کے زمانے میں لوگ حج کے ایام میں خرید و فروخت نہیں کرتے تھے اور اسے دنیاداری سمجھ کر دینی عبادت سے الگ رکھا کرتے تھے۔ قرآن کریم نے اس کی نفی فرما دی اور کہا ’’لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم‘‘ کوئی حرج کی بات نہیں حج کے ایام میں تجارت کر سکتے ہو بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کا فضل قرار دیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دین اور دنیا کو الگ الگ سمجھنے کا جو ماحول قائم ہو گیا تھا وہ درست نہیں ہے بلکہ دین اور دنیا اکٹھے ہیں اور دونوں انسان کی ضروریات میں سے ہیں البتہ ان میں توازن ضروری ہے۔ اسی طرح حج کے حوالے سے ہی یہ دعا سکھائی کہ ’’ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ‘‘ اے اللہ ہمیں دنیا اور دین دونوں کی اچھائیاں نصیب فرما۔
جاہلیت کے دور میں حج کے دوران بیت اللہ کا طواف تو سارے کرتے تھے مگر صفا اور مروہ کی سعی صرف قریش اور ان کے دوست قبائل کیا کرتے تھے۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ قریشی لوگ اپنی دادی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی یاد میں ایسا کرتے ہیں، اس لیے دوسرے لوگ اس میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ مگر قرآن کریم نے اسے تبدیل کر دیا اور فرمایا کہ صفا اور مروہ کی سعی صرف حضرت ہاجرہؓ کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ خود بھی ’’شعائر اللہ‘‘ میں سے ہیں، اس لیے حج اور عمرہ دونوں میں بیت اللہ کے طواف کے ساتھ صفا و مروہ کی سعی بھی مناسک میں شامل ہے۔
جاہلیت کے دور میں ایک بات یہ بھی تھی کہ ’’عرفات‘‘ کا وقوف حج کے لیے آنے والے باقی سارے لوگ کرتے تھے مگر قریشی اس کے لیے عرفات نہیں جاتے تھے اور حرم کی حدود میں ہی رہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ’’نحن حمس‘‘ جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ہم وی آئی پی ہیں اس لیے ہمارا عرفات جانا ضروری نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اس رسم کو یہ کہہ کر توڑا کہ ’’ثم افیضوا من حیث افاض الناس‘‘ تم بھی حج کے لیے وہیں جاؤ جہاں باقی لوگ جاتے ہیں۔ اس لیے کہ حج بیت اللہ بلکہ کسی بھی عبادت میں کوئی ’’پروٹوکول‘‘ نہیں ہے اور خدا کی بندگی میں سب برابر ہیں۔
ایک اور جاہلی رسم کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا کہ بہت سے مرد اور عورتیں بیت اللہ کا طواف بے لباس ہو کر عریانی میں کرتے تھے اور اسے نیچر اور فطرت قرار دیتے تھے کہ ہم دنیا میں ننگے آئے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ کے دربار میں نیچرل حالت میں یعنی ننگے حاضر ہوتے ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرما دی اور اعلان کر دیا کہ کوئی مرد یا عورت بیت اللہ کے طواف کے لیے ننگے نہیں آئیں گے، مرد کے لیے احرام کی صورت میں مخصوص لباس ضروری قرار دیا اور عورت سے کہا کہ وہ معمول کے لباس میں حج کے مناسک ادا کرے گی۔
قرآن کریم نے حج کے نظام میں سب سے بڑی تبدیلی یہ کی کہ حج، عمرہ اور حرمِ مکہ کی حاضری کو صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کر دیا۔ اور حرمِ مکہ کی تولیت سے مشرکین کو الگ کر کے ان کے لیے حرم میں آنے کو ممنوع قرار دے دیا، حالانکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہونے کی وجہ سے ابراہیمی کہلاتے تھے، مگر حج اور عمرہ کو صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص قرار دے کر کسی بھی غیر مسلم کی اس میں شرکت کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔
اس کے علاوہ بھی حج کے طریق کار اور مناسب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیلیاں فرمائیں اور آج تک اسی طریق کار کے مطابق حج اور عمرہ کی ادائیگی کا سلسلہ جاری ہے۔ اللہ پاک جانے والوں کا حج اور عمرے قبول فرمائیں اور ہر مسلمان کو اس کی توفیق اور قبولیت سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