Daily Ausaf:
2025-06-19@10:32:40 GMT

اللہ، کچھ لوگ دل سے کیوں نہیں اترتے

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

بعض لوگوں کی طرف سے اتنا پیار، محبت اور شفقت ملتی ہے کہ جس کو انسان بھولنا بھی چاہے تو نہیں بھلا سکتا۔پھر کچھ لوگ کسی ایسے مشکل وقت میں کام آتے ہیں کہ وہ دل میں محبت کا گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں ۔مولانا کوثر نیازی سابق وزیر اطلاعات و نشریات و چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے میرے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات تھے۔میرے وہ انتہائی شفیق، مہربان اور بھائی نما دوست تھے ان کو کسی صورت دل سے نہیں نکالا جا سکتا۔وہ مردم شناس ، موقع شناس اور انتہائی وفاداردوست تھے جہاں کہیں بھی موقع ملتا اپنے دوستوں کو جگہ بنا کر دیتے۔ایک اخبار کے سابق چیف ایڈیٹر سے مجھے انہوں نے ہی متعارف کروایا تھا۔1985ء سے لے کر ان کی وفات 2015ء تک 30سال تک ان کے ساتھ میرے سگے بھائیوں جیسے تعلقات رہے وہ مجھ پر بہت زیادہ اعتبار کرتے تھے۔میرے بہت سارے منافق دوستوں کی منافقت اورمخالفت کے باوجود اُن کا مرتے دم تک اسی طرح مجھ سے محبت کا رشتہ قائم رہاجس طرح مولانا کوثر نیازی تعارف کرا کے گئے تھے۔صوبہ سندھ کی دو بڑی شخصیات جام صادق علی اور مخدوم طالب المولیٰ کے ساتھ ساتھ سید فخر امام اور بی بی سیدہ عابد حسین سے بھی انتہائی قریبی رشتہ قائم کر گئے۔کالم میں زیادہ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت تفصیلاً لکھنے سے قاصر ہوں اور سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کس کس کا نام لکھوں ۔ نوابزادہ نصر اللہ ، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ میر اٖفضل خان حتیٰ کہ مشہور اور نامور شخصیات سے ملوانا اور پھر ا ن کو یہ بتانا کہ ملک فداالرحمن میرے چھوٹے بھائی ہیں ۔یہ جب بھی آپ کے پاس آئیں تو آپ یہی سمجھنا کہ مولانا کوثر نیازی خود آئے ہیں اور پھر یقین جانیئے انہوں نے عزت بھی وہی دی کہ جیسے کوثر نیازی خود تشریف لائے ہیں۔ ایمبیسیوں میں سفیروں کو ملنے جاتے تو تب بھی مجھے ساتھ لے کر جاتے بلکہ ایک دفعہ اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میں یوم ِ اقبال کی تقریب تھی جو میری ادبی و ثقافتی تنظیم ’’آئینہ‘‘ کے زیر اہتمام ہو رہی تھی۔
تقریب کی صدارت وفاقی وزیر تعلیم سید فخر امام فرما رہے تھے اور مہمان خصوصی جام صادق علی ،وزیراعلیٰ سندھ تھے۔ان کے مرکزیہ مجلس اقبال کے ممبر فرزندِ اقبال جسٹس جاوید اقبال اور مجید نظامی بھی موجودتھے۔سب لوگ اپنی اپنی جگہ بہت اعلیٰ تقریر کر رہے تھے ۔اس تقریب میں نظامت کے فرائض میرے ذمے تھے ۔میں نے تقریب کے صدر اور مہمان خصوصی کے خطاب سے پہلے مولانا کوثر نیازی کو خطاب کی دعوت دی۔مولانا صاحب نے تقریب کے ہر مہمان کے متعلق کچھ نہ کچھ تعریفی الفاظ کہے لیکن جب جام صادق علی ،وزیر اعلیٰ سندھ کی باری آئی تو مولانا صاحب نے ان کو مخاطب کر کے کہا کہ جام صاحب ایسا لگتا ہے کہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ والے علامہ اقبال کو وہ رتبہ نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں ۔خصوصاً سندھ کا تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے علامہ اقبالؒ سے بغض رکھتے ہوں ۔ کراچی شہر میں بہت بڑی ادبی و ثقافتی تقاریب ہوتی رہی ہیں لیکن علامہ اقبال پر کبھی کوئی تقریب نہیں کرائی گئی۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اقبالؒ قومی شاعر نہیں خصوصاً سندھ کے تو بالکل ہی نہیں بلکہ صرف لاہور کے شاعر ہیں اور ان کا یوم صرف لاہور میں منایا جاتا ہے۔ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ ہر سال کراچی میں بھی یوم اقبال پر بہت شاندار اور پروقار تقریبات ہونی چاہئیں ۔مولانا کوثر نیازی کے بعد وزیراعلیٰ سندھ جام صادق علی کو تقریر کی دعوت دی گئی تو انہوں نے خوبصورت تقریب کا اہتمام کرنے پر ’’آئینہ‘‘ تنظیم کی تعریف کے بعد علامہ اقبال کے متعلق خوبصورت الفاظ میں خراجِ عقیدت کا اظہارکیا اور پھر تنظیم کے سربراہ راقم اور مولانا کوثر نیازی سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میرے اس عہدے پرآنے سے پہلے جو کچھ ہوتا رہا اس کا میں ذمہ دار نہیں ہوں۔پھر بھی میں معافی چاہتا ہوں۔ آج میں اس تقریب میں حاضر ہوا ہوں تو میں سندھ گورنمنٹ کی طرف سے پچاس لاکھ روپے کا عطیہ مرکزیہ مجلس اقبال کوپیش کرتا ہوں ۔ یاد رہے کہ 1991ء میں پچاس لاکھ روپے بہت بڑی رقم تھی اور یہ پچاس لاکھ روپے مرکز یہ مجلس اقبال کے اکاؤنٹ میں ایک ہفتے کے اندر اندر پہنچ جائیں گے۔جس پر مولانا کوثر نیازی نے کہا کہ جام صاحب پچاس لاکھ روپے مرکزیہ مجلس اقبال کا سالانہ بجٹ بھی نہیں ہے۔لیکن انہوں نے کہا میں نے اعلان کر دیا ہے تو پچاس لاکھ ہی اقبال کے فنڈ میں دوں گا اور جب تک زندہ ہوںکراچی میں ہرسال یوم اقبال کے موقع پر کراچی میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔
بدقسمتی سے زندگی نے جام صادق علی سے وفا نہ کی اور وہ جلدی دنیا سے رخصت ہو گئے۔مولانا کوثر نیازی کی وفات کے بعد کچھ سال میں نے اپنے طور پر علامہ اقبال ؒکے یوم پر تقاریب کا اہتمام کیا لیکن چونکہ حکومت کی طرف سے ایک آنے کا بجٹ نہیں ملتا تھا تو پھر اپنی مددآپ کے تحت ان تقریبات کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ آج بھی یومِ اقبال کی عزت و احترام کا صرف ایک چھٹی کی وجہ سے پتہ چلتا ہے کہ آج یوم اقبال کی وجہ سے چھٹی ہے۔حکومت ِ وقت کو چاہیئے کہ وہ یوم قائداعظم اور یوم اقبال کے لئے خصوصی فنڈ مقرر کرے۔یوم اقبال پر مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام اور تمام بڑے تعلیمی اداروں میں اقبالؒ کے فلسفے اور حالات زندگی پر بچوں سے تقاریرکروائی جائیں تاکہ نئی نسل بھی اقبال کی شاعری ، فلسفے اور ان کی دور اندیش سوچ سے آگاہ ہوتی رہے۔ پورے پاکستان میں چھٹی دینے کی بجائے اس طرف بھی توجہ دی جائے۔بات ہو رہی تھی مولانا کوثر نیازی کے متعلق جو بیک وقت بہت اچھے شاعر، ادیب،خطیب، دانشور، مصنف، صحافی ، مذہبی سکالراور دور اندیش اور زیرک انسان تھے ۔ وہ اور نوابزادہ نصراللہ خان جیسے لوگ آج بھی زندہ ہوتے تو نہ پاکستان میں ایسے حالات ہونے تھے نہ کم ظرف اور کم عقل اپوزیشن ہونی تھی ، نہ ایسے ناتجربہ کار سیاستدانوں کی کوئی وقعت ہوتی اور نہ ہی اپوزیشن نمائندے اسمبلیوں میں اوچھے، شوشے اور کم عقلی کی بھات بھات کی بولیاں بول رہے ہوتے ۔آج کل تو بعض سیاستدانوں کے شوشے اور چٹکلے سن سن کر دل کڑھتا اور جلتا ہے اور پھر انسان سوچتا ہے کہ خدا جانے ہم سے کیا غلطی ہو گئی ہے کہ ہمیں کیسے کیسے سیاستدان ملے ہیں ۔ مولانا کوثر نیازی 19مارچ 1994ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے اس لحاظ سے آج ان کی اکتیسویںبرسی ہے۔میں آخر میں مولا نا کوثر نیازی کے لئے خصوصی دعا کے ساتھ اپنے تمام قارئین سے بھی درخواست کروں گا کہ آؤ، آج ہم سب مل کر مولانا کوثر نیازی جیسی ہر دل عزیز شخصیت کے لئے دعا کریں کہ اللہ تبارک تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کو معاف فرما کر جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔آمین۔ آخر میں اس نایاب شخصیت کی محبت میں ایک شعر لکھنا چاہتا ہوں :
میں اک بلند حوصلے والا ضدی سا شخص
جب تیری یاد سے لڑتا ہوں تو رو پڑتا ہوں

