Islam Times:
2025-04-25@02:30:38 GMT

غزہ جنگ کا تسلسل، اثرات اور منظرنامے

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

غزہ جنگ کا تسلسل، اثرات اور منظرنامے

اسلام ٹائمز: اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی مزاحمت اسرائیلی جارحیت پر خاموش تماشائی نہیں بنے گی اور جیسا کہ حماس کے رہنماوں نے واضح کیا ہے اس تنظیم نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ہر گز ان کے ناجائز مطالبات قبول نہیں کرے گی۔ مغربی ایشیا خطے پر ایک نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ پورا خطہ ایک انتہائی حساس دور سے گزر رہا ہے اور غزہ جنگ سے پہلے والی صورتحال کی جانب واپس لوٹ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امریکہ اور اسرائیل یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خطے میں اسلامی مزاحمت دم توڑ چکی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور اسلامی مزاحمتی فورسز پوری طاقت سے میدان میں حاضر ہیں۔ ٹرمپ اس نعرے کے ساتھ نیا امریکی صدر بنا تھا کہ وہ جنگ کی آگ بجھانے آیا ہے لیکن اب پوری دنیا پر واضح ہو گیا ہے کہ وہ وعدہ جھوٹا تھا اور اس نے نہ صرف غزہ بلکہ یمن میں بھی جنگ کی نئی آگ شعلہ ور کر دی ہے۔ تحریر: علی احمدی
 
ایک طرف قاہرہ میں غزہ میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات جاری ہیں جبکہ غاصب صیہونی رژیم نے اچانک ہی منگل کی صبح ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کی جانب سے سبز جھنڈی دکھانے پر غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کو ایک بار پھر وحشیانہ فضائی حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ یہ حملے درحقیقت جنگ بندی معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری کے مترادف ہیں جو ثالثی کرنے والے عرب حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کے خلاف جارحیت ایسے وقت دوبارہ شروع کر دی ہے جب جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں بھی اس نے معاہدے کی مکمل پابندی نہیں کی تھی اور اس دوران مختلف حملوں کے ذریعے 150 فلسطینیوں کو شہید کر دیا تھا۔ اسی طرح صیہونی حکمرانوں نے معاہدے میں درج ہونے کے باوجود انسانی امداد غزہ داخل نہیں ہونے دی۔
 
صیہونی حکمرانوں نے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کو شروع کرنے سے انکار کر دیا ہے اور غزہ کی تمام راہداریاں بھی مکمل طور پر بند کر دی ہیں۔ یاد رہے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ 17 جنوری 2025ء کے دن طے پایا تھا۔ یہ معاہدہ قطر کی نظارت میں انجام پایا تھا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے جنگ بندی کے تین مراحل مکمل ہونے کی گارنٹی دی تھی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں حماس نے فلسطینی قیدیوں کی آزادی کے بدلے چند یرغمالی آزاد کیے تھے اور پوری طرح اس معاہدے کی پابندی کی تھی۔ دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم نے انسانی پروٹوکولز کی خلاف ورزی کرنے کے ساتھ ساتھ کئی بار فلسطینی قیدیوں کی آزادی میں رکاوٹیں بھی ڈالی تھیں۔ جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ ختم ہونے کے دس دن بعد مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہو چکا تھا۔
 
امریکی صدر کے فلسطین کے لیے خصوصی ایلچی ایڈم بوائلر نے حماس کے وفد سے براہ راست بات چیت کی اور امریکی شہریت کے حامل ایک اسرائیلی یرغمالی آزادی اور چار یرغمالیوں کی لاشوں کا مطالبہ کیا تاکہ مذاکرات کا دوسرا دور شروع کیا جا سکے۔ حماس نے یہ مطالبہ قبول کر لیا لیکن صیہونی حکمرانوں نے دوسرا مرحلہ شروع کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد خطے کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکاف نے ایک نیا مطالبہ پیش کیا جو مکمل طور پر اسرائیل کے حق میں تھا۔ اس نے کہا کہ نصف اسرائیلی یرغمالی آزاد کیے جائیں اور مرنے والے نصف یرغمالیوں کی لاشیں بھی دے دی جائیں تاکہ غزہ میں عارضی جنگ بندی مزید 50 دن کے لیے آگے بڑھا دی جائے۔ دوسری طرف امریکی حکمران جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے فوجی انخلاء اور مستقل جنگ بندی کی یقین دہانی بھی نہیں کروا رہے تھے۔
 
