پاک افغان طورخم سرحد کو 27 دن بعد کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، قبائلی جرگے نے متنازع تعمیرات بند کرنے اور طورخم تجارتی گزرگاہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا، افغان جرگہ نے 17 مارچ تک سرحد کھولنے کی مہلت مانگی تھی۔ اسلام ٹائمز۔ پاک افغان طور خم بارڈر 27 روز بعد پیدل آمدورفت کیلئے کھول دیا گیا جس کے بعد مسافروں کی پیدل آمد و رفت شروع ہو گئی تاہم ویزا اور پاسپورٹ رکھنے والے مسافروں کو افغانستان آنے اور جانے کی اجازت ہوگی۔ ذرائع کے مطابق طورخم سرحد امیگریشن سیکشن کو مرمتی کام مکمل کرنے کے بعد بحال کر دیا گیا جس کے بعد آج سے افغانستان کو پیدل آمدورفت شروع ہو گئی ہے تاہم صرف ویزا اور پاسپورٹ رکھنے والوں کو افغانستان جانے کی اجازت ہو گی، سرحدی گزرگاہ 26 دن بعد گزشتہ روز تجارت کے لیے کھولی گئی تھی۔

امیگریشن ذرائع کے مطابق 21 فروری کو پاکستان اور افغان فورسز کے درمیان مسلح جھڑپیں ہوئی تھیں، فائرنگ سے پاکستان اور افغانستان طور خم امیگریشن سسٹم کو نقصان پہنچا تھا۔ امیگریشن حکام نے بتایا کہ سرحد بند ہونے کے باعث صرف افغان مریضوں کو پاکستان آنے کی اجازت دی جا رہی تھی، طورخم کے راستے افغانستان کو یومیہ اوسطاً 10 ہزار مسافروں کی آمدورفت ہوتی ہے۔

حکام کے مطابق گذشتہ روز پاک افغان بارڈر طورخم پر امیگریشن کمپیوٹرائزڈ سسٹم پھر خراب ہو گیا، سسٹم کی مرمت کے لئے انجنئیرز کو طلب کیا گیا جس کے بعد سسٹم کی مرمت مکمل کی گئی، 21 فروری کو افغانستان کے ساتھ کشیدگی کے باعث طورخم سرحد کو بند کردیا گیا۔ یاد رہے کہ پاک افغان طورخم سرحد کو 27 دن بعد کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، قبائلی جرگے نے متنازع تعمیرات بند کرنے اور طورخم تجارتی گزرگاہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا، افغان جرگہ نے 17 مارچ تک سرحد کھولنے کی مہلت مانگی تھی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پاک افغان کے بعد

پڑھیں:

وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران سے غیررضاکارانہ طور پر واپس آنے والے متعدد افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں حکام کی جانب سے تشدد، بدسلوکی اور ناجائز حراستوں سمیت انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سامنا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن اور 'او ایچ سی ایچ آر' کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ واپس آںے والے افغانوں میں خواتین، لڑکیوں، سابق حکومت اور اس کی فوج سے تعلق رکھنے والے لوگوں، ذرائع ابلاغ کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو کہیں زیادہ خطرات لاحق ہیں۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ کسی مہاجر یا پناہ گزین کو ایسے ملک میں واپس جانے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے جہاں اسے اپنی شناخت یا ماضی کی بنا پر مظالم کا خدشہ ہو۔

(جاری ہے)

افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے یہ معاملہ کہیں زیادہ سنگین ہے جہاں محض صنفی بنیاد پر ہی ان کے حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔خفیہ زندگی، تشدد اور مظالم

رپورٹ میں گزشتہ سال واپس آنے والے 49 لوگوں سے کی گئی بات چیت کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ ان میں شامل سابق حکومت اور فوج کے اہلکار افغانستان میں انتقامی کارروائی کے خوف سے خفیہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں حالانکہ طالبان حکام نے اعلان کیا تھا کہ ماضی میں ان کے خلاف لڑنے والوں کو عام معافی دی جائے گی۔

