Islam Times:
2025-11-05@01:25:04 GMT

غزہ جنگ کا تسلسل، اثرات اور منظرنامے

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

غزہ جنگ کا تسلسل، اثرات اور منظرنامے

اسلام ٹائمز: اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی مزاحمت اسرائیلی جارحیت پر خاموش تماشائی نہیں بنے گی اور جیسا کہ حماس کے رہنماوں نے واضح کیا ہے اس تنظیم نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ہر گز ان کے ناجائز مطالبات قبول نہیں کرے گی۔ مغربی ایشیا خطے پر ایک نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ پورا خطہ ایک انتہائی حساس دور سے گزر رہا ہے اور غزہ جنگ سے پہلے والی صورتحال کی جانب واپس لوٹ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امریکہ اور اسرائیل یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خطے میں اسلامی مزاحمت دم توڑ چکی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور اسلامی مزاحمتی فورسز پوری طاقت سے میدان میں حاضر ہیں۔ ٹرمپ اس نعرے کے ساتھ نیا امریکی صدر بنا تھا کہ وہ جنگ کی آگ بجھانے آیا ہے لیکن اب پوری دنیا پر واضح ہو گیا ہے کہ وہ وعدہ جھوٹا تھا اور اس نے نہ صرف غزہ بلکہ یمن میں بھی جنگ کی نئی آگ شعلہ ور کر دی ہے۔ تحریر: علی احمدی
 
ایک طرف قاہرہ میں غزہ میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات جاری ہیں جبکہ غاصب صیہونی رژیم نے اچانک ہی منگل کی صبح ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کی جانب سے سبز جھنڈی دکھانے پر غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کو ایک بار پھر وحشیانہ فضائی حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ یہ حملے درحقیقت جنگ بندی معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری کے مترادف ہیں جو ثالثی کرنے والے عرب حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کے خلاف جارحیت ایسے وقت دوبارہ شروع کر دی ہے جب جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں بھی اس نے معاہدے کی مکمل پابندی نہیں کی تھی اور اس دوران مختلف حملوں کے ذریعے 150 فلسطینیوں کو شہید کر دیا تھا۔ اسی طرح صیہونی حکمرانوں نے معاہدے میں درج ہونے کے باوجود انسانی امداد غزہ داخل نہیں ہونے دی۔
 
صیہونی حکمرانوں نے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کو شروع کرنے سے انکار کر دیا ہے اور غزہ کی تمام راہداریاں بھی مکمل طور پر بند کر دی ہیں۔ یاد رہے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ 17 جنوری 2025ء کے دن طے پایا تھا۔ یہ معاہدہ قطر کی نظارت میں انجام پایا تھا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے جنگ بندی کے تین مراحل مکمل ہونے کی گارنٹی دی تھی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں حماس نے فلسطینی قیدیوں کی آزادی کے بدلے چند یرغمالی آزاد کیے تھے اور پوری طرح اس معاہدے کی پابندی کی تھی۔ دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم نے انسانی پروٹوکولز کی خلاف ورزی کرنے کے ساتھ ساتھ کئی بار فلسطینی قیدیوں کی آزادی میں رکاوٹیں بھی ڈالی تھیں۔ جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ ختم ہونے کے دس دن بعد مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہو چکا تھا۔
 
امریکی صدر کے فلسطین کے لیے خصوصی ایلچی ایڈم بوائلر نے حماس کے وفد سے براہ راست بات چیت کی اور امریکی شہریت کے حامل ایک اسرائیلی یرغمالی آزادی اور چار یرغمالیوں کی لاشوں کا مطالبہ کیا تاکہ مذاکرات کا دوسرا دور شروع کیا جا سکے۔ حماس نے یہ مطالبہ قبول کر لیا لیکن صیہونی حکمرانوں نے دوسرا مرحلہ شروع کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد خطے کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکاف نے ایک نیا مطالبہ پیش کیا جو مکمل طور پر اسرائیل کے حق میں تھا۔ اس نے کہا کہ نصف اسرائیلی یرغمالی آزاد کیے جائیں اور مرنے والے نصف یرغمالیوں کی لاشیں بھی دے دی جائیں تاکہ غزہ میں عارضی جنگ بندی مزید 50 دن کے لیے آگے بڑھا دی جائے۔ دوسری طرف امریکی حکمران جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے فوجی انخلاء اور مستقل جنگ بندی کی یقین دہانی بھی نہیں کروا رہے تھے۔
 
