ممکنہ امریکی سفری پابندی افواہ یا حقیقت؟ ترجمان محکمہ خارجہ نے بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے پاکستانی دفتر خارجہ کے اس بیان کی بالواسطہ تردید کی ہے جس میں ممکنہ امریکی سفری پابندی کو افواہ قرار دیا گیا تھا، تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس ضمن میں اعلان کب متوقع ہے۔
میڈیا بریفنگ کے دوران سفری پابندی جاری کرنے کی ڈیڈلائن سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ امریکی ویزا کے جائزے کا عمل مکمل ہونے کی ڈیڈلائن آج نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا پاکستان سمیت 41 ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرسکتا ہے، رپورٹ
تاہم اس معاملے پر حتمی اعلان سے متعلق لب کشائی کیے بغیر ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ ویزے کے عمل میں یہ بات یقینی بنائے جائے گی کہ امریکا سفر کرنیوالے مسافر امریکی قومی سلامتی اور پبلک سیفٹی کے لیے خطرہ نہ ہوں۔
ٹیمی بروس کے مطابق سفری پابندی سے متعلق کسی اعلان کی تفصیلات تو فراہم نہیں کی جاسکتیں تاہم یہ آج نہیں ہورہا، انہوں نے زور دیا کہ امریکا اپنے شہریوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا میں داخلے پر پابندی کی تردید اور عمران خان سے متعلق سوال کا جواب دینے سے انکار
’ویزوں کے اجرا کے عمل میں قومی سلامتی اور عوامی تحفظ کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھا جائے گا، جیسا کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر میں کہا گیا ہے، یہ مسئلہ حل کرنا وقت کا تقاضا ہے، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اندرونی بحث مباحثے پر تبصرہ نہیں کرتا۔‘
واضح رہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے ممکنہ امریکی سفری پابندی کو افواہ قرار دیا تھا، دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کئی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرنے پرغورکررہی ہے، جس سے افغانستان اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ایگزیکٹیو آرڈر ٹیمی بروس سفری پابندیاں عوامی تحفظ قومی سلامتی محکمہ خارجہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ایگزیکٹیو آرڈر ٹیمی بروس سفری پابندیاں عوامی تحفظ قومی سلامتی سفری پابندی ٹیمی بروس
پڑھیں:
صدر ٹرمپ پر نفرت کا الزام لگانے والا امریکا صحافی معطل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا میں اِس وقت ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ امریکا کو صحافتی آزادی کے علم برداروں میں نمایاں سمجھا جاتا ہے۔ امریکی ادارے دنیا بھر میں صحافتی آزادی جانچتے رہتے ہیں مگر خود امریکا میں اس حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ شرم ناک ہے۔
امریکی میڈیا گروپ اے بی سی کے رپورٹر ٹیری مورن کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے معاون اسٹیفن ملر کو اول درجے کے نفرت پھیلانے والے قرار دینے کی پاداش میں معطل کردیا گیا ہے۔ ٹیری مورن نے ایک ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ امریکی صدر جو کچھ کر رہے ہیں اُس کے نتیجے میں امریکا اور امریکا سے باہر نفرت پھیل رہی ہے۔ ایسی کیفیت کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔
ٹیری مورن نے جو کچھ کہا وہ امریکا میں کسی بھی سطح پر حیرت انگیز نہیں۔ حکومتی شخصیات پر غیر معمولی تنقید امریکی صحافت کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ ڈیموکریٹس پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی رہی ہے مگر اُنہوں نے کبھی اِس نوعیت کے اقدامات نہیں کیے۔ سابق صدر جو بائیڈن پر غیر معمولی تنقید کی جاتی رہی مگر اُنہوں نے کسی بھی بات کو پرسنل نہیں لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مزاج بہت الگ، بلکہ بگڑا ہوا ہے۔ وہ امریکی معاشرے اور ثقافت کی بنیادیں ہلانے والے اقدامات کر رہے ہیں۔ میڈیا کو دباؤ رکھنا بھی اُن کے مزاج اور پالیسیوں کا حصہ ہے۔
ٹیری مورن کے خلاف کی جانے والی کارروائی پر امریکا میں میڈیا کے ادارے جُزبُز ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ اِس نوعیت کے اقدامات سے ٹرمپ انتظامیہ میڈیا کے اداروں کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر یہ سب کچھ برداشت نہیں کیا جائے گا اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے علم بردار اداروں اور تنظیموں کے پلیٹ فارم سے شدید احتجاج کیا جائے گا۔