اگست 2021 میں طالبان کے برسراقتدار آںے کے بعد ملک چھوڑ دینے والی ٹیلی ویژن کی ایک سابق رپورٹر نے بتایا کہ ملک میں واپسی کے بعد انہیں اور دیگر خواتین کو نہ تو روزگار کے مواقع دستیاب ہیں اور نہ ہی انہیں تعلیم اور نقل و حرکت کی آزادی ہے۔ ان حالات میں وہ خود کو گھر میں نظربند محسوس کرتی ہیں۔

ایک سابق سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ 2023 میں افغانستان واپس آںے کے بعد انہیں دو راتوں تک ایک گھر میں بند کر کے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اس دوران طالبان حکام نے انہیں ڈنڈوں اور تاروں سے مارا پیٹا، پانی میں غوطے دیے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر بناوٹی طور پر پھانسی دی۔ اس تشدد کے نتیجے میں ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ملک بدری سے گریز کا مطالبہ

پناہ گزینوں کو ایسے ملک میں واپس بھیجنا بین الاقوامی قانون کی سنگین پامالی ہے جہاں انہیں مظالم، تشدد یا دیگر ظالمانہ، غیرانسانی اور توہین آمیز سلوک یا سزا، جبری گمشدگی یا دیگر ناقابل تلافی نقصان کا خطرہ ہو۔

رپورٹ میں رکن ممالک پر زور دیاگیا ہے کہ وہ اپنے ہاں مقیم کسی افغان فرد کو اس کے ملک میں واپس بھیجنے سے قبل یہ جائزہ ضرور لیں کہ کہیں اسے واپسی پر اپنے حقوق کی پامالی کا خدشہ تو نہیں۔ جن لوگوں کو ایسا خطرہ لاحق ہو انہیں ملک بدر نہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں، رکن ممالک خطرات سے دوچار افغانوں کو ملک چھوڑنے اور اپنے ہاں گرفتاری یا ملک بدری کے خوف سے بے نیاز ہو کر رہنے کے لیے محفوظ راستے مہیا کریں۔

2023 سے اب تک لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان اور ایران سے غیررضاکارانہ طور پر واپس جا چکے ہیں جس کے باعث افغانستان میں محدود وسائل پر بوجھ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں رکن ممالک سے افغانوں کے لیے امدادی مالی وسائل میں اضافے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔

امدادی وسائل کی ضرورت

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی سربراہ روزا اوتنبائیوا نے کہا ہے کہ اگرچہ افغان حکام نے حالیہ برسوں کے دوران ملک میں واپس آنے والوں کو ضروری مدد فراہم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سبھی لوگوں کو معاشرے میں دوبارہ ضم کرنے اور ان کے حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے مزید اقدامات اور وسائل کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی میں تمام افغانوں کی شرکت بہت ضروری ہے۔ انہوں نے افغان حکام پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اور افغان لوگوں سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔

متعلقہ مضامین

  • روزانہ 7 ہزار قدم پیدل چلنا بیماریوں کو دور رکھتا ہے، تحقیق میں انکشاف
  • وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا
  • ایف آئی اے کی بڑی کارروائی؛ غیر قانونی سرحد پار کرتے ہوئے 33 غیر ملکی گرفتار
  • تیل کی قیمت نیچے لانا چاہتے ہیں، امریکا میں کاروبار نہ کھولنے والوں کو زیادہ ٹیرف دینا پڑے گا، ٹرمپ
  • پاک افغان معاہدہ طے، کن سبزی و پھلوں کی تجارت ہوگی، ٹیرف کتنا؟
  • شاہراہ بابوسر پر پھنسے سیاحوں اور مسافروں کو ریسکیو کرنے کا آپریشن مکمل
  • کراچی ایئرپورٹ پر مسافروں کا سامان چوری کرنے والا پی آئی اے کا ملازم گرفتار
  • کراچی ایئرپورٹ پر مسافروں کے سامان چوری میں ملوث پی آئی اے ملازم گرفتار
  • افغانستان کے مقامی انجنیئرز کی تیار کردہ بس نمائش کیلیے پیش
  • انسانی اسمگلنگ، غیرقانونی بارڈر کراسنگ میں ملوث 20 غیرملکی گرفتار