واضح ہے کہ ایسی صورتحال میں اس امریکی مطالبے کو قبول کرنے کا مطلب حماس کی جانب سے غزہ کی پٹی امریکہ اور اسرائیل کے سپرد کر دینا تھا لہذا حماس کے مذاکراتی وفد نے اس پیشکش میں اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ حماس نے امریکہ سے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں غزہ سے اسرائیل کے مکمل فوجی انخلاء اور مستقل جنگ بندی قبول کرنے کی یقین دہانی مانگی۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ پر جارحیت دوبارہ شروع کیے جانے کے مختلف اہداف پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر غزہ کے خلاف جارحیت کا تسلسل صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کو اقتدار میں باقی رہنے کا اچھا موقع اور بہانہ میسر کرتا ہے۔ اسی طرح وہ اس جنگ کے بہانے اپنے خلاف کرپشن کے کیس میں عدالتی کاروائی بھی معطل کروا چکا ہے۔
 
مزید برآں، غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا دوبارہ آغاز گذشتہ چند دنوں میں اسرائیل میں رونما ہونے والے اندرونی حالات سے بھی مربوط ہے۔ ان میں سے اہم ترین سبب نیتن یاہو کی جانب سے شاباک کے سربراہ رونن بار اور اپنے قانونی مشیر کو برطرف کر دینا ہے جس کی وجہ سے اندرونی اختلافات عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ شاباک جیسے بڑی فوجی انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کی برطرفی نے اسرائیلی رائے عامہ کا فوجی اور انٹیلی جنس اداروں پر اعتماد ختم کر دیا ہے۔ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین کی سڑکیں بدستور نیتن یاہو کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا میدان بنی ہوئی ہیں۔ لہذا اکثر تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ نیتن یاہو نے اندرونی مسائل اور بحرانوں سے بھاگنے کے لیے اور طوفان الاقصی آپریشن میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے غزہ کے خلاف دوبارہ جنگ شروع کی ہے۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی مزاحمت اسرائیلی جارحیت پر خاموش تماشائی نہیں بنے گی اور جیسا کہ حماس کے رہنماوں نے واضح کیا ہے اس تنظیم نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ہر گز ان کے ناجائز مطالبات قبول نہیں کرے گی۔ مغربی ایشیا خطے پر ایک نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ پورا خطہ ایک انتہائی حساس دور سے گزر رہا ہے اور غزہ جنگ سے پہلے والی صورتحال کی جانب واپس لوٹ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امریکہ اور اسرائیل یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خطے میں اسلامی مزاحمت دم توڑ چکی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور اسلامی مزاحمتی فورسز پوری طاقت سے میدان میں حاضر ہیں۔ ٹرمپ اس نعرے کے ساتھ نیا امریکی صدر بنا تھا کہ وہ جنگ کی آگ بجھانے آیا ہے لیکن اب پوری دنیا پر واضح ہو گیا ہے کہ وہ وعدہ جھوٹا تھا اور اس نے نہ صرف غزہ بلکہ یمن میں بھی جنگ کی نئی آگ شعلہ ور کر دی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکہ اور اسرائیل غاصب صیہونی رژیم اسلامی مزاحمت جنگ بندی کے اسرائیل کے کی جانب سے نیتن یاہو جانے کا حماس کے ہے لیکن کے خلاف واضح ہو ہے اور کر دیا جنگ کی کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

