اے آئی کا قدرتی دماغ کی طرح کا کرنا ممکن بنالیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, November 2025 GMT
برطانیہ میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ انسانی دماغ کے انداز میں کام کرنے والا ایک سادہ سا عمل مصنوعی ذہانت کے نظاموں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور توانائی کے استعمال کو نمایاں حد تک کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اصلی اور اے آئی جنریٹڈ ویڈیوز میں فرق کس طرح کیا جائے، جانیے اہم طریقے
یہ تحقیق یونیورسٹی آف سرے کے سائنسدانوں نے کی ہے جس میں انہوں نے انسانی دماغ کے حیاتیاتی اعصابی نظام سے براہ راست متاثر ہو کر ایک نیا طریقہ کار تیار کیا ہے۔
نئی ٹیکنالوجی: ’ٹیپوگریفیکل اسپارس میپنگ‘سائنسی جریدے نیورو کمپیوٹنگ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق سائنسدانوں نے ایک ماڈل بنایا ہے جسے ’ٹیپوگریفیکل اسپارس میپنگ‘ (ٹی ایس ایم) کہا جاتا ہے۔
یہ نظام انسانی دماغ کی طرح ہر نیورون کو دوسرے نیورون سے منسلک کرنے کی بجائے ہر ’نیورون‘ کو صرف قریبی یا متعلقہ نیورونز سے جوڑتا ہے جیسا کہ روایتی ڈیپ لرننگ ماڈلز کرتے ہیں۔
مزید پڑھیے: کینوا نے جدید اے آئی فیچرز سے لیس اپنا ڈیزائن ماڈل متعارف کرادیا
اس طرح ٹی ایس ایم توانائی کے ضیاع کو کم کرتا ہے اور کارکردگی کو بہتر بناتا ہے جبکہ درستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔
تحقیق کے شریک مصنف اور یونیورسٹی آف سرّی کے کمپیوٹیشنل بایولوجی کے ماہر ڈاکٹر رومن باؤر نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ذہین نظاموں کو کہیں زیادہ مؤثر طریقے سے بنایا جا سکتا ہے اور کم توانائی خرچ کرتے ہوئے بھی اعلیٰ کارکردگی برقرار رکھی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کے بڑے اے آئی ماڈلز کی تربیت میں ایک ملین کلو واٹ گھنٹے سے زیادہ بجلی صرف ہو سکتی ہے جو موجودہ رفتار کے لحاظ سے پائیدار نہیں
دماغ سے متاثر انہانسڈ ٹی ایس ایم ایک قدم آگےتحقیقی ٹیم نے اس تصور کو مزید ترقی دیتے ہوئے انہانسڈ ٹی ایس ایم متعارف کرایا جس میں ایک حیاتیاتی تراش خراش کا عمل شامل کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: چینی ساختہ آرٹیفیشل انٹلیجنس ڈیپ سِیک کی ایپ پر جرمنی میں پابندی کا خدشہ
یہ وہی عمل ہے جو انسانی دماغ میں سیکھنے کے دوران ہوتا ہے جب غیر ضروری اعصابی روابط آہستہ آہستہ ختم ہو جاتے ہیں۔
نتائج کے مطابق ای ٹی ایس ایم ماڈل نے 99 فیصد تک غیر ضروری کنکشن ختم کر دیے یعنی تقریباً تمام اضافی روابط ہٹا دیے گئے پھر بھی اس کی درستگی روایتی نیورل نیٹ ورکس کے برابر رہی۔
حیران کن نتائجنئے ماڈل کے فوائد میں تربیت کا تیز تر عمل، کم میموری کا استعمال اور توانائی کی کھپت میں 99 فیصد تک کمی شامل ہیں۔
یہ نظام نہ صرف زیادہ مؤثر ہے بلکہ ماحول دوست بھی ہے کیونکہ یہ دوسرے طریقوں کے مقابلے میں ایک فیصد سے بھی کم توانائی استعمال کرتا ہے۔
مستقبل کی سمت: دماغ جیسے کمپیوٹرزتحقیقی ٹیم اب یہ جانچنے میں مصروف ہے کہ اس طریقے کو نیو مورفک کمپیوٹنگ میں کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے یعنی ایسے کمپیوٹرز جو انسانی دماغ کی ساخت اور کام کرنے کے طریقے کی نقل کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ ماڈل کامیابی سے بڑے پیمانے پر اپنایا گیا تو یہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں توانائی کے بحران اور پائیداری کے حوالے سے ایک انقلاب ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ’اب ہم جیسوں کا کیا بنے گا‘، معروف یوٹیوبر مسٹر بیسٹ اے آئی سے خوفزدہ
انسانی دماغ سے متاثر نئی اے آئی ٹیکنالوجی نہ صرف کارکردگی بڑھا سکتی ہے بلکہ توانائی کے استعمال میں بھی نمایاں کمی لا سکتی ہے۔
یہ تحقیق اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مصنوعی ذہانت کا مستقبل قدرتی ذہانت کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انہانسڈ ٹی ایس ایم اے آئی ٹی ایس ایم قدرتی دماغ اور اے آئی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انہانسڈ ٹی ایس ایم اے ا ئی ٹی ایس ایم قدرتی دماغ اور اے ا ئی توانائی کے ٹی ایس ایم سکتا ہے سکتی ہے اے ا ئی
پڑھیں:
چمپینزی بھی انسانوں جیسی سوچ رکھنے لگے: تحقیق میں انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایک نئی تحقیق میں حیرت انگیز انکشاف سامنے آیا ہے کہ چمپینزی کسی معاملے میں انتخاب کرتے وقت شواہد کے معیار کو جانچ کر انسانوں کی طرح معقول اور تنقیدی انداز میں فیصلے کرتے ہیں۔
تحقیق کے نتائج معروف سائنسی جریدے “سائنس” میں شائع ہوئے، جن کے مطابق چمپینزی نہ صرف ابتدائی شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں بلکہ نئے شواہد ملنے پر اپنی رائے بدلنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں — یہ صلاحیت ماضی میں صرف انسانوں سے منسوب کی جاتی تھی۔
مطالعے کے دوران سائنس دانوں نے چمپینزیوں کو دو ڈبے دیے، جن میں سے ایک میں کھانا رکھا گیا تھا۔ جانوروں کو کسی ایک ڈبے میں انعام ہونے کا اشارہ دیا گیا، مثلاً ڈبہ ہلا کر آواز پیدا کرنا یا اس کے اندر موجود کھانا دکھانا۔
ابتدائی اشارے کی بنیاد پر چمپینزیوں نے فیصلہ کیا کہ انعام کہاں ہے، تاہم جب انہیں مزید مضبوط یا واضح اشارہ دیا گیا تو انہوں نے اپنا انتخاب بدل لیا۔ محققین کے مطابق یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ چمپینزی شواہد کی طاقت کو پرکھنے اور فیصلے پر نظرِ ثانی کرنے کی ذہنی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مزید یہ کہ جب سائنس دانوں نے یہ ظاہر کیا کہ ان اشاروں میں سے ایک غلط تھا — مثلاً ڈبے میں صرف کھانے کی تصویر رکھی گئی تھی — تو چمپینزیوں نے فوری طور پر سمجھ لیا کہ ان کا پہلا اندازہ درست نہیں تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ چمپینزی منطقی استدلال، شواہد کی جانچ اور فیصلہ سازی میں انسانوں سے کہیں زیادہ قریب ہیں، جس سے جانوروں کے ذہنی ارتقا کے بارے میں نئی بحث جنم لے سکتی ہے۔