جو ڈائریکٹرز وقت پر پیسے نہیں دیتے تھے، ریکھا اُن کیساتھ کیا کرتی تھیں؛ راکیش روشن نے بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
ریکھا جن کی اداکاری اور حسن کا ایک زمانہ معترف رہا ہے آج بھی مداحوں کے دلوں اور شوبز کی خبروں پر راج کر رہی ہیں۔
راکیش روشن بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف اداکار اور کامیاب ترین ہدایتکاروں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے ریکھا کے ساتھ کام بھی کیا اور اپنی فلموں میں ریکھا سے اداکاری بھی کروائی ہے۔
ساتھی اداکار اور پھر ہدایتکار ہونے کے باعث راکیش روشن اداکارہ ریکھا کو قریب سے جانتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے ریکھا کے بارے میں کئی انکشافات کیے۔
راکیش روشن نے ریکھا کی غصیلی طبیعت اور ترش مزاج کے تاثر کو رد کرتے ہوئے بتایا کہ ریکھا میں ایک خاص بات ہے جو بہت کم اداکاراؤں میں پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنی ہر فلم میں مختلف نظر آتی ہیں۔
راکیش روشن نے مزید کہا کہ میں نے ریکھا کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا ہے جیسے 'خوبصورت' اور 'عورت' وغیرہ میں۔ اور ریکھا کو بہت باصلاحیت اداکارہ پایا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ جب میں نے ہدایتکاری کے میدان میں قدم رکھا تو اپنی دوسری ہی فلم 'خون بھری مانگ' میں ریکھا کو کاسٹ کیا۔
راکیش روشن نے بتایا کہ جس پر میرے دوستوں اور کولیگز نے خبردار کیا کہ تم ریکھا کے ساتھ کام کر رہے ہو، وہ سیٹ پر کبھی وقت پر نہیں آتی لیکن جلدی ضرور چلی جاتی ہیں۔
ہدایت کار راکیش روشن ان باتوں سے پریشان ہوگئے اور انھوں نے ریکھا کو بغیر لگی لپٹی اپنے خدشات سے آگاہ کردیا۔
راکیش روشن کے بقول اداکارہ ریکھا نے کہا برجستہ کہا کہ ' یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ کیا کبھی میں نے ایسا کیا؟
ریکھا نے ہدایتکار راکیش روشن کو تسلی دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میں صرف اُن ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز کو تنگ کرتی ہوں جو وعدہ خلافی کرتے ہیں یا پے منٹ کرنے میں دانستہ تاخیر کرتے ہیں۔
راکیش روشن نے بتاہا کہ میں نے ایسا ہی دیکھا کہ جو لوگ پے منٹ میں بلاوجہ تاخیر کرتے پھر ریکھا انھیں اگلی فلموں میں خوب تنگ کرتی۔ اپنا انتظار کا بدلہ انھیں انتظار کروا کر لے لیا کرتی تھی۔
یاد رہے کہ اداکارہ ریکھا نے راکیش روشن کی ہدایتکاری میں بنی فلم "کوئی.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: راکیش روشن نے انھوں نے نے ریکھا ریکھا کو کہا کہ
پڑھیں:
اسرائیل کیساتھ جنگ کیلئے تیار، پر امن مقاصد کیلئے جوہری پروگرام جاری رہے گا، ایرانی صدر
تہران(انٹرنیشنل ڈیسک)ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ ان کا ملک اسرائیل کی جانب سے کسی بھی ممکنہ جنگ کے لیے مکمل طور پر تیار ہے، ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں، انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ تہران اپنے جوہری پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے جاری رکھے گا۔
قطری نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر پزشکیان نے کہا کہ ہم کسی بھی نئے اسرائیلی فوجی اقدام کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، اور ہماری مسلح افواج ایک بار پھر اسرائیل کے اندر گہرائی میں حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ایرانی صدرنے کہا کہ وہ اس جنگ بندی پر انحصار نہیں کر رہے جو 12 روزہ جنگ کے اختتام پر ہوئی تھی۔
مسعود پزشکیان نے کہا کہ ہم اس کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں ہیں، اسی لیے ہم نے خود کو ہر ممکنہ منظرنامے اور کسی بھی ممکنہ ردعمل کے لیے تیار کیا ہے، اسرائیل نے ہمیں نقصان پہنچایا، اور ہم نے بھی اسے شدید ضربیں لگائی ہیں، لیکن وہ اپنے نقصانات کو چھپا رہا ہے۔
ایرانی صدر نے مزید کہا کہ اسرائیل کے حملوں (جن میں اعلیٰ فوجی شخصیات اور جوہری سائنسدانوں کی اموات اور جوہری تنصیبات کو نقصان شامل تھا) کا مقصد ایران کی قیادت کو ختم کرنا تھا، لیکن وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔
جون کے مہینے میں اسرائیل کے حملوں میں ایران میں 900 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی، جب کہ اسرائیل میں کم از کم 28 افراد مارے گئے اس سے پہلے کہ 24 جون کو جنگ بندی عمل میں آئی۔
افزودگی کا پروگرام جاری رہے گا
صدرپزشکیان نے کہا کہ ایران بین الاقوامی مخالفت کے باوجود یورینیم کی افزودگی کا پروگرام جاری رکھے گا، اور اس کی جوہری صلاحیتوں کی ترقی بین الاقوامی قوانین کے دائرہ کار میں کی جائے گی۔
ایرانی صدرنے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں اور ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، ہم جوہری ہتھیاروں کو مسترد کرتے ہیں اور یہ ہمارا سیاسی، مذہبی، انسانی اور تذویراتی مؤقف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سفارت کاری پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے مستقبل کے کسی بھی مذاکرات ’ون-ون‘ منطق کے مطابق ہونے چاہئیں، اور ہم دھمکیوں یا جبر کو قبول نہیں کریں گے۔
پزشکیان نے کہا کہ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ ایران کا جوہری پروگرام ختم ہو چکا ہے، محض ایک فریب ہے، ہماری جوہری صلاحیتیں ہمارے سائنسدانوں کے ذہنوں میں ہیں، تنصیبات میں نہیں۔
صدرپزشکیان کے بیانات ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کے ان بیانات سے بھی ہم آہنگ تھے جو انہوں نے پیر کے روز امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں دیے۔
عراقچی نے کہا تھا کہ تہران کبھی بھی یورینیم کی افزودگی کا پروگرام ترک نہیں کرے گا، لیکن وہ ایک ایسے مذاکراتی حل کے لیے تیار ہے، جس میں وہ اس پروگرام کو پرامن ثابت کرنے کی ضمانت دے گا اور اس کے بدلے پابندیاں ہٹائی جائیں گی۔
اسرائیل نے ایرانی قیادت کو نشانہ بنایا
پزشکیان نے 15 جون کو تہران میں سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے دوران اسرائیل کی جانب سے خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے پر بھی بات کی، جس میں انہیں معمولی زخم آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ اسرائیلی کمانڈرز کا ایک حصہ تھا تاکہ ایرانی قیادت کو نشانہ بنا کر ملک میں افراتفری پھیلا دی جائے اور حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے، لیکن یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکی حملوں کے جواب میں ایران کی جانب سے قطر کے العدید اڈے پر کیے گئے حملے قطر یا اس کے عوام پر حملہ نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ذہن میں کبھی یہ تصور بھی نہیں آیا کہ قطر اور ہمارے درمیان کوئی دشمنی یا رقابت ہو، اور یہ بھی بتایا کہ انہوں نے حملوں کے دن قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کو فون کر کے اپنی پوزیشن واضح کی تھی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ میں صاف اور دیانت داری سے کہتا ہوں کہ ہم نے قطر پر حملہ نہیں کیا، بلکہ اس امریکی اڈے پر حملہ کیا، جس نے ہمارے ملک پر بمباری کی، جبکہ قطر اور اس کے عوام کے لیے ہمارے جذبات ہمیشہ مثبت رہے ہیں۔
یورپی طاقتوں سے مذاکرات بحال ہوں گے
عباس عراقچی نے پیر کو کہا تھا کہ ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم اب بھی یہ جائزہ لے رہی ہے کہ گزشتہ ماہ کے حملوں نے ایران کے افزودہ مواد کو کس حد تک متاثر کیا، اور تہران جلد ہی اس کی تفصیلات عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو دے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایران نے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون بند نہیں کیا، اور اگر ایجنسی دوبارہ معائنہ کار بھیجنے کی درخواست کرے گی تو اسے پرکھا جائے گا۔
آئی اے ای اے کے معائنہ کار اس ماہ کے آغاز میں ایران چھوڑ گئے تھے، جب پزیشکیان نے ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے والا قانون منظور کیا تھا۔
دریں اثنا، ایران، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے درمیان مذاکرات جمعہ کو ترکی میں ہونے والے ہیں۔
یورپی فریقین، جو ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے (جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن) کا حصہ تھے، کہہ چکے ہیں کہ اگر ایران نے مذاکرات دوبارہ شروع نہ کیے تو اس پر بین الاقوامی پابندیاں دوبارہ عائد کی جائیں گی۔
Post Views: 4