واضح ہے کہ ایسی صورتحال میں اس امریکی مطالبے کو قبول کرنے کا مطلب حماس کی جانب سے غزہ کی پٹی امریکہ اور اسرائیل کے سپرد کر دینا تھا لہذا حماس کے مذاکراتی وفد نے اس پیشکش میں اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ حماس نے امریکہ سے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں غزہ سے اسرائیل کے مکمل فوجی انخلاء اور مستقل جنگ بندی قبول کرنے کی یقین دہانی مانگی۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ پر جارحیت دوبارہ شروع کیے جانے کے مختلف اہداف پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر غزہ کے خلاف جارحیت کا تسلسل صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کو اقتدار میں باقی رہنے کا اچھا موقع اور بہانہ میسر کرتا ہے۔ اسی طرح وہ اس جنگ کے بہانے اپنے خلاف کرپشن کے کیس میں عدالتی کاروائی بھی معطل کروا چکا ہے۔
 
مزید برآں، غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا دوبارہ آغاز گذشتہ چند دنوں میں اسرائیل میں رونما ہونے والے اندرونی حالات سے بھی مربوط ہے۔ ان میں سے اہم ترین سبب نیتن یاہو کی جانب سے شاباک کے سربراہ رونن بار اور اپنے قانونی مشیر کو برطرف کر دینا ہے جس کی وجہ سے اندرونی اختلافات عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ شاباک جیسے بڑی فوجی انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کی برطرفی نے اسرائیلی رائے عامہ کا فوجی اور انٹیلی جنس اداروں پر اعتماد ختم کر دیا ہے۔ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین کی سڑکیں بدستور نیتن یاہو کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا میدان بنی ہوئی ہیں۔ لہذا اکثر تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ نیتن یاہو نے اندرونی مسائل اور بحرانوں سے بھاگنے کے لیے اور طوفان الاقصی آپریشن میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے غزہ کے خلاف دوبارہ جنگ شروع کی ہے۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی مزاحمت اسرائیلی جارحیت پر خاموش تماشائی نہیں بنے گی اور جیسا کہ حماس کے رہنماوں نے واضح کیا ہے اس تنظیم نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ہر گز ان کے ناجائز مطالبات قبول نہیں کرے گی۔ مغربی ایشیا خطے پر ایک نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ پورا خطہ ایک انتہائی حساس دور سے گزر رہا ہے اور غزہ جنگ سے پہلے والی صورتحال کی جانب واپس لوٹ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امریکہ اور اسرائیل یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خطے میں اسلامی مزاحمت دم توڑ چکی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور اسلامی مزاحمتی فورسز پوری طاقت سے میدان میں حاضر ہیں۔ ٹرمپ اس نعرے کے ساتھ نیا امریکی صدر بنا تھا کہ وہ جنگ کی آگ بجھانے آیا ہے لیکن اب پوری دنیا پر واضح ہو گیا ہے کہ وہ وعدہ جھوٹا تھا اور اس نے نہ صرف غزہ بلکہ یمن میں بھی جنگ کی نئی آگ شعلہ ور کر دی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکہ اور اسرائیل غاصب صیہونی رژیم اسلامی مزاحمت جنگ بندی کے اسرائیل کے کی جانب سے نیتن یاہو جانے کا حماس کے ہے لیکن کے خلاف واضح ہو ہے اور کر دیا جنگ کی کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

