چین نے امریکہ سے مائع قدرتی گیس کی خریداری روک دی
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق اعداد و شمار کے مطابق چین کو گزشتہ 40 دنوں میں امریکہ سے قدرتی گیس کی کوئی کھیپ موصول نہیں ہوئی اور اس وقت ملک میں مائع قدرتی گیس لے جانے والا کوئی بحری جہاز موجود نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ کے درمیان چین نے امریکہ سے مائع قدرتی گیس کی درآمدات روک دی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بھاری محصولات کے نفاذ نے چینی تاجروں کو امریکی گیس کے طویل مدتی معاہدوں میں مزید دلچسپی نہیں رہی اور اس کے بجائے وہ مشرق وسطیٰ اور ایشیا پیسیفک گیس پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدے کی تلاش میں ہیں۔ بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق اعداد و شمار کے مطابق چین کو گزشتہ 40 دنوں میں امریکہ سے قدرتی گیس کی کوئی کھیپ موصول نہیں ہوئی اور اس وقت ملک میں مائع قدرتی گیس لے جانے والا کوئی بحری جہاز موجود نہیں ہے۔ چین کی طرف سے امریکہ سے گیس کی درآمدات کو روکنا ڈونلڈ ٹرمپ کی صدر بننے کے بعد سے ٹیرف پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے چین سے تمام درآمدات پر 10 فیصد اضافی ٹیرف لگا دیا، اور چین نے مائع قدرتی گیس کی امریکی درآمدات پر 15 فیصد ٹیرف لگا کر جواب دیا۔ اس طرح چین میں مائع قدرتی گیس کے خریدار جن کا امریکی پروڈیوسرز کے ساتھ طویل مدتی سپلائی کا معاہدہ ہے، وہ اپنا کارگو یورپ کو فروخت کر رہے ہیں، اس کے علاوہ چینی تاجر امریکی گیس کے طویل مدتی معاہدوں میں دلچسپی نہیں رکھتے اور مشرق وسطیٰ اور ایشیا پیسیفک گیس پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرنا چاہتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چائنا ریسورس گیس انٹرنیشنل اور ووڈ سائیڈ انرجی کے درمیان 15 سالہ نئے معاہدے پر بات چیت جاری ہے، یہ چینی کمپنی اور آسٹریلیا کی کمپنی کے درمیان کئی سالوں میں پہلا طویل مدتی معاہدہ ہو گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مائع قدرتی گیس قدرتی گیس کی امریکہ سے کے درمیان طویل مدتی کے مطابق
پڑھیں:
امریکہ نئے دلدل میں
اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ یمن پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کے آغاز میں مبالغہ آمیز دعوے کرنیوالے ڈونلڈ ٹرمپ کو اب یمن پر حملے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک عالمی سپر پاور کا یمن کے مجاہدین نے جس طرح مقابلہ کیا ہے، اس نے خطے سمیت عالمی سطح پر امریکی جنگی رعب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی صدارت کے پہلے سو دنوں میں ہونیوالی دیگر ناکامیوں کی فہرست میں یمن کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ تحریر: سید رضا میر طاہر
یمن کے خلاف امریکی فوجی آپریشن کے آغاز کے چند ہفتوں کے بعد امریکی میڈیا نے ٹرمپ انتظامیہ کی اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے آپریشن کے سنگین مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ 22 اپریل کو امریکی میگزین فارن پالیسی نے "حوثیوں کے خلاف ٹرمپ کی جنگ بے نتیجہ" کے عنوان سے ایک مضمون میں یمن میں انصار اللہ فورسز کے ٹھکانوں پر امریکی بحریہ کے غیر موثر حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے حوثیوں پر حملوں میں اضافے کے پانچ ہفتے بعد، ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے کئی بڑی مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یمن کے خلاف بیان بازی کے حقیقی نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ امریکی حملے اب تک اپنے دو بیان کردہ اہداف میں سے کسی ایک کو بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، یعنی بحیرہ احمر میں جہاز رانی کی آزادی کو بحال کرنا اور ڈیٹرنس کو دوبارہ قائم کرنا۔
امریکی حملوں کے باوجود بحیرہ احمر اور سویز کینال کے راستے جہاز رانی کم ہے، جس پر اب تک امریکہ کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے۔ یمنی ملیشیا نے بھی خطے میں اسرائیل اور امریکی جنگی جہازوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں اور ٹرمپ کے یمن کے "دلدل" میں داخل ہونے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل اور نیشنل ڈیفنس کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے 20 اپریل کو کہا ہے کہ یمن پر امریکی حملہ پہلے دن سے ہی ناکام ہوگیا ہے۔ امریکہ کو اس کے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والے اقدامات کی سزا دی جائے گی۔ ٹرمپ ہمیں اس دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں امریکہ کو اس دلدل میں رہنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیئے۔ امریکی عوام کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ٹرمپ نے امریکہ کو ناکامی سے دوچار کر دیا ہے۔
اس آپریشن پر اب تک امریکہ کو 1 بلین ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئی ہے جبکہ دوسری طرف مزاحمت جاری ہے اور یمنیوں نے اسرائیل اور امریکی جنگی جہازوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع ان حملوں کے بارے میں شفاف نہیں رہا ہے اور اس نے میڈیا کو بہت کم معلومات فراہم کی ہیں۔ یمن پر امریکی حملوں سے متعلق خفیہ معلومات کے افشا ہونے سے ملک کی عسکری قوتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ امریکہ کے ممتاز امریکی ذرائع ابلاغ نے بھی یمن کی فوج اور ہتھیاروں کی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے بارے میں امریکی محکمہ دفاع کے دعووں پر سوال اٹھایا ہے۔ اس حوالے سے CNN نے پینٹاگون کے ایک اہلکار کے حوالے سے خبر دی ہے کہ تحریک انصار اللہ کے پاس باقی ماندہ ہتھیاروں کی صحیح مقدار کا تعین کرنا مشکل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ انصار اللہ کے کچھ ٹھکانے تباہ ہوگئے ہیں، لیکن اس سے بحیرہ احمر میں حملے جاری رکھنے کی ان کی صلاحیت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ سی این این نے مذکورہ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ انصار اللہ اب بھی زیر زمین قلعہ بندی اور ہتھیاروں کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔ بہرحال ایسا لگتا ہے کہ یمن پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کے آغاز میں مبالغہ آمیز دعوے کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو اب یمن پر حملے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک عالمی سپر پاور کا یمن کے مجاہدین نے جس طرح مقابلہ کیا ہے، اس نے خطے سمیت عالمی سطح پر امریکی جنگی رعب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی صدارت کے پہلے سو دنوں میں ہونے والی دیگر ناکامیوں کی فہرست میں یمن کو بھی شامل کرنا ہوگا۔