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مولانا کوثر نیازی یہ مجلس اقبال جام صادق علی علامہ اقبال یوم اقبال اقبال کی انہوں نے اقبال کے اور پھر

پڑھیں:

کراچی: جھاڑیوں سے ایک شخص کی لاش برآمد

کراچی کے علاقے گلشن اقبال بلاک 13 سی ہوم لینڈ اپارٹمنٹ کے قریب جھاڑیوں سے ایک شخص کی لاش ملی جو پراسرار طور پر ہلاک ہوگیا جبکہ متوفی کے چہرے پر خون بھی لگا ہوا پایا گیا۔

اطلاع ملنے پر پولیس نے موقع پر پہنچ کر لاش اپنے قبضے میں لیکر ایدھی کے رضا کاروں کی مدد سے ضابطے کی کارروائی کے لیے جناح اسپتال منتقل کر دی۔

اس حوالے سے گلشن اقبال پولیس کا کہنا ہے کہ متوفی کی فوری طور پر شناخت نہیں ہو سکی جبکہ اس کی عمر 40 سے 45 سال کے قریب بتائی جاتی ہے جبکہ ابتدائی طور پر لاش 24 گھنٹے پرانی معلوم ہوتی ہے۔

 متوفی کے جسم پر بظاہر کوئی تشدد یا چوٹ کے نشانات نہیں پائے گئے ہیں۔تاہم، لاش کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا ہے جس کی رپورٹ آنے کے بعد ہی وجہ موت کا حتمی تعین کیا جا سکے گا جبکہ پولیس متوفی کی شناخت کے حوالے سے کوششیں کر رہی ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • مولانا فضل الرحمان کے فرزند پر حملے کا انکشاف
  • بھائیوں کی طرح مل جل کر رہیں، شیعہ اور سنی کے اختلافات کی باتوں سے کیوں دشمن کو فائدہ پہنچاتے ہیں، آیت اللہ خامنہ ای
  • مولانا فضل الرحمان کے چھوٹے فرزند اسجد محمود پر حملے کا انکشاف
  • ’پیٹرول کے پیسے نہیں تھے کیا؟‘، فلم لو گرو کے سین پر لوگوں نے یہ تبصرے کیوں کیے؟
  • زباں فہمی252؛تحفظات ....مگر کیوں؟
  • کلامِ اقبال: ماضی، حال اور مستقبل
  • بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ ضروری کیوں؟
  • کراچی: جھاڑیوں سے ایک شخص کی لاش برآمد
  • عمران خان نے اپنی احتجاجی تحریک ملتوی کر دی
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران اسرائیل کشیدگی سے خود کو دور کیوں رکھ رہے ہیں؟