پاک افغان جنگ بندی پر اتفاق؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251105-03-8
قاسم جمال
پاکستان اور افغانستان نے ترکیہ میں ہونے والے مذاکرات میں جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں مذاکرات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ افغانستان، پاکستان، ترکیہ، قطر کے نمائندوں نے 25 سے 30 اکتوبر 2025 تک استنبول میں جنگ بندی کے لیے اجلاس منعقد کیے جن کا مقصد اس جنگ بندی کو مضبوط بنانا تھا جو کہ 18 اور 19 اکتوبرکو دوحا میں ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان طے پائی تھی۔ اس اعلامیے کے مطابق فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق کیا ہے اور عمل درآمد کے مزید طریقہ کار پر غور و خوض اور فیصلہ استنبول میں 6 نومبر 2025 کو اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا جائے گا۔ اس طرح ایک مانیٹرنگ اور تصدیقی نظام قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے جو امن کے تسلسل کو یقینی بنائے گا اور معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے فریق پر سزا عائدکرے گا اور دونوں فریق بات چیت کے ذریعے تنازعات کے حل کی جانب بڑھ سکیں گے۔ ان مذاکرات میں پاکستان کا محور وہی بنیادی مطالبہ تھا کہ افغانستان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں گروہوں کے خلاف واضح، قابل تصدیق اور موثر کارروائی کرے۔ پاکستان نے ایک بار پھر زور دیا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔

بلاشبہ اس مذاکراتی عمل اور یہ اعلامیہ خطے میں امن، استحکام کے فروغ کی سمت ایک اہم پیش رفت ہے اور خطے میں امن کے لیے یہ بہترین کوشش ہے۔ اس اعلامیہ کا بنیادی نقطہ افغان سرزمین کو دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکنا ہے۔ ان مذاکرات کے دوران پاکستان نے قابل عمل اور ٹھوس شواہد رکھے جو افغان فریق اور میزبان ممالک نے تسلیم کیے۔ البتہ افغان وفد نے بنیادی نکتہ سے ہٹ کر بحث کو موڑنے کی کوشش کی۔ جس کی وجہ سے مذاکرات متوقع نتیجہ تک نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ پاکستان نے استنبول میں چار روزہ مذاکرات کے دوران افغانستان کے نمائندہ وفد پر اپنی امیدوں اور احتیاطی حکمت عملی دونوں کے ساتھ اپنی پالیسی واضح کی۔ حکومت پاکستان نے واضح کیا کہ ان مذاکرات کا مقصد افغان عوام کی بہبود اور دونوں ملکوں کی سلامتی ہے اور خطے میں دیرپا امن ہماری اولین ترجیحی ہے۔ جس کے لیے سفارتی راستے اختیار کیے گئے ہیں۔ پاکستان کا اصولی موقف ہے کہ بھارت کے کہنے پر افغانستان کی جانب سے دہشت گردی یا ٹی ٹی پی کی پشت پناہی ہوگی تو پھر پاکستان اپنی عوام کے تحفظ اور وطن عزیز کی سلامتی کے لیے تمام ممکنہ کارروائیاں کرنے کا پابند ہے۔ تاکہ دہشت گردوں، ان کے ٹھکانوں اور حامیوں کو ختم کیا جاسکے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ دوست ممالک کے کہنے اور ان کی مداخلت پر کابل کے روئیے میں تبدیلی آئی ہے۔ افغانستان اگر اس امر کی ضمانت دیتا ہے کہ مستقبل میں دہشت گردوں کی مزید پشت پناہی نہیں کرے گا تو یہ ایک اہم پیش رفت ہوگی۔ تمام شرائط کی بنیاد امن ہے اور اگر امن نہیں ہوگا تو آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ بھارت کی جانب سے دہشت گردوں کی پشت پناہی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اسی طرح سے افغان طالبان کی دھوکا دہی پر پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہم افغان طالبان کی دھوکا دہی مزید برداشت نہیں کریں گے۔ اگر وہ لڑنا چاہتے ہیں تو دنیا سب کچھ دیکھے گی۔ ہم طالبان کو دوبارہ غاروں میں دھکیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم نے برادر ملکوں کی درخواست پر افغانستان سے امن کے لیے مذاکرات کیے ہیں۔ لیکن افغان حکام کے زہریلے بیانات طالبان کی بدنیت سوچ کو ظاہر کرتے ہیں۔ افسوس طالبان حکومت نے افغانستان کو دوبارہ تباہی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ افغانستان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں پوری طاقت استعمال کرنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی اگر ہم چاہیں تو تورا بورا کی شکست کے مناظر ایک بار پھر دہرائیں گے۔