''اسرائیل مردہ باد'' ملین مارچ

ریاض احمدچودھری

جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے اسرائیل کے خلاف اور غزہ کے لیے ”مجلس اتحاد امت” قائم کرتے ہوئے 27 اپریل کو مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان کیا ہے۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے مشترکہ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مینار پاکستان پر جلسہ ہوگا ، ملک بھر میں بیداری مہم چلائیں گے۔لاہور اسرائیل مردہ باد ملین مارچ اسرائیلی بربریت کے خلاف فلسطینی مسلمان بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔
محترم حافظ نعیم الرحمن ،امیر جماعت اسلامی پاکستان، نے اسلام آباد میں غزہ کے ساتھ یکجہتی کے لیے مارچ کے شرکا سے خطاب میں 26 اپریل کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ ان کے بقول یہ ہڑتال ایک پْرامن جہاد ہو گی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ پاکستان میں حماس کا دفتر کھولا جائے۔ غزہ یکجہتی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ فلسطین سے ہمارا تعلق ایمان اور عقیدے کا ہے۔ کچھ لوگ پاکستان سے اسرائیل گئے اور وہاں وعدے کر کے آئے ہیں، اسرائیل کے ساتھ بڑھنے سے سب کچھ برباد ہو جائے گا، فلسطین کا مقدمہ لڑنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ہم کسی سے ٹکراؤ نہیں چاہتے، نہ پولیس سے فساد چاہتے ہیں، مگر ہمارا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی نے آج ریڈ زون میں واقع امریکی سفارت خانے کے باہر احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ تاہم حکومت کی جانب سے ریڈ زون جانے والے تمام راستوں کو کنٹینرز لگا کر مکمل بند کرنے کے بعد پارٹی نے تاہم انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد انھوں نے ریڈ زون جانے کا فیصلہ واپس لیا اور ایکسپریس وے پر مظاہرے کا فیصلہ کیا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ‘ہم اپنے ملک کی عزت کرتے ہیں، مگر حکمرانوں کو جھنجھوڑنا چاہتے ہیں کہ فلسطین کے لیے، کشمیر کے لیے، ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔’ انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ غفلت کی نیند سو رہی ہے، جسے جگانے کے لیے بار بار اسلام آباد کا رخ کیا جاتا ہے۔یہ صرف سیاسی معاملہ نہیں، فلسطین سے ہمارا دینی، تاریخی، اور نظریاتی رشتہ ہے۔ جب پاکستان بنا، تو فلسطین کی آزادی کی تحریک بھی ساتھ ہی چل رہی تھی۔ قائداعظم نے اسرائیل کو مغرب اور استعمار کی ناجائز اولاد قرار دیا تھا، اور اعلان کردیا تھا کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔مسلم حکمرانوں نے بے حسی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ آج بھی نتن یاہو کہتا ہے کہ ہم جنگ نہیں روکیں گے۔ کیا یہ وقت نہیں کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں؟ مسلم حکمران اب بھی نہ جاگے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔اْنہوں نے امریکہ کو غیر معتبر قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کسی کا نہیں ہوتا، نہ دوستوں کا نہ دشمنوں کا۔ آج وہاں خود ان کی حکومت کے خلاف لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ ‘یورپ، پیرس، ایڈنبرا ہر جگہ اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔میں پوری امت باالخصوص پاکستانی قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ اسرائیلی اور اس کے پشت پناہوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ جاری رکھیں۔
الخدمت ویمن ٹرسٹ کی نائب امیر قدسیہ وحید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہر بندے نے اپنا حساب دینا ہے اور ہم سب نے اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ جیسے بائیکاٹ کر کے یا ملین مارچ کی صورت میں ہو۔ اللہ بس ہمارے فلسطین پر اپنا کرم کر دے۔’مغربی ممالک اکٹھے ہو کر فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ یہ ظلم اتنی انتہا پر ہے کہ جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ پوری دنیا کے مسلمان اور بالخصوص پاکستان کی عوام اپنی فلسطینی بہن بھایئوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔’اس سے قبل لاہور اور ملتان سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بھی جماعت اسلامی نے رواں ہفتے کے دوران فلسطینیوں سے یکجہتی کے لیے اجتماعات اور ریلیاں منعقد کی تھیں۔کراچی میں این ای ڈی یونیورسٹی میں طلبہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلی منعقد کی تھی جس میں ہزاروں طلبہ شریک ہوئے تھے۔ گزشتہ اتوارکو بھی جماعت اسلامی پاکستان نے کراچی میں ‘یکجہتی غزہ ملین مارچ’ منعقد کیا تھا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی تھی۔کراچی کی مرکزی شاہراہ فیصل پر مارچ میں شریک لوگوں کی بڑی تعداد سے خطاب میں کہا کہ وہ اس ہڑتال کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے دیگر ممالک کی تحریکوں اور ریاستوں سے بھی رابطہ کریں گے۔تاہم بعد میں تاجر تنظیموں سے رابطوں کے بعد یہ تاریخ تبدیل کر کے 26 اپریل کر دی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو خطوط لکھے جا چکے ہیں اور عالمی سطح پر دباؤ ڈالا جائے گا، جبکہ عوام کو امریکہ کے غلاموں کے خلاف اْٹھ کھڑے ہونے کی کال دی جائے گی تاکہ پاکستان کو ایک باوقار اور ترقی یافتہ ملک بنایا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت پاکستان کے شہروں پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کررہا ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • نیٹ ورک مسائل سے کاروبار کے تسلسل اور صارفین کے اعتماد کو خطرہ: کاسپرسکی
  • کلاسیکی تحریک کے اردو اد ب پر اثرات
  • لازم ہے کہ فلسطین آزاد ہو گا
  • افغان مہاجرین کے انخلا سے بلوچستان میں کاروباری سرگرمیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
  • ''اسرائیل مردہ باد'' ملین مارچ
  • وزیرخزانہ کا اصلاحات کا تسلسل برقراررکھنے کے عزم کا اعادہ
  • غزہ میں مستقل جنگ بندی کی راہ میں اسرائیل بڑی رکاوٹ ہے، قطر
  • قطری اور مصری ثالثوں کی جانب سے غزہ میں 7 سالہ جنگ بندی کا نیا فارمولا تجویز
  • اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے امریکی سفیر نے حماس سے کیا مطالبہ کیا ؟