اب اگر حقیقتوں کا ادراک نہ کیا گیا اورغلط فہمیوں کا لبادہ اوڑھے آگے چلتے گئے، تو نہ صرف منزل مزید دور چلی جائے گی بلکہ شاید ہم اپنی متعین راہوں سے بھی بھٹک جائیں۔ یہ ملک جن لوگوں نے بنایا وہ کہیں پیچھے رہ گئے اور یہ مل گیا اس اشرافیہ کو جو بہت ہی پسماندہ سماجی و معاشی پسِ منظر رکھتی ہے۔
سیاسی زبان میں جن کو ہم کہتے ہیں وڈیرے، پیر، نواب، سردار اور چوہدری۔ مسلم لیگ کی قیادت کی جڑیں اس خطے میں نہ تھیں جہاں آج پاکستان ہے لٰہذا ابتدائی دو دہائیوں میں ہی یہ ملک اور مسلم لیگ ان کے ہاتھوں سے نکل گئے۔
یہ ریاست تب زیادہ کمزور ہوئی، جب یہاں سکندر مرزا اور ایوب خان کے اتحاد میں سول و ملٹری بیوروکریسی نے اقتدار پر قبضہ جمایا ، تو پاکستان کے نواب، وڈیرے اور قبائلی سردار جوکل تک مسلم لیگ کے پیچھے تھے، پھر اس سول و ملڑی بیوروکریسی کے پیچھے چل پڑے۔ ان سب کا مقصد یہ تھا کہ عوام کو اقتدار میں شراکت نہ دی جائے اور نہ انھیں ترقی کے راستے پر ڈالا جائے۔
مشرقی پاکستان میں سیاست کا یہ پیٹرن نہ تھا، وہاں مغربی پاکستان جیسی وڈیرہ شاہی تھی، سول ملٹری بیوروکریسی میں بھی بنگال کا اثر و رسوخ کم تھا ۔ امریکا و یورپی اتحاد اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ میں ہم فرنٹ لائن اسٹیٹ تھے،کیونکہ سوویت یونین کی بارڈر لائن مغربی پاکستان کی طرف تھی ، مشرقی پاکستان کو یہ ایڈونٹیج حاصل نہیں تھا۔
ہمیں ایک کمزور سیاسی پارٹی نے آزادی دلوائی۔ ہماری معاشی پالیسی مغرب سے متاثر تھی، مارکیٹ اکانومی تھی۔ ہم بے شک سیاسی اعتبار سے متزلزل تھے مگر معاشی اعتبار سے بھارت سے بہتر تھے، اس لیے کسی نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔
من موہن سنگھ کی حکومت، ہندوستان کو اوپن مارکیٹ کی طرف لے گئی۔ ہندوستان کی تیس کروڑ مڈل کلاس اتنی ہی امیر ہے جیسا کہ دوسرے امیر ملکوں کی لیکن وہاں پر غربت کی جڑیں گہری تھیں۔ حال ہی میں اکانومسٹ میں پڑھا کہ اب ہندوستان میں غربت کی لکیر کے نیچے صرف ایک فیصد لوگ ہی رہتے ہیں۔
اس طرح ہندوستان سیاسی اعتبار سے مغرب کے بعد انتہائی مضبوط جمہوریت رکھتا ہے۔ معاشی اعتبار سے ہندوستان کی شرح نمو چین سے بھی آگے ہے اور ہندوستان کی یہ ترقی اب نچلی سطح لوگوں کو فائدہ دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کا آئین ان کی اور مضبوط سپریم کورٹ۔ بس ہندوستان میں سیکیولر ازم ہونا ایک مسئلہ ہے جہاں ہندوستان مات کھا رہا ہے، لیکن لوگوں میں اس بات کا شعور اب مودی کو سیاسی طور پر نقصان پہنچا رہا ہے۔
پاکستان اور ہندوستان نے ایک ہی رات میں جنم لیا، وہ سوویت یونین نواز تھے، ان کے پٹھو نہیں تھے۔ جواہر لعل نہرو نے غیر وابستہ ممالک کی بنیاد ڈالی۔ ہم جمہوریت کی ڈگر سے نکل کر آمروں کے شکنجوں میں پھنس گئے۔ ذرا سوچیے کہ آج وہ کہاں ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔
اپنی پالیسیوں میں ہم یقینا انقلابی تبدیلیاں لائے ہیں جیسا کہ ہم نے افغان پالیسی سے جان چھڑائی جو پچھلے چالیس سال تک ہماری جڑوں کوکاٹ رہی تھی۔ سوویت یونین کو تو شکست ہوگئی لیکن مارے گئے ہم۔ یہاں جنگ چلتی رہی۔ ہم نے مذہب کو آمریت کی بقاء کے لیے استعمال کیا اور جمہوریت کو یرغمال بنائے رکھا۔ ایسی ہی پالیسی اور جمہوری اقدار کے فقدان نے آج ہمیں یہاں لاکھڑا کیا ہے۔
بلوچستان کی ستر فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ریاست کے بیانیے کو نہیں مانتے۔ وہ اس لیے بھی کہ یہ بیانیہ اور تاریخ کی تشریح یہاں کے مقامی لوگوں کی تاریخ اور بیانیہ سے مماثلت نہیں رکھتی۔ یہی حال خیبر پختونخوا کا ہے اور سندھ کا بھی۔
سندھ کی اربن کلاس میں شاید آج وہ تپش نہیں جو بات ان کے اجداد ہجرت کے حوالے سے بتاتے تھے۔ اب پنجاب میں بھی حالات مختلف ہیں،کل تک جو پنجاب آمریتوں پر اپنا ہاتھ ہلکا رکھتا تھا، اب وہ نہیں رکھتا۔
ملک گیر جو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جیسا کہ پی ٹی آئی، پی ایم ایل این یا پھر پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی۔ جن میں ایک سیاسی پارٹی اس وقت حکومت سے براہ راست ٹکر لے بیٹھی ہے۔ مولانا بیچ میں کھڑے ہیں اور دو پارٹیاں جمہوریت پر اس حد تک سمجھوتہ کر بیٹھی ہیں جو نواز شریف نے اور بے نظیر نے نہیں کیا تھا۔
ان سیاسی جماعتوں میں سے پیپلز پارٹی بڑی تیزی سے سندھ سے کٹتی جا رہی ہے اور رہ گئی مسلم لیگ (ن) ان کا پنجاب میں پی ٹی آئی سے شدید ٹاکرا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کل پی ٹی آئی کے ساتھ اور آج شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ ہے۔
ان میں سے کوئی بھی سیاسی جماعت جمہوریت کو منظم کرنے کا کام نہیںکر رہی ہے۔ پاکستان میںشفاف الیکشن اب صرف تاریخ کا حصہ ہیں۔ ایک ناممکن سا عمل ہے کہ کبھی یہ اس ملک میں شفاف الیکشن کروا سکیں۔
ہم معاشی طور پر ضرور بہتری کی طرف ہیں یہ بہتر دیرینہ نہیں۔ ابھی ہماری شرح نمو سات فیصد تک نہیں پہنچی۔ قرضوں کا ایک وسیع جال ہے جس میں ہم جکڑ چکے ہیں۔ ہماری سیاسی صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔ سرحدوں کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ صوبوں کی کشمکش اور ان کی سیاسی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہیں۔
سندھ کے اندر بھی ایک لاوا پک رہا ہے جو آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کو جڑوں سے اکھاڑ سکتا ہے،کیونکہ سندھ اب وڈیروں سے نجات چاہتا ہے۔ بہت ہی مصنوعی طریقوں سے یہ وڈیرے سندھ پر مسلط کیے گئے ہیں۔ اس وڈیرہ شاہی کو برقرار رکھنے کے لیے سندھ میں نچلی سطح تک تعلیم و ہنرکو روکا گیا۔
یہ زمانہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا ہے اور ہر نچلی سطح کے لوگوں کی پہنچ ان فورمز تک ہے۔ سندھ میں وڈیرہ اور پیر شاہی اس صورتحال سے پریشان ہے اور بلوچستان میں سردار بلکہ وہ تمام جو اقتدار میں شراکت رکھتے ہیں۔
اس تمام بے چینی کا جائزہ بانی پی ٹی آئی خود لے رہے ہیں اور وہ ضرور اس بے چینی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایک دن وہ رہا بھی ضرور ہوں گے۔ بہرِحال ان کی مقبولیت کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچا سکے گا۔ اس پورے پراسس میں دو بڑی سیاسی جماعتیں اپنا نقصان کروا چکی ہیں وہ ہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)۔
پی ایم ایل نون کے لیے کینالوں کا بیانیہ اچھا ہے مگر پیپلز پارٹی کے لیے نہیں جو اس وقت اقتدار میں ان کے ساتھ شراکت رکھتی ہے۔ یہ ان کے جینے اور مرنے کا مسئلہ ہے۔ پیپلز پارٹی سیاست نہیں کر پائے گی اور ان کا اتحاد بھی اس ضمن میں ٹوٹتا ہوا نظر آرہا ہے صرف اسٹبلشمنٹ کی تائید پر یہ اتحاد آج تک برقرار ہے مگر حالات جو کروٹ لے رہے ہیں، اس میں یہ اتحاد ایک مصنوعی اتحاد لگ رہا ہے۔
اب ان تمام صوبوں میں کوئی ایسی جماعت نہیں رہی جو ہر صوبے میں یکساں طور پر مقبول ہو۔ اب وفاق میں سیاست صوبائی ووٹ کے پسِ منظر میں کی جائے گی، جو سیاسی پارٹی چاروں صوبوں سے جیتنے کی صلاحیت رکھتی تھی اب وہ ماضی کا حصہ بنی۔ یہ سب ردِ عمل ہے اس انجینئرنگ کا جو ہم نے سیاست میں کی ہے۔
اس انجینئرنگ سے اسٹبلشمنٹ تو مضبوط ہوگی، مگرکوئی سیاسی جماعت نہیں،کوئی سیاسی لیڈر نہیں۔ اب پاکستان کے لیے سیکڑوں نئے چیلنجز ہیں جس کا سامنا پاکستان کو کرنا ہے۔ جہاں نہ مضبوط سیاسی پارٹی رہی ہے، نہ مضبوط ریاستی نظام ہے۔ حکومت تو چل رہی ہے مگر ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی سیاسی پارٹی سیاسی جماعت پی ٹی ا ئی مسلم لیگ ہے اور کے لیے رہا ہے رہی ہے
پڑھیں:
جمہوریت کو درپیش چیلنجز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں سیاست، جمہوریت اور نظام کو مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ آج پاکستان کے داخلی اور خارجی محاذ پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ 15 ستمبر کو پوری دنیا میں عالمی یوم جمہوریت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ جمہوری ریاستیں اپنے اپنے ملک میں پہلے سے موجود جمہوریت کو نہ صرف اور زیادہ مضبوط کریں بلکہ اس نظام کو عوام کے مفادات کے تابع کر کے اس کی ساکھ کو بہتر بنائیں۔ اگرچہ دنیا کے نظاموں میں جمہوریت کوئی آئیڈیل نظام نہیں ہے۔ لیکن آج کی جدید ریاستوں میں جو بھی نظام ریاست کو چلارہے ہیں ان میں جمہوری نظام ہی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جمہوریت کے مقابلے میں بادشاہت اور آمریت کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں دیتے بالخصوص سیاسی اور جمہوری آزادیوں کو کسی بھی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اب جب دنیا بھر میں عالمی یوم جمہوریت منایا گیا ہے ایسے میں پاکستان میں حقیقی جمہوریت ہم سے کافی دور کھڑی نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ نظام جمہوری کم اور ایک ہائبرڈ یا مرکزیت پر کھڑا نظام ہے جہاں غیر جمہوری حکمرانی کا رواج ہے۔ پس پردہ طاقتوں کو فوقیت حاصل ہے اور عملی طور پر نظام بڑی طاقتوں کے تابع نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا جمہوری نظام طاقتوروں خوشنودی دی اور سیاسی مفادات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس نظام میں عام آدمی کی حیثیت محض ایک نماشائی کی ہے۔ جمہوری نظام کی بنیادی خصوصیت شفاف انتخابات کا عمل ہے جہاں لوگ اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں شفاف انتخابات محض ایک خواب لگتا ہے۔ یہاں انتخابات کے نام پر سلیکشن ہوتی ہے اور اشرافیہ اپنی مرضی اور مفادات کے تابع حکمرانوں کا چناؤ کرتی ہے۔ اسی لیے ہمارا انتخابی نظام عوامی تائید و حمایت سے محروم نظر آتا ہے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور جمہوری عمل کا تسلسل جمہوریت کو زیادہ مستحکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن پاکستان کی کہانی مختلف ہے، یہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت اپنی افادیت کھوتی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک ہائبرڈ طرز کا جمہوری نظام ہے جہاں غیر جمہوری قوتیں اصل اختیارات کی مالک ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عملاً اس ملک میں جمہوری نظام سکڑ رہا ہے اور جمہوریت کو پاکستان میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ جمہوری طرز حکمرانی میں آزاد عدلیہ، میڈیا کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، مضبوط سیاسی جماعتیں، آئین اور قانون کے تابع انتظامی ڈھانچہ اور سول سوسائٹی کی موجودگی اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام سیاسی اور جمہوری ادارے یا آئینی ادارے کمزور ہو رہے ہیں یا ان کو جان بوجھ کر کمزور اور مفلوج بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح جمہوری نظام میں اچھی حکمرانی کا نظام عام آدمی کے مفادات کے تابع ہوتا ہے اور لوگ اس نظام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن آج اس جدید دور میں ہمارا ایک بڑا بحران تسلسل کے ساتھ گورننس کی ناکامی کا ہے۔ جس نے ہمیں قانون کی حکمرانی سے بھی بہت دور کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے تقدس کا خیال کرنے کے بجائے طاقت کے زور پر انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے اور متبادل آوازوں کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی نے لوگوں کو ریاست اور حکومت کے خلاف کر دیا ہے۔ لوگ کو لگتا ہے کہ یہ نام نہاد جمہوری نظام ہمارے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ جمہوریت میں متبادل آوازوں کو سنا جاتا ہے اور ان کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن یہاں متبادل آوازوں کو دشمنی کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرتے ہیں ان کودشمن سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ اور فکر لوگوں کو جمہوریت کے قریب لانے کے بجائے ان کو اس نظام سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ مسئلہ محض ریاست اور حکمرانی کے نظام کا ہی نہیں بلکہ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کی ناکامی کا بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور پس پردہ طاقتوں کے باہمی گٹھ جوڑ نے بھی جمہوری نظام کو داخلی محاذ پر بہت زیادہ کمزور کر دیا ہے۔ اس وقت بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نمایاں ہیں۔ وہ غیر سیاسی طاقتوں کی سہولت کاری کی بنیاد پر حکومت میں ہیں۔ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عوام کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اصل حیثیت پس پردہ طاقتوں کی ہے اور انہی کی مدد اور مہربانی سے وہ اقتدار کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی جڑیں مضبوط بنانے کے بجائے پس پردہ طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ دیتی ہیں۔ اس وقت بھی حکومت میں شامل بہت سے وزرا پس پردہ طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہائبرڈ نظام کی حمایت کر رہے ہیں اور ان کے بقول پاکستان کی سیاسی بقا اسی ہائبرڈ نظام کے ساتھ وابستہ ہے اور اسی کے تحت ہمیں جمہوری نظام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ ملک میں سیاسی انتہا پسندی یا مذہبی انتہا پسندی کا غلبہ ہے اس کی وجہ بھی جمہوری نظام سے دوری ہے۔ کیونکہ آپ جب طاقت کی بنیاد پر نظام چلائیں گے تو اس سے انتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات کو تقویت ملتی ہے۔ اس ملک میں مارشل لا ہو یا جمہوریت یا ہائبرڈ طرزِ حکمرانی یہ ماڈل ہمیں ترقی کی طرف نہیں لے جا سکے گا۔ ماضی میں یہ تمام تجربات ناکام ہوئے ہیں اور ہمیں اپنی سابقہ اور موجودہ ناکامیوں سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔ اس ملک مسائل کا واحد حل آئین اور قانون اور جمہوری طرز عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پس پردہ قوتوں کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی ہم تضادات کی بنیاد پر اس ملک کو نہیں چلا سکیں گے۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی ترجیحات کا ازسر نو تعین کریں اور جمہوری نظام کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی کوشش کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ جمہوری نظام بنیادی طور پر کمزور افراد کی آواز ہوتا ہے اور کمزور افراد اس نظام کو اپنی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں جمہوریت کے نام پر عام آدمی کا استحصال کرنا ہے یا اسے کمزور رکھنا ہے تو اسے کوئی بھی جمہوری نظام ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ پاکستان میں جمہوری نظام کی ناکامی میں سب سے غلطیاں ہوئی ہیں اور سب کو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوں گے۔ اس لیے اس کے موقع پر ہمیں اس عزم کا اظہار کرنا چاہیے کہ ہم اپنی اپنی سطح پر جمہوریت کے حق میں آواز اٹھائیں گے اور طاقتوروں پر زور دیں گے ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چلانے کے لیے جمہوریت ہی کو اپنی طاقت بنایا جائے۔ پاکستان میں جمہوریت اسی صورت میں مضبوط ہوگی جب سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت جمہوری بنیادوں پر نہ صرف خود آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی بلکہ دوسروں کو بھی جمہوری خطوط پر استوار کریں گی۔ یہ عمل مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور یہ کام سیاسی اور قانونی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ایک بڑی مزاحمت کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ آج دنیا بھر میں جب جمہوریت اور جمہوری نظام کی درجہ بندی کی جاتی ہے تو ہم دنیا کی فہرست میں بہت پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں اور ہماری اجتماعی ناکامی کا حصہ ہے۔