افغان طالبان صرف اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغان طالبان کی جنگی معیشت صرف تباہی اور خونریزی پر قائم ہے۔ افغان طالبان اپنی کمزوری اچھی طرح جانتے ہیں مگر وہ جنگی نعرے لگا رہے ہیں جس سے تباہی اور بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ طالبان سے افغانستان اور اس کے عوام کو مزید تباہ وبرباد کرنا چاہتی ہے۔ افغانستان ماضی میں سلطنتوں کے کھیل کا میدان رہا ہے اور افغان عوام کی تباہی کا مرکز افغان حکومت اگر ایسا پھر چاہتی ہے تو ایسا ہی ہوجائے۔ افغان طالبان کے جنگ پسند عناصر نے ہماری محبت کو غلط سمجھا ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اگر افغان طالبان جنگ چاہتے ہیں اور لڑنا چاہتے ہیں تو دنیا اب سب کچھ دیکھے گی ہماری دھمکیاں صرف تماشا نہیں بلکہ حقیقت ہے۔

خطے میں کشیدگی کم کرنے اور کسی بھی تنازع سے بچنے کی ضرورت ہے۔ فتنہ الخوارج کی قیادت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی اور دراندازی کی کوشش کررہی ہے۔ جو اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ افغان سرزمین دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ حکومت پاکستان نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکا جائے۔ پاکستان میں بھارتی سرپرستی میں سرگرم باقی خوارج کے خاتمے کے لیے کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ جبکہ سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عزم استحکام مہم، کے تحت انسداد دہشت گردی کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ مہم نیشنل ایکشن پلان کی وفاقی اپیکس کمیٹی کے منظور شدہ وژن کے مطابق ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے جاری ہے۔ بلاشبہ جنگ کسی بھی صورت میں پاکستان یا افغانستان کے مفاد میں نہیں ہے اور اس جنگ میں دونوں طرف سے مارے جانے والے کلمہ گو مسلمان ہی ہوں گے۔ پاکستان اور افغانستان کا جنگ بندی پر اتفاق اور مذاکرات کی بحالی خوش آئند بات ہے۔ کابل کو بھی چاہیے کہ وہ اس بات کی ضمانت دے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ پاکستان نے چالیس سال تک اپنے افغان بھائیوں کی میزبانی کی ہے اور بھارت کے ایماء پر اپنے بردار اسلامی ملک کے ساتھ اس قسم کا رویہ ایک المیہ ہے۔ ان شاء اللہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل ہوں گے۔ بھارت پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں کا دشمن ہے بھارت کو دوست ملک قرار دینا افغانستان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی ہے اور افغانستان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور افغان عوام خود جلد ایسی نااہل حکومت کو اقتدار سے اُتار پھینکے گی۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان جنگ بندی پر اتفاق؟
  • 27ویں آئینی ترمیم کے اثرات انتہائی خطرناک ہوں گے، منظور نہیں ہونے دیں گے، اپوزیشن اتحاد
  • غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
  • اسرائیل جنگ بندی کی مکمل پاسداری کرے،غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کو دیا جائے: استنبول اجلاس کا اعلامیہ
  • سیاسی منظرنامے میں ہلچل! سلمان اکرم راجہ کی شاہ محمود قریشی سے اہم ملاقات، پی ٹی آئی قیادت کے درمیان سیاسی رابطے تیز
  • حماس نے 3 یرغمالیوں کی لاشیں واپس کردیں، اسرائیلی حملے میں مزید ایک فلسطینی شہید
  • جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
  • غزہ میں مسلسل اسرائیل کی جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، بلال عباس قادری
  • جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
  • غزہ کی جنگ بندی اور انسانی بحران پر استنبول میں اعلیٰ سطح اجلاس، مسلم وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع