غزہ جنگ کا تسلسل، اثرات اور منظرنامے
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی مزاحمت اسرائیلی جارحیت پر خاموش تماشائی نہیں بنے گی اور جیسا کہ حماس کے رہنماوں نے واضح کیا ہے اس تنظیم نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ہر گز ان کے ناجائز مطالبات قبول نہیں کرے گی۔ مغربی ایشیا خطے پر ایک نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ پورا خطہ ایک انتہائی حساس دور سے گزر رہا ہے اور غزہ جنگ سے پہلے والی صورتحال کی جانب واپس لوٹ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امریکہ اور اسرائیل یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خطے میں اسلامی مزاحمت دم توڑ چکی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور اسلامی مزاحمتی فورسز پوری طاقت سے میدان میں حاضر ہیں۔ ٹرمپ اس نعرے کے ساتھ نیا امریکی صدر بنا تھا کہ وہ جنگ کی آگ بجھانے آیا ہے لیکن اب پوری دنیا پر واضح ہو گیا ہے کہ وہ وعدہ جھوٹا تھا اور اس نے نہ صرف غزہ بلکہ یمن میں بھی جنگ کی نئی آگ شعلہ ور کر دی ہے۔ تحریر: علی احمدی
ایک طرف قاہرہ میں غزہ میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات جاری ہیں جبکہ غاصب صیہونی رژیم نے اچانک ہی منگل کی صبح ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کی جانب سے سبز جھنڈی دکھانے پر غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کو ایک بار پھر وحشیانہ فضائی حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ یہ حملے درحقیقت جنگ بندی معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری کے مترادف ہیں جو ثالثی کرنے والے عرب حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کے خلاف جارحیت ایسے وقت دوبارہ شروع کر دی ہے جب جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں بھی اس نے معاہدے کی مکمل پابندی نہیں کی تھی اور اس دوران مختلف حملوں کے ذریعے 150 فلسطینیوں کو شہید کر دیا تھا۔ اسی طرح صیہونی حکمرانوں نے معاہدے میں درج ہونے کے باوجود انسانی امداد غزہ داخل نہیں ہونے دی۔
صیہونی حکمرانوں نے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کو شروع کرنے سے انکار کر دیا ہے اور غزہ کی تمام راہداریاں بھی مکمل طور پر بند کر دی ہیں۔ یاد رہے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ 17 جنوری 2025ء کے دن طے پایا تھا۔ یہ معاہدہ قطر کی نظارت میں انجام پایا تھا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے جنگ بندی کے تین مراحل مکمل ہونے کی گارنٹی دی تھی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں حماس نے فلسطینی قیدیوں کی آزادی کے بدلے چند یرغمالی آزاد کیے تھے اور پوری طرح اس معاہدے کی پابندی کی تھی۔ دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم نے انسانی پروٹوکولز کی خلاف ورزی کرنے کے ساتھ ساتھ کئی بار فلسطینی قیدیوں کی آزادی میں رکاوٹیں بھی ڈالی تھیں۔ جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ ختم ہونے کے دس دن بعد مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہو چکا تھا۔
امریکی صدر کے فلسطین کے لیے خصوصی ایلچی ایڈم بوائلر نے حماس کے وفد سے براہ راست بات چیت کی اور امریکی شہریت کے حامل ایک اسرائیلی یرغمالی آزادی اور چار یرغمالیوں کی لاشوں کا مطالبہ کیا تاکہ مذاکرات کا دوسرا دور شروع کیا جا سکے۔ حماس نے یہ مطالبہ قبول کر لیا لیکن صیہونی حکمرانوں نے دوسرا مرحلہ شروع کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد خطے کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکاف نے ایک نیا مطالبہ پیش کیا جو مکمل طور پر اسرائیل کے حق میں تھا۔ اس نے کہا کہ نصف اسرائیلی یرغمالی آزاد کیے جائیں اور مرنے والے نصف یرغمالیوں کی لاشیں بھی دے دی جائیں تاکہ غزہ میں عارضی جنگ بندی مزید 50 دن کے لیے آگے بڑھا دی جائے۔ دوسری طرف امریکی حکمران جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے فوجی انخلاء اور مستقل جنگ بندی کی یقین دہانی بھی نہیں کروا رہے تھے۔
واضح ہے کہ ایسی صورتحال میں اس امریکی مطالبے کو قبول کرنے کا مطلب حماس کی جانب سے غزہ کی پٹی امریکہ اور اسرائیل کے سپرد کر دینا تھا لہذا حماس کے مذاکراتی وفد نے اس پیشکش میں اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ حماس نے امریکہ سے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں غزہ سے اسرائیل کے مکمل فوجی انخلاء اور مستقل جنگ بندی قبول کرنے کی یقین دہانی مانگی۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ پر جارحیت دوبارہ شروع کیے جانے کے مختلف اہداف پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر غزہ کے خلاف جارحیت کا تسلسل صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کو اقتدار میں باقی رہنے کا اچھا موقع اور بہانہ میسر کرتا ہے۔ اسی طرح وہ اس جنگ کے بہانے اپنے خلاف کرپشن کے کیس میں عدالتی کاروائی بھی معطل کروا چکا ہے۔
مزید برآں، غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا دوبارہ آغاز گذشتہ چند دنوں میں اسرائیل میں رونما ہونے والے اندرونی حالات سے بھی مربوط ہے۔ ان میں سے اہم ترین سبب نیتن یاہو کی جانب سے شاباک کے سربراہ رونن بار اور اپنے قانونی مشیر کو برطرف کر دینا ہے جس کی وجہ سے اندرونی اختلافات عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ شاباک جیسے بڑی فوجی انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کی برطرفی نے اسرائیلی رائے عامہ کا فوجی اور انٹیلی جنس اداروں پر اعتماد ختم کر دیا ہے۔ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین کی سڑکیں بدستور نیتن یاہو کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا میدان بنی ہوئی ہیں۔ لہذا اکثر تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ نیتن یاہو نے اندرونی مسائل اور بحرانوں سے بھاگنے کے لیے اور طوفان الاقصی آپریشن میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے غزہ کے خلاف دوبارہ جنگ شروع کی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی مزاحمت اسرائیلی جارحیت پر خاموش تماشائی نہیں بنے گی اور جیسا کہ حماس کے رہنماوں نے واضح کیا ہے اس تنظیم نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ہر گز ان کے ناجائز مطالبات قبول نہیں کرے گی۔ مغربی ایشیا خطے پر ایک نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ پورا خطہ ایک انتہائی حساس دور سے گزر رہا ہے اور غزہ جنگ سے پہلے والی صورتحال کی جانب واپس لوٹ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امریکہ اور اسرائیل یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خطے میں اسلامی مزاحمت دم توڑ چکی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور اسلامی مزاحمتی فورسز پوری طاقت سے میدان میں حاضر ہیں۔ ٹرمپ اس نعرے کے ساتھ نیا امریکی صدر بنا تھا کہ وہ جنگ کی آگ بجھانے آیا ہے لیکن اب پوری دنیا پر واضح ہو گیا ہے کہ وہ وعدہ جھوٹا تھا اور اس نے نہ صرف غزہ بلکہ یمن میں بھی جنگ کی نئی آگ شعلہ ور کر دی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امریکہ اور اسرائیل غاصب صیہونی رژیم اسلامی مزاحمت جنگ بندی کے اسرائیل کے کی جانب سے نیتن یاہو جانے کا حماس کے ہے لیکن کے خلاف واضح ہو ہے اور کر دیا جنگ کی کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
امارات میں عوام کو شدید گرمی سے بچانے کیلئے نئی منصوبہ بندی کرلی گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ابوظبی: متحدہ عرب امارات نے شدید گرمی سے عوام کو محفوظ رکھنے کے لیے نئی حکمتِ عملی مرتب کر لی ہے۔
اماراتی نیشنل سینٹر آف میٹرولوجی اور پبلک ہیلتھ سینٹر کے درمیان اس حوالے سے پانچ سالہ معاہدہ طے پایا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، اس معاہدے کے تحت شدید گرمی، نمی اور فضائی آلودگی سے متعلق جدید ڈیٹا کا تبادلہ کیا جائے گا۔ ملک بھر میں کسی بھی مقام پر درجہ حرارت کے خطرناک حد تک بڑھنے کی صورت میں شہریوں کو فوری طور پر ڈیجیٹل اطلاعات فراہم کی جائیں گی۔
اس منصوبے کے تحت متاثرہ علاقوں میں موجود افراد کو بروقت خبردار کیا جائے گا، جس سے نہ صرف فوری اقدامات ممکن ہوں گے بلکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
یاد رہے کہ رواں سال اگست میں یو اے ای کا درجہ حرارت 51.8 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا تھا، جب کہ مئی اور اپریل کے مہینے بھی غیر معمولی طور پر گرم ریکارڈ کیے گئے تھے۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات میں دوپہر 12:30 سے 3:30 بجے تک کھلی دھوپ میں کام کرنے پر پابندی عائد